آخرت میں نماز کے فوائد قرآن و حدیث کی روشنی میں
نماز ، خدا تعالی کی طرف سے ایک ایسا عطیہ ہے کہ جو انسان کو فلاح و سعادت«حی علی الفلاح»، بہترین عمل «حی علی خیر العمل»اور ستون دین«الصلوة عمود الدین» [1] کے عنوان سے دیا گیا ہے۔ نماز، انسانیت کی رفعت کی وہ معراج ہے«الصلوة معراج المؤمن» [2] کہ جو انسانی روح کی بلندی اور اخلاقی ملکات کے حصول اور فساد و تباہی سے نجات کا باوقار راستہ ہے ،«إن الصلوة تنهی عن الفحشاء و المنكر.»[3]
انسان کوعبودیت و بندگی کا تمغہ اس الہی خوبصورت راستے سے ہی میسر ہو سکتا ہے کہ اگر انسان نماز کو اس کی شرائط اور مقدمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ بطور احسن ادا کرے ۔ اگر انسان اس عبادت الہی ( کہ جو خاشعین کے علاوہ دوسر ے لوگوں پر بہت سخت ہے)[4] کو بہ خوبی انجام دے تو اس نیک عمل کے نتیجہ میں بہت سے عظیم فردی، اجتماعی، دنیوی اور اخروی آثار سامنے آ تے ہيں۔ اس مقالہ میں ہم اس عبادت و بندگی کے تمام آثار کو بیان نہيں کرنا چاہتے بلکہ ان کے صرف وہ آثار کہ جو برزخ اور آخرت سے مربوط ہیں ، ان کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔
آیات الہی ميں نماز کے آثار ( نماز توجہ یا بغیر توجہ کے پڑھنا)
- نماز پڑھنے سے خدا تعالی اپنے بندے کو یاد کرتا ہے
خدا تعالی سورہ طہ میں فرماتا ہے : «اقم الصلوة لذكری» [5]؛ نماز ، ذکر اور یاد خدا ہے۔ اور جب اس آیت مجیدہ کو اس آیت شریفہ«فاذكرونی اذكُركم …» [6]کے ساتھ ملا کر تفسیر کريں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جب بندہ اپنے خدا کو یاد کرتا ہے تو در نتیجہ خدا تعالی بھی اسے یاد کرتا ہے۔[7] مفسرین نے اس آیت شریفہ«فاذكرونی اذكُركم …» کے ذیل میں( کہ بندوں کی یادآوری سے کیا مراد ہے؟ ) بہت سے مختلف اقوال ذکر کیے ہيں۔ ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جب انسان ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح انجام دیتے نماز کو قائم کرتا ہے تو اس صورت میں اسے خدا تعالی کی طرف سے دو انعام ملتے ہیں:
- اجر دریافت کرتا ہے (لهم اجرهم)
- اسے ایسا اطمینان کامل حاصل ہوتا ہے (لا خوف …) کہ اس کے بعد اسے کسی قسم کا اضطراب، پریشانی اور غم کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
پس اللہ تعالی فرماتا ہے
- أ. تم مجھے “دنیا” میں یاد کرو میں تمھیں ( آخرت) میں یاد کروں گا۔
- ب. تم مجھے دعا کے ذریعے یاد کرو تو میں تمھیں اس دعا کی اجابت اور قبولیت کے ساتھ یاد کروں گا ( یہ استجابت دعا دنیا، برزخ اور قیامت میں نصیب ہو سکتی ہے)۔
- ج. مجھے نعمتوں کی زیادتی میں یاد کرو تاکہ تمہیں مشکلات میں یاد کروں۔[8]
- شفاعت کبری سے بہرہ مندی
پروردگار سورہ اسراء میں اپنے حبیب سے خطاب کرتے ہوۓ فرماتا ہے: “وَ مِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ عَسی أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقاماً مَحْمُوداً»؛ رات کے کچھ حصہ میں جاگتا رہ اور نماز تہجد ادا کر کہ یہ نماز تہجد فقط تیرے پر واجب ہے کہ قریب ہے کہ خدا تجھے مقام محمود (شفاعت کبری ) تک پہنچا دے۔ پس اس نماز تہجد کا نتیجہ مقام محمود تک پہنچنا ہے اور اس آیت کی تفسیر میں فریقین (شیعہ و اہل سنت) کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مقام محمود سے مرادرسول اکرم ـ صلّی الله علیه و آله ـ کی شفاعت کبری ہے۔[9]
- اجر الہی کا استحقاق اور اطمینان کامل کا حصول
حق تعالی سورہ بقرہ میں فرماتا ہے: «إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لا هُمْ یَحْزَنُونَ.» [10]
یہاں دو انعاموں کا ذکر ہے
- انسان اجر دریافت کرتا ہے (لهم اجرهم)
- اسے ایسا اطمینان کامل حاصل ہوتا ہے (لا خوف …) کہ اس کے بعد اسے کسی قسم کا اضطراب، پریشانی اور غم کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
برزخ میں نماز کے آثار
- وحشت قبر سے امان
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: «ان الصّلاة تأتی الی المَیّتِ فی قبره بصورة شخص انور اللّونِ یونسُهُ فی قبره و یدفَعُ عنه اهول البرزخ»؛ نماز ایک سفید چہرے والی انسانی صورت میں قبر کے اندر داخل ہوتی ہے اور اس مرنے والے کے لئے مونس قرار پاتی ہے اور اس سے برزخ کی وحشتوں کو بر طرف کرتی ہے۔[11]
امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہيں: «من اتمَّ ركوعَهُ لم یَدخُلْهُ وحْشَةُ القبْرِ»؛ جس کا رکوع تمام اور کامل ہو وہ کسی صورت میں بھی وحشت قبر سے دچار نہيں ہو گا۔
- نماز، قبر میں انسان کی مونس
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: “الصلاةُ انس فی قبره و فراش تحت جنبه و جواب لمنكر و نكیر”؛ نماز قبر میں (نماز گزار کی ) مونس ہے اور بہترین فرش اور منکر و نکیر کا جواب ہے۔[12]
- قبر میں ملائکہ کے دیدار کا موجب
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: من مشی الی مسجد یطلب فیہ الجماعۃ ” جو شخص نماز با جماعت میں شرکت کے لئے مسجد کی طرف قدم اٹھائے” کا ن لہ بکل خطوۃ سبعون الف حسنۃ” اس کےہر قدم کے اٹھانے پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ” و یرفع لہ من الدرجات مثل ذالک” اور ستر ہزار درجات بلند ہوتے ہیں” و ان مات و ھو علی ذالک” اگر اسی حالت میں مر جآۓ تو ” وکّل اللہ بہ سبعین الف ملک یعوّ د نہ فی قبرہ و یونسونہ فی وحدتہ و یستغفرون لہ حتی یبعث اللہ ” خدا وند ستر ہزار فرشتوں کو اس کی قبر میں بھیجتا ہے کہ اس کی عیادت کریں۔ اس کی تنہائی کے مونس بنے رہيں اور قیامت تک اس کے لئے استغفار کرتے رہيں”[13]۔
- وحشت قبر سے نجات کا باعث
امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہيں: «من اتمَّ ركوعَهُ لم یَدخُلْهُ وحْشَةُ القبْرِ» جس کا رکوع تمام اور کامل ہو وہ کسی صورت میں بھی دچار وحشت قبر نہيں ہو گا۔[14]
قیامت کے دن نماز کے آثار
- نماز کے ساۓ میں سارے اعمال کی قبولیت
امام علی (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ میں فرمایا: كلُّ شی من عملك تبع لصلاتك [15]ہر عمل نماز کے تابع ہے ۔ در نتیجہ دوسرے اعمال کا عروج نماز کے زیر سایہ ہے۔ «إن قبلت قبلت ما سواها و إن ردَّت ردت ما سواها»[16] اگر نماز قبول ہو گئي تو دوسرے سارے اعمال قبول ہو جائيں گے اور اگر یہ رد کر دی گئی تو بقیہ سارے اعمال رد کر دیے جائيں گے۔
- نماز، توشہ آخرت
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: الصلاة زادُ للمؤمن من الدنیا الی الاخره» ؛ نماز ، دنیا میں مؤمن کے لئے آخرت کا زادراہ ہے۔[17]
- نماز، بہشت میں داخل ہونے کی باعث
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:”بتحقیق تمھارا پروردگار مہربان ہے، تھوڑے عمل کو بھی قبول کر لیتا ہے اگر چہ انسان دو رکعت ہی خدا کے لئے بجا لاۓ، خدا تعالی اس نماز کے صدقے میں اسے بہشت میں داخل کر دے گا۔[18]
- عذاب سے معافی اور بہشت میں بغیر حساب کے داخل ہونے کا باعث
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: «قال الله ـ عزّوجل ـ اِنّ لعبدی علیّ عهداً اِن اقام الصلوة لوقتها اَن لا اُعَذِّبَهُ و اَن اُدخلهُ الجَنّه بغیر حساب»[19]— میں اپنے بندہ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں، اگر میرا بندہ نماز کو اس کے اوقات میں بجا لاۓ تو اسے عذاب نہ کروں گا اور بغیر حساب کے اسے جنت میں داخل کر دوں گا۔
اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے ہی ایک اور روایت نقل ہے کہ جو شخص نماز کو چالیس دن تک با جماعت ادا کرے کہ حتی تکبیرۃ الاحرام بھی اس سے نہ چھوٹے تو اس کے لئے جہنم کی آگ اور نفاق سے آزادی لکھ دی جاۓ گي۔[20]
امام علی (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ میں فرمایا: كلُّ شی من عملك تبع لصلاتك ہر عمل نماز کے تابع ہے ۔ در نتیجہ دیگر اعمال کا عروج نماز کے زیر سایہ ہے۔ «إن قبلت قبلت ما سواها و إن ردَّت ردت ما سواها» اگر نماز قبول ہو گئي تو دوسرے سارے اعمال قبول ہو جائيں گے اور اگر یہ رد کر دی گئی تو بقیہ سارے اعمال رد کر دیے جائيں گے۔
- نماز، آخرت کی زینت
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: «انّ الله ـ عزّوجل ـ قال: الْمالُ وَ الْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ انّ الثمان ركعات التی یُصلّیها العبد اللیل زینةُ الآخرة»؛[21]“اللہ تعالی نے مال اور اولاد کو دنیا کی زینت لیکن آٹھ رکعت نماز کو جو آخر شب میں انسان بجا لاتا ہے اسے آخرت کی زینت قرار دیا ہے ۔
- ریاکار نمازی کی سزا آتش جہنم ہے
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” جب قیامت کا دن آۓ گا تو اس دن ایک نمازی کو لایا جاۓ گا اور وہ خود بھی نمازی ہونے کا دعوی کرنے والا ہو گا۔ اس سے کہا جاۓ گا:”تو نے اس لئے نماز پڑھی کہ لوگ تیری تعریف کریں، اس وقت فرشتوں کو حکم ملے گا کہ اس ریاکار نمازی کو جہنم کی آگ میں جھونک دیں۔[22]
- نماز کو سبک شمار کرنے والا نمازی حوض کوثر پر رسول خدا کے دیدار سے محروم ہوگا
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: «لیس منّی من استخفَّ صلاته لا یردُ علیَّ الحوض لا و الله»؛[23] جو شخص نماز کو سبک اور ہلکا شمار کرے وہ میری امت میں سے نہيں ہے، خدا کی قسم! وہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات نہ کر سکے گا۔
- نماز کا نہ پڑھنا آتش جہنم میں گرنے کا باعث
مولا علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں دوزخیوں کے جواب کو نقل کرتے ہوۓ فرماتے ہيں کہ جب ان سے پوچھا جاۓ گا کہ کون سی چیز باعث بنی کہ تم جہنمی بن گئے تو جواب ملے گا کہ ہم نمازی نہ تھے: «ما سللكم فی سقر قالوا لم نَكُ من المصلین.» [24]
- نماز کو ضائع کرنے والا کا قارون، فرعون اور ہامان کے ساتھ حشر و نشر
رسول خد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:” لا تضیعوا صلاتكم، فانّ من ضیّع صلاتهُ حَشَرَهُ الله قارون و فرعون و هامان ـ لعنهم الله و اخزاهم ـ و كان حقّاً علی الله ان یُدخِلَهُ النار مع المنافقین، فالویلُ لمن لم یحافظ صلاتهُ»[25]؛ اپنی نمازوں کو ضائع نہ کروچونکہ جو نماز کو ضائع کرے گا، خدا تعالی اسے قارون، فرعون اور ہامان کے ساتھ محشور کرے گا، خدا تعالی ان پر لعنت کرےاور ان کو رسوا کرے۔ اور خدا کا حق بنتا ہے کہ وہ ان بے نمازیوں کو منافقین کے ساتھ جہنم کی آگ میں بھیج دے۔ پس افسوس ہے اس شخص پر کہ جو نماز کی حفاظت نہ کرے۔
- شفاعت سے محرومیت
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”جو شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کر ے اس کا نام جہنم کے دروازہ پر دوزخیوں کے زمرہ میں لکھا جاتا ہے۔[26]
روایات میں نماز کو چھوڑنے، کوتاہی یا سستی کرنے سے متعلق بہت سے آثار ذکر کیے گئے ہیں جن کو بطور خلاصہ ذکر کرتے ہيں۔
- أ. نماز تہجد کے پڑھنے سے انسان کی قبر بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ کی مانند ہو جاتی ہے
- ب. جو شخص نمازپنجگانہ کی محافظت کرےوہ قیامت کے دن خدا تعالی سے ملاقات کرے گا۔
- ج. جو شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کر دے تو وہ خدا اور سول کے غضب سے امان میں نہ ہو گا۔
- د. جو شخص نماز جمعہ پڑھنے کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہو جاتا ہے ۔
- ه. نمازی کے لئے زمین کا وہ ٹکڑا کہ جس پر اس نے سجدہ کیا اور نماز ادا کی قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گا( کہ جو قبول ہو گی)۔
- و. نماز پل صراط سے گزرنے کا پاسپورٹ ہے ( کہ جس طرح محبت علی (علیہ السلام) پل صراط سے گزرنے کا پاسپورٹ ہے)۔
نماز کو اس کے اوقات میں پڑھنے اور صحیح طریقے سے اسے ادا کرنے اور نماز کو چھوڑنے کے یہ تو چند ایک آثار ہیں اس کے علاوہ اس عبادت کے اور بہت سے آثار دوسری روایات میں ذکر کیے گئے ہيں۔[27]
[1] ۔ وسائل الشیعه، ج 4، ص 27
[2] ۔ اعتقادات، علامه مجلسی، ص 29 امام خمینی رحمة الله علیه کی کتاب، سر الصلوة سے نقل کرتے ہوۓ ، ص 7.
[3] ۔عنكبوت، 45.
[4] ۔ بقره، 45.
[5] ۔ طه، 14.
[6] ۔ بقره، 152.
[8] ۔ تفسیر كبیر فخر رازی، ج 4، ص 144، تفسیر نمونه، ج 1، ص 515 سے تھوڑے تصرف اور اضافات کے ساتھ نقل کرتے ہوۓ۔
[9] ۔ المیزان، ج 13، ص 242، تفسیر نمونه، ج 12، آیت کے ذیل میں.
[11]۔ لئالی الاخبار، ج4، ص 1.
[12]۔ بحارالانوار، ج 79، ص 232۔
[13] ۔ وسائل الشیعه، ج 5، ص 372.
[14] ۔ بحارالانوار، ج 6، ص 244.
[15] ۔ نهج البلاغه، نامه 27، به نقل از كتاب رازهای نماز، آیة الله جوادی آملی، ص 18.
[16] ۔ كافی، ج 3، ص 268، به نقل از كتاب «رازهای نماز» آیة الله جوادی آملی، ص 10۔
[17] ۔ بحارالانوار، ج 79، ص 232۔
[18] ۔ مستدرك سفینة البحار، ج 3، ص 147۔
[19] ۔ كنز العمال، ج 7، حدیث 19036
[20] ۔ محجة البیضاء، ج 1، ص 244، كتاب فتح العزیز، ج 4، ص 288 ( میں اسی حدیث سے ملتی جلتی حدیث)
[21] ۔ بحارالانوار، ج 84، ص 152، ثواب الاعمال، ص 41 .
[22]۔ بحارالانوار، ج 69، ص 301.
[23]۔ وسائل الشیعه، ج 4، ص 24، آل البیت والی چھاپ.
[25] ۔ بحارالانوار، ج 79، ص 202۔
[26]۔ كنز العمال، ج 7، حدیث 19090
[27] ۔ اس تحقیق کی اكثر روایات کا استفادہ معجم فقهی سے کیا گیا ہے اور اس کے ایڈریس اسی سوفٹ ویر کے مطابق ہیں۔
دیدگاهتان را بنویسید