تازہ ترین

آخر یہ بے چینی کب تک

تحریر: ایس ایم شاہ

گذشتہ ہفتے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک صمیمی دوست کے ہاں ٹھہرا۔ کافی عرصے سے اس سے ملاقات نہ ہو پائی تھی۔ وہ بھی کافی خوش تھے اور میں بھی کافی خوش تھا۔ کافی پذیرائی بھی کی اور مختلف جگہوں کی سیر بھی کرائی۔ اگلے روز اس نے کہا کہ ہمارے ہمسائے کا اکلوتا بیٹا عرصہ دراز سے لاپتہ ہے، ان کا باپ بہت ہی بے چین ہے۔ ہم ان کو ذرا تسلی دے کر آتے ہیں۔

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3125

میں نے بھی ہاں کی۔ ہم دونوں ساتھ چلے، دروازہ کھٹکھٹایا، دروازہ کھلا، سامنے ایک چھوٹی سی بچی کھڑی تھی۔ میرے دوست کا چہرہ دیکھتے ہی وہ رونے لگی، میں تعجب کرنے لگا آخر ایسا کیوں ہوا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ اس لاپتہ شخص کی بیٹی ہے، جس کی ماں بھی دو ماہ قبل ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئی ہے، کیونکہ میرا دوست ہمیشہ اس کے بابا کے ساتھ ہوا کرتا تھا تو اسے دیکھتے ہی اس بچی کو اپنا ابو یاد آگیا۔ مختلف بہانے کئے گئے، لیکن وہ مان نہیں رہی تھی اور روتی ہی جا رہی تھی۔ مجھ پر یہ حالت بہت گراں گزری اور دل ہی دل میں دعا کی کہ خدایا کسی چھوٹی بچی کو باپ کی جدائی کا  صدمہ نہ دکھا۔

ہم دونوں کی آنکھوں سے بھی بے اختیار آنسو رواں تھے۔ گھر میں داخل ہوا تو ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس کے اندر ایک بہت ہی عمر رسیدہ بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کی کمر جھکی ہوئی تھی اور بینائی بھی بہت کمزور تھی۔ ہم دونوں نے جب انہیں سلام کیا تو انھوں نے میرے دوست کو آواز سے پہچان لیا۔ جونہی ہم فرش پر بیٹھ گئے تو وہ اپنا درد دل سنانے لگے۔ یہی میرا اکلوتا بیٹا میرے بڑھاپے کا واحد سہارا تھا، وہی ہمارا گھر چلاتا تھا، وہی روزانہ میرے لئے دوا لاتا اور مجھے کھانا کھلاتا تھا۔ چند ماہ قبل یہ معمول کے مطابق اپنے کام پر گیا، پھر واپس ہی نہ آیا، لوگوں کا کہنا ہے کہ حساس ادارے ان کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ہم نے عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے نوٹس بھی لیا، لیکن ابھی تک کوئی خبر نہیں۔ ہم نے پوچھا کہ اس کا جرم کیا تھا؟ کیا اس نے کسی کو جان سے مارا تھا؟ کیا اس نے چوری کی تھی؟ کیا اس نے کسی کے گھر پر ڈاکہ مارا تھا؟…ہم سوالات کرتے گئے، وہ بزرگ ہر مرتبہ نفی میں جواب دیتے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا بہت ہی بااخلاق اور مہذب جوان تھا۔ آج تک اس کی کوئی شکایت نہیں آئی تھی۔ بالفرض ان کی کوئی غلطی ہو یا ان پر کوئی الزام ہو بھی تو ہم گھر والوں کو  اطلاع دے کر پولیس کے ذریعے پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے تھا۔ عدالت میں باز پرس ہونی چاہیے تھا۔ ہماری وہ عدالت جو وزیراعظم کو بھی سزا دیے بغیر نہیں چھوڑ دیتی ہے، ایسے چھوٹے مسائل کا حل کرنا اس کے لئے کونسا مشکل ہے۔ ایسا نہیں کہ جب چاہیں کسی بھی شہری کو لاپتہ کر دیں۔ غریبوں کے چولہے بجھاتے رہیں، بچوں کو بے سرپرست اور بوڑھوں کو بے سہارا کرتے رہیں۔ وہ اپنا درد دل بیان کر رہے تھے، اتنے میں ایک اور شخص کی آمد ہوئی۔ وہ بھی ان کی خبر گیری کے لئے ہی آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا بھائی صاحب یہ صرف ان کا مسئلہ نہیں بلکہ بہت سارے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ کسی کا بھائی لاپتہ ہے تو کسی کا باپ، کسی کا شوہر گمنام ہے تو کسی کا کوئی اور عزیز۔ اس وقت بے چینی کا عالم ہے، ہر کوئی جب گھر سے نکلتا ہے تو اس کے گھر والے اس کے دوبارہ واپس پہنچنے تک بے چین رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے عزیز کو بھی کوئی اٹھا کر نہ لے جائے۔اس وقت میرے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ ایک اسلامی مملکت اور جمہوری حکومت کی موجودگی میں آخر اتنا بڑا ظلم کیوں؟! ایسے کاموں کی دنیا کے کسی ملک میں اجازت نہیں ہے۔ عوام کو امن فراہم کرنا اور ان کے جان، مال  اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا حکومت اسلامی کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ لہذا چیف جسٹس آف پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ از خود نوٹس کے ذریعے ان بے گناہ محب وطن شہریوں کی داد رسی کریں اور انہیں سستا انصاف فراہم کریں، کیونکہ اس وقت لوگوں کا واحد آسرا عدالت عظمٰی ہے۔ ان شاء اللہ  سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس صاحب ان غریبوں اور بے نواؤں کو کبھی مایوس نہیں کریں گے اور ہر صورت میں ان لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنائیں گے، کیونکہ مسائل کا حل بے چینی پھیلانے اور امن و امان کو سبوتاژ کرنے میں نہیں بلکہ عدل و انصاف کی فراہمی اور امن و امان کو یقینی بنانے میں مضمر ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *