تازہ ترین

آیت اللہ شیخ علی بوستانی بلند پایہ علمی شخصیت

آیت اللہ شیخ علی بوستانی بلند پایہ علمی شخصیت

تحریر: حسین چمن آبادی

ضلع شگر کے دورافتادہ مگر خوبصورت اوردینی لحاظ سے ذرخیز گاؤں سیسکو بلد العلما کہلاتے ہیں، آیت اللہ بوستانی کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے۔علمی لحاظ سے آپ کے پایہ کی شخصیت نظر نہیں آتی۔آپ ایک مسلّم مجتہد، معروف استاد، دین ومکتب کے ہمدرد ، مبلغ دین اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔

شئیر
97 بازدید
مطالب کا کوڈ: 6049

پیدائش
1923کو سیسکو کے مذہبی خاندان «گیسکیدپہ »کے چشم وچراغ حاجی حسین کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا جس کا نام باپ نے امیر المومنین کے نام پر علی رکھا، آپ نے نیک سرشت، پاکدامن ذہدو تقوی اور پارسائی کے پیکر والدین کے زیر سایہ تربیت پائی۔

ابتدائی تعلیم
بلتستان کے رسم کے مطابق والد نے آپ کو اپنے مامو آخوند مہدی کے ہاں لے گئے جن سے آپ نے قرآن، احکام اور اخلاق سیکھا اور گھر کی ذمہ داری سنبھالی۔
مگر علم و دین سے عشق لیکر گاوں سے رخت سفر باندھا، اگرچہ والد علاقہ میں مالدار تھے مگر آپ فقط دینی علم کے شوق گھر میں بتائے بغیر صرف دوکلو گھی لے کر اپنی سفر کا آغاز کیا۔اس دور کی سفری مشکلات طے کر کے شگر، سکردو سے ہوتے ہوئے کرگل پہنچ گئے۔وہاں ایک ہندو ٹھیکدار کے پاس بعنوان مزدور کام کیا تین مہینہ میں اس نے آپ کی ایمانداری ودیانت داری کو مشاہدہ کیا جب آپ نے اپنے ارادہ سے ان کو آگاہ کیا تو اس نے تین ماہ کی مزدوری کے ساتھ تین روپیہ اضافی بھی دیا۔ اس سے پاسپورٹ بنوا کر عراق کے سفر پر روانہ ہوا اور اپنے منزل مقصود پر پہنچ گیے۔

علی، علی کے در پر
نجف اشرف میں اپنے بڑے بھائی حسین اجہدی جوپہلے سے وہاں موجود تھے ان کے ہاں گئے، ان کی وساطت سے دروس حوزہ علمیہ میں شرکت کی ، کم عرصہ میں مقدمات سے سطوح عالیہ تک کے مراحل صرف پانچ سال کی مدت میں طے کیا، اس وقت کے بزرگ اساتیذ آیت اللہ حکیم، آیت اللہ سید محمد شاہرودی، آیت اللہ کمپانی اور آیت اللہ عبد اللہ شیرازی کے سامنے ذانوئے تلمذہ تہہ کیا۔

ایران کی جانب ہجرت
آپ جوار امیر امومنین میں رہنے کاقصد رکھتے تھے مگر درس وبحث کے ساتھ قلت خوراک کی وجہ سے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے ڈاکٹروں نے ایران یا شام جانے کا مشورہ دیا۔آپ ایران تشریف لائے، زیارت امام رضا کے بعد مرکز اجتہاد وفقاہت آئے تو اس وقت بلتستان کے صرف چار پانچ طلاب تھے ان کی تجویز پر آپ نے قم میں ہی قیام کی حامی بھر لی، مدرسہ فیضیہ میں داخلے کے لیے درخواست لکھی جو قبول کیاگیا۔
قم میں آپ نے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا، ساتھ ہی آپ مختلف کتابوں کی تدریس بھی کرتے تھے۔

وفات
22سال آبائی گاوں سیسکو ، 5سال نجف اشرف اور 23 سال قم مقدس میں بابرکت زندگی گزارنے کے بعد 73 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔
آپ کی نمایاں خصوصیات

شوق مطالعہ
آپ کو مطالعہ کا عجیب شوق تھا زندگی کی آخری لمحات تک روزانہ مطالعہ کی عادت سے پیچھے نہ ہٹے۔

اہل بیت پیغمبر سے خصوصی عشق
نجف اشرف میں ہر جمعرات کو پیدل کربلا جانا، نجف میں طوفانی بارش میں بھی صبح و شام امیر المومنین کی زیارت، قم میں حضرت معصومہ کی زیارت اور چھٹیوں میں امام رضا کی زیارت کاموقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔محافل ومجالس اہل بیت میں عقیدت سے شرکت اور مصائب پر گریہ وزاری آپ کی اہم خصوصیت تھی۔

سادہ زیستی
علمی تبحر کے باوجود سادہ زیست تھے ،خمس کا مال قبول نہ کرتے اگر کوئی لیکر آتے تو مراجع کے دفتر کی جانب رہنمائی فرماتے تھے۔

بابغہ روزگار شخصیت
آپ کی ذہنی وعلمی استعداد بہت بلند تھی۔اس لیے نجف وقم کے حوزہ ہائے علمیہ میں بہت قلیل مدت میں علمی اعلیٰ مدارج طے کیا۔آپ نے عربی وفارسی زبان بغیر استاد کے ذاتی کوشش سے سیکھ لی۔

خدمات
شاگردوں کی تربیت:
آپ کی بابرکت زندگی کا 20/15سال در س وتدریس میں گزری ہے، روزانہ 8سے 10کلاسیں پڑھاتے تھےاکثر شاگرد ایرانی تھے۔آپ کی علمی شخصیت کی وجہ سے طلاب آپ کی شاگردی کو قابل فخر سمجھتے اور آپ بھی انتہائی خندہ پیشانی سے مختلف موضوعات پر درس دیتے تھے۔ یہی وجہ آپ کے شاگردوں میں نمایاں شخصیات شامل ہیں۔

محراب ومنبر
محراب ومنبر اسلام کی تبلیغ کا اہم ذریعہ ہے۔ آپ نے ان دونوں سے استفادہ کیا۔نماز جماعت کافریضہ احسن طریقے سے تقریبا 35سال قم میں انجام دیا جس میں مومنین کی بہت بڑی تعداد شرکت کرتے تھے اور آخر عمر تک سلفچگان کا امام جمعہ بھی رہے۔ شرعی فریضہ سمجھ کر ماہ رمضان ومحرم میں مختلف شہروں میں تبلیغ کے لیے جاتے تھے۔
آپ مسلم مجتہد تھے اس لیے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد آپ کو قم کے قاضی کے عہدے کی پیشکش ہوئی توآپ نے عہدے کی سنگینی کے پیش نظر قبول نہیں کیا تو امام جمعہ کی پیش کش ہوئی اسے بھی لیت ولعل کے بعد قبول کیا ۔

حسینیہ بلتستانیہ کی تاسیس
شہر مقدس قم حرم آل محمد ہے پوری دنیا سے تشنگان علم ومعرفت اپنی علمی ومعنوی پیاس بجھانے یہاں آتے ہیں۔ آپ نے طلبائے دین کی ضرورت سمجھ کر ایک گھر کرایہ پر لے کر محافل مجالس کا اہتمام کیا، بعد میں آپ ودیگر علما نے مل کر حسینیہ کے عنوان سے وہ گھر خرید لی اور اپنی نگرانی میں تعمیر کرایا۔

نہضت علمائے شگر کی تاسیس
علما شگر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے نہضت علما شگر کا قیام عمل میں لایا جو ابھی مجمع طلاب شگر کے نام سے فعالیت انجام دے رہی ہے۔

پیشکش :گروہ تحریر

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *