تازہ ترین

آیندہ الیکشن اور جامعہ روحانیت بلتستان کا موقف

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمین و الصلوۀ و السلام علی سیدنا محمد و آله اجمعین
اما بعد.وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لاَ تَفَرَّقُوا وَ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً (آل عمران: 103)
جیسا کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام اسوقت دشمن کے نرغے میں ہے

شئیر
45 بازدید
مطالب کا کوڈ: 601

اور پوری دنیا میں  ظلم و استبداد کی چکی میں پس رہا ہے  خصوصا پاکستان میں محبان اہل بیت کی شہادت کی خبریں ہر روز آرہی ہیں.تشیع کی بڑھتی ہوئی نسل کشی کو مد نظر رکھتے ہوئے  مومنین کی صفوں میں اتحاد و یگانگی اور محبت و اخوت کو فروغ  دینا اور دن بہ دن دوریوں کو چھوڑ کر قریب آنے کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے اور ہم سب کی اولین ذمہ داری بھی بنتی ہے.  اختلافات کسی بھی قوم کیلئے  ہر میدان میں شکست  کا باعث اور  قوم و ملت کیلئے ناقابل جبران نقصانات کا سبب ہے.  اس حوالے سے تمام علما کو   اختلافات ختم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے. لہذا  متدین طبقہ اور علما کو بڑی دور اندیشی کے ساتھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے 
اس وقت ایک اہم مسئلہ جو ہمارے سامنے ہے اور اختلافات کا باعث بھی وہ گلگت بلتستان کی آیندہ انتخابات ہیں جسمیں  اگر تھوڑی سی دور اندیشی سے کام لیا جاے تو مومنین کی وحدت کیلئے موثر اور کامیابی کا سبب بن سکتی ہے
اطلاعات کے مطابق اس انتخابات میں بہت ساری پارٹیاں میدان میں آرہی ہیں اور  یہ احتمال دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے اندر دو بڑی مذہبی پارٹیاں  -شیعہ علما کونسل اور مجلس وحدت مسلمین-بھی  اس الیکشن میں بھر پور حصہ لیں گی اور لینا بھی چاہیے کیونکہ جہاں سکیولار ذہن کی پارٹیاں حصہ لے سکتی ہیں تو مذہبی پارٹیاں بطریق اولی  حصہ لے سکتی ہیں اور اس حوالے سے ہم ان دو پارٹیوں کے مشکور بھی ہیں کہ ہمارے علاقے کی دکھ  درد کو اپنا سمجھ کر ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دے رہی ہیں گرچہ مومنین دنیا کے جہاں کہیں بھی ہوں دکھ درد سب کا ایک ہوتا ہے.
 گلگت بلتستان جو کہ اپنی نوعیت کا ایک حساس علاقہ بھی ہے  اس  لئے  ہمیں الیکشن کے حوالے سے بڑی دور اندیشی سے کام لینا پڑے گا. کیونکہ سابقہ الیکشنز میں  بعض غلط فہمیوں یا غلط پالیسیوں کی وجہ سے  الیکشن کو مذہبی رنگ  دیکر ووٹ کو ایک شرعی وظیفہ سمجھ گیا اورووٹ  نہ دینے والے کو عوام نے دین سے خارج سمجھا اور نتیجتا رشتہ داریاں کٹ گئیں  اور ابھی تک اس کے  آثار باقی ہیں جبکہ اسوقت صرف ایک ہی مذہبی پارٹی میدان میں تھی لیکن  آیندہ انتخابات میں چونکہ دو مذہبی پارٹیاں میدان میں آرہی ہیں تو مسئلہ اور سنگین ہے کیوں کہ ایک طرف سے مذہبی طبقہ دو حصوں میں تقسیم ہوگا اور اسکے نتیجے میں مومنین کی صفوں میں اختلافات بڑھیں گی اور دوسری طرف سے ووٹ بینک تقسیم ہونے سے مذہبی امیدواروں کی شکست یقینی ہوگی.
لہذا ان حقایق کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعہ روحانیت بلتستان- جوکہ حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں بلتستان کے علما اور طلاب کا متفقہ پلیٹ فارم ہے جسمیں تمام علما بلتستان شامل ہیں اور  مختلف سیاسی  گرایش رکھنے کے باوجود اس پلیٹ فارم پر سب متفق ہیں – کی طرف سےالیکشن کے حوالے  بالترتیب  اولویت کے بنا پردرج ذیل نکات  پیش کیے جاتے ہیں.
1.    دونوں پارٹیاں تمام حلقوں میں اتفاق سے مشترکہ نمایندہ معرفی کریں . بصورت دیگر.
2.     جس حلقے میں جس پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے وہ نمایندہ معرفی کرے اور دوسری پارٹی انکے مقابلے میں نمایندہ معرفی نہ کرے بلکہ اس نمایندے کی تایید کرے.
3.    اگر دوسرا نکتہ بھی منظور نہیں تو پھر حلقوں کو با قید قرعہ تقسیم کریں
4.     مندرجہ بالا پیشنادات  پر متفق نہ ہونے کی صورت میں ہماری طرف سے پیشنہاد یہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر کے زیر نظر  ایک کونسل کیلئے نمایندہ معرفی کر کے مومنین کی صفوں میں اختلاف پھیلانے,باہمی دوریوں کے باعث بننے, مذہبی اور متدین طبقہ کو دو تقسیم کرنے, اور ہمارے مذہبی حلقوں کے نمایندوں کو شکست سے دوچار کرکے آیندہ چند سالوں کے لئے  سیاسی میدان میں مکتب ناب اسلامی کو عوامی سطح پر شکست خوردہ , غیر مقبول  اور غیر متحد معرفی کرنے کے بجائے پارٹی لیول پر الیکشن میں دونوں پارٹیاں حصہ نہ لیں اور گلگت بلتستان کے تشیع کو یہ موقع دیں کہ اس حساس موڑ  پر اختلافات کے بجائے متحد ہوکر اپنا شیعہ نمایندہ انتخاب کرسکے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تمام علما و مومنین جو دین مبین کی خدمت اور ترویج میں سرگرم عمل ہیں انکی  توفیقات میں اضافہ فرمائے
جامعہ روحانیت بلتستان
حوزہ علمیہ قم المقدسہ

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *