تازہ ترین

احتجاج ۔۔۔ ضرورت یا مجبوری

 

اگر اداروں میں میرٹ اور قابلیت کو ترجیح دے دی جائے اور حق دار کو اس کا حق اس کے دروازے پر مل جائے، حکمران طبقے عوامی ضروریات کو حل کرنے میں کوتاہی نہ کریں تو احتجاج کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔کسی کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ اس کو عزت و وقار کی روٹی مل رہی ہو اور وہ سڑکوں پر احتجاج کرتا پھرے، جب حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا تو پھر وہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں۔ شاید آئینی حقوق اور گلگت سکردو روڈ کی تعمیر جیسے اہم منصوبے بھی اپنے تکمیلی مراحل کو طے کرنے کے لئے کسی احتجاج یا ہڑتال کے انتظار میں ہونگے۔

 

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1470

 
تحریر: سید قمر عباس حسینی

احتجاج یعنی STRIKE سب کا جمہوری اور فطری حق ہے۔ احتجاج سے خیر کا پہلو بھی نکل آتا ہے، ملتوں کی تقدیریں بھی بدل جاتیں ہے۔ برصغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے سب سے پہلے (1918ء میں) احتجاج کا  طریقہ یورپ سے درآمد کیا اور اس کا نام دیا ’’ہڑتال‘‘ جس کے معنی ہیں “ہر جگہ تالا” یعنی “ہر جگہ تالا” لگا دیا جائے، لیکن اس کی نوبت اس وقت آتی ہے جب لوگوں کو ان کا جائز حق نہیں مل رہا ہوتا، حکومت لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں طرف‌ داری سے کام لے رہی ہو تو لوگ احتجاج کرنے پر اُتر آتے ہیں۔ کوئی کسی کا حق مارے تو احتجاج کرنے کی نوبت آتی ہے، جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچے تو احتجاج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، جب حکمران طبقے عوامی اور اجتماعی معاملوں میں رشتہ داریاں نبھانے لگیں تو احتجاج کی ضرورت پڑتی ہے اور جب سیاستدان  اسمبلی میں جا کر عوام کی نمائندگی کے بجائے ارباب اختیار کی نمائندگی کرکے جن کی ووٹ سے وہ جیتے ہیں، انہیں آنکھیں دکھانے لگے تو احتجاج کی ضرورت پڑتی ہے۔

لیکن اس کے برعکس اگر حکمران طبقے لوگوں کو ان کے حقوق بروقت ادا کریں، اسمبلی میں اپنے وجود کو عوام کا مرہوں منت سمجھیں، عوام کی خدمت کو عبادت سمجھیں، رشوت ستانی، اقربا پروری، مفاد پرستی کو عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی سمجھیں اور اپنی توان کے مطابق عوام کی خدمت کریں تو احتجاج کی نوبت ہرگز نہیں آتی۔ جب کسی نظام کے اندر روڈ بند کرنا معمول بن چکا ہو، ٹائر جلا کر فضا کو آلودہ کرنا روز کی روٹین بن چکا ہو، پتلے نذر آتش کرنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو، دھرنا دینا، بھوک ہڑتال کرنا، کارروائی کا بائیکاٹ کرنا، پہیہ جام ہڑتال یعنی احتجاج کے تمام موثر ذرائع کو بروکار لانا روزمرہ کا معمول بن چکا ہو، تو یقیناً اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نظام کے اندر موجود سیاست دان اور بیوروکریٹ کو  عوام سے، عوامی مسائل سے، عوام کو درپیش تکالیف سے غرض ہے نہیں بلکہ انہیں صرف صرف اپنے اقتدار میں آنے اور اس کی حفاظت کرنے سے ہی غرض ہوتے ہیں۔

دنیا میں ہر کسی کو کم از کم بنیادی حقوق اور زندگی میں درپیش سہولیات میسر ہیں، اگر کہیں کمی بیشی ہوئی تو احتجاج سے مل جاتی ہیں، لیکن  گلگت بلتستان کے عوام کو کبھی کوئی چیز بغیر احتجاج میسر نہیں آئی، احتجاج کے بغیر حکومت وقت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور دیکھنے میں آیا ہے کہ احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے،یہاں تک کہ گندم کے بحران کے خاتمہ کے لئے بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے، گندم سبسٹدی کی بات ہو تو بھی حکمران طبقہ جب تک احتجاج نہ کریں، اس معاملے کو حل نہیں کرتا۔ بجلی لوڈشیدنگ کا مسئلہ بھی جب  تک عوام سڑکوں پہ آکر بچی کچی روڈ میٹل جلا کر راکھ نہ کریں، بجلی فراہم نہیں کرتی، کئی برسوں سے خدمت کرنے والے ملازمین کی نوکری پکی کرنے کا معاملہ آئے تو بھی حکومت اس انتظار میں رہتی ہے کہ کوئی روڈ پے نکلے اور توڑ پھوڑ کے ذریعے لاکھوں کی مالیت کا نقصان پہنچائے، تاکہ معاملہ حل کریں، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کی لئے بھی اس غریب عوام کو ہڑتال کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

گلگت بلتستان کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں کی ہر حکومت نے یہ ایک سنت قائم کر رکھی ہے کہ جب تک عوام کئی گھنٹے ضائع کرکے سڑکوں کو بند نہ کریں، کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کرنا ہے۔ یہاں تک کہ کسی جگہ سکول ٹیچر کی ضرورت کو پورا کرنا ہو، تب بھی احتجاج ہی کو واحد ذریعہ حل سمجھتے ہیں۔ اگر اداروں میں میرٹ اور قابلیت کو ترجیح دے دی جائے اور حق دار کو اس کا حق اس کے دروازے پر مل جائے، حکمران طبقے عوامی ضروریات کو حل کرنے میں کوتاہی نہ کریں تو احتجاج کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ کسی کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ اس کو عزت و وقار کی روٹی مل رہی ہو اور وہ سڑکوں پر احتجاج کرتا پھرے، جب حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا تو پھر وہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں۔ شاید آئینی حقوق اور گلگت سکردو روڈ کی تعمیر جیسے اہم منصوبے بھی اپنے تکمیلی مراحل کو طے کرنے کے لئے کسی احتجاج یا ہڑتال کے انتظار میں ہونگے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *