تازہ ترین

احساس کو زندہ رکھئے!تحریر: نذر حافی

ماہ مبارک رمضان تھا، تہران پارلیمنٹ اور مرقد امام خمینی (رہ) پر دہشتگردانہ حملوں میں  18 روزہ دار شہید اور بیالیس زخمی ہوگئے، جمعۃ الوداع تھا، یعنی ماہ مبارک کا عظیم القدر اور آخری جمعہ، اس روز کوئٹہ کے آئی جی آفس کے سامنے شہداء چوک پر بارودی مواد سے بھری گاڑی میں زور دار […]

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2419

ماہ مبارک رمضان تھا، تہران پارلیمنٹ اور مرقد امام خمینی (رہ) پر دہشتگردانہ حملوں میں  18 روزہ دار شہید اور بیالیس زخمی ہوگئے، جمعۃ الوداع تھا، یعنی ماہ مبارک کا عظیم القدر اور آخری جمعہ، اس روز کوئٹہ کے آئی جی آفس کے سامنے شہداء چوک پر بارودی مواد سے بھری گاڑی میں زور دار دھماکے سے 7 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد شہید 21 افراد زخمی ہوگئے۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اسی مقدس دن پارا چنار میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں 45 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں  

نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے 4 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ ابھی دن کے زخم ہرے ہی تھے کہ رات کو  3 دہشت گرد گروپوں نے مسجد الحرام پر حملہ کیا، 2 گروپوں کا تعلق مکہ جبکہ ایک گروپ کا تعلق جدہ سے تھا۔ اگرچہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم اس حملے پر بھی ہر باشعور اور باضمیر انسان کا دل اداس ہے۔ بدقسمتی سے عالم اسلام کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث، مسلمانوں میں اب ایک ایسی دہشت گرد نسل تیار ہوچکی ہے، کہ جس کے نزدیک ماہِ مبارک رمضان، مسلمان کے خون کی حرمت، سرزمین حرم کا تقدس، ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ نسل آسمان سے نہیں اتری، یہیں مسلمانوں کے ہی بعض دینی مدارس میں تیار کی گئی ہے۔ اس کی وارداتوں خصوصاً عورتوں، بچوں، عبادت گاہوں، سکولوں اور بازاروں میں نہتے لوگوں پر حملوں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اسے مکمل اسرائیلی اور صہیونی خطوط پر پروان چڑھایا گیا ہے۔

پشاور پبلک سکول کا سانحہ اس پر دلیل ہے کہ ان کے انسانی احساسات و جذبات کو کچل دیا گیا ہے، ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو مار دیا گیا ہے، ان کے دماغوں میں صرف دو ہی باتیں بٹھا دی گئی ہیں، دنیا میں اپنی حکومت قائم کرو یا پھر آخرت میں حوروں سے ملو۔ جب انہیں پاکستان کے بعض دینی مدارس میں خلافت کا سبق پڑھایا جا رہا تھا اور افغانستان کے تخت کے خواب دکھائے جا رہے تھے، تب تو خلیجی ممالک اور پاکستان کو ہوش نہیں آیا، البتہ یہ یقینی بات ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ سوچ کر افغانستان میں آیا تھا۔ امریکہ نے افغانستان میں ان گوریلوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر اس کے بعد ان سے  منہ پھیر لیا۔ اب مسئلہ صرف اکیلے امریکہ کا نہیں تھا، امریکہ کے وعدے میں تو خلیجی ریاستیں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ اگر گوریلے واپس اپنے اپنے ممالک میں جاتے تھے تو خود خلیجی  ریاستوں میں قائم بادشاہتوں کے لئے خطرہ تھے اور اگر انہیں مناسب طریقے سے استعمال نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ کہیں اسرائیل کا ہی رخ نہ کرلیں، چنانچہ ان کا رخ  عراق اور شام  کی طرف موڑ دیا گیا۔ اگرچہ شام اور عراق کی حکومتوں نے ان کے کس بل تو نکال دیئے ہیں، تاہم پاکستان چونکہ ان کا مادری وطن ہے، یہاں ان کے بہت زیادہ نیٹ ورکس ہیں۔

یاد رہے کہ ماہِ مبارک رمضان میں حملہ اگرچہ ایران اور سعودی عرب میں بھی ہوا ہے، لیکن پاکستان کی نوعیت مختلف ہے۔ ایران نے بھی چند گھنٹوں کے اندر دہشت گردوں کو ان کے کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیا اور سعودی عرب نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن پاکستان۔۔۔۔ پاکستان نے  دہشت گردوں کے خلاف عملاً پہلے بھی نہ کچھ کیا ہے اور نہ آئندہ کرے گا۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے، چونکہ خلیجی ریاستوں نے اگرچہ طالبان و القاعدہ و داعش کی ہر ممکنہ مدد کی، لیکن اپنی سرزمین پر ان کے بیج نہیں بوئے، لیکن پاکستان کی سرزمین پر باقاعدہ دہشت گردی کی کاشتکاری کی گئی۔ ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو یہ ذہن نشین کروایا گیا کہ یہ گوریلے اور کمانڈو تو ہمارے ہیرو ہیں۔ جب انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں تو ابتدا میں لوگ دہشت گردی کی مذمت کرنے کو بھی گناہ سمجھتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مصلحین اور خلافت اسلامیہ کے علمبردار تو کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔ بعد ازاں ایک لمبے عرصے تک لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ صرف ایک فرقے کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں، لہذا ہم تو محفوظ ہیں۔ دوسری طرف ان کمانڈوز کو حکومت قائم کرنے کا اتنا شوق دلایا گیا تھا اور حکومت کے قیام کے لئے ان کی ایسی برین واشنگ کی گئی تھی کہ انہوں نے پاکستان پر ہی قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ چنانچہ جب ہر طرف بلاسٹ اور حملے ہونے لگے تو اس وقت لوگوں کو یقین آیا کہ یہ امریکہ کے مفاد کی تکمیل کے لئے تربیت پانے والے گوریلے اور کمانڈوز کسی کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں فرقہ واریت کے خول سے لوگوں نے تب سر نکالا جب دہشت گردی کی جڑیں پاکستان کے اندر دور دور تک پہنچ گئیں۔ تمام اداروں میں دہشت گردوں کے حامی، سرپرست اور سہولت کار پھیل گئے۔ چرچ، مساجد، مدارس، سکول، قائد اعظم کی ریذیڈنسی، فوج و پولیس کے مراکز اور اولیائے کرام کے مزارات۔۔۔۔۔ کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ یاد رکھئے! یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد باہر سے نہیں آتے، یہیں پر تیار کئے جاتے ہیں، اس کا ایک واضح ثبوت گذشتہ روز پارا چنار میں ہونے والے دھماکے بھی ہیں۔ پارہ چنار کو چاروں طرف سے سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لیا ہوا ہے، مقامی افراد کی بھی جابجا چیکنگ اور شناخت کی جاتی ہے، اجنبی آدمی داخل ہی نہیں ہوسکتا، خود سکیورٹی عملے کے بقول پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، ایسے میں دہشت گرد بارود سمیت پارہ چنار میں داخل ہو جاتے ہیں اور کسی بھی چیک پوسٹ پر انہیں روکا نہیں جاتا۔ دوسری طرف ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر مرتبہ دھماکوں کے بعد نہتے عوام پر سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ کرکے مزید لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ ہماری بحیثیت پاکستانی حکام بالا سے یہ اپیل ہے کہ پاراچنار کے عوام کے ساتھ اگر کوئی ہمدردی نہیں کی جاسکتی تو نہ کی جائے، البتہ ان کے قانونی مطالبات ضرور پورے کئے جائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ عوام علاقہ کو اپنے اعتماد میں لے اور سکیورٹی فورسز میں موجود  دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام علاقہ کے مطالبے کے مطابق سکیورٹی کی ذمہ دارای مقامی افراد پر مشتمل ملیشیا یا رضاکار فورسز کے حوالے کی جائے اور سکیورٹی فورسز کے جو لوگ شہداء اور زخمیوں کے لواحقین پر گولیاں چلانے کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں ہر قیمت پر سزا دی جائے۔ کاش ہمارے حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کو یہ احساس ہو جائے کہ عید سے ایک دن پہلے جن گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں، ان پر گولیاں نہیں برسائی جاتیں بلکہ ان کے ساتھ تعزیت کی جاتی ہے اور ان کے غم میں شریک ہوا جاتا ہے۔ بہرحال اگر ہمارے حکمرانوں سے یہ احساس ختم ہوگیا ہے تو بحیثیت قوم اس عید پر ہمیں، وطن عزیز کے تمام شہداء، خصوصاً  گذشتہ روز کے شہداء کے لواحقین کو اپنی محبت کا احساس دلانا چاہیے۔ ان بے کسوں کا احساس کرنا چاہیے کہ جن کے پیارے عید سے ایک یا دو دن پہلے اس دنیا سے چلے گئے ہیں، احساس کو زندہ رکھئے! احساس زندگی کی علامت ہے، اگر احساس مر جائے تو قومیں مر جایا کرتی ہیں۔ بقول شاعر:

موت کی پہلی علامت صاحب

یہی احساس کا مر جانا ہے

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *