تازہ ترین

ارضِ بلتستان کےگمنام محسن مجاہد ملت شیخ حسن مہدی مہدی آبادی

 سوانح حیات اور خدمات پر مشتمل ایک اہم تحقیق ، مجاہد ملت شیخ حسن مہدی مہدی آبادی 

ارضِ بلتستان کےگمنام محسن کا یومِ وفات15اگست
(تحریر: علی کریمی کتیشوی)
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے شمالی خطہ بلتستان کو اپنی بے پناہ نعمات سے نوازا ہے ۔قدرتی حسن سے مالامال اس وادی میں ایک طرف بلند وبالا پہاڑ ‘ میٹھے اور صاف چشمے’ وسیع وعریض سرسبز میدان’ گلیشرز اور قدرتی جھیلیں ہیں تو دوسری طرف ہر طرح کے موسمی میوہ جات اور قیمتی ہیرے جواہرات بھی اسی خطے میں خدا کی خاص کرم نوازی کی روشن دلیل ہے۔ یوں تو اس وادی کو اللہ نے اپنی ہر نعمت سے بہرہ من فرمایا ہے لیکن ان میں سے سب سے بڑی اور عظیم نعمت اس خطے کو خدا نے محبّین اہلبیت (ع) کی جاگیر بنا کر اس وادی کے باسیوں پر بڑا احسان کیاہے ۔ علوم اٰلِ محمد کے ایسے ایسے چشمے بھی اسی خطے میں جاری کیے کہ آج پورے پاکستان میں تشنگانِ علوم ان چشموں سے اپنی اور اپنی قوم کی علمی پیاس بجھارہے ہیں۔ ان علمی چشموں میں سے چند ایک یہ ہے

شئیر
44 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5501

1: علامہ شیخ علی برولموی مرحوم(صاحب ِکرامات)
2: شیخ غلام محمدمرحوم (قائد)
3: شیخ محمد حسن جعفری (قائدِ بلتستان)
4:محسن ملت مفسرِ قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ
5: شیخ جواد ناصرالاسلام مرحوم
6: آغا سید علی موسوی مرحوم(حسین آباد)
7: شیخ غلام حسین مقدسی ( سرپرست اعلیٰ محمدیہ ٹرسٹ)
اور محسنِ بلتستان شیخ حسن مھدی مرحوم( المعروف مجاہدِ ملت )بانی محمدیہ ٹرسٹ پاکستان۔
یہ وہ چند ایک علمائے کرام ہیں کہ جن کے علمی فیضات سے آج پورا پاکستان مستفید ہو رہا ہے۔ لیکن اگر ان میں سے سب سے زیادہ دینی خدمات کو دیکھا جائے تو وہ مجاہدِ ملت شیخ حسن مھدی مرحوم کی زیادہ خدمات ہیں ۔جس کے بارے میں ہم آج تھوڑا سا جاننے کی کوشس کرینگے ۔
شیخ حسن مرحوم کھرمنگ مھدی آباد(پرکوتہ) میں پیدا ہوے اور بعد ازاں علومِ آلِ محمد(ع)کے حصول کے لیے نجفِ اشرف چلے گئے وہاں جوارِ امیر المؤمنین (ع) میں مشغول علم رہے دورانِ تعلیم آپ کو اپنی قوم کی اسلامی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے بارے میں درپیش مسائل کا ادراک ہوا تو آپ نے تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے آبائی گاؤں آکر لوگوں کو تعلیماتِ اسلام سے روشناس کرانے کی گراں بہا ذمہ داری کو اپنے کاندوں پر اٹھایا؛اور 1950ء میں ایک دینی مدرسہ بنامِ جامعہ محمدیہ کی بنیاد رکھی اور اپنی ھی جائیداد کا ایک بڑا حصہ اس مدرسے کو وقف کر کے اس پر بلتستان کی تاریخ میں پہلا دینی مدرسہ وجود میں لایا گیا؛ بعد ازاں چند کویتی مخیِر حضرات کے کمک سے دینی مدرسے کے اس پودے کی صحیح معنوں میں آبیاری کرتے رہے ؛بلتستان کے طول و عرض سے دینی جزبات سے سرشار گھرانوں سے لوگ اپنے بچوں کو جامعہ محمدیہ میں داخل کراتے گئے۔ اور آج الحمد للہ انہیں مخیّر حضرات کے تعاون اور مجاہدِملت کی انتک محنت اور خلوص کی وجہ سے وہ چھوٹا سا پودا تناآور ہوکر آج پورے بلتستان میں اس کی شاخیں پھیل گئی ہیں۔ آج بلتستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ھے کہ جہاں محمدیہ ٹرسٹ کا کوئی مدرسہ نہ ہو ؛ انہیں مدارس اور علماء کے مرھونِ منت آج بلتستان میں پاکستان کے باقی شہروں کی بنسبت لاکھ درجہ بہتر طور پر خطِ اہل بیت (ع) پر استوار ایک دینی اور اسلامی معاشرہ قائم ہے ؛ ھم محمدیہ ٹرسٹ کے چند مشہور مدارس کا ذکر ذیل میں کرینگے کیونکہ سب کا ذکر کرنا یقینا مشکل کام ہے اور ان کی صحیح تعداد میرے علم میں بھی نہیں ھے۔ کچھ کے نام یہ ہے
1: جامعہ محمدیہ مھدی آباد
2: جامعہ حسینیہ مھدی آباد
3: جامعہ نجیبیہ مھدی آباد
4: جامعہ قبازردیہ سکردو
5: جامعہ منصوریہ سکردو
6: جامعہ مقامسیہ غواڑی
7: جامعہ مصطفائیہ کریس
8: جامعہ بہبہانیہ شگر مل
9:جامعہ حسنین کراچی
10: جامعہ بھمنیہ خپلو
یہ وہ چند جامعات ہیں جو کہ معروف اور ہر ضلع میں واقع ہیں۔ ان کے فارغ التحصیل اور زیرِ تعلیم طلباء و خطباء آج پاکستان کے کونے کونے میں تبلیغِ دین میں مصروف ہیں۔ یہ سب کچھ مجاہدِملت کی وجہ سے ہے ؛ اس وقت بلتستان بھر میں موجود علماء وطلباء خواہ وہ حوزھائے علمیہ قم و نجفِ اشرف میں ھوں یا المنتظر لاہور میں ہوں یا الکوثر اسلام آباد میں اور یا کراچی کے کسی مدرسے میں تدریس میں ہوں ؛ پڑھ رہے ہوں یا کسی محراب و منبر سے تبلیغِ دین کر رہے ہوں سب کے سب نہیں تو %95 محمدیہ ٹرسٹ کا طالب علم ضرور ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے ابتدائی تعلیم محمدیہ ٹرسٹ بلتستان کے کسی مدرسہ میں پڑھ کے اس مقام پہ پونچا ہے یا یوں کہوں کہ ان سب کو دینی تعلیم کی طرف رغبت کی فکر اور سوچ شیخ حسن مرحوم کے مدرسے یا کسی طالب علم کی وجہ سے ان کے ذہن میں آگئی ہوگی۔ مدارس کے علاوہ بلتستان میں محمدیہ ٹرسٹ کے کئے یتیم خانے بھی ہیں کہ جن میں اس وقت سائے پدری سے محروم سینکڑوں بچے اپنے گھر جیسے ماحول میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ جدید عصری تعلیم میں مشغول ہیں؛ ان بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد شیخ حسن مرحوم اور ان کے رفقاء نے ایک روحانی باپ بن کر نہ صرف ان کے سروں پہ دستِ شفقت رکھا بلکہ ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے معاشرے میں ایک باوقار اور با حوصلہ افراد کی صف میں کھڑا کرکے ان کی زندگی کو پرسکون بنایا۔ ان یتیم خانوں میں سے مشہور درجہ ذیل مدرسے ہیں جن میں عصری تعلیم بھی دیجاتی ہے ۔
1: مدرسہ ھاشمیہ مھدی آباد
2: دارِالسیّدتین مھدی آباد
3: دارِ علی بن ابی طالب سکردو
4: یتیم خانہ ۔ ۔ ۔ روندو
یہ وہ مدرسے ہیں جن میں ان بے سہارے بچوں کو قرآن شریف کے ساتھ ساتھ پبلک سکولز میں عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محمدیہ ٹرسٹ کے زیرِ سرپرستی دینیات سنٹرز بھی بلتستان کے طول وعرض میں سینکڑوں بچوں کو تعلیماتِ قرآن اور عقائد سے روشناس کرانے میں مصروف ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسوقت بلتستان بھر میں 150 کے قریب دینیات سنٹرز ہیں جن میں 180 مدرسین کو محمدیہ ٹرسٹ وظیفہ دیتا ہے۔ جبکہ حسینیات اور مساجد کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ گزستہ مہینے معارفی فاؤنڈیشن کویت نے سکردو میں 300 بیڈز کے ہسپتال کے لیے زمین معین کر کے سمری پر دستخط کیے ہیں اس کا سہرا بھی محمدیہ ٹرسٹ اور شیخ حسن مرحوم کے سر جاتا ہے کیونکہ کویت والے شیخ حسن مرحوم کی وجہ سے بلتستان سے واقف ہوئے ہے ،مختصر یہ کہ یہ سب محمدیہ اور شیخ حسن مرحوم کے دینی اور معاشرتی خدمات ہیں جن سے پاکستان اور خاص طور پر بلتستان کے مکین مستفید ہو رہے ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ وہ محسن ہے کہ جنکا پورے بلتستان پر اتنے احسانات ہیں اس کے باوجود تاریخ میں گمنام ہے؛ آج انہیں کے مدارس کے اکثر طلباء ان کی شخصیت سے ناواقف ہے۔ اسی گاوں کے آج کے دور کے نوجوان اور اسی ادارے کے کارمندان ان کی شخصیت سے اتنا واقف نہیں جتنا واقف ہونے کا حق بنتا ہے۔ آج کے دور میں اس شخصیت کے نام پہ ہزاروں علمی مجلے چھاپنے چاھئے تھا۔ اور اب تک سینکڑوں علمی و فکری سیمپوزیمز منعقد ہونے چاھئے تھا لیکن افسوس آج تک کسی میگزین میں ایک مضمون بھی نظر سے نہیں گزرا۔ یہ وہ مظلوم محسن ہے کہ جس کےنام سے عرب دنیا نے بلتستان کو پہچانا لیکن بلتستان خاص کر انکے اپنے علاقے نے ان کو بلا دیا جس کی مثال یہ ہے کہ بندہ حقیر نے یکم اگست سے 13 اگست تک مختلف لوگوں سے مرحوم کی حالات زندگی کے بارے معلومات حاصل کرنے کی غرض سے رابطہ کیا لیکن ہر ایک نے صرف اتنا بتایا کہ ان کے مدرسے بہت زیادہ ہے مساجد وغیرہ وغیرہ ؛ حال ہی میں جب ان کی ایک صاحب زادی نے بلتستان کی پہلی خاتون PHD ڈاکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا اور ان کا تعارف میڈیا نے ان کے والدِ نامدار شیخ حسن مرحوم کے نام سے کیا تو کافی سارے لوگ فیس بک پہ یہ پوچھنے لگے کہ شیخ حسن مرحوم کون تھے؟ شاید اکثر لوگ انہیں ان کی صاحب زادی کی ڈگری والی خبر سے ہی مرحوم کی شخصیت کے بارے میں آگاہ ہوئے ہونگے۔ کیونکہ اس سے پہلے کسی نیوز پیپر یا مجلے میں ان کا ذکر تک نہیں آیا تھا۔ جہاں تک میرے علم میں ھے آج تک اس عظیم محسن کو جو کچھ ادارے نے اور مقامی لوگوں نے دیا ہے وہ ان کی برسی کے دن(آج15اگست کو) کی جانے والی قرآن خوانی ہے اور بس۔ جس طرح باقی مرحومین کے یومِ وفات پہ ان کی اولاد اور عزیزو اقارب کی طرف سے ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کی جاتی ہے اسی طرح مجاہدِ ملت جیسی عظیم شخصیت کی برسی پر بھی صرف قرآن خوانی کی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ باقی مرحومین کے لیے سال میں ایک بار برسی مناتے ہیں اور شیخ حسن مرحوم کے لیے سال میں 2 بار مناتے ہے؛ ایک قمری ماہ کے مطابق انکے گھر والے مناتےھے دوسری شمسی ماہ کے مطابق محمدیہ ٹرسٹ کی طرف سے مناتے ھے۔ اس کے علاوہ جہاں تک مجھے یاد ہے ان کی برسی کے دن بھی ان کی درخشان زندگی کے حوالے سے کسی نے آدھا گھنٹہ بھی ورشنی نہیں ڈالتے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا مجاہدِ ملت کی ذات صرف قرآن خوانی کی حقدار ہے یا اور بھی کچھ ان کے نام کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا ان کی ذات کے حوالے سے کوئی معلومات کسی کے پاس واقعا نہیں ھے یا واقعات کو تاریخ کے دارے میں لانے کا شعور ہمارے اندر نہیں ہے؟ کیا محمدیہ ٹرسٹ کے علماء ؛ طلباء اور اساتیذہ مل کر سال میں ایک بار ان کی فکر کو تازہ کرانے کے لیے سیمینار منعقد نہیں کرسکتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آج بھی مجاہدِ ملت کی روح ہم سے طلب کر رہی ہے۔
آج ان کی برسی ہے ان کی روح کے لیے ایک بار سورہ فاتحہ ضرور پڑھے
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مجاہدِملت کو جوارِ معصومین میں جگہ عنایت فرمائے ؛ سرپرستِ اعلیٰ حجتہ الاسلام والمسلمین شیخ غلام حسین مقدسی صاحب کو طول عمر عطا فرما اور ادارےکے کارکنان کو خلوص نیت کے ساتھ دینِ حق کی خدمت کرنے کی توفیق عنایت فرما۔ آمین ثم آمین

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *