حجت الاسلام والمسلمین علامہ شیخ احمد نجفی کی زندگی کا اجمالی خاکہ
تاریخ پیدائش اور ابتدائی تعلیم:
استاد محترم حجت الاسلام والمسلمین شیخ احمدنجفی 1940ء کو ضلع کھرمنگ کے آخری گاوں” برسیل”کے ایک معزز گھرانے میں پیداہوئے ، آپکے والد محترم کا اسم شریف حسین تھا جوشریف النفس ،متقی صفت،تہجد گزار اور عالم دوست انسان تھے۔آپنے اپنی ابتدائی تعلیم کی شروعات، اپنے والدمرحوم جناب حاجی حسین سے قرآن کریم کی تعلیمات کے حصول کی صورت میں کی ، کم سنی میں ہی قرآن شریف سیکھنے کے بعد دل میں تحصیلِ علم کی سچی تڑپ اورعظیم جذبے نے آپ کو گھر سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا، چنانچہ نتائج سے بے خوف وخطر،دشوار گزارراہوں اور سنگلاخ پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے سرزمین برسیل کے پہاڑی سلسلے کی دوسری جانب واقع وادی گنگنی اور برولمو میں آپ نے قدم رکھا ۔ اس زمانے میں حجت الاسلام والمسلمین شیخ علی برولموی جو سرزمین بلتستان کی ایک عظیم عہد ساز شخصیت تھے اورحجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد نجفی جیسی نامور علمی شخصیتوں کے وجود کی برکت سے خطہ بلتستان، خاص طور پر علاقہ کھرمنگ میں برولمو اور وادی گنگنی اسلامی علوم کے مرکز کی حیثیت رکھتے تھے ،لہذا دینی معارف کے حوالے سے بلتستان کے لوگوں کی نگاہیں اسی جانب مرکوز تھی ، چنانچہ وادی گنگنی اور برولمو میں وارد ہونے کے بعد دیگر تشنگان علوم آل محمد:کی طرح آپ نے ادبیات عرب ، علم فقہ اور دیگر دینی علوم کے زیور سے آراستہ ہونے کیلئے حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد نجفی اور حجت الاسلام والمسلمین شیخ علی برولموی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے ہوئے کسب فیض کیا اور اپنے تعلیمی سفر کو بڑی جدت اور محنت کے ساتھ جاری رکھا ۔
اعلی تعلیم کے حصول کیلئے نجف الاشرف کا انتخاب:
حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد نجفی اور حجت الاسلام والمسلمین شیخ علی برولموی کی زیر نگرانی میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے آپ نے حوزہ علمیہ نجف الاشرف جانے کا عزم و ارادہ کرتے ہوئے رخت سفر باندھ لیا اور اس زمانے کی صعوبتوں پر مشتمل زمینی سفر کا آغاز کرتے ہوئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ شیعہ علمی مرکز حوزہ علمیہ نجف الاشرف روانہ ہوئے ، حوزہ علمیہ نجف الاشرف وارد ہونے کے بعد تعلیم کے حصول میں آپ نے بھرپور توجہ دیتے ہوئے وہاں کے جید اساتذہ کرام اور آیات عظام کےگلشن علم سے لطف اندوز ہوکرقلیل مدت میں کثیر علم حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ، نجف الاشرف میں اقامت کے دوران آپ نے چند سالوں کی مختصر مدت میں سطحیات کے دروس کی تکمیل کے بعد اس وقت کے مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ محسن حکیم، اور آیت اللہ العظمی خوئی سمیت دیگر بعد مراجع عظام کے درس خارج میں بھی شرکت کی ۔
وطن واپسی اور دینی خدمات کی انجام دہی:
حوزہ علمیہ نجف الاشرف میں مجموعی طور پرتقریبا آٹھ سال کے قیام کے دوران قرآن کریم میں موجود الہی دستور فلو لا نفر من کل فرقة منھم طا ئفة لیتفقہو فی الدین کو اپنی علمی زندگی کا سرنامہ قرار دیتے ہوئے طویل عرصے تک اس پر عمل پیرا ہونے کے بعد مذکورہ دستور کے دوسرے حصےوالینذرو قومہم اذا رجعو الیھم لعلہم یحذرون کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حوزہ علمیہ نجف الاشرف سے ترک تحصیل کرکے وطن واپسی کا ارادہ کیا ، وطن واپسی کے بعد دینی خدمات کے جذبے کے پیش نظر، آپ نے سرزمین برسیل کے دیگر علمائے کرام، جیسے حجت الاسلام والمسلمین شیخ ابولحسن نجفی حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد رضا نجفی حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد نجفی وغیرہ کے ساتھ ملکر علم کے ذریعے انسانیت کی خدمت کو اپنے منشور حیات میں شامل کرتے ہوئے لوگوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے میدان میں قدم رکھا جس کے نتیجے میں برسیل جیسے دور افتادہ علاقے میں جوانوں اور نوجوانوں کی کثیر تعداد، دولت علم سے مالامال ہوئی اور آپکی شب و روز کی محنت شاقہ کے نتیجے میں سرزمیں برسیل سمیت گرد و نواح کے بہت سے جوانوں اور نوجوانوں میں تعلیمی شعور اجاگر ہوا اور انہوں نے بہت سے تعلیمی میدانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کیں جس کے نتیجے میں صادق آل محمدحضرت امام صادق علیہ السلام کے بابرکت نام سے منسوب، مدرسہ جعفریہ برسیل ، خطہ بلتستان میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا اور آپکی حسن مدیریت سے تعلیم اور تربیت کا مشن اس قدر کامیابی سے جا ری رہا کہ علاقہ کھرمنگ کی دیگر بستیوں اور دیہاتوں کے لوگوں کی نظریں آپ کی ذات پر مرکوز ہو کر رہ گئیں ،اسی وجہ سے بلتستان کے دیگر علاقوں سے بھی بہت سے جوانوں نے حصول علم کیلئے مدرسہ جعفریہ برسیل کا انتخاب کرتے ہوئے آپکی شاگردی کو اپنے لئے باعث شرف سمجھا ، اور خود مجھے بھی یہ سعادت حاصل رہی ہے کہ تقریبا پانچ سال سے زائد عرصے تک آپ کے محضر سے کسب فیض کروں ۔ فدائے ملت حضرت حجت الاسلام والمسلمیں شیخ ابوالحسن نجفیکے ذریعہ1975ء میں مدرسہ جعفریہ برسیل کے نام سے موسوم،قائم کردہ دینی ادارے کے نہال کو آپنے اپنے خو ن جگر سے ایک تناور درخت میں تبدیل کردیا جس سے آج بھی لوگوں کو فائدہ پہنچ رہاہے، آپکی حسن مدیریت کے ساتھ شب و روز کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں بہت سے طلاب علوم دین ، آج بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں دینی خدمات سر انجام دینے میں مصرو ف ہیں۔ سرزمین برسیل پر دینی خدمت کی غرض سے آپنے نے دیگر علمائے کرام کے ساتھ ملکر جس عظیم سرچشمے کا آغاز کیاتھا وہ ناقابل فراموش ہونے کے ساتھ برسیل کی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جو ہمیشہ سنہرے الفاظ میں درج ہوگا۔
برسیل سے ہجرت اور سکردو میں قیام:
سرزمیں برسیل کی سرحدی موقعیت اور ہند و پاک کے درمیان جاری کشیدگی کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی غیر محفوظ صورت حال کے باعث ،وہاں کے باشندوں کو اکثر نامساعدحالات کا سامنا رہا،لہذا وہاں کے نامساعد حالات کی گردش پیہم نےاستاد محترم سمیت بہت سے مومنین کو اپنے آبائی وطن سے باقاعدہ ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ، چنانچہ سرزمین برسیل میں پچیس سال کے طویل عرصے پر محیط دورانئے میں اہم دینی اورعلمی خدمات انجام دینے کے بعد وہاں سے ہجرت کرکے پورے اہلخانہ کے ساتھ بلتستان کے دارالحکومت سکردو آگئے،سکردو میں وارد ہونے کے بعد حالات کا بغور جائزہ لیا اورمومنین اور اہل علم حضرات کے اصرار پر دین کی خدمت اور معارف اہلبیت : کی تبلیغ کیلئے سکردو میں قیام کا فیصلہ کرتے ہوئے یہیں سکونت اختیار کی۔
سکردو میں آپکی دینی خدمات :
سرزمیں برسیل سے ہجرت کرکے سکردو رہایش کے بعد پھر سے دینی خدمات کے سلسلے کو جاری رکھا اور فدائے ملت حضرت حجت الاسلام والمسلمین شیخ ابوالحسن نجفیکے ذریعہ تاسیس شدہ دوسرے دینی ادارے مدرسہ جامعہ العباس میں تدریسی فرائض انجام دینے کو اپنا مشغلہ قرار دیکر بہت سے تشنگان علوم آل محمد: کو معارف اہلبیت:سے سیراب کیا ، دینی خدمات کے سلسلے میں آپ کی ہمہ گیر علمی شخصیت صرف مدرسہ جامعہ العباس میں تدریسی عمل تک محدود نہیں رہی بلکہ دینی خدمات کا دائرہ تدریس کے علاوہ خطابت اور قضاوت جیسے دوسرے میدانوں تک بھی پھیلتا گیا ، جسطرح آپ درس و تدریس کے باب میں بہترین مدرس اور معلم تھے وہی خطابت کے میدان میں شیرین بیان خطیب ہونے کے ساتھ میدان قضاوت کے شہسوار بھی تھے، اسی بناپر نہ صرف سرزمیں برسیل کے لوگ آپکی شخصیت سے واقف تھے بلکہ خطہ بلتستان، خاصکر سکردو شہر کے لوگوں کی اکثریت آپکی ذات بخوبی واقف تھی ، اسی لئے تبلیغی اور تدریسی فرائض کے ساتھ محکمہ قضاوت سکردو کے منتظمین کے اصرار پر زندگی کے آخری لمحات تک ،محکمہ قضاوت سکردو میں قضاوت سے متعلق فرائض کی اہم ذمہ داری بھی سر انجام دیتے رہے ۔ آپکی دینی خدمات کے سلسلے میں حقیقت حال یہ ہے کہ حوزہ علمیہ نجف الاشرف سے واپسی کے بعد سرزمیں بلتستان میں گزاری ہوئی زندگی کے تمام گوشوں کا ہر ہر لمحہ تبلیغ اور تدریس دین سمیت شریعت کی پاس داری میں گزرا ہے جس کو الفاظ کے قالب اور پیرائے میں بیان کرنا مجھ جیسے ادنی سے شاگرد کیلئے ممکن نہیں ۔ آپکی زندگی کا اگر خلاصہ کیا جائے تو آپکی مثال اس چمکتے ستارے کی مانند تھی جو رات کی تاریکی میں بھٹکے ہوئے مسافرکو اپنی روشنائی سے راستہ پانے کیلئے سامان ہدایت فراہم کرتا ہے اسی لئے آپکی زندگی کا ہرگوشہ ہمارے لئے مشعل راہ ہےجس پر چل کر ہم اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور اسی مقام پر خدا سے دعا ہے کہ ہمیں بھی آپکی نیک سیرت پر عمل پیرا ہوکر آپکے پاک مشن کو منظم اور مستحکم طریقے سے آگے لیجاتے ہوئے دین مبین اسلام کی خدمت کرنے توفیق نصیب فرمائے ۔
انتقال پرملال:
1940ء کوسرزمین برسیل کے افق پر طلوع ہونے والا یہ تابناک ستارہ آخر کار 7مئی 2003 کو 63 برس کی عمر میں سکردو کی فضاء میں غروب کرجاتا ہے اور دعوت حق پر لبیک کہتے ہوئے آخری سفر پر روانہ ہوجاتا ہے اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں قتلگاہ قبرستان سکردو میں آپکےجسد خاکی کو سپردلحد کیا جاتاہے ، اس دوران پورے شہر کی فضا سوگوار ہونے کے ساتھ ہرآنکھ آشکبار ہوتی ہے ، آپکے انتقال پرملال سے جہاں مجھ جیسے ادنی شاگردوں اور تمام اہل برسیل کو قلبی صدمہ پہنچتا ہے وہی ارض بلتستان کی علمی،دینی تعلیمی اورسماجی شخصیات میں رنج و غم کی لہر دوڑ تی ہے۔
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی انکا سفر
زندگانی ان کی تھی مہتاب سے بھی تابندہ تر
آپکے انتقال سے خطہ بلتستان کے مومنین کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہی سرزمین برسیل کی تاریخ کے ایک سنہرے باب کا بھی خاتمہ ہو گیا، کیونکہ آپ جیسے لوگ لیل و نہار کی ہزار گردشوں کے بعد کسی سرزمین برسیل کے افق پر نمو دار ہو تے ہیں لہذا آپ جیسی شخصیات کو دوبارہ پانے کیلئے ہمیں صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپنے اپنے سفر آخرت کے دوران پسماندگان میں پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کے علاوہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے بھرا پورا کنبہ یادگار کے طور پر چھوڑا ہے جو اس وقت سکردو میں مقیم ہے۔
دیدگاهتان را بنویسید