استقبال ماه محرم اور ہمارى ذمہ داریاں/ممتاز علی علی خاتمی
بسم الله الرحمن الرحيم:
استقبال ماه محرم اور ہمارى ذمہ داریاں/ممتاز علی علی خاتمی
من اراد الله به الخير قذف في قلبه حب الحسين عليه السلام و زيارته، و من اراد الله به السوء قذف في قلبه بغض الحسين عليه السلام و بغض زيارته.
ترجمه: امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: اللہ تعالی جس کسی سے خیر کا ارداہ کرتا ہے تو اس کے دل میں امام حسین اور ان کی زیارت کی محبت ڈال دیتا ہے اور جس کسی سے برائی اور شر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل میں حسین(ع) اور ان کی زیارت کا بغض ڈال دیتا ہے۔
ہمیں اس خدا کا لاکھ لاکھ شکر کرنا چاہیے کہ جس نے ہمیں حضرت امام حسین ؑ سے وابستہ کیا ۔ آج ہمارے پاس جو کچھ ہے ، وہ حسین بن علی علیہما السلام کی لازوال اور عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔ دین محمدی کو بچانے کے لیے حسین کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، تب کہیں جاکے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ حسین ہی وہ عظیم بانی ہے کہ جس نے کربلا کی بنیاد رکھی اور یہیں سے عزاداری کی ابتدا ہوئی ۔ آج کربلا اور عزاداری ملت تشیع کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور اسی طاقت نے ہمیں تاریخ کے ہر موڑ پر سرخرو کیا ، اسی طاقت نے ہی انقلاب کے طلب گاروں کو انقلاب کی نعمت دی اور “حزب اللہ ” بنانے کا ارادہ رکھنے والوں کو “حزب اللہ ” جیسی قوت عطا کی۔
روز غدیر سے لیکر آج تک ملت تشیع کو اپنے دشمنوں کا سامنا رہا ہے۔جس کی وجہ سے تاریخ میں بہت ساری جنگیں لڑی گئی ہیں؛ لیکن ہر بار دشمنوں کی سازشیں اور جنگیں سمندر میں پھینکے جانے والے پتھر کی طرح تشیع کے آگے محو ہوگئیں؛ لہٰذا دشمن نے سوچا کہ آخر وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں تشیع کے مقابلے میں ہمیشہ شکست کھانی پڑتی ہے؟ آج دشمن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ تشیع کی تین بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کوئی بھی وار کارگر ثابت نہیں ہو سکتا، جب تک یہ ملت ان سے متمسک ہے ، دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی:
1۔ نظام مرجعیت
2۔ نظام انتظار امام زمان (ع)
3۔ نظام عزاداری سید الشھداء
ہماری اس تحریر کا محور عزاداری ہے، جبکہ دوسرے موضوعات پر پھر کبھی قلم اٹھائیں گے۔ (ان شاء اللہ)
دشمن نے تشیع کو عزاداری سے دور کرنے کے لئے سب سے پہلے جسمانی اذیتوں کا سہارا لیا، شیعوں کو چن چن کر جیلوں میں ڈالا گیا، انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں ، کہیں ان کو دیواروں میں چنایا گیا ، تاریخ ایسے سینکڑوں واقعات کی عینی گواہ ہے۔ پھر ماضی قریب میں ملک عزیز پاکستان سمیت مختلف مقامات پر بم دھماکوں کے ذریعے عزاداروں کو شہید کرکے عزاداری کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ؛مگر عزاداری تو ختم نہ ہوسکی ؛لیکن لوگوں کے جذبہ شھادت میں کئی گنا اضافہ ضرور ہوا، اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا (يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ)[سورة الصف 8]
جب قید و بند کی صعوبتوں اور بم دھماکوں سے کام نہ بنا تو انہوں نے ایک اور مذموم کوشش کی، جس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے، اور وہ کوشش تھی: عزاداری سے اس کی روح کو نکالنا، اس میں بدعتوں اور خرافات کی گنجائش نکالنا؛ تاکہ عزاداری کی شکل و صورت تو رہے؛ لیکن وہ کسی کام کی نہ رہے۔ جس چیز سے اس کی روح نکل جائے تو وہ ہمیشہ بے اثر ہوجاتی ہے۔ دشمن نے یہی کھیل ہمارے ساتھ کھیلا ، مختلف بے مقصد اور بے معنی چیزوں میں ہمیں الجھادیا ، پھر عقیدوں کی تقسیم کے ذریعے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا۔ لہٰذا دشمن کی اس مذموم سازش کے مقابلے میں عزاداری کی روح کو باقی رکھنے کے لئے ہم میں سے ہر طبقے کی کیا ذمہ داری ہے؟ اس کو ہم بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
1- خطباء ،نوحہ خوانوں اور مرثيه خوان کی ذمہ داری۔
2۔ بانیان مجلس کی ذمداری:
3- حسینیوں (عزاداری میں شرکت کرنے والے مردوں) کی ذمہ داری۔
4۔ زینبیوں (عزاداری میں شرکت کرنے والی خواتین) کی ذمہ داری۔
5۔ تمام عزاداروں کی ذمداری ۔
الف۔ خطباء، نوحہ خوانوں اور مرثیه خوانوں کی ذمہ داری
(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ)[سورة آل عمران 103]
1-خطباء نوحہ خوان اور مرثیہ خوانوں کی ذمہ داری ہے کی وہ اپنے خطبوں، نوحوں اور مرثیوں میں اتحاد واتفاق اوراخوت و بھائی چارگی کا خیال رکھیں۔ کیوں کہ پہلے زمانوں میں صرف ہم عزاداری مناتے تھے اور ہم ہی فرش عزا کا اہتمام کرتے تھے؛ جبکہ دوسرے طبقات کی سوچ یہ تھی کہ عزاداری برپا کرنا اور حسین ؑ کا نام لینا فقط شیعوں کا شعار ہے؛لیکن آج حالات بدل گئے ہیں، انہوں نے جان لیا ہے کہ حضرت امام حسین ؑکا نام لینا اور ان کی عزاداری کا انتظام کرنا ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جس کا دل انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے۔گویا آج ہم دوسرے مکاتب کو حسین ؑ اور حسینیت کی جانب دعوت دینے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیے ہیں؛ لہذا مختلف مکاتب سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد عزاداری برپا کرتی ہے ، اور ہماری مجالس میں دوسرے مکاتب کے افراد بھی تشریف لاتے ہیں؛ اس لئے بھی ہمیں افتراقی باتوں پرہیز کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں یہ پیغام عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ملت تشیع کسی بھی مکتب کی دشمن نہیں ہو سکتی، اور کوئی دوسرا مکتب ،ملت تشیع کا دشمن نہیں ہوسکتا۔ ہم سب باہم بھائی بھائی اور ایک مشترک دشمن سے دشمنی رکھنے والے ہیں اور وہ دشمن شیطان رجیم ہے ، جو یہود ونصاریٰ کی صورت میں ہے۔
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)[سورة المائدة 51]
2۔ مقصد قیام کا پرچار
دوسری ذمہ داری یہ ہے کی تقریروں، نوحوں اور مرثیوں میں قیام حضرت امام حسین ؑ کے اہداف ومقاصد پر روشنی ڈالی جائے۔ آخروہ کونسا عظیم مقصد تھا جس کےلیے امام کو اتنی بڑی قربانی دینی پڑی؟ آج ہماری بہت ساری مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مجالس میں مقصد قیام امام حسین کا تذکرہ ہی نہیں ہوتا، اگر کہیں ہوتا ہے تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے اکثر اہل منبرنے آج تک مجالس میں اسلام اور دین کے پیغام کو سمجھانے کی بجائے اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کی ہے؛ جس کی وجہ سے نہ اپنی جگہ پکی ہوتی ہے ، اور نہ غدیراور عاشورا جیسے اسلامی پیغامات لوگوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ اگرہم صحیح معنوں میں اسلام کا پیغام سناتے اور غدیر اور عاشورا کا پیغام پہنچاتے تولوگوں کے دلوں میں ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بھی جگہ بن سکتی تھی؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو بہر حال سچا ہوتا ہے: (فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ)[سورة البقرة 152]
3۔ مطالعہ اور تیاری
نوحہ خوانوں اور مرثیہ خوانوں کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ باقاعدہ مشق اور تمرین کے ساتھ نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی کریں، اسی طرح اچھی آواز کے حامل افراد نوحہ اور مرثیہ پڑھنے کی کوشش کریں تاکہ مجلس پرکشش اور جذاب ہو۔ خاص طور پر خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجلسوں میں باقاعدہ مطالعہ اور آمادگی کے ساتھ تشریف لائیں اور اسی موضوع پر بحث و گفتگو کریں، جس پر مدلل گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؛ نیز خطباء وہی کچھ بیان کریں جس پر خود عمل کرتے ہوں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ۔اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ)اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔[سورة الصف 2 – 3]
قول و فعل میں تضاد رکھنے والوں کی مذمت میں حضرت امیر المؤمنین علیه السلام فرماتے ہیں: لَعَنَ اللّهُ الآمِرینَ بِالمُعْرُوفِ التّارِکینَ لَهُ وَ النّاهینَ عَن المُنْکَرِ العامِلینَ بِه ۔ (نھج البلاغہ خطبہ 129)
ب : بانيان مجلس كی ذمہ داری
1۔ اہل افراد کا انتخاب
بانیان مجلس کی سب سے پہلی اور اہم ترین ذمہ داری خطیب، نوحہ خوان اور مرثیہ خوان کا انتخاب کرنا ہے۔انہیں چاہئے کہ منبر رسول کیلئے با صلاحیت، دین شناس؛ معاشرہ شناس؛ خدا پرست اور خدا ترس افراد کا انتخاب کریں، تا کہ وہ فرش عزاء سے توحید، نبوت اور امامت کا پیغام پہنچائیں، لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پیغام دیں۔ کسی ایسے شخص کو منبر رسول پر نہ بٹھائیں جو ہمارے درمیان تفرقہ افکنی کا باعث ہو،تا کہ کل بروز محشر اس عظیم ذمہ داری کے عوض فاطمہ زہراؑ کے لال کے پاس سرخرو ہو سکے، کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے:(فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ)[سورة الزلزلة: 7، 8]
2۔ لاوڈسپیکر کا انتظام
بانیان مجلس کی دوسری ذمہ داری لاوڈ سپیکر کے نظام کو بہتر کرنا ہے یعنی خطیب کی آواز تمام مخاطبین تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے؛ کیونکہ لاوڈ سپیکر کی خرابی مجلسوں میں بدنظمی اور پیغام حسینی کو دوسروں تک پہنچانے میں رکاوٹ ہوسکتی ہے۔
ج۔ زینبیوں (عزاداری میں شرکت کرنے والی خواتین ) کی ذمہ داری:
1۔ حجاب کی پابند ی
(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)[سورة اﻷحزاب 59]
اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجیے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔
اسلام نے خواتین کیلیے سب سے زیادہ جس چیز کی تاکید کی گئی ہے وہ حجاب ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حجاب کی اہمیت کو اسطر ح بیان کیا ہے:وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ(اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں،)……وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور تو بہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔[سورة النور 31]
میری مائیں بہنیں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ واقعہ کربلا فقط گریہ و زاری اور عزاداری کا نام نہیں؛ بلکہ کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جو ہمیں حجاب، عفت اور غیرت کا درس دیتا ہے۔ بے حجابی اور عزاداری کبھی جمع نہیں ہوسکتیں۔ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ بے حجابی کی تلوار سے وقت کے حسین ؑ کی تعلیمات کو قتل کرنا ہے یا باحجاب ہو کر وقت کےحسین ؑکی صدائے ھل من ناصر ینصرنا پر لبیک کہنا ہے۔
حجاب خواتین کی عزت و آبرو کا نام ہے۔ اسی طرح کی اقدار کی حفاظت کے لیے حسین ؑ نے سب کچھ راہ خدا میں قربان کیا تاکہ اپنے خون سے یہ اقدار زندہ رہیں۔ تاریخ کربلا میں جناب زینب ؑ کو سر سے چادر چھننےپر جتنی تکلیف ہوئی اتنی تکلیف شاید امام حسین کی شہادت پر نہیں ہوئی، اسی لئے جب حضرت زینب اور اسیروں کا قافلہ بازار شام پہنچا تو سب سے پہلے لوگوں سے جس چیزکا سوال کیا وہ چادر کا سوال تھا۔ اگر ہماری بہنیں حجاب کا خیال نہ رکھیں تو یہ حسین بن علیؑ کے خون کے ساتھ خیا نت ہوگی، بے پردہ عورتوں کو حضرت زینب پر گریہ کرنے کی بجائے اپنے آپ پر اور اپنی بے پردگی پر گریہ کرنا چاہئے۔ پردوں کی حفاظت عزاداری کے مقاصد میں سے ایک ہے؛ لہٰذا جسم حسین ؑکے قتل پر فریاد کرتے ہوئے مقصد حسین ؑکے قتل کے درپے نہ ہوں۔ حسین بن علی ؑاور زینب بنت علیؑ پر گریہ کرنے سے پہلے اپنے کردار کا جائزہ لو، اپنی غلطیوں پر شرمسار ہو، اور اپنے گناہوں پر رو، کیونکہ جو آج روئیں گے تو کل کے دن انہیں ہنسنا نصیب ہوگا؛ لیکن جو آج ہنستے ہیں ، شاید انہیں کل رونا پڑے۔رسول خدا ﷺفرماتے ہیں:حَاسِبُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا وَ زِنُوهَا قَبْلَ أَنْ تُوزَنُوا وَ تَجَهَّزُوا لِلْعَرْضِ الْأَکْبَر۔
2۔ بناو سنگار کا ترک کرنا
اسلام نے عورتوں غیر محرم کے لئے بناو سنگار کرنے سے ہمیشہ منع کیا ہے،اور اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کی خاطر زینت کرنے کو فعل قبیح اور حرام قرار دیا ہے۔ (وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ۔۔۔۔۔۔۔ اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں کے۔وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور تو بہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔[سورة النور 31]
ماہ محرم میں خواتین کی دوسری ذمہ داری بناو سنگار کو ترک کرکے غم و اندوہ کا اظہار کرنا ہے، بالکل اسی طرح جسطرح کسی گھر میں فوتگی کے موقع پر حزن و ملال کا اظہار کرتی ہیں۔
د ۔ حسینیوں (عزاداری میں شرکت کرنے والے مردوں ) کی ذمہ داری
1۔ خواتین کی حفاظت اور ان کا احترام
حسینیوں کی پہلی ذمہ داری خواتین کی عزت اور عفت کا خیال رکھنا ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ خواتین کی مجالس کا اہتمام کریں، ان کی حفاظت کا بہتر انتظام کریں، اور خبردار جہاں خواتین کی مجالس ہوتی ہیں وہاں بے جا اجتماع نہ کریں تاکہ انہیں مجالس میں آنے اور جانے میں دشواری نہ ہو۔ پیغام کربلا بھی یہی ہے کہ اپنی ناموس کی عزت اور انکی حفاظت کرنا سیکھو۔ امام حسین ؑ نے میدان کربلا میں خواتین کے خیموں کو مردوں کے خیموں کے درمیان میں رکھنے کا حکم دیا۔ آپ ؑ کا یہ دستور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مرد کی مردانگی اپنی ناموس کی حفاظت ہے۔ وہ شخص ،مردنہیں ہے جس کی نگاہ میں اپنی ناموس کا کوئی احترام نہ ہو۔ اگر تاریخ میں خواتین کے احترام کا جلوہ دیکھنا ہو تو کربلا میں اس کے جلوے نمایاں ہیں۔
2۔ سینہ زنی اور ہماری ذمہ داری:
ہماری عزاداری میں قمیض اتار کر سینہ زنی کرنے کی ایک رسم چلی آرہی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم یہ رسم کہاں سے شروع ہوئی ہے؛ لیکن کسی بھی معصوم کی سیرت میں ہمیں نہیں ملتا کہ انہوں نے قمیض اتار کر سینہ زنی کی ہو۔ یہاں تک کہ حضرت امام سجادؑ تاریخ کے سب سے بڑے عزادار ہیں، پوری کربلا کی تاریخ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔اگر یہ کوئی اچھا کام ہوتا تو امام سجاد سب سے پہلے انجام دیتے۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہ چیز حرام ہے ، بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو شاید جائز ہوں؛ لیکن بہت ساری جگہوں پر انہیں ترک کرنے کو ترجیح دیا جاتاہے۔ اگر قمیض اتار کر تعزیت کا پیغام دینا کوئی اچھا اور قابل تعریف عمل ہے تو اپنے کسی عزیز کے ہاں فوتگی ھوجائے اور ہم قمیض اتار کر اسکے گھرتعزیت کے لئے جائیں تو وہ ضرور کہے گا تعزیت کرنے کا یہ سلیقہ نہیں، اگر اسکی فیملی اور اسکی ناموس بھی ساتھ ہو تو وہ اسے کسی صورت برداشت نہیں کرے گا؛ لیکن جس مجلس میں رسول اللہ کی لاڈلی فاطمہ زہرا اور رسول کی نواسی زینب کبریٰ ہو، کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان مجالس میں یہ ہستیاں تشریف فرماتی ہیں تو ہماری کیا ذمہ داری ہو سکتی ہے؟ لہذا ہمیں سینہ زنی کرتے ہوے مہذب لباس بھی زیب تن کرنا چاہے۔
قميص اتار كر سينہ زنی کرنے کی شرعی حیثیت۔
سوال: مجالس امام حسین میں قمیص اتار کر سینہ زنی کرنے کاکیا حکم ہے در حالیکہ ھیجان کا سبب بھی ہو؟
جواب: اگر ایسا کرنا ھیجان کا سبب بنے تو قمیص اتار کر سینہ زنی کرنے میں اشکال ہے اگر ھیجان کا سبب نہ بھی ہو تب بھی لباس پہن کر سینہ زنی کرنا بہتر ہے۔
آیت اللہ صافی مدظلہ۔
ذ۔ تمام عزاداروں کی ذمہ داری:
پيغمبر اسلام صليالله عليه و آله و سلم نے فرمایا:
إنّ لِقَتلِ الحُسينِ حَرارَةً في قُلوبِ المُؤمِنينَ لاتَبرُدُ اَبَداً.
آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں: قتل اور شہادت حسین (ع) مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت ہے جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو سکتی۔
یہاں ہم تمام عزاداروں کی بعض ذمہ داریوں کو مختصرا عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ حصول معرفت
عزادارى سیدالشہدا کے سلسلے میں ہماری سب سے بڑی اور اساسی ترین ذمہ داری ،ائمہ معصومین ؑ اور دین اسلام کے حوالے سے معرفت اور بصیرت کا حصول ہے۔ واقعہ کربلا در حقیقت امام زمان نواسہ رسول امام حسینؑ کی عدم معرفت کی وجہ سے پیش آیا۔ اگر لوگ ائمہ معصومینؑ اور اسلام کے مقام و مرتبے سے آشنا ہوتے تو تاریخ کربلا پیش نہ آتی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عزاداری سید الشہدا ؑجیسے عظیم پلیٹ فارم کے ذریعے ہم اپنی معرفت کی سطح کو بڑھائیں، اور مجالس میں زیادہ سے زیادہ شرکت پر فخر مباہات کرنے کی بجائے باعث معرفت اور بصیرت افروزمجالس میں شرکت کرکے اپنے زمانے کے امام کے ساتھ تجدید عہد کریں۔
2- سیاہ پوشی
ماہ محرم کی آمد کے ساتھ تمام شہروں کی مساجد ، امام بارگاہوں،گلی کوچوں اور اپنے گھروں میں پرچم حسینی ،شعار حسینی اور علم حسینی کے ذریعے محرم کا ماحول بنائیں کیونکہ ایسا کرنا اہل بیت ؑ کی راہ و روش ہے۔ مشہد مقدس کے امام جمعہ آیة الله علم الہدی نے اس سال یکم محرم کے خطاب میں فرمایا کہ محرم الحرام کے پہلے عشرے کی مجالس کا بانی حضرت امام رضا ؑ ہیں۔ ان سے پہلے محرم کے پہلے عشرے میں شیعوں کے درمیان موجودہ صورت میں باقاعدہ مجالس کی رسم نہیں تھی، یعنی یکم محرم سے لیکر دسویں تک مسلسل عزاداری کرے۔ امام محمد تقی ؑ سے منسوب “زیارت جوادیہ” میں امام رضا(ع) کو اسطرح مخاطب فرمایا گیا ہے۔السلام علي الامام الرؤوف الذي هيج اخزان يوم الطفوف)سلام ہو اس مہربان امام پر جس نے روز عاشورہ کے غم واندو میں طوفان برپا کیا۔
ریان بن شبیب کوئی عام آدمی نہیں تھے، بلکہ اہل بیتؑ کے خاص شیعوں میں سے تھے۔ وہ یکم محرم کوحضرت امام رضا ؑ کی خدمت میں پہنچے، تودیکھاکہ امام ؑ نے عزاداری کا لباس زیب تن فرمایا ہے اور پورے گھر کو سیاہ پوش کر رکھا ہے۔ آپ بہت ہی محزون تھے۔ ریان کہتے ہیں: مجھے بہت تعجب ہوا، اس سے پہلے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا تھا۔میں نے عرض کیا:مولا !کیا کوئی حادثہ پیش آیا ہے؟۔۔۔ مدینہ سے کوئی ناخوشگوار اور بری خبر تو نہیں آئی ؟،(یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے عشرہ اول میں مسلسل عزاداری کی یہ رسم نہیں پائی جاتی تھی) مولا نے فرمایا :اے فرزند شبیب! کیا نہیں معلوم! آج روزاول محرم ہے؟ کیا آج یکم محرم نہیں ہے؟ آج میرے جدامجد حسین ؑکی مجلس عزا ہے، آج سے میرے جد حسین کی عزاداری ہوگی۔۔۔ پھر امام نے ایسے مصائب پڑھے جو میں نے کبھی نہیں سنے تھے۔ پس حسین ؑکی مصیبت میں درو دیوار اور فضا کو سوگوار کرکے محرم کی آمد کا پیغام دینا انہی مقدس اورپاک و پاکیزہ ہستیوں سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔
3۔ باوضو رہنا
دین اسلام نے جس چیز کی تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک باوضو رہنا ہے۔ اسی لئے تمام واجبات اور مستحبات میں وضو کو شرط قرار دیا ہے ۔ عزاداری سید الشہدا ؑ ، بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور پرستش کا انتہائی عظیم وسیلہ ہے ،اس مقدس عبادت میں خدا کا ذکربھی ہے، اوررسول خدا کا تذکرہ بھی ہے۔ اسی طرح ائمہ طاہرین ؑ، قرآن اور قرآن ناطق کا ذکر ہوتا ہے، لہٰذا ایسی عبادت کو وضو(ظاہری اور باطنی پاکیزگی )کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔
4۔ نماز اور باقی واجبات کا خیال رکھنا:
عزاداروں کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک “نماز کی پابندی” ہے۔دین مبین اسلام نے نماز کو دوسری تمام عبادتوں سے اہم قرار دیا ہے، اور بستر مرگ پر بھی اسے ضروری قرار دیا ہے۔ ائمہ معصومین ؑکی تعلیمات اور ان کے قول وفعل سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ” تارک الصلاۃ” کو اہل بیت ؑ کی شفاعت ہرگز نہیں مل سکتی۔حضرت امام حسین ؑ نے تیروں کی بارش میں نماز ادا کر کے نماز کے ساتھ عشق کا اظہار فرمایا، اور خدا کی بندگی نماز اور قرآن کی تلاوت کی خاطر آپ نے شب عاشورا جنگ سے مہلت مانگی تاکہ دنیا والوں کو یہ پیغام دے کہ کسی بھی چیز کو بہانہ بناکر نماز اور امربالمعروف کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔امام حسین کا حقیقی عزادار اور حقیقی عاشق وہ ہے ، جو اسی چیز سے محبت کرے ، جس چیز سے امام حسین عشق رکھتے ہیں۔ جب امام ؑ نماز کے عاشق ہیں تو ہمیں بھی نماز کا عاشق ہونا چاہئے۔ حضرت امام حسین ؑ نماز کے ساتھ اپنے عشق کا یوں اظہارفرماتے ہیں: «فَإِنَّهُ یَعْلَمُ أَنِّی أُحِبُّ الصَّلَاة لَهُ وَ تِلَاوَةَ كِتَابِهِ» خدا جانتا ہے میں اسی کے لئے نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کا عشق رکھتا ہوں۔
عزاداری کی قبولیت کے لئے نماز کی پابندی ضروری ہے ۔ ائمہ معصومین ؑکے فرمودات میں تمام عبادات کی قبولیت کو نماز کی پابندی کے ساتھ مشروط قرار دیا گیا ہے:قال الامام الصادق(ع):أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاةُ فَإِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ سَائِرُ عَمَلِهِ وَ إِذَا رُدَّتْ رُدَّ عَلَیْهِ سَائِرُ عَمَلِهِ۔روز قیامت بندوں سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے۔ اگر نماز قبول ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز ردّ ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی ردّ ہوجائیں گے!
اسی مضمون کی ایک روایت حضرت امام باقر ؑ سے بھی منقول ہے:قال الباقر علیہ السلام: اِنّ اوّلَ ما یُحاسب بِهِ العبدَ الصلاةَ ، فاِن قُبلت قُبِل ماسِواها واِن رُدَّت رُدَّ ما سواها۔
حضرت امیر ا لمومنین علی علیہ السلام نے اس وقت کہ جب آپ ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہوچکے تھے اور آپ کا آخری وقت تھا، ارشاد فرمایا: ”الله الله فِی الصَّلٰوةِ فَإنَّھَا عَمُودُ دِینِکُمْ“(8)”خدا را ! خدارا! میں تم کو نماز کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ یہی تمہارے دین کا ستون ہے“
5۔ بلند آواز سے گریہ کرنا :
مجالس امام حسین ؑ میں بلند آواز سے گریہ کرنا چاہئے؛ کیونکہ کربلا کو زندہ رکھنے میں اسی گریہ وزاری کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ اور دوسری چیز جو کربلا کو زندہ رکھنے میں دخالت رکھتی ہے وہ حضرت امام سجاد ؑ کی دعائیں ہیں۔ امام سجادؑ نے دعاوں کے ذریعے کربلا کو زندہ رکھا ، اور زینب کبری ؑ نے تلوار اٹھائی، آپ ؑ نے گریہ و زاری کی شکل میں یزید اور تمام ظالموں کو کاٹ کے رکھ دیا اورانہیں قیامت تک کے لیے رسوا اور نابود کرکے حسینیت کا پرچم بلندکیا۔ زینب کبری ؑکے گریے نے تاریخ میں وہ کام کیا جو صفین میں امیرالمومنین کی ذوالفقار نے کی۔ یہ گریہ وزاری اور آہ وبکا ہمارا اسلحہ ہے، ہمارے ہاتھوں کی ذوالفقار ہے، اسے زندہ رہنا چاہے۔ اسی گریے نے دنیا والوں کے سامنے حسینی اور زینبی تحریک کے ساتھ ساتھ مظلوموں کا بھی تعارف کرایا۔ عزاداری میں آہ وبکا اور گریہ وزاری کی تاکید کرتے ہوئے آٹھویں امام ؑ کا فرمان ہے:عنِ الرَّیَّانِ بْنِ شَبِیبٍ عَنِ الرِّضَا ع فِی حَدِیثٍ أَنَّهُ قَالَ لَهُ:یَا ابْنَ شَبِیبٍ إِنْ کُنْتَ بَاکِیاً لِشَیْءٍ فَابْکِ لِلْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ع فَإِنَّهُ ذُبِحَ کَمَا یُذْبَحُ الْکَبْشُ وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ ثَمَانِیَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِی الْأَرْضِ شَبِیهُونَ وَ لَقَدْ بَکَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ۔اے ابن شبیب! اگر کسی پر گریہ کرنا چاہتے ہو تو حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السّلام پر گریہ کرو !اس لئے کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جس طرح گوسفند کو ذبح کیا جاتاہے، اور ان کے ساتھ ان کے اہل بیت ؑکے اٹھارہ ایسے مردوں کو شہید کیا گیا جن کی زمین پر کوئی مثال نہ تھی۔ بے شک ساتوں آسمان و زمین ان پر روئے۔
قال الصادق علیہ السلام:مَن بَکی أَو أَبکی أَو تَباکی فی مُصیبهِ الحُسین حُرِّمَت جَسَدَهُ علی النار و وَجَبَت لَهُ الجَنَّه)امام صادق فرماتے ہیں: جو کوئی امام حسین کی مصیبت میں روئے یا رلائے یا رونے کی شکل بنائے تو اسکے جسم کو جھنم کی آگ پر حرام قرار دیا جائے ، اور اسکے لئے جنت واجب قرار دیگا۔
قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم لابنته السیدة فاطمه سلام الله علیها: يا فاطمة إن نساء امتي يبكون على نساء أهل بيتي، ورجالهم يبكون على رجال أهل بيتي، ويجددون العزاء جيلا بعد جيل، في كل سنة فإذا كان القيامة تشفعين أنت للنساء وأنا أشفع للرجال وكل من بكى منهم على مصاب الحسين أخذنا بيده وأدخلناه الجنة؛ يا فاطمة ! كل عين باكية يوم القيامة، إلا عين بكت على مصاب الحسين (ع).
رسول اکرم اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء (س) سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹی فاطمہ (س) ! بے شک میری امت کی خواتین میرے خاندان کی خواتین کے مصائب پر روتی ہیں اور ان کے مرد میرے خاندان کے مردوں کے مصائب پر روتے ہیں اور نسل در نسل ہر سال ہماری عزاداری کی تجدید کرتے ہیں اور جب قیامت ہو گی تو آپ (س) اہلبیت کی خواتین کے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والی خواتین کی شفاعت کریں گی اور میں اہلبیت کے مردوں پر گزرنے والے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والے مردوں کی شفاعت کروں گا اور ان میں سے جس نے بھی امام حسین کے مصائب پر گریہ و بکاء کیا ہو گا ، ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور اس کو جنت میں داخل کریں گے ۔ یا فاطمہ (س) ! قیامت کے دن تمام آنکھیں رو رہی ہونگی سوائے ان آنکھوں کے جو امام حسین کے مصائب پر اشکبار ہوئی ہیں۔بحار الانوار ـ علامه محمد باقر مجلسی ج 44
ایک ھندو شاعر کا امام حسین کے ساتھ عقیدت کا اظھار ، اس قدر رویا میں سن کر داستان کربلا، میں تو ھندو ہی رہا آنکھیں حسینی ہو گئیں۔
6۔ نظم و ضبط کا خیال رکھنا:
أُوصِيكُمَا وَ جَمِيعَ وَلَدِي وَ أَهْلِي وَ مَنْ بَلَغَهُ كِتَابِي بِتَقْوَي اللَّهِ وَ نَظْمِ أَمْرِكُمْ.
ہماری اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ،مجالس میں نظم و ضبط کا خیال رکھنا ہے۔ مجالس اپنے مقررہ وقت پر شروع اور مقررہ وقت پر ختم ہوں۔ مجالس کے مقررہ وقت سے کچھ پہلے تمام عزادار فرش عزا پر تشریف فرما ہوں، ایسا نہ ہو کہ مجلس کا وقت ہوجائے؛ لیکن ایک ایک کرکے ابھی آ رہے ہوں، ہمیں مجالس عزا کا انتظار کرنا چاہئے نہ کہ مجالس ہمارا انتظار کریں۔مجالس میں پہلے آگے کی صفوں کو پر کریں تاکہ بعد میں آنے والوں کو کوئی مشکل پیش نہ آئے ، اور عزاداروں کو بار بار آگے بلانا نہ پڑے ۔مجلس میں جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جانا چاہئے۔بیٹھنے کا انداز انتہائی منظم ہو جیسے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے تسبیح کے دانے۔ مجالس میں داخل اور خارج ہوتے ہوے آداب اسلامی کا خیال رکھے۔
عزادار کبھی بد نظمی نہیں کرتا؛ کیونکہ ہماری نسبت ایک ایسے گھرانے سے ہے ، جس کے افراد بستر مرگ پر بھی نظم وضبط کا پیغام دیتے ہیں:
أُوصِيكُمَا وَ جَمِيعَ وَلَدِي وَ أَهْلِي وَمَنْ بَلَغَهُ كِتَابِي بِتَقْوَي اللَّهِ وَ نَظْمِ أَمْرِكُمْ.
حضرت امیر المومنین ؑ نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے تمام فرزندوں ، اہل خانہ اور ہر اس شخص کو یہ وصیت فرمائی ، کہ جو ان کی اس وصیت سے مطلع ہو جائے ، انہوں نے فرمایا کہ اپنے کاموں میں نظم و ضبط کی رعایت کریں۔
پس علی ؑکا شیعہ بد نظم نہیں ہوسکتا، نظم وضبط ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔
7۔ شائستہ اور سوگواری کے مناسب لباس پہننا:
تمام ائمہ معصومین ؑکی شہادت پر اورخاص کر ماہ محرم میں عزاداران حسینی کالے کپڑے پہنتے ہیں، جو عزاداری کے لئے مناسب لباس ہے۔
فقہی اعتبار سے کالے کپڑے پہننا مکروہ ہے، لیکن امام حسین ؑ اور ائمہ معصومینؑ کی عزاداری میں پہنے گئے لباس کو کراہت سے مستثنی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ لباس حزن و اندوہ اور غم و الم کی نشانی اور عظیم شعائر میں سے ہے۔عزاداروں کو عام طور پر اسی لباس سے پہچانا جاتا ہے۔اگر مجالس برپا نہ کرنے والے مکاتب کے افراد بھی اس لباس میں ہوں ،تو اسی لباس کی بدولت اس پر بھی حسینی ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس لباس میں ملبوس حسینیوں اور زینبیوں کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہیں کہ وہ کردار حسینی اور زینبی کی پاسداری کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو دیکھ کر لوگ حسین ؑاور عزاداری سے متنفر ہوجائیں۔
8۔ موبایل اورعزاداروں کی ذمہ داری:
عزاداری سید الشہدا درحقیقت بندوں کو خدا سے ملانے کا ذریعہ ہے۔اس عبادت میں ہمیں ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہے جو اس عبادت کی توہین کا سبب ہوں۔ جب ہم امام حسین ؑ کی مجلس میں آئے ہیں ، تو ہمیں امام کو ہی سننا چاہئے۔عموما ہم آداب عزاداری کا خیال رکھنے کی بجائے، موبائل اور دوسری چیزوں میں مصروف رہتے ہیں، جس کی وجہ سے عزاداری کی توہین کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ عزاداری کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرتے ہوے مجالس میں آتے وقت موبائل کو بند یا “خاموش حالت” پر رکھنا چاہئے؛ تاکہ اپنے لئے اور دوسروں کے لئے کوئی مزاحمت ایجاد نہ ہو۔
9۔تبرکات اور نذرونیازکا اہتمام:
قال الصادق(ع) :و كان علی بن الحسین بن علی(ع) یعمل لهنّ الطعام للمأتم۔ حضرت امام صادق ؑ فرماتے ہیں: امام حسینؑ کی مصیبت میں مجالس بپا کرنے والی خواتین کے لیے حضرت امام سجاد ؑنذرو نیاز کا اہتمام فرماتے تھے۔
عزاداری میں نذرونیاز کا اہتمام کرنا سنت ائمہ معصومین ؑہے۔ امام حسینؑ کے نام پر نذرونیازکا اہتمام کرنا درحقیقت عزاداری کو فروغ دینا اوراسلامی تعلیمات کا پرچار کرناہے۔ یہی ایثار اور قربانی کا پیغام ہمیں کربلا سے ملتا ہے۔ اس شعائر الہی کو پرشکوہ طریقے سے برپا کرنے کے لیے ہر ایک کو اپنی بساط کے مطابق تبرکات کا انتظام کرنا چاہئے۔
10۔ صفائی کا خیال رکھنا۔
اسلام میں صفائی اور نظافت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں صفائی پر کئی آیتیں موجود ہیں۔ سورۃ توبہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وہ ایسے لوگ ہیں جو صاف ستھرے رہتے ہیں اور اللہ صاف ستھرے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
حضرت رسول خدانے پوری امت کو صفائی کا پیغام دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:” النّظافة من الإيمان”پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
باطنی طہارت و پاکیزگی کے حکم کے ساتھ ساتھ ظاہری نظافت و صفائی کا بھی حکم ہوا ۔ عزاداری سید الشہدا در حقیقت، اسلامی تعلیمات کی پابندی اور قرآن و اہل بیت ؑ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔ عزاداری کے مقامات ، ہمارے لئے روحانی گھر کا درجہ رکھتے ہیں؛لہذا دنیا کے جس کونے میں بھی عزاداری ہوتی ہے، وہاں پر عزاداری کے مقامات ، محلوں اور شہروں کی صفائی میں اپنے اخلاقی اور شرعی وظیفے کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح دنیا کو عزادار کی صورت میں ایک زندہ اور مہذب قوم ہونے کا پیغام دینا چاہئے کہ :حسینی یعنی: جسمانی اور روحانی طہارت وپاکیزگی کا نمونہ۔
11۔ مجلس کی جگہ اور بجلی و غیرہ غیر شرعی نہ ہو :
عزاداری سید الشھدا جیسی عبادت کی انجام دہی میں حلال اور حرام کا خیال رکھنا ہماری بہت بڑی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ واقعہ کربلا کے محرکات میں سے ایک یہی ہے کہ اس زمانے میں لوگ “حرام محمد” کو حلال اور “حلال محمد” کو حرام قرار دیتے تھے، جس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کو امام ؑ نے اپنی ذمہ داری تصور کی۔ آج بعض جگہوں پر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ عزاداری جیسی مقدس عبادت کو دوسروں کی ملکیتی زمینوں پر بلا اجازت برپا کیا جاتا ہے، اور اس میں بجلی بھی غیر قانونی استعمال ہوتی ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایسی عزاداری سے امام ؑخوش ہیں؟؟ جبکہ ہم اس واقعے کو بڑے شدومد کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ امام حسین ؑ جب کربلاء پہنچے تو سب سے پہلے فقہی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کربلا کی سرزمین کو بنی اسد کے لوگوں سے خریدلیا ،اور پہلے انک ا حق ادا کیا ۔ یہ ہے پیغام کربلا اور یہ ہے سیرت حسینی۔ امام حسینؑ نے سخت حالات میں بھی حلال اور حرام کا خیال رکھا؛ کیونکہ آپؑ نہیں چاہتے تھے کہ غصبی زمین پر شہید ہوں اور آپ ؑ کا مقدس خون غصبی زمین پر گرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں ایسی عزاداری برپا کریں جس سے خدا بھی راضی ہو اور امام حسینؑ بھی، تو ہمیں آپ ؑ کی سیرت سے درس لیتے ہوئے عزاداری میں دوسروں کی زمین، بجلی چوری اور دوسرے شرعی مسائل کا خیال رکھنا چاہیے۔ کہیں ہم بھی عزاداری کے نام پر کسی بڑے گناہ کے مرتکب نہ ہوں۔ اسی طرح ان لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو جنہوں نے اللہ اکبر جیسے عظیم شعار کے ذریعے قتل حسین جیسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا، اور ہم یاحسین ؑ جیسے عظیم شعار کے ذریعے مقصد اور کردار امام حسین ؑکے قتل کا ارتکاب کر بیٹھیں!!
12۔ اسراف اور عزاداروں کی ذمہ داری:
بلاشبہ عزاداری سید الشہدا ہماری شناخت ہے۔ دنیا میں عزاداری کے ذریعے ہی ہم پہچانے جاتے ہیں ۔ عزاداری سے ضروریات دین کی اہمیت اور پاسداری قرآن کاپیغام ملتا ہے، اور منکرین دین و قرآن کو عزاداری سے دین وقرآن کا درس دیا جاتا ہے؛ لیکن خود عزاداری کے اندر ہم اسراف جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ اسلام نے تمام اصول اور آداب زندگی کو بیان کر کے نہ صرف اعتدال اور میانہ روی کی لقین کی ہے؛ بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اسراف اور فضول خرچی مذمت کرتے ہوے ، مسرفین اور مبذرین کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ)[سورة اﻷعراف 31]اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاو اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں كرتا.
(وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا)[سورة اﻹسراء 26]اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاو۔
(إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا)[سورة اﻹسراء 27]بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے.
اس آیت میں دو پیغامات ہیں:1۔مسرف شیطان کا بھائی ہے؛ 2۔مسرف کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ شیطان کفران نعمت کا مرتکب ہوا تھا، لہٰذا کوئی بھی عزادار شیطان کا بھائی نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ مسرف اور فضول خرچ ہوسکتا ہے۔ان آیات کی روشنی میں عزاداری میں کھانے پینے کے لحاظ سے اسراف ، مال میں اسراف وفضول خرچی اور دوسرے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے سے خدا کی پناہ مانگنی چاہے، اور ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہے کہ ہم حسینی تھے، حسینی ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حسینی رہیں گے۔
13۔ لباس، بیگ، موبایل پر حسینی شعار:
ماہ محرم و صفر شیعیت کی طاقت کا نام ہے۔یہ وہ مہینے ہیں جن میں دنیا کی نگاہیں شیعیت پر ہوتی ہیں؛ لہٰذا اس پلیٹ فارم سے شیعیت اورحسینیت کی ہی تشہیر ہونی چاہئے۔ ماہ محرم اور صفر بالخصوص ایام عاشورا وبالاخص ایام اربعین میں ہمارے لباس، بیگ، موبائل ،پینافلیکس اور گاڑیوں وغیرہ پر کسی اداکار، کرکٹر، فٹبالر اور یاکسی کمپنی کے غیرمہذب اشتہارات اور نعروں کی بجائے حسینیت کے اشتہارات ہوں، شعائر الٰہی اور شعائر حسینی کے تابناک نعرے اور شعار درج ہوں؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہمارا ایک اشتہار یا ایک شعار اور ایک نعرہ کسی کو ہمیشہ کے لئے خواب غفلت سے جگائے۔
14۔ سکیورٹی اور عزاداروں کی ذمہ داری۔
تمام عزاداروں کی ذمہ داری ہے کی وہ لوگوں کی جان مال اور ناموس کی حفاظت کریں ، اپنے اطراف پر کڑی نگاہ رکھیں اور جہاں کہیں بھی کوئی مشکوک شخص یا مشکوک چیز نظر آئے تو فورا انتظامیہ کو اطلاع دیں ۔اگر خدا نخواستہ جہاں کہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو صبر و تحمل سے کام لیں، خدانخوستہ کسی شخص یا کسی کے املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ پیغام کربلا ہے کہ ہمیں قتل اوراسیر بھی کریں اور ہمارے خیموں کو آگ بھی لگادیں، تب بھی ہم کوئی ایسا اقدام نہیں کرینگے جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو، اور تاریخ میں ہم نے ایسا ہی کرکے حسینی اور زینبی ہونے کا پیغام دے کر دنیا کو حیران کیا اور آئندہ بھی صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے حسینی اور زینبی ہونے کا پیغام دینا چاہئے۔
15۔ پارکینگ اور عزاداروں کی ذمہ داری:
عزاداروں کی ذمہ داریوں میں سے ایک سواری گاڑیوں اور موٹر ز وغیرہ کو مناسب جگہے پر پارک کرنا ہے، تاکہ عزاداروں کی آمدورفت اور اچانک پیش آنے والے حادثات وغیرہ کے لئے امدادی کاروائی کرنے میں میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ کیونکہ ہماری ایک غلط پارکینگ کسی خطرناک حادثے کا سبب بن سکتی ہے؛ لہذا گاڑیوں کی پارکینگ کے سلسلے میں انتظامیہ کے ساتھ دیکر انسان دوستی اور سچے عزادار ہونے کا ثبوت دینا چاہئے۔
16۔ انتظامیہ اور عزاداروں کی ذمہ داری:
ماہ محرم جھاں ہمیں ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے وہاں ایک دوسرے کے حقوق اور انسانی ہمدردی کا پیغام بھی دیتا ہے۔ جس طرح انتظامیہ کو عزاداروں کی حفاظت اور انکے حقوق کا خیال رکھنا چاہے اسی طرح عزاداروں کو بھی انتظامیہ کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے ، اور ایک دوسرے کے ساتھ آداب اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے ۔ مجالس میں عزاداروں کی حفاظت پر مامور افواج، رینجرز، پولیس،اور ہر وہ فرد جو سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہا ہے ، وہ ان افراد سے زیادہ قابل ستائش ہے جو مجلس میں بیٹھ کر عزاداری کررہے ہوتے ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو سیرت امام سجادؑ پر عمل کرتے ہوے عزائے حسینی کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آخر میں محتشم کاشانی کے خوبصورت شعر کے ذریعے اپنے عرائض کو ختم کرتا ہوں:
این حسین کیست که عالم همه دیوانه اوست
این چه شمعی ست که جانها همه پروانه اوست،
هر کجا می نگرم رنگ رخش جلوه گر است،
هر کجا می گذرم جلوه مستانه اوست،
هر کسی میل سوی کرب وبلایش دارد،
من چه دانم که چه سریست به در خانه اوست۔
خداوندا! ہمیں تحریک حسینی کے تمام پہلوؤں کو بہتر انداز میں سمجھ کر تیری اور تیرے پاک رسول اور اہل بیت کی مطلوبہ عزاداری کر برپا کرنے اور اس کی بقاء کے لئے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرما! آمین یا رب العالمین
(اقتباس از:عشرہ مجالس ممتاز علی خاتمی امام بارگاہ پنجتنی ؑؑمحمودآباد کراچی 1440ھ)
دیدگاهتان را بنویسید