تازہ ترین

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

واقعہ کربلا بلا شک و شبہ ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس نے تاریخِ بشری میں ایک نیا و تابناک باب پیدا کردیا

شئیر
54 بازدید
مطالب کا کوڈ: 62

اور اہل دنیا کو زندگی کے عظیم اقدار سے آشنا کیا اور ساتھ ہی ساتھ انسانی فضائل کی حفاظت اور ظلم و استبداد کو نیست و نابود کرنے کے لئے لوگوں کے اندر ظلم و ستم سے ٹکرانے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کردیا اور اب اس قربانی کا اثر پوری عالم انسانیت پر چھا گیا ہے اب کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اس انقلاب کی شعاعیں نہ پہونچی ہو۔ بقول شاعر:
زمین، چاند، ستاروں پہ، آسمانوں پر
کہاں کہاں نظر آتا ہے کربلا کا اثر
بکھر ہی جاتا یہ انسانیت کا شیرازہ
نہ ہوتا دہر میں گر شاہ دوسرا کا اثر

آج دنیا کا ہر باشعور انسان کربلا کے بہادروں سے سبق سیکھتا ہے اور شجاعت کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے اور اپنے وجود کو ڈوبنے سے محفوظ رکھتا ہے، کربلا کے عظیم واقعہ کا احساس آج بھی لاکھوں دلوں کو خون کے آنسو رُلاتا ہے، صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس کا اثر آفرین و دلخراش ہے جس نے بھی اس عظیم واقعہ کو پہچان لیا اس نے سرتسلیم خم کردیا ہمیں بھی اگر اپنے وجود کو سنوارنا ہو گا، تو امام حسین (ع) کے نقش پا پر چلنا ہوگا، صرف اور صرف واقعہ کربلا ایسا واقعہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت و اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کتابیں لکھیں جا رہی ہیں، واقعات بیان کئے جا رہے ہیں لیکن اصل ہیئت ابھی تک قائم و دائم ہے، لیل و نہار کی ہزار گردشیں بھی اس حقیقت کو متاثر نہیں کر پا رہی ہے، عزاداری پر قدغن لگائی جا رہی ہے، مبلغین و ذاکرین کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جلوسوں پر بم گرائے جاتے ہیں، ماتمی جلسوں پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور مظلوم عوام کو ظلم و ستم کے شکنجے کا شکار بنایا جاتا ہے لیکن دشمن کی تمام تر سازشیں ناکام ہوتی جارہی ہیں اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔

چنانچہ اس سلسلہ میں امام زین العابدین کا فرمان ہے کہ ’’ذکر مصائب سے ہر سننے والے کو امام حسین (ع) سے ایک قلبی لگاﺅ پیدا ہوتا ہے اور آپ سے عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کے ذکر کو مٹانے کی سازش ناکام نظر آتی ہے‘‘۔ کیوں نہ ہو جو کام خالص اللہ کے لئے ہوا کرتا ہے اللہ اسے لافانی قرار دیتا ہے اسی طرح واقعہ کربلا تحریک میں بدل کر آج بھی قائم و دائم، تر و تازہ اور زندہ جاوید ہے اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ میں عام لوگوں کی مانند نہیں ہوں کہ میرا قیام اور میرا انقلاب اس مقصد سے ہو کہ میں خود کوئی فائدہ حاصل کرسکوں یا مال و دولت جمع کر لوں یا سلطنت کرلوں بلکہ میرا قیام خالص اللہ کے دین کےلئے ہے آج سے دنیا کے لوگوں کو یہ بات جان لینی چاہیئے، دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ میرا خروج نہ تو کسی خود پسندی، نہ تو اکڑ، نہ فساد اور نہ ہی ظلم کے لئے ہے، میں تو صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کےلئے خروج کرتا ہوں، میں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد محمد رسول اللہ (ص) اور اپنے باپ علی ابن طالب (ع) کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں، اے اللہ میں تیرے مظلوم بندوں کے لئے امن و امان قائم کرنا چاہتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ تیرے فرائض و سنن اور احکام پر عمل کیا جائے، اے اللہ جس نے تجھے کھو دیا اسکو کیا ملا؟ اور جس نے تجھ کو پا لیا کون سی چیز ہے جس کو اس نے نہیں حاصل کیا ؟ جو بھی تیرے بدلے میں جس پر بھی راضی ہوا، وہ تمام چیزوں سے محروم ہو گیا۔ (دعائے معرفت) امام حسین (ع)  ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے دوری نہیں ہو رہی ہے بلکہ باطل کی پشتبانی کی جا رہی ہے، ایسی صورت میں مومن کے لئے لازم ہے کہ لقائے الہی کے لئے قیام کرے اور اس کی جانب رغبت کرے، اس لئے میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت، ننگ و عار سمجھتا ہوں۔

تحریر: جاوید عباس رضوی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *