اسلام نے عورت کو عزت بخشي
عورت کی غیرت کفر ہے، سے کیا مراد ہے؟ جديد دور ميں عورت کو دھوکہ ديا جا رہا ہے – عورتوں کو آزادي کے جھوٹے خواب دکھا کر اپنے مذموم مقاصد کے ليے استعمال کيا جا رہا ہے – قدرت نے عورت کو مخصوص کاموں کي انجام دہي کے ليۓ پيدا کيا اور مردوں کو […]
عورت کی غیرت کفر ہے، سے کیا مراد ہے؟
جديد دور ميں عورت کو دھوکہ ديا جا رہا ہے – عورتوں کو آزادي کے جھوٹے خواب دکھا کر اپنے مذموم مقاصد کے ليے استعمال کيا جا رہا ہے – قدرت نے عورت کو مخصوص کاموں کي انجام دہي کے ليۓ پيدا کيا اور مردوں کو بھي مخصوص کاموں کي انجام دہي کے ليۓ پيدا کيا ہے – يہ جھوٹ ہے کہ عورت اپني حيثيت کے برعکس مرد کا کام کرے اور مرد عورتوں کے کاموں کو کرنا شروع کر ديں – ہر ايک کي ساخت اور فطري تقاضے ہيں، جو خالق کائنات نے ازل سے عطا کئے گئے ہيں- جہاں تک اس حقيقت کا تعلق ہے يہ قطعي حقيقت ہے کہ مرد نے ہميشہ اسي آغوش کو ظلم و ستم کا نشانہ بنايا، جس آغوش ميں اس نے پرورش پائي اور اسي سينے کو زخمي کيا، جس سے اس کا رشتہ حيات وابستہ رہا-
ان تمام اقوال اور خيالات کے باوجود يورپ کي پہلي جنگ عظيم کے اوائل ميں ہي اہل يورپ نے يہ محسوس کيا کہ وہ چاہے عورت کے بارے ميں جو بھي خيالات رکھتے ہوں، مگر اس کے بغير جنگ ميں کاميابي حاصل کرنا ممکن نہيں ہے- کيونکہ مردوں کي کثير تعداد جنگ کے محاذوں پر مصروف ہو گئي ہے تو اندروني ذمہ دارياں کون نبھائے گا؟ چنانچہ خواتين نے اسلحہ ساز اور ديگر ہر قسم کے کارخانوں ميں جا کر کام کرنا شروع کر ديا- حالات کے تحت عورتوں نے علمِ طب ميں تعليم حاصل کرنا شروع کي، وکالت کے ميدان ميں آئيں، وظائف اور مناصب حاصل کرکے قليل عرصے ميں يہ ثابت کر ديا کہ عورتيں بھي مردوں کے کام حسن و خوبي کے ساتھ انجام دي سکتي ہيں- اسي طرح سرزمين عرب ميں جس قدر اديب، شاعر اور فاضل خواتين پيدا ہوئيں، وہ فراست و شجاعت اور ذہانت کي زندہ مثال تھيں، جو ريگستان عرب ميں مشہور و معروف ہوئيں، حالانکہ يہ وہي سرزمين عرب تھي جہاں عورت کے ساتھ بدترين سلوک کيا جاتا تھا- ليکن اسلام کي روشني پھيلنے کے بعد پورے ملک ميں عورت کي زندگي ميں انقلاب آ گيا- اسلام نے عورتوں کے لئے جو اصول و ضوابط پيش کئے اور تعليم و تربيت کے جس اصول کو پيشِ نظر رکھا، وہ يقينا عورت کي صحيح اور متوازن فطري آزادي کا ضامن تھا- اس تعليم و تربيت کي بدولت نہايت مختصر عرصے ميں نسائيت کے وہ اعلٰي ترين نمونے پيش کئے کہ اب پوري دنيا ميں ان کي مثال نہيں ملتي- اس کي صرف ايک وجہ تھي کہ اسلام دنيا کا وہ پہلا اور آخري مذہب ہے جس نے صديوں کي ٹھکرائي اور روندي ہوئي مظلوم عورت کو فطري حدود کے اندر جائز اور مکمل آزادي عطا کي- انہيں عزت و آبرو اور وقار کا مقام عطا کيا، جو ہر قسم کے افراط و تفريط سے يکسر پاک تھا، يہ افراط و تفريط کا رويہ ہي ہميشہ عورت کے لئے دنيا ميں جہنم زار بنا رہا ہے- دنيا ميں فقط اسلام ايسا دين فطرت ہے، جس نے عورت کو عورت اور خدا کي حسين مخلوق سمجھا ہے اور اس کي بشري کمزوريوں کو نہيں اچھالا بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے حکم ديا کہ دونوں ميں بہتر وہي ہے جو تقويٰ ميں بہتر ہے- ان دانشوروں کي طرح اسلام نے عورت ميں احساسِ کمتري اور احساسِ ذلت پيدا نہيں کيا، بلکہ عورت کو ہر روحاني بلندي تک پہنچنے کے قابل بنايا ہے، بشرطيکہ وہ سچي مسلمان ہو اور سچي مسلمان عورت کا کردار فاطمۃ الزہرا سلام اللہ عليہا کي سيرت پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے- اگرچہ حضرت زہرا (س) کي زندگي بہت مختصر تھي، ليکن زندگي کے مختلف شعبوں، جہاد، سياست، گھر اور معاشرے و اجتماعيت ميں ان کي زندگي کي برکت، نورانيت، درخشندگي اور جامعيت نے انہيں ممتاز اور بے مثل و بے نظير بنا ديا ہے- خواتين اپنے حقوق اور اسلام کي نظر ميں عورت کے کردار ميں معيار و ميزان کے فہم اور ان معياروں کي اساس پر اپني تربيت و خود سازي کي روش و طريقہ کار کي دستيابي کے لئے حضرت فاطمہ زہرا (س) جيسي عظيم المرتبت شخصيت کو اپنے سامنے موجود پاتي ہيں، اور اس بناء پر وہ ديگر آئيڈيل شخصيات سے بے نياز ہيں- حضرت زہرا (س) اور ان کي سراپا درس و سبق آموز زندگي کي طرف توجہ کرنا خواتين کو معنويت، اخلاق، اجتماعي فعاليت و جدوجہد اور گھرانے کے ماحول ميں ان کي انساني شان کے مطابق ايک مطلوبہ منزل تک پہنچانے کا باعث ہوگا-
قرآن حکيم ميں جہاں عورت کے ديگر معاشرتي اور سماجي درجات کے حقوق کا تعين کيا گيا ہے وہاں بطور بہن بھي اس کے حقوق بيان کئے گئے ہيں- بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بيان کرتے ہوئے قرآنِ حکيم ميں ارشاد فرمايا گيا :
وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.
’’اور اگر کسي ايسے مرد يا عورت کي وراثت تقسيم کي جا رہي ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئي اولاد اور اس کا (ماں کي طرف سے) ايک بھائي يا ايک بہن ہو (يعني اخيافي بھائي يا بہن) تو ان دونوں ميں سے ہر ايک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائي بہن ايک سے زيادہ ہوں تو سب ايک تہائي ميں شريک ہوں گے (يہ تقسيم بھي) اس وصيت کے بعد (ہو گي) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغير کي گئي ہو يا قرض (کي ادائيگي) کے بعد-‘‘ ( النساء، 4 : 12)
دريائے علم اجرِ رسالت ہيں فاطمہ(س) قرآن اختصار، فصاحت ہيں فاطمہ(س) محروم عدل، روحِ عدالت ہيں فاطمہ(س)
آج کي عورت کا سب سے بڑا شکوہ اس کے حق ميں کسي بھي قسم کي عدالت کا نہ ہونا ہے، ليکن اگر ہم نقشِ سيرتِ فاطمہ (س) کو سامنے رکھيں تو معلوم ہوگا کہ حضرت فاطمہ (س) نے غاصبانِ فدک سے فدک کا مطالبہ نہيں کيا تھا، حالانکہ يہ وہي فدک ہے جس کے متعلق حضرت زہرا (س) نے جناب ابوبکر سے فرمايا تھا کہ يہ فدک ميرے بابا کي خاص ملکيت ہے، جسے انہوں نے اپني زندگي ميں مجھے عطا کر ديا تھا- بے شک امام صبر و قناعت ہيں فاطمہ (س)-
بشکريہ اھل البيت ڈاٹ اور آر جي
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید