اصلاح امت,قیام امام حسینؑ کا ہدف
حضرت سید الشہدا ؑ نے ہماری ذمہ داری معین کردی ہے۔ میدان جنگ میں تعداد کی کمی اور شہادت سے نہ گهبرائیے۔ جس قدر انسان کا مقصد اور ہدف عظیم ہو اسی قدر اس کو زحمت بهی اٹهانا چاہیے۔ ہم اب بهی صحیح طورپر نہیں سمجه پائے ہیں کہ اس کامیابی کا حجم کتنا ہے؟ […]
حضرت سید الشہدا ؑ نے ہماری ذمہ داری معین کردی ہے۔ میدان جنگ میں تعداد کی کمی اور شہادت سے نہ گهبرائیے۔ جس قدر انسان کا مقصد اور ہدف عظیم ہو اسی قدر اس کو زحمت بهی اٹهانا چاہیے۔ ہم اب بهی صحیح طورپر نہیں سمجه پائے ہیں کہ اس کامیابی کا حجم کتنا ہے؟ بعد میں آنے والے اس کامیابی کی وسعت وعظمت کو سمجهیں گے۔ جو عظمت اس کامیابی کی ہے اسی کے بقدر مصیبتیں بهی جهیلنا پڑیں گی۔ ہمیں یہ توقع نہیں رکهنا چاہیے کہ ہم نے اس خطہ میں سے کچه حکومتوں کے منافع کا قلع قمع کردیا ہے تو ہمیں کوئی صدمہ نہیں پہنچے گا۔ ہمیں توقع نہیں رکهنا چاہیے کہ اس عظیم کامیابی کے بعد ہمیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ ہم جس طرح ماضی میں تهے ویسے ہی ہمیں اب بهی رہنا چاہیے۔ تمام علما چاہے وہ خطبا ہوں یا ائمہ جمعہ وجماعت ہوں جو بهی عوام سے سروکار رکهتا ہے اور ان کے سامنے تقریر کرتا ہے، اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور ان کے قیام کے مقصد سے لوگوں کو آگاہ کرے کہ وہ قیام کیا تها اور کتنے قلیل افراد نے قیام کیا تها اور کیسے کیسے مصائب اٹهانے کے بعد اسے انتہا کو پہنچایا۔ اگرچہ ان کی تحریک ختم ہونے والی نہیں۔
امام خمینی(رح)، قیام عاشورا، ص22
تاریخ کے صفحات پر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا موقف اور نقطہ نگاہ آج بهی اپنی پوری رعنائیوں کے ساته رقم ہے۔ چنانچہ جب حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا حکمران یزید جیسا شخص ہو تو ایسے اسلام پر سلام۔ بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجه جیسا شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا۔ اس طرح امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنا موقف دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا اور حکومت، اس کے کردار اور پالیسیوں کو ٹهکرا کر غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔
اهداف:
امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے اہداف و مقاصد واضح فرمائے چنانچہ اپنے بهائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامے میں امام عالی مقام علیہ السلام نے اس طرح ارشاد فرمایا، میرے اس قیام، میری جدوجہد کا اصل مقصد اور میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف صرف امت کی اصلاح ہے، میرا عزم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اس فصیح و بلیغ بیان میں آپؑ نے اپنے اہداف و مقاصد اور اسلام کے تحفظ اور دین کی بقاء کے لئے اپنے خدا اور اپنے نانا سید الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ودیعت کی گئی ذمہ داریوں کا مکمل احاطہ فرما دیا ہے۔ اصلاح کو ہدف قرار دینا، بذات خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فساد موجود ہے، انتشار و افتراق برپا ہے اور بگاڑ ہویدا ہے۔ لہذا ان برائیوں کے خاتمے کے لئے اصلاح کی ضرورت درپیش ہے۔
یزیدی معاشرے کی منظر کشی :
آپؑ نے اپنے خطوط و خطبات میں قیام کی وجوہات واضح کرنے کے لئے کئی مرتبہ اس دور کی صورت حال، کیفیت، امت کی حالت زار اور حالات کی ابتری کی نقشہ کشی اور منظر کشی فرمائی۔ چنانچہ امام علیہ السلام جب مکہ تشریف لائے تو بصرہ کے قبائل کے سرداروں کو ایک خط لکها، جس میں امام ؑ نے تحریر فرمایا کہ میں ابهی اپنے نمائندے کو اس خط کے ساته آپ کی طرف بهیج رہا ہوں، میں آپ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دعوت دیتا ہوں، چونکہ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سنت پیغمبر اکرم ؐ ختم ہو چکی ہے اور بدعتیں زندہ ہو گئی ہیں اگر آپ میری بات کو سنیں گے، تو میں آپ کو سیدهے راستے کی طرف ہدایت کروں گا۔ سفر عراق کے دوران مقام بیضہ پر لشکر حر کو خطبہ میں ارشاد فرمایا، اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کر چکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا چکے ہیں، یہ ظلم و فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں، خدا کے قوانین کو معطل کر رہے ہیں اور مال فے کو انہوں نے اپنے لئے مختص کر لیا ہے، خدا کے حلال و حرام اور اومر و نواہی کو بدل چکے ہیں، میں اس معاشرے کی ہدایت و رہبری کے لئے اور ان سے سب فتنوں، فسادکاریوں اور مفسدوں کے خلاف، کہ جنہوں نے میرے نانا کے دین کو تبدیل کر دیا ہے، قیام کرنے میں دوسروں سے زیادہ اہل ہوں۔
اس خطبے میں کی گئی منظر کشی سے واضح ہوتا ہے کہ یزیدی دور میں حکمران، احکام شریعت الٰہی اور سنت رسول ؐ میں دیئے گئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بهلا کر گمراہی اور گناہ کی زندگی اختیار کر چکے تهے۔ عدل اجتماعی سے گریز کرتے ہوئے مستقل طور پر بےعدلی اور ناانصافی کو اسلامی معاشرے کا حصہ بنایا جا رہا تها۔ خدا نے انسان اور معاشرے کی بهلائی کے لئے شریعت کی شکل میں جو قوانین اور پابندیاں عائد کیں ان سے عملاً برات کر کے اپنے خود ساختہ قوانین رائج کئے جا رہے تهے، قومی خزانے کو لوٹا جا رہا تها اور کرپشن اور حرام خوری حکمرانوں کی عادت بن چکی تهی، جس سے معاشی ناہمواری، غربت، افلاس اور جہالت کو فروغ مل رہا تها۔ حکمران خود بهی اور رعایا بهی حلال و حرام کی تمیز نہیں کر رہے تهے۔ بلکہ حرام امور کو حلال تصور کر کے انجام دے رہے تهے، خدا کے احکامات کی تابعداری کرنے کی بجائے نافرمانی کر رہے تهے اور جن کاموں سے خدا تعالی نے منع فرمایا تها ان سے باز نہیں آ رہے تهے۔
سفر عراق میں ذی حسم کے مقام پر خطبہ میں ارشاد فرمایا وہ جو ہونے والا ہے وہ آپ دیکه رہے ہیں، زمانے کے حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔ برائیاں ظاہر ہو چکی ہیں، نیکیاں اور فضیلتیں، بہت تهوڑی رہ گئی ہیں جیسے کسی برتن کی تہہ میں چند قطرے، لوگ ذلت و پستی کی زندگی گزار رہے ہیں، زندگی کا منظر پتهریلی چراگاہ کی طرح ہے جس میں گهاس کم ہے، زندگی دشواریوں میں تبدیل ہو چکی ہے، کیا آپ نہیں دیکه رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جا رہی، ان حالات میں ایک ایماندار شخص کو چاہیئے کہ اپنے پروردگار کے دیدار کا طالب و مشتاق رہے اور اس قدر ذلت بار حالات میں حسین ابن علی موت کو سعادت اور ظالموں کے ساته زندگی گزارنے کو بوجه سمجهتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے مزید ارشاد فرمایا، لوگ دنیا کے بندے ہیں دین ان کی زبانوں پر صرف لقلقہ لسانی تک ہے، جب تک ان کی زندگی پررونق رہتی ہے اس وقت تک دین کے ساته رہتے ہیں اور جب امتحان و آزمائش کا وقت آتا ہے تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔
حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے مختلف مقامات پر آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈیرے ڈال رکهے ہیں، تم کتنے بدبخت اور سرکش افراد ہو کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت کر لیا اور تم لوگوں نے شیطان کو دماغ میں بسا لیا ہے، تم لوگ بڑے جنایت کار ہو، کتاب خدا میں تحریف کرنے والے، سنت خدا کو فراموش کرنے اور اسے ختم کرنے والے ہو، تم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزندوں کو مار ڈالتے ہو، تم اوصیاء کو اذیت دینے والے اور تم ایسے پیشواؤں کے پیروکار ہو جو قرآن مجید کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اسلام میں تحریف ہو جانے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے نابود ہونے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قانون کو ختم کیا جا رہا ہے اور اس کی جگہ بدعتیں زندہ کی جا رہی ہیں۔
ان تمام بیانات میں سید الشہداء نے کهل کر اور دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ یزیدی حکومت کی طرف سے بدعتوں کو فروغ دینے اور سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاتمے کا سلسلہ اب فوری طور پر روکنا ضروری ہے، اسلام کے زندگی بخش قوانین کو نظر انداز کرنے اور باطل کے خلاف آواز اٹهانے کی ضرورت ہے، قرآن اور قرآنی احکام کے رو سے انسان کا قتل، ظلم و ناانصافی، انسانی حقوق کی پامالی، شہری آزادیوں کا سلب کیا جانا، غربت، افلاس اور جہالت کا فروغ، کرپشن اور بدامنی کا راج، عدل اجتماعی سے انحراف، استحصال اور اس طرح کے دیگر امور حرام ہیں، لیکن یزید اور اس کے کارندے بلا دریغ یہ حرام امور نہ فقط انجام دے رہے تهے، بلکہ انہیں حلال ثابت کرنے کی بهرپور کوششیں جاری تهیں۔
امامت و رهبری:
ایسی صورت حال میں امت کی رہبری و رہنمائی فرمانا، امت کو ہدایت کا راستہ دکهانا، امت کو فساد اور شر سے بچانا، امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے آگاہ کرنا اور امت کو صحیح اور سچے نظام حکومت اور نظام حیات کی طرف متوجہ کرنا صرف اور صرف آپؑ ہی کی ذمہ داری تهی۔ جبهی تو آپؑ نے فرمایا تها کہ امام وہ ہے جو کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو، اسلامی معاشرہ کی رہبری اور اس ظلم و فساد اور ان ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے میں (حسین ؑ ) دوسروں کی نسبت زیادہ سزاوار ہوں۔ یہ ایسی حکومت ہے جس نے قرآنی احکام، سنت اور قوانین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تغیر و تحریف کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے، لہذٰا اس کے خلاف جدوجہد کرنا میرا دینی فریضہ ہے، میری ذمہ داری ہے کہ میں تمام برائیوں کو جڑ سے اکهاڑ دوں اور قرآن اور اسلام کے فراموش شدہ حیات آفرین احکام کو دوبارہ اس معاشرے میں رواج دوں۔ ظلم و ستم اور اسلامی قوانین میں تبدیلی کو روکوں، ان حالات میں ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد ضروری ہے، یعنی اگر اس جدوجہد میں امت کے پاک ترین افراد کا خون بهی بہہ جائے تو فقط یہ کہ دشمن اس سے فائدہ نہیں اٹها سکے گا، بلکہ اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوں گے اور اسلام پهلے پهولے گا، اب مومن کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالی سے ملاقات کی رغبت کرے اور میں تو موت کو اپنے لئے سعادت اور ظالموں کے ساته جینے کو بوجه سمجهتا ہوں۔
فقط اصلاح امت:
امام عالی مقام علیہ السلام کے ان ارشادات نے واضح کر دیا کہ آپؑ کی جدوجہد، آپؑ کا سفر، آپؑ کا قیام، آپؑ کی شہادت اور پهر آپؑ کے خانوادے کے پابہ زنجیر طویل سفر کا مقصد ذات، مفادات، شہرت، دولت، فقط حکومت یا نمود و نمائش نہیں تها، بلکہ صرف اور صرف اصلاح امت اور فلاح امت تها۔ اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جب بهی، جس دور میں بهی، جس خطے میں بهی اور جن حالات میں بهی اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ 10 محرم 61 ه کے بعد جب بهی حریت کی تاریخ رقم ہوئی، جب بهی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا، جب بهی فساد کے خاتمے کی جدوجہد ہوئی اور جب بهی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کی مزاحمت کی بات نکلی تو سب حریت پسندوں اور تمام تحریکوں نے حسین علیہ السلام اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔ تعلیمات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں اصلاح امت کا سلسلہ ماضی میں بهی جاری رہا اور اب بهی جاری ہے۔ برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک ہمہ گیر عادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے فرامین، کردار، سیرت، انداز عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں۔ اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکه کر اتحاد امت، وحدت امت اور اصلاح امت کا مشن جاری رکهیں۔
بشکریہ اسلام ٹائمز اردو – تحریر: علامہ ساجد علی نقوی
دیدگاهتان را بنویسید