افطار کرنے کے آداب
قال رسول الله صلى الله علیه وآله: لا یَزالُ النّاسُ بِخَیرٍ ما عَجَّلُوا الفِطرَ (1) ؛ لوگ جب تک افطار میں جلدی کریں گے خیر اور نیکی میں ہیں۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: عَجِّلُوا الإِفطارَ و أخِّرُوا السَّحورَ .(2) افطار کو جلدی کرو اور سحری کو دیر تک کھاو۔ –
قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: مِن فِقهِ الرَّجُلِ فی دینِهِ تَعجیلُ فِطرِهِ و تَأخیرُ سَحورِهِ(3) ؛ انسان کی دینی معرفت رکھنے میں سے ایک یہ ہے کہ جلدی افطار کرتا ہے اور دیر تک سحری کھاتا ہے۔ پہلے نماز پھر افطار فی تهذیب الأحكام عن زرارة و فضیل عن الإمام الباقر علیهالسلام: «فی رَمَضانَ تُصَلّی ثُمَّ تُفطِرُ ، إلاّ أن تَكونَ مَعَ قَومٍ یَنتَظِرونَ الإِفطارَ، فَإِن كُنتَ مَعَهُم فَلا تُخالِف عَلَیهِم و أفطِر ثُمَّ صَلِّ، و إلاّ فَابدَأ بِالصَّلاةِ.» قُلتُ: ولِمَ ذلِكَ؟ قالَ: «لِأَنَّهُ قَد حَضَرَكَ فَرضانِ: الإِفطارُ وَالصَّلاةُ، فَابدَأ بِأَفضَلِهِما، و أفضَلُهُمَا الصَّلاةُ.» ثُمَّ قالَ: «تُصَلّی و أنتَ صائِمٌ فَتُكتَبُ صَلاتُكَ تِلكَ فَتُختَمُ بِالصَّومِ، أحَبُّ إلَیَّ.»(4) تہذیب الاحکام میں زرارہ اور فضیل نے امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ فرمایا: ماہ مبارک رمضان میں پہلے نماز پڑھو پھر افطار کرو مگر یہ کہ ایسے افراد کے ساتھ ہو جو افطار کے منتظر ہوں۔ اگر ان کے ساتھ ہو ان کے عمل کے کے برخلاف عمل نہ کرو۔ افطار کرو پھر نماز پڑھو۔ ورنہ پہلے نماز بہتر ہے۔” میں نے کہا کیوں؟ فرمایا: اس لیے کہ تمہارے اوپر دو واجب کام عاید ہوئے ہیں افطار اور نماز۔ تو پہلے اسے انجام دو جو بہتر ہے اور نماز افضل اور بہتر ہے۔ اس کے بعد فرمایا: “نماز پڑھو اس حال میں کہ روزہ ہو پس وہ نماز روزہ کے ساتھ تمام ہو گی یہ میرے نزدیک محبوب تر ہے۔” – قال الإمام الباقر علیهالسلام: تُقَدِّمُ الصَّلاةَ عَلَى الإِفطارِ، إلاّ أن تَكونَ مَعَ قَومٍ یَبتَدِئونَ بِالإِفطارِ فَلا تُخالِف عَلَیهِم و أفطِر مَعَهُم، و إلاّ فَابدَأ بِالصَّلاةِ؛ فَإِنَّها أفضَلُ مِنَ الإِفطارِ، و تُكتَبُ صَلاتُكَ و أنتَ صائِمٌ أحَبُّ إلَیَّ. (5) نماز کو افطار پر مقدم کرو مگر یہ کہ کسی گروہ کے ساتھ بیٹھے ہو جو پہلے افطار پسند کرتے ہیں۔ پس ان کی مخالفت نہ کرو اور ان کے ساتھ افطار کرو اس کے علاوہ پہلے نماز پڑھو۔ اس لیے کہ نماز افطار سے برتر ہے۔ اور تمہاری نماز روزہ کی حالت میں لکھی جائے گی۔ اور یہ میرے نزدیک محبوب تر ہے۔ – قال الإمام الصادق علیهالسلام: یُستَحَبُّ لِلصّائِمِ ـ إن قَوِیَ عَلى ذلِكَ ـ أن یُصَلِّیَ قَبلَ أن یُفطِرَ(6)؛ روزہ دار کے لیے مستحب ہے کہ اگر ممکن ہو پہلے نماز پڑھے پھر افطار کرے۔ صدقہ دینا افطار کے وقت صدقہ دینے کا ثواب – قال الإمام الرضا علیهالسلام: مَن تَصَدَّقَ وَقتَ إفطارِهِ عَلى مِسكینٍ بِرَغیفٍ، غَفَرَ اللهُ لَهُ ذَنبَهُ، و كَتَبَ لَهُ ثَوابَ عِتقِ رَقَبَةٍ مِن وُلدِ إسماعیلَ(9) جو شخص افطار کرنے سے پہلے ایک ٹکڑا روٹی کا کسی مسکین کو صدقہ دے گا خداوند عالم اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور اس کے حق میں اولاد اسماعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کونے کا ثواب لکھے گا۔ – قال الإمام الصادق علیهالسلام: كانَ عَلِیُّ بنُ الحُسَینِ علیهماالسلام إذا كانَ الیَومُ الَّذی یَصومُ فیهِ أمَرَ بِشاةٍ فَتُذبَحُ و تُقطَعُ أعضاءً و تُطبَخُ، فَإِذا كانَ عِندَ المَساءِ أكَبَّ عَلَى القُدورِ حَتّى یَجِدَ ریحَ المَرَقِ و هُوَ صائِمٌ، ثُمَّ یَقولُ: «هاتُوا القِصاعَ، اِغرِفوا لاِلِ فُلانٍ وَاغرِفوا لاِلِ فُلانٍ»، ثُمَّ یُؤتى بِخُبزٍ و تَمرٍ فَیَكونُ ذلِكَ عَشاءَهُ، صَلَّى اللهُ عَلَیهِ و عَلى آبائِهِ(10) امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام سجاد علیہ السلام ہر روز جب روزہ رکھتے تھے حکم دیتے تھے کہ ایک گوسفند کو ذبح کیا جائے اور اسے کاٹ کر پکایا جائے اور جب عصر کا وقت ہوتا تھا دیگ پر جھک کر اس کی خوشبو سونگھتے تھے اس کے بعد حکم دیتے تھے کہ برتن لائے جائیں اور فلاں گھر والوں کے لیے، فلاں گھر والوں کے لیے نکالا جائے ۔ [ تمام کھانے کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا] اس کے بعد خشک روٹی اور خرما لایا جاتا تھا آپ اس سے افطار فرماتے تھے۔ اور یہی آپ کا کھانا ہوتا تھا۔ اللہ کا درود ہو آپ اور آپ کے پاک آباو و اجداد پر۔ سور قدر کی تلاوت – قال الإمام زین العابدین علیهالسلام: «إِنَّـآ أَنزَلْنَـهُ فِى لَیْلَةِ الْقَدْرِ» عِندَ فُطورِهِ و عِندَ سَحورِهِ، كانَ فیما بَینَهُما كَالمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فی سَبیلِ اللهِ تَعالى(11) امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص افطاری اور سحر کے وقت سورہ قدر کی تلاوت کرے ان دو اوقات کے درمیان ایسے شخص کی طرح ہو گا جو راہ خدا میں اپنے خون میں لت پت ہے۔ دعا کرنا – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: إنَّ لِلصّائِمِ عِندَ فِطرِهِ لَدَعوَةً ما تُرَدُّ(12) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزہ دار کی افطار کے وقت ایک دعا قبول ہوتے ہیں۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: إنَّ لِكُلِّ صائِمٍ دَعوَةً، فَإِذا هُوَ أرادَ أن یُفطِرَ فَلیَقُل عِندَ أوَّلِ لُقمَةٍ: یا واسِعَ المَغفِرَةِ اغفِر لی(13)؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہر روزہ دار کی ایک دعا قبول ہوتی ہے پس جب افطار کرنا چاہے گا پہلے لقمہ کھانے وقت کہے: مغفرت کے وسیع کرنے والے مجھے بخش دے۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: لِكُلِّ عَبدٍ صائِمٍ دَعوَةٌ مُستَجابَةٌ عِندَ إفطارِهِ، اُعطِیَها فِی الدُّنیا أو ذُخِرَ لَهُ فِی الآخِرَةِ (14) ؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہر روزہ دار شخص کی افطار کے وقت ایک دعا مستجاب ہوتی ہے کہ یا دنیا میں اسے مل جاتا ہے یا آخرت کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: ثَلاثَةٌ لا تُرَدُّ دَعوَتُهُم: الصّائِمُ حَتّى یُفطِرَ، وَالإِمامُ العادِلُ، و دَعوَةُ المَظلومِ(15) تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی : روزہ دار جب تک روزہ کو افطار نہ کر دے۔ امام عادل اور مظلوم۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: أربَعَةٌ لا تُرَدُّ لَهُم دَعوَةٌ حَتّى تُفتَحَ لَهُم أبوابُ السَّماءِ و تَصیرَ إلَى العَرشِ: … وَالصّائِمُ حَتّى یُفطِرَ (16)؛ چار لوگ ایسے ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ آسمان کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں۔ اور ان کی دعا عرش تک پہنچ جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ ان میں سے ایک روزہ دار ہے جب تک کہ افطار نہ کردے۔ افطار سے پہلے دعا کرنا – إنَّ النَّبِیَّ صلىاللهعلیهوآله كانَ إذا أفطَرَ قالَ: بِسمِ اللهِ، اللّهُمَّ لَكَ صُمتُ و عَلى رِزقِكَ أفطَرتُ، تَقَبَّل مِنّی إنَّكَ أنتَ السَّمیعُ العَلیمُ (17) ؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب افطار کرتے تھے یہ دعا پڑھتے تھے: خدا کے نام سے، خدایا میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا، مجھ سے قبول کر بتحقیق تو سننے اور جاننے والا ہے۔ – عمل الیوم واللیلة عن ابن عبّاس: كانَ رَسولُ اللهِ صلىاللهعلیهوآله إذا أفطَرَ یَقولُ: اللّهُمَّ لَكَ صُمنا و عَلى رِزقِكَ أفطَرنا، فَتَقَبَّل مِنّا إنَّكَ أنتَ السَّمیعُ العَلیمُ(18) ؛ ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم [ص] جب افطار کرتے تھے یہ دعا فرماتے تھے: خدایا میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا۔ پس ہم سے قبول کر تو بہترین سننے والا اور جاننے والا ہے۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: إذا قُرِّبَ إلى أحَدِكُم طَعامٌ و هُوَ صائِمٌ فَلیَقُل: بِاسمِ اللهِ وَالحَمدُللهِ، اللّهُمَّ لَكَ صُمتُ و عَلى رِزقِكَ أفطَرتُ و عَلَیكَ تَوَكَّلتُ، سُبحانَكَ و بِحَمدِكَ، تَقَبَّل مِنّی إنَّكَ أنتَ السَّمیعُ العَلیمُ(19) ؛ رسول خدا [ص] نے فرمایا: جب تم روزہ داروں کے پاس کھانا لایا جائے،تو یہ کہو: خدا کے نام سے۔ تمام تعریف اللہ کی ہے۔خداوندا تیرے لیے روزہ رکھا ہے اور تیرے رزق سے افطار کیا ہے اور تجھ پر بھروسہ کیا ہے تو پاک و پاکیزہ ہے اور تیری تعریف کرتا ہوں مجھ سے قبول کر بےشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ – عمل الیوم واللیلة عن معاذ: كانَ رَسولُ اللهِ صلىاللهعلیهوآله إذا أفطَرَ قالَ: الحَمدُللهِِ الَّذی أعانَنی فَصُمتُ، و رَزَقَنی فَأَفطَرتُ(20) پیغمبر خدا [ص] جب افطار کرتے تھے تو پڑھتے تھے : حمد و ثنا اس خدا کی جس نے میری مدد کی تو میں روزہ رکھ سکا اور مجھے رزق دیا تاکہ میں افطار کر سکوں۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: إنَّ لِلصّائِمِ عِندَ فِطرِهِ دَعوَةً: اللّهُمَّ إنّی أسأَلُكَ بِرَحمَتِكَ الَّتی وَسِعَت كُلَّ شَیءٍ أن تَغفِرَ لی ذُنوبی(21) رسول خدا [ص] نے فرمایا: روزہ دار کی افطار کے وقت یہ دعا ہونا چاہیے: خدایا میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری رحمت کے واسطے جو ہر چیز سے وسیع ہے کہ تو میرے گناہوں کو بخش دے۔ رسول خدا صلی اللہ الیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزہ دار شخص کی افطاری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے کہ جو اسے یا دنیا میں عطا کر دی جائے گا اور یا اس کی آخرت کے لیے ذخیرہ ہو گی۔ قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: ما مِن عَبدٍ یَصومُ فَیَقولُ عِندَ إفطارِهِ: «یا عَظیمُ یا عَظیمُ؛ أنتَ إلهی لا إلهَ لی غَیرُكَ، اِغفِر لِیَ الذَّنبَ العَظیمَ؛ إنَّهُ لا یَغفِرُ الذَّنبَ العَظیمَ إلاَّ العَظیمُ» إلاّ خَرَجَ مِن ذُنوبِهِ كَیَومَ وَلَدَتهُ اُمُّهُ(22)؛ کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو روزہ رکھے اور افطار کے وقت کہے: ” اے عظیم ، اے عظیم تو میرا معبود ہے اور کوئی معبود تیرے سوا نہیں ہے میرے عظیم گناہ کو معاف کر دے بتحقیق عظیم گناہ کو عظیم کے علاوہ کوئی معاف نہیں کر سکتا”۔مگر یہ کہ وہ اس طرح گناہوں سے باہر آئے گا جیسے مان کے پیٹ سے پاک پیدا ہوا ہو۔ – قال الإمام الباقر علیهالسلام: جاءَ قَنبَرٌ مَولى عَلِیٍّ علیهالسلام بِفِطرِهِ إلَیهِ … فَلَمّا أرادَ أن یَشرَبَ قالَ: بِاسمِ اللهِ، اللّهُمَّ لَكَ صُمنا و عَلى رِزقِكَ أفطَرنا، فَتَقَبَّل مِنّا إنَّكَ أنتَ السَّمیعُ العَلیمُ(23) امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: قبر امیر المومنین علیہ السلام افطاری لے کر آئے ۔۔۔ جب آپ نے تناول کا ارادہ کیا تو فرمایا: اللہ کے نام سے۔ خداوندا میں نے تیرے لیے روزہ رکھا ہے اور تیرے رزق سے افطار کیا پس تو مجھ سے قبول کر بیشک تو سننے والا ہے۔ – قال الإمام الكاظم عن آبائه علیهمالسلام: إذا أمسَیتَ صائِما فَقُل عِندَ إفطارِكَ: «اللّهُمَّ لَكَ صُمتُ و عَلى رِزقِكَ أفطَرتُ و عَلَیكَ تَوَكَّلتُ» یُكتَب لَكَ أجرُ مَن صامَ ذلِكَ الیَومَ(24) امام کاظم علیہ السلام نے اپنے آباء سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: جب روزہ رکھو تو افطار کے وقت کہو:خدایا میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا اور تجھ پر بھروسہ کیا۔ تا کہ تمہارے اس شخص کا ثواب لکھا جائے جس نے اس دن روزہ رکھا۔ – قال الإمام الرضا علیهالسلام: مَن قالَ عِندَ إفطارِهِ: «اللّهُمَّ لَكَ صُمنا بِتَوفیقِكَ و عَلى رِزقِكَ أفطَرنا بِأَمرِكَ، فَتَقَبَّلهُ مِنّا وَاغفِر لَنا إنَّكَ أنتَ الغَفورُ الرَّحیمُ» غَفَرَ اللهُ ما أدخَلَ عَلى صَومِهِ مِنَ النُّقصانِ بِذُنوبِهِ (25)؛ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص افطاری کے وقت کہے ؛ خدایا میں نے تیری توفیق سے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے حکم سے تیرے رزق کے ذریعے افطارکیا پس اسے مجھ سے قبول کر لے اور مجھے بخش دے بتحقیق تو بخشننے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ” خداوند عالم ان کمیوں کو جو گناہوں نے روزہ کے اندر پیدا کیں دور کر دیتا ہے۔ روزہ کا افطار خرما، کشمش یا شیرینی اور دودھ یا ہلکے گرم پانی کے ساتھ۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: أفضَلُ ما یَبدَأُ بِهِ الصّائِمُ بِزَبیبٍ أو شَیءٍ حُلوٍ(26) ؛ بہترین چیز جس سے روزہ دار کو افطار کرنا چاہیے کشمش یا کوئی میٹھی چیز ہے۔ – قال الإمام الصادق علیهالسلام: كانَ رَسولُ الله صلىاللهعلیهوآله أوَّلُ ما یُفطِرُ عَلَیهِ فی زَمَنِ الرُّطَبِ الرُّطَبُ، و فی زَمَنِ التَّمرِ التَّمرُ(27) ؛ پہلی چیز جس سے پیغمبر اسلام روزہ افطار کرتے تھے خرما کے زمانے میں خرما اور کھجور کے زمانے میں کھجور تھی۔ – قال رسول الله صلىاللهعلیهوآله: مَن أفطَرَ عَلى تَمرٍ حَلالٍ، زیدَ فی صَلاتِهِ أربَعُمِئَةِ صَلاةٍ(28) ؛ جو شخص حلال خرما سے روزہ افطار کرے گا اس کی نماز کے ثواب میں چار سو نمازوں کا ثواب اضافہ ہو جائے گا۔ – قال الإمام الباقر علیهالسلام: كانَ رَسولُ الله صلىاللهعلیهوآله إذا صامَ فَلَم یَجِدِ الحَلواءَ أفطَرَ عَلَى الماءِ(29) ؛ پیغمبر خدا [ص] روزہ سے ہوتے تھے اور کوئی شیرینی دستیاب نہیں ہوتی تھی تو ہلکے گرم پانی سے روزہ افطار کرتے تھے۔ – قال الإمام الصادق علیهالسلام: كانَ رَسولُ الله صلىاللهعلیهوآله إذا أفطَرَ بَدَأَ بِحَلواءَ یُفطِرُ عَلَیها، فَإِن لَم یَجِد فَسُكَّرَةٍ أو تَمَراتٍ، فَإِذا أعوَزَ ذلِكَ كُلُّهُ فَماءٍ فاتِرٍ، و كانَ یَقولُ: یُنَقِّی المَعِدَةَ وَالكَبِدَ، …(30) ؛ پیغمبر خدا جب روزہ افطار کرتے تھے حلوا [شیرینی] سے آغازکرتے تھے اگر حلوا نہیں ہوتا تھا تو شکر یا خرما سے افطار کرتے تھے۔ اگر ان میں کچھ نہیں دستیاب ہوتا تھا تو گرم پانی سے افطار کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے: گرم پانی معدہ اور پھیپھڑے کو صاف کرتا ہے منہ کی بدبو کو ختم کرتا ہے اور دانتوں کو مضبوط کرتا ہے ۔۔۔ بلغم کو ختم کرتا ہے گناہوں کو دھو دیتا ہے معدہ کی گرمی کو آرام دیتا ہے اور سر درد کو ٹھیک کرتا ہے۔ – قال الإمام الباقر علیهالسلام: إنَّ عَلِیّا علیهالسلام كانَ یَستَحِبُّ أن یُفطِرَ عَلَى اللَّبَنِ(31) امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: علی علیہ السلام مستحب سمجھتے تھے کہ روزہ کو دودھ کے ساتھ افطار کریں۔ – قال الامام الصادق علیهالسلام: الإِفطارُ عَلَى الماءِ یَغسِلُ الذُّنوبَ مِنَ القَلبِ (32) ؛ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: پانی سے افطار دل سے آلودگیوں کو دھو دیتا ہے۔ التماس دعا
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید