تازہ ترین

اقبال ؒاور قوموں کے عروج وزوال کے اسباب ( قسط اول)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اقبال ؒاور قوموں کے عروج وزوال کے اسباب محمد سجاد شاکری Email: msshakri1984@gmail.com مقدمہ: کائنات کا یہ نظام جوایک حکیم وداناخالق کی تصویرکشی ہے،اس عظیم مصورنے جس طرح کامل اورحسین ترین تصویر کی نقاشی کی ہے اسی طرح اس حکیم نے اپنی حکمت بے مثال سے اس نظام کی بقاء واستمرار […]

شئیر
36 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10353

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اقبال ؒاور قوموں کے عروج وزوال کے اسباب
محمد سجاد شاکری

Email: msshakri1984@gmail.com

مقدمہ:
کائنات کا یہ نظام جوایک حکیم وداناخالق کی تصویرکشی ہے،اس عظیم مصورنے جس طرح کامل اورحسین ترین تصویر کی نقاشی کی ہے اسی طرح اس حکیم نے اپنی حکمت بے مثال سے اس نظام کی بقاء واستمرار کے لیے کچھ قواعد وضوابط اوراصول وضع فرمائے ہیں۔

جوخود ذات لم یزل کی زبان میں سنت الٰہی اور فطرت اللہ سے مسمٰی ہے۔اور ان سنن الٰہی سے کائنات کا کوئی بھی ذرہ سرموانحراف نہیں کر سکتا۔(۱)یہ کائناتی ضابطے اورقوانین افراد سے لے کرخاندانوں ،قوموں،ملکوں،تہذیبوں اور حکومتوں تک کے عرو ج وزوال کو شامل ہیں۔

اقوام کی فناوبقا ء کن اصولوں کے زیر سایہ ہوتی ہے ؟ملکوں کاعروج وزوال کس بناء پر ہوتا ہے؟ تہذیب وثقافت کیسے بنتی اور بگڑتی ہے؟سلطنتیں اور حکومتیں کس طرح تاریخ کے نشیب و فراز میں ڈھانواں ڈول ہوتی ہیں؟تاریخ کا مطالعہ حقیقت میں انہی سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ اقوام عالم کے عروج وزوال کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں جابجا موجود ہیں۔جن کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ سے سنن الٰہی کے وہ سنہرے اصول ہمارے ہاتھ لگ سکتے ہیں جواقوام کے عروج وزوال کا سبب بنے ہیں۔چونکہ ہمارا موضوع علامہ اقبالؒ سے مربوط ہے اس لئے علامہ کے کلام میں قوموں خصوصامسلمان قوم کے عروج وزوال کے اسباب سے بحث کریں گے؛ یوں تو علامہ کے کلام میں جابجااقوام عالم خاص طور پرمسلم اقوام اور ملت اسلامیہ کے عروج و زوال کے بارے میں مطالب بیان ہوئے ہیں لیکن ہم نے اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے چندبنیاد ی اسباب عروج وزوال قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے؛ بنیادی طور پرکسی قوم کے عروج وزوال کے اسباب اقبالؒ کے کلام میں تلاش کریں تو ایک لمبی فہرست بنتی ہے لیکن ہم اپنے مقالے کی گنجائش کو مدنظررکھتے ہوئے دونوں کے پانچ پانچ اسباب بیان کریں گے۔

اسباب زوال:
۱۔ فکرغلامی وشکست خوردگی

۲۔ رجعت پسندی وآئین سے انحراف

۳۔ اختلاف وانتشار

۴۔ دین و سیاست کی جدائی

۵۔ ماڈرنزم یامغرب زدگی

اسباب عروج :
۱۔ آزادی

۲۔ فکرخودی،غیرت وحمیت

۳۔ اتحاد واتفاق

۴۔ رجوع بہ آئین الٰہی(ضرورت مذہب)

۵۔ امید آئندہ

اب ہم مذکورہ بالا ترتیب کے تحت پہلے اسباب زوال پر بحث کریں گے پھراسباب عروج کو زیر بحث لائیں گے۔
(جاری ہے۔۔۔)

اسباب زوال:

۱۔فکرغلامی وشکست خوردگی
فکر غلامی کی زنجیرجب تک پائوںمیں بندھی ہوئی ہے، بندگی کا طوق جب تک گلے کی زینت ہے ،زوال اس قوم کا مقدر ہے۔ ایک زمانے تک تو یہ اپنی غلامی کا احساس تو کرتی ہے پھریہ اپنی غلامی کو بھی آزادی سمجھنے لگتی ہے۔اورپھرآزادی کی کوشش ہی نہیں کرتی ۔کیونکہ:
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد (۲)
اسی بے حسی کی وجہ سے آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف اقوام میں جب آزادی کی تحریکیں اٹھتی ہیں تو انہی اقوام کے بہت سارے بے حس و بے ضمیر افراد لوگوں کو آزادی کی بجائے غلامی کا درس دیتے ہیں۔ اور اگر کہیں سے ان کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے کوئی آواز دیتا ہے تو سو تھپکیاں ان کے سلانے کے لئے دینے والے موجود ہوتے ہیں۔گویا:
شاعر بھی ہیں پیدا علماء بھی حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دے رمِ آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ (۳)
غلامی وہ منحوس بلاہے جو کسی قوم پر پڑتی ہے تو اس سے سب کچھ چھین لیتی ہے۔ وہ اپنی حیثیت، خودی، مقام، ملک، آئین اور ثقافت حتیٰ کہ دین تک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ پھر دین فروشی بھی اس کے لئے ایک آسان عمل ہوجاتاہے ۔یوں:
دین ودانش را غلام ارزاں دہد
تا بدن را زندہ دارد جان دہد
گرچہ برلب ہای اونام خداست
قبلۂ او طاقتِ فرمانرواست
یعنی ‘‘غلام دین اور علم کو سستے دام بیچ دیتاہے، تاکہ بدن کو زندہ رکھے وہ جان دے دیتا ہے اگرچہ اس کے ہونٹوں پرخدا کا نام ہوتا ہے لیکن اس کا قبلہ وکعبہ اس کے حکمرانوں کی طاقت ہے۔’’ (۴)
اور کبھی تو یہ اپنی بدبختی کی اس گہرائی میں جا پہنچتاہے جہاں وہ اپنے دین کو جو انسان کاقیمتی ترین متاع ہے ایک روٹی کی خاطر بھی بیچ ڈالتاہے۔
علم حق را در قفا انداختی
بہر نانی نقد دین درباختی
یعنی‘‘ (اے مسلمان!)تو نے حق کے علم کو پیٹھ پیچھے پھینک دیاہے اور ایک روٹی کے لئے دین کی نقدی کو ضائع کردیاہے۔’’ (۵)
کوئی قوم دنیامیں ترقی کرنا چاہتی ہے، تو اسے غلامی کی زنجیروں کو توڑے بغیر اور غیروں کی بندگی کا طوق گردن سے اتارے بغیر ترقی نصیب نہیں ہوسکتی کیونکہ:
جہاں میں لذتِ پرواز حق نہیں اس کا
وجود جس کا نہیں جذبِ خاک سے آزاد (۶)
اگر غلامی سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرایا، ظالموں کے سامنے اپنی کمزوری دکھائی اور ظالم کی طاقت سے مرعوب ہوکر سر جھکا کر رکھا تو :
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات (۷)
جس قوم نے بھی درباروں، ایوانوں اور تہذیب و ثقافت کی دنیامیں ستمگروں ، ظالموں ،جابروں اور سلطہ گروں کی کاسہ لیسی اور غلامی کو اپنی زندگی سمجھ رکھی ہے وہ کبھی بھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتی ، انہیں اپنی روح، جسم، ایمان، عقیدہ، فکر اورقوم وملت کی آزادی کے لئے اپنی اور اپنی قوم کی حیثیت کو اور خودی کو پہچاننا ہوگا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں (۸)

۲۔رجعت پسندی اور آئین سے انحراف:
جو قوم بھی موجودہ دور میں خود کو دقیانوسی تصور کرے تو وہ نہ تو موجودہ دور کی طرح رویہ اپنائے گی اور نہ ہی موجودہ دور کے دوسرے اقوام کی طرح منفعت حاصل کرے گی۔ کیونکہ رجعت پسندی اپنی اصل راہ سے ایک طرح کا انحراف ہے ، جو شخص بھی اس راہ پر الٹا چلے گا وہ خواہ نا خواہ اپنی منزل سے دور ہوتا چلاجائے گا۔
اس طرح اقوام وملل کے لئے بھی خداکی یہ سنت جاری ہے کہ جو قوم بھی راہ کی الٹی سمت چلے وہ ہرقدم پر اپنی منزل سے دور ہوتی جائے گی۔ اگر ہم مسلمانوں کی تاریخ پر ایک قوم کی حیثیت سے نگاہ کریں تو معلوم یہ ہوتاہے کہ جب سے اس قوم نے اسلام کی تعلیمات اور آئین و اقدار اسلامی سے انحراف کرکے دور جاہلیت کی رسومات کی طرف رجوع کیاہے تب سے ہر طرف:
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟(۹)
اور اقبالؒ کا یہ تبصرہ بھی حق بجانب ہے کہ:
مسلمان ہے توحید میں گرمجوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی (۱۰)
قوموں کو ترقی کرنے کے لئے ایک کامل اور بااثر آئین کا ہونا ضروری ہے لیکن اگر کسی کے پاس کامل آئین ہو پھر بھی وہ ترقی کی بجائے تنزل کی طرف جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم نے اپنا آئین چھوڑ دیا ہے اب یہ یا تو کسی ناقص آئین کا فریفتہ ہے یا بے آئین جنگل کی زندگی گزار رہی ہے ۔دونوں صورتوںمیں اس کے :
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں (۱۱)
اپنے آباء و اجداد کے کارناموں اوران کے عروج کی بلندیوں کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ کرنے کی ضرورت نہیں چونکہ :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر (۱۲)
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب ناامید ہوجائے بلکہ خود بھی ہمت کرے تو:
آج بھی ہو جو براہیم کاایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا (۱۳)

۳۔اختلاف و انتشار:
‘‘لڑاؤ ،تقسیم کرو اور حکومت کرو’’کی پالیسی کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے اور اسی کو مدنظر رکھ کر دشمن ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ ضعیف اقوام کو اپنے تسلط میں رکھے اور جب تک کوئی قوم اتحاد کی نعمت سے مالامال ہے کوئی دشمن اس پر پنجہ نہیں گاڑ سکتا، لہٰذا دشمن اولین کوشش یہی کرتا ہے کہ تفرقہ ایجاد کیاجائے آپس میں لڑائے اور معاشرے یا قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے تاکہ لقمہ نگلنے میں آسانی ہو ۔آج کے دور کا مطالعہ کرے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ:
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم (۱۴)
جب تک دشمن کی ان چالبازیوں سے ہوشیار ہو کر اتحاد واتفاق کے لئے کوشش نہ کیا جائے تو زمانے میں ترقی اور عروج ممکن نہیں ہے اختلاف وانتشار اصلاً کامیابی کا رمز ہی نہیں ہے بلکہ یہ پستی اور زوال کی کلید ہے،کتنا اچھا ہوتا کہ ساری اقوام آپس میں متحد ہوجاتیں خصوصاً وہ قوم جس کی :
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (۱۵)
آج جو قوم بھی ترقی کی راہوں کو طے کر رہی ہے اور عروج کی منازل میں سفر کر رہی ہے وہ اتحاد کے زینے سے ہی بلندی کا سفر کر رہی ہے اختلاف وانتشار چاہے قومیت کی بناء پر ہو یا رنگ ونسل کے اعتبار سے ،مکتب ومشرب کے نام پر ہو یا مذہب وفرقہ کی بنیاد پر ،تمام قسم کا اختلاف و انتشار دشمن کی دیرینہ خواہش ہونے کے علاوہ ان کی سازش بھی ہے ؛لہٰذااس سے ہوشیار رہنا چاہئے اور اختلاف کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔اقبال ؒ کی روح بھی ہم سے یہی کہہ رہی ہے :
ای کہ نشناسی خفی را از جلی ہوشیار باش
ای گرفتار ابو بکر و علیؑ ہوشیار باش (۱۶)

۴۔دین وسیاست میں جدائی:
بعض مغربی مفکرین کی یہ کوشش رہی ہے کہ دین کو انسان اور انسانیت کے لئے زہر قاتل جلوہ دیں اسی لئے دین کو افیون اور عقل زائل کرنے والے نشے سے تعبیر کرتے رہے ہیں جبکہ یہ سراسر ناانصافی اور غلط بیانی ہے ۔کیونکہ دین نہ غلامی اور جمودفکری کا نام ہے اورنہ ہی غیر منطقی حرکتوں کا ،دین نہ ہی جہل ونادانی کے مجموعے کا نام ہے اور نہ یہ کوئی سلانے والی دوائی ہے جسے وہ افیون قرار دے ۔بلکہ دین وہ واحد شیء ہے جو انسان کی زندگی کو تہذیب کے ڈھانچے میں ڈھال کر کمال کی طرف لے جائے۔ دین ہی کسی کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے؛ اس کے علاوہ جو بھی رہنمائی کے دعویدار ہیں سب کے سب راہزن ہیں ۔لہٰذا جب سے لوگوں نے دین کو زمان ومکان کی زندا ن میں مقید کر دیا ہے انسانیت کے یوم الحزن کا آغاز ہوگیاہے۔
آج آپ اگر دنیا میں امن ،سکون،سچائی،عدالت،محبت،اخوت،رواداری،احسان،غیرت ،اور آزادی جیسے الٰہی اقدار کافقدان دیکھتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر عوامی استحصال،دوستی کے نام پر دغابازی،قیام امن کے نام پر دہشت گردی،روشن فکری کے نام پر بے حیائی اور آزادی کے نام پر غلامی کی زنجیریں دیکھتے ہیں تویہ سب اسی وقت سے ہوا ہے :
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دین کے لئے نامرادی
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دار نذیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری(۱۷)

۵۔ماڈرنزم یا مغرب زدگی:
کسی ماحول میں بیماریا ں اس وقت عارض ہونا شروع ہوجاتی ہے کہ جب اس ماحول میں جراثیم ایجاد کرنے والی گندگیاں اور کثافتیں صاف نہ کی جائیں اور جراثیم کش ادویات کا استعمال عام نہ ہو ۔لیکن اگر اس ماحول کے رہنے والے وہاں موجود گندگیوں کی صفائی نہ کرنے کے علاوہ باہر سے مزید گندگیاں ادویات کے نام پر امپورٹ کرنا شروع کر دیں تو اس ماحول کے لوگوں پر تو قبل از وقت فاتحہ پڑھ لینا چاہئے ،کیونکہ اب اس کی تباہی وبربادی یقینی ہے ۔بالکل اسی طرح آج ہمارے معاشرے کی مثال ہے جو ماڈرنزم اور تہذیب وثقافت کے نام پر کتنے تباہ کن اور مہلک روحانی وجسمانی امراض مغرب سے امپورٹ کر رہے ہیں کیونکہ :
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
زندہ کر سکتی ہے ایران وعرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور (۱۸)
یہ بیماریاں اور جراثیم اس وقت ختم ہوگی جب ہم میں کوئی ایسا مجاہد نکلے جو یہ صدا بلند کرے کہ:
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے(۱۹)
ہم مغرب سے تعلیم حاصل کر نے کی مخالفت نہیں کرتے کیونکہ علم جہاں سے ملے حاصل کرنا چاہئے،لیکن ہم مغرب زدگی کے خلاف ہیں اور تعلیم کے نام پر جو جراثیم منتقل کئے جاتے ہیں ان کے خلاف ہیں ۔کوئی ہم کو جوانوں کی ترقی سے خوشی اور مسرت نہ ہونے کا الزام نہیں دے سکتے کیونکہ:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ (۲۰)

حاشیے:

۱۔قرآن مجید سورہ فاطر آیت ۴۳۔
۲۔کلیات اقبال اردو ص ۴۳۴۔
۳۔ایضاً ص ۵۲۳۔
۴۔کلیات اقبال فارسی ص ۲۰۷۔
۵۔ایضاً ص ۳۲۵۔
۶۔کلیات اقبال اردو ص ۴۰۱۔
۷۔ایضاًص ۳۹۶۔
۸۔ایضاًص ۳۶۲۔
۹۔ایضاًص ۱۸۷۔
۱۰۔ایضاًص ۳۶۵۔
۱۱۔ایضاًص ۵۸۵۔
۱۲۔ایضاًص ۱۸۸۔
۱۳۔ایضاًص ۱۸۹۔
۱۴۔ایضاًص ۴۵۳۔
۱۵۔ایضاًص ۱۸۶۔
۱۶۔ایضاًص ۲۴۱۔
۱۷۔ایضاًص ۳۶۰۔
۱۸۔ایضاًص ۲۶۲۔
۱۹۔ایضاًص ۴۶۳۔
۲۰۔ایضاًص ۱۹۲۔

 

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *