امامت معاشرہ کي حاکميت کے معنيٰ ميں
جيسا کہ عرض کر چکا ہوں امامت کا مطلب اپنے پہلے معني کے مطابق رياست عامہ ہے – يعني پيغمبر کے دنيا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا وہ عہدہ جسے معاشرہ کي رہبري کہتے ہيں، خالي ہو جاتا ہے – اور اس سے کسي کو انکار نہيں کہ انساني معاشرہ ايک رہبر کا محتاج ہے –
اب سوال يہ ہے کہ پيغمبر کے بعد معاشرہ کا حاکم و رہبر کو ن ہے ؟ يہ وہ مسئلہ ہے جسے بنيادي لو- پر شيعہ بھي تسليم کرتے ہيں اور سنّي بھي – شيعہ بھي کہتے ہيں کہ معاشرہ کو ايک اعليٰ رہبر و قاعد اور حاکم کي ضرورت ہے اور سنّي بھي اس کا اقرار کرتے ہيں – يہي وہ منزل ہے جہاں خلافت کا مسئلہ اس شکل ميں سامنے آتا ہے – سيعہ کہتے ہيں کہ پيغمبر نے اپنے بعد ايک حاکم و رہبر معين کرديا اور فرمايا کہ ميرے بعد مسلمانوں کے امور کے امام علي کے ہاتھوں ميں ہوني چاہيے اور اہل سنت اس منطق سے اختلاف کرتےہوئے کم از کم اس شکل ميں جس شکل ميں شيعہ مانتے ہيں يہ بات قبول نہيں کرتے اور کہتے ہيں کہ اس سلسلہ ميں پيغمبر نے کسي خاص شخص کو معين نہيں فرمايا تھا – بلکہ يہ خود مسلمانوں کا فرض تھا کہ پيغمبر کے بعد اپنا ايک حاکم ورہبر منتخب کرليں چنانچہ وہ بھي بنيادي طور پر امامت و پيشوائيکو تسليم کرتے ہيں کہ مسلمانوں کا ايک حاکم و رہبر ضرور ہونا چاہءے بس اختلاف يہ ہے کہ ان کے نزديک رہبر انتخاب کے ذريعہ معين ہوتا ہے اور شيعہ کہتے ہيں کہ حاکم و رہبر کو خود پيغمبر نے وحي کے ذريعہ معين فرماديا ہے –
اگر مسئلہ امامت يہيں تک محدود رہتا اور بات صرف پيغمبر کے بعد مسلمانوں کے سياسي رہبر کي ہوتي تو انصاف کي بات يہ ہے کہ ہم شيعہ بھي امامت کو اصول دين کے بجائے فروع دين کا جزو قرار ديتےاور سمجھتے ہيں کہ يہ بھي نماز کي طرح ايک فرعي مسئلہ ہے ليکن شيعہ جس امامت کےقائل ہيں وہ اس قدر محدود نہيں ہے کہ چونکہ علي بھي ديگر اصحاب مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان اور سيکڑوں اصحاب يہاں تک کہ سلمان و ابوذر کي طرح پيغمبر کے ايک صحابي تھے ليکن ان سب سے بر تر و افضل، سب سے زيادہ عالم، سب سے زيادہ متقي اور باصلاحيت تھے اور پيغمبر نے بھي انہيں معين فرماديا تھا – نہيں، شيعہ صرف اسي حد پر نہيں ٹھہرتے بلکہ امامت کے سلسلہ ميں دو اور پہلووں کےقائل ہيں – جن ميں سے کسي ايک کو بھي اہل تسنن سرے سے نہيں مانتے ايسا نہيں ہے کہ امامت کي ان دوحيثيتوں کو تو مانتے ہوں ليکن علي کي امامت سے انکار کرتے ہوں، نہيں !ان ميں سے ياک مسئلہ يہ ہے کہ امامت ديني مر جعيت کا عنوان رکھتي ہے –
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید