امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر
امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر
محمد لطیف مطہری کچوروی
امام صادق علیہ السلام نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے: میری والدہ ان خواتین میں سے ہیں، جو ایمان لائیں، تقویٰ اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی تھیں، اللہ نیک کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ آپ نے نصف زمانہ اپنے جد بزرگوار اور پدر گرامی کی تربیت میں گزارا۔ یہ قیمتی زمانہ آپ کے لئے خاندان وحی سے سے علم و دانش، فضیلت و معرفت الٰہی کسب کرنے کا بہترین موقع تھا۔ امام علیہ السلام اسلامی اخلاق اور انبیائی فضائل کا مکمل نمونہ تھے۔ آپ کا ارشاد ہے (کونو ادعاۃ الناس بغیر السنتکم) لوگوں کو بغیر زبان کے اپنے عمل سے دعوت دو۔ آپ حلم، بریباری، عفو و درگزر کے پیکر تھے۔ حاجت مندوں کی مدد کرنے کو باعث افتخار سمجھتے تھے۔
امام علیہ السلام کی شخصیت اور عظمت کو نمایاں کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ کا سخت ترین دشمن منصور دوانقی جب آپ کی خبر شہادت سے مطلع ہوا تو اس نے بھی گریہ کیا اور کہا: کیا جعفر ابن محمد کی نظیر مل سکتی ہے؟ مالک ابن انس کہتے ہیں کہ جعفر صادق جیسا نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں یہ خطور ہوا کہ علم، عبادت اور پرہیزگاری کے اعتبار سے جعفر بن محمد سے برتر بھی کوئی ہوگا۔ ابو حنیفہ جو حنفی مذہب کے امام ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے جعفر صادق سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا۔ ابن ابی العوجاء جو کہ اس زمانے کے مادہ پرستوں کے امام تھے، امام کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جعفر صادق بشر سے بالا تر ہیں، اگر زمین پہ کسی روحانی کا وجود ہوسکتا ہے تو وہ بشر کی صورت میں تجلی ریز ہو، تو وہ جعفر بن محمد ہیں۔ آپ کے علمی مقام کو بیان کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ اہل سنت کے ائمہ کے استاد ہیں۔ امام علیہ السلام کی بڑی درس گاہ میں بہت سے ایسے شاگردوں نے پرورش پائی، جنھوں نے مختلف مضامین میں علوم و معارف اسلام حاصل کرکے دوسروں تک منتقل کئے۔
آپ کے شاگردوں میں حمران بن اعین، مفضل ابن عمر اور جابر بن یزید جعفی کا نام قابل ذکر ہے۔ حمران کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: حمران اہل بیت بہشت میں سے ہے، جب لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ کسی کا تعارف کرائیں کہ اس سے سوال کریں تو آپ نے فرمایا مفضل کو میں نے تمہارے لئے معین کیا، وہ جو کہیں قبول کر لو، اس لئے کہ وہ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ جابر کے بارے میں آپ نے فرمایا: جابر میرے نزدیک اسی طرح ہیں جس طرح سلمان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک تھے۔ غرض علوم کو پہنچانے میں آپ کے والد بزرگوار نے زندگی کے آخری ایام میں اور آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں کام کیا اور آپ نے ان نظریات جن کو افلاطون اور ارسطو نے پیش کیا تھا، سب کو باطل قرا دیا اور دلائل کے ذریعے حقائق کو ثابت کیا اور پہلی مرتبہ دنیا کو یہ بتا دیا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے، زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے اور کائنات میں صرف چار عناصر نہیں بلکہ کئی ہزار عناصر ہیں۔
آج سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے، لیکن اس کے باوجود آج تک کوئی مائی کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا جو صادق آل محمد (ع) کے اس نظریئے کے خلاف کوئی چیز ثابت کرے۔ آپ کی ذات اقدس علوم کا ایک بحر بیکران تھا، جس کے مقابلے میں سائنس لاکھ درجہ ترقی کرے، تب بھی اس درجے تک نہیں پہنچے گی، اس لئے کہ آپ کا علم کسبی نہیں تھا بلکہ آپ کو خدا کی طرف سے اور اپنے آباو اجداد کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ آپ نے دہریوں، قدریوں، کافروں اور یہود و نصاریٰ سے بے شمار علمی مناظرے کئے اور ہمیشہ انہیں شکست دی۔ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ایک قدریہ مذہب کا مناظر اس کے دربار میں آکر علماء سے مناظرہ کا خواہشمند ہوا، بادشاہ نے حسب عادت اپنے علماء کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ اس قدریہ سے مناظرہ کرو۔ علماء نے اس سے کافی زورآزمائی کی، لیکن تمام علماء عاجز آگئے، اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فوراً ایک خط حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا اور اس میں تاکید کی کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ حضرت امام محمد باقر کی خدمت میں جب اس کا خط پہنچا تو آپ نے اپنے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرمایا کہ بیٹا میں ضعیف ہوچکا ہوں، تم مناظرہ کے لئے شام چلے جاؤ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار کے حکم پر شام پہنچ گئے۔
عبدالملک بن مروان نے جب امام محمد باقر علیہ السلام کے بجائے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا تو کہنے لگا کہ آپ ابھی کم سن ہیں، ہوسکتا ہے کہ آپ بھی دوسرے علماء کی طرح شکست کھا جائیں، اس لئے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ منعقدکی جائے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا، تم مت ڈرو، اگر خدا نے چاہا تو میں صرف چند منٹ میں مناظرہ ختم کر دوں گا۔ قدریوں کا اعتقاد ہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خدا کو بندوں کے معاملہ میں کوئی دخل نہیں اور نہ خدا کچھ کر سکتا ہے، یعنی خدا کے حکم اور قضا و قدر و ارادہ کو بندوں کے کسی امر میں دخل نہیں، لہذا حضرت نے اس کی خواہش پر فرمایا کہ میں تم سے صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“ پڑھو، اس نے پڑھنا شروع کی، جب وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا، ٹھہرجاؤ اور مجھے اس کا جواب دو کہ جب خدا کو تمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کا حق نہیں تو پھر تم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کر وہ خاموش ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا اور مجلس مناظرہ برخواست ہوگئی۔1
اہل سنت کی کتابوں میں ابو حنیفہ کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کا مناظرہ کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے، ابو حنیفہ بن ابی شبرمہ و ابن ابی لیلی، امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے،۲۔ امام صادق علیہ السلام نے ابن ابی لیلی سے فرمایا: یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ اس نے عرض کیا: یہ ایسا شخص ہے جو صاحب بصیرت اور دین میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ امام نے فرمایا: گویا یہ شخص دین کے امور میں اپنی رائے سے قیاس کرتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ امام نے ابو حنیفہ سے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: نعمان۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کسی بھی چیز کو اچھی طرح نہیں جانتے؟ اس کے بعد امام نے کچھ مسائل بیان کرنے شروع کئے، جن کا ابو حنیفہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
امام نے فرمایا: اے نعمان! میرے والد نے میرے جد امجد سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے جس شخص نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا، خداوند عالم نے اس سے فرمایا: آدم کو سجدہ کرو۔ اس نے جواب میں کہا: ”انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین” میں اس سے بہتر ہوں، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔ پس جو شخص بھی دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے، اس کو خداوند عالم قیامت کے روز ابلیس کے ساتھ محشور کرے گا، کیونکہ اس نے قیاس میں ابلیس کی پیروی کی ہے۔ ابن شبرمہ کہتے ہیں: پھر امام نے ابو حنیفہ سے سوال کیا: ان دو چیزوں میں سب سے عظیم چیز کیا ہے: انسان کو قتل کرنا، یا زنا کرنا؟ ابو حنیفہ نے کہا: انسان کو قتل کرنا۔ امام نے فرمایا: پھر خداوند عالم نے انسان کو قتل کرنے میں دو گواہوں کو کافی کیوں سمجھا جبکہ زنا کے شواہد میں چار گواہوں کو ضروری سمجھا ہے۔؟ پھر فرمایا: نماز زیادہ عظیم ہے یا روزہ؟ ابو حنیفہ نے کہا: نماز۔ امام نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے کہ حائض عورت اپنے روزوں کی قضا کرتی ہے، لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی۔؟ وائے ہو تجھ پر! تیرا قیاس کس طرح حکم کرتا ہے۔؟ خدا سے ڈر اور دین میں اپنی رائے سے قیاس مت کر۔۳
امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشہداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔ ابو ہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: “اے ابا ہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو”، میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، اسکے بعد فرمایا: “اس طرح سے مرثیہ پڑھو، جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو”، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:
امرر علی جدث الحسین
فقل لاعظمہ الزکیہ
“اپنے جد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں اور انکے پاکیزہ بدن کو کہیں ۔۔۔۔۔” امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔۴
امام صادق علیہ السلام نے منصور کے دور حکومت میں بڑی دشواری اور نگرانی میں زندگی گزاری، لیکن مناسب حالات میں حکام وقت پر اعتراض اور ان کو ٹوکنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جب منصور نے خط کے ذریعے چاہا کہ آپ اس کو نصیحت کریں تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا: جو دنیا کو چاہتا ہے، وہ تم کو نصیحت نہیں کر سکتا اور جو آخرت کو چاہتا ہے، وہ تمھارا ہم نشین نہیں ہوسکتا۔ ایک دن منصور کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھ گئی۔ ایسا بار بار ہوتا رہا، یہاں تک کہ منصور تنگ آگیا اور اس نے غصے میں امام جو تشریف فرما تھے، پوچھا کہ خدا نے مکھی کیوں پیدا کی ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا، تاکہ جو جابر ہیں، انہیں ذلیل و رسوا کرے۔ آسمان ولایت و امامت کےاس درخشاں ستارے کا وجود ظالم حکمران منصور کے لئے برداشت نہیں ہوا اور اس ملعون نے آپ کو زہر دینے کا ارادہ کیا اور آخرکار آپکو زہر سے شہید کیا گیا۔ یوں 25 شوال 148 ھ کو 65 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپکو آپ کے پدر گرامی کے پہلو میں بقیع میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
حوالہ جات:
۱۔ تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳۔
۲۔ الطبقات الکبرى، شعرانى، ج 1، ص 28 ; حلیة الاولیاء، ج 3، ص 193
۳۔ اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص 99
۴۔ کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104
دیدگاهتان را بنویسید