امام جواد علیہ السلام کی ثقافتی جدوجہد
امام جواد علیہ السلام کی ثقافتی جدوجہد
تحریر: عرفان حیدر بشوی
امام محمد تقی (ع) نے اپنی امامت کا آغاز ایسے وقت میں کیا جب شیعوں کے اقتدار کے باوجود معاشرے کا سیاسی اور سماجی میدان گہرے نظریاتی چیلنجوں اور مختلف تنازعات سے دوچار تھا۔
آپ کی امامت کا دور عباسی حکام کے دو جابر خلفاء (مامون اور معتصم) کی خلافت کے ساتھ مقرون تھا۔ مامون چونکہ امام رضا (ع) کے قتل سے بدنام اور لرزہ براندام ہوا تھا، اس لیے امام جواد (ع) کو مزید ستانا مناسب نہ سمجھا نیز اس وقت شیعوں کی طاقت کی وجہ سے اس نے حالات کو پرسکون رکھنے کی پوری کوشش کی،
اس لیے اس مقصد کے حصول کے لیے اسے یہ برداشت کرنا پڑا کہ امام محمد تقی ع اپنے والد محترم امام علی ابن موسی الرضا (ع) کی طرح معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی شرطیں لگا کر عملی طور پر ولایت قبول کرنے پر اپنی مجبوری کا اظہار کیا اور خلیفہ کے منصوبے کو ناکام بنا دیا جو اس مقصد کے لیے قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شیعوں کے نزدیک یہ “معتزلی مذہب” کا عروج تھا۔ معتزلی مکتب اُس وقت بہت مشہور تھا اور اُس وقت کی حکومت اس کے حامیوں کی بہت مدد کرتی تھی، انہوں نے دینی دستورالعمل اور دینی مطالب کو اپنی عقل کے سامنے پیش کیا اور جس چیز کو ان کی عقل نے درک کیا اسے قبول کیا اور باقیوں کا انکار کیا اور چونکہ کم عمری میں امامت کا منصب حاصل کرنا ان کے نزدیک ظاہری عقل سے مطابقت نہیں رکھتا تھا ان کی عقل اس چیز کو تسلیم نہیں کرتی تھی، اس لیے انہوں نے مشکل ترین اور پیچیدہ ترین سوالات اٹھائے اور امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے رکھ دیئے تاکہ امام علیہ السلام کو اسطرح علمی میدان میں شکست دے سکیں لیکن امام ع نے ٹھوس اور دقیق جوابات مضبوط دلائل کے ساتھ دے کر ان کو شکست دی اور اس میدان میں آپ سربلند ہوئے اس کے بعد اپنی امامت کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کیا اور اپنی امامت کو ثابت کیا اور یہ واضح کردیا کہ بچپن میں ہی مقام و منصب الٰہی کو پانا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔
اس دور میں اٹھائے گئے دیگر مسائل میں سے ایک مسئلہ ثقافتی یلغار کا مسئلہ تھا۔ عباسی خلفاء (مامون اور معتصم) نے ثقافتی یلغار کو عروج پر پہنچایا تھا اور لوگوں کو دھوکے میں رکھ کر ان کے مقدرات کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا تھا۔ تاریخ کے مطابق، مامون عباسی سب سے زیادہ چالاک اور منافق عباسی خلیفہ تھا جس نے شیعہ فکر پر حتمی فتح حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی اور اس کا آخری ہدف شیعہ اماموں کے ساتھ مناظرے کرنا، ان کو شکست دینا اور بالآخر شیعہ مذہب کا تختہ الٹنا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ شیعیت کا ستارہ ہمیشہ کے لیے زوال پذیر ہو جائے اور غاصب اور جابر حکمرانوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ (جوکہ شیعہ ہیں )ہٹا دیا جائے لیکن ایسے دور میں امام محمد تقی علیہ السلام نے فیصلہ کن اور مکمل الٰہی اختیار کے ساتھ انحرافات اور خرافات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ثقافتی یلغار سے بچا لیا اور جھوٹے خلفاء کے دوسرے مکر اور چالاکیوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اسلام اور شیعہ مذہب کا خوب دفاع کیا اور اس کے حق ہونے کو ثابت کیا۔(1)
منحرف اعتقادات کا خوب مقابلہ کیا۔ منحرف اعتقادات کے حامل لوگ ہمیشہ معاشروں کے لیے خطرہ اور زہر ثابت ہوتے ہیں، خاص کر اگر یہ انحرافات اور خرافات عقیدتی معاملات میں ہوں! اسی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت قرآن اور اھلبیت ع کو صحیح عقیدہ کا پیمانہ اور معیار قرار دیا۔ لیکن بدقسمتی سے بعض مسلمان اور کچھ شیعہ ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں۔
انہی میں سے ایک محمد بن سنان ہے جو کہ اہل بیت (ع) کی محبت میں غلو کرنے والوں میں سے تھا، اسی وجہ سے بعض علمائے رجال ان پر “مبالغہ آرائی” سے متہم کیا ہے۔ محمد بن سنان کہتا ہے: ایک دن میں امام محمد تقی علیہ السلام کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا اور میں نے شیعہ اختلافات جیسے مسائل کے بارے میں پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد(محمد بن سنان)! خدا نے سب سے پہلے پیغمبر(ص)، علی اور فاطمہ(ع) کے نور کو پیدا کیا، پھر اس نے دوسری اشیاء اور مخلوقات کو پیدا کیا اور ان پر اہل بیت (ع) کی اطاعت کو واجب کیا اور ان کے امور کو اہل بیت (ع) کے حوالے کردیا، اس لیے کسی چیز کو حلال اور کسی چیز کو حرام کرنے کا حق صرف اھلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کو ہی ہے۔ ان کا حلال اور حرام کرنا بھی خدا کے حکم اور مرضی سے ہے۔ اے محمد! اھلبیت ع ہی حقیقی اور اصل دین ہے۔جو بھی اھلبیت ع سے آگے جائے گا وہ بھی گمراہ ہو گا اور جو پیچھے رہے وہ بھی گمراہ ہو گا۔ نجات کا واحد راستہ اہل بیت (ع) کا ساتھ دینا ہے اور ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔(2)
امام محمد تقی علیہ السلام خلیفہ کی پابندیوں کے باوجود ، آپ ع نے وکلاء اور اپنے نمائندوں کے ذریعے شیعوں کے ساتھ ہمیشہ رابطے میں رہیں اور ان کی مشکلات کو دور فرماتے تھے اور شیعوں کے علمی مسائل حل فرماتے تھے دو ملعون عباسی خلفاء (مامون اور معتصم) کے دور حکومت میں آپ نے اپنے نمائندے ان کے پاس بطور نامحسوس بھیجے اور وسیع سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے شیعہ قوتوں کو بکھرنے سے روکا۔ مثال کے طور پر، امام ع نے اپنے وکلاء اور نمائندوں کو وقت کے خلیفہ کی حکومت میں شامل اور حساس سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کی اجازت دی۔ خلیفہ وقت نے امام کے بعض نمائندوں کو مختلف شہروں کا حاکم مقرر کیا اور تمام امور کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ دے دی البتہ خلیفہ وقت اس بات سے آگاہ نہیں تھا کہ یہ لوگ امام علیہ السلام کے چاہنے والے شیعہ ہیں وہ اس بات سے بے خبر تھا اگر اسے معلوم ہوتا تو وہ انہیں ضرور شہید کرتا یہ امام کی سیاست تھی اسطرح امام ع نے شیعوں کی حفاظت کی اور انہیں ختم ہونے سے بچایا۔(3)
آئمہ علیہم السلام کے مختلف ادوار میں مختلف قسم کے لوگ جو فکری اور عقیدتی اعتبار سے منحرف تھے ائمہ کرام ع نے اس قسم کے لوگوں سے نمٹے رہے ہیں اور ان کی ہدایت کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔
نویں امام ع کی امامت کے دوران بھی کچھ نظریاتی انحرافات تھے جن کی جڑیں سابقہ ادوار میں موجود تھیں لیکن آپ ع نے مختلف موقعوں پر ان انحرافات کا مقابلہ کیا اور اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے صحیح رائے کا اظہار کیا اور لوگوں کو باطل عقائد سے روکا۔امام محمد تقی علیہ السلام نے اس زمانے میں موجود فرقوں کے خلاف شیعوں کی رہنمائی فرمائی۔ان فرقوں میں سے ایک فرقہ، جیسا کہ ذکر کیا گیا، “اہل الحدیث” تھا جو مجسمی مذہب تھا جن کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ خدا کے لئے جسم کا قائل تھے۔ امام علیہ السلام شیعوں سے ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے:تم لوگوں کو اجازت نہیں ہے ہر وہ شخص جو اللہ کو جسم مانتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھو اور اسی طرح اس کو زکوٰۃ دینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔(4)
(مذھب واقفیہ)ایک اور فرقہ شیعوں کا جو شیعوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا، یہ وہ لوگ تھے جو امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان پر توقف کیا تھا اور ان کے بیٹے امام علی ابن موسی الرضا کی امامت کو قبول نہیں کیا تھا. “زیدیہ” بھی شیعوں سے نکلا ہوا ایک فرقہ تھا جو ائمہ علیہم السلام کا مذاق اڑانے کی وجہ سے ائمہ (ع) کو ان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا پڑا جیسا کہ امام محمد تقی علیہ السلام مذھب ”واقفیہ” اور “زیدیہ” کی ایک روایت میں ان کو اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے: وجوه یومئذٍ خاشعةٌ عاملةٌ ناصبة(5)
عباسی حکومت کے دور میں علمی اور نظریاتی مناظرے، ائمہ معصومین علیہم السلام کی علمی حیثیت کو داغدار کرنے اور ان کے علم اور یہاں تک کہ ان کی امامت پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے، علمی مناظرے اور علمی مباحثے کا اہتمام کرتی تھیں۔ یقیناً ایسا کر کے انہوں نے نہ صرف اپنا مقصد حاصل نہیں کیا بلکہ ان کی رسوائی کا باعث بھی بنے۔ چونکہ امام جواد علیہ السلام کم عمری میں امامت کرنے والے پہلے امام تھے، اس لیے ان سے مناظرے ہوتے تھے جن میں سے بعض بہت اہم اور مفید تھے۔ ان مناظروں کا مقصد اور راز یہ تھا کہ ایک طرف ان کی امامت بہت سے شیعوں کے لیے ان کی کم عمری کی وجہ سے پوری طرح سے ثابت نہیں ہوئی تھی، اس لیے انھوں نے ان سے آزمائش اور اطمئنان کی خاطر بہت سے سوالات پوچھے۔ دوسری طرف استدلال اور انتہا پسندی کا مکتب فکر کی پیداواری صلاحیتوں میں پروان چڑھ چکا تھا اور اس وقت کی حکومت بھی ان کا ساتھ دیا تھا اور ان کی پشت پناہی کرتی تھی اسی وجہ سے اس گروہ نے امام محمد تقی علیہ السلام سے علمی مقابلے کے میدان میں اتارنے کے لیے مشکل ترین فکری سوالات اٹھاتے تھے ۔ لیکن ان تمام علمی مناظروں اور پیچیدہ ترین عقلي سوالات کا جواب امام محمد تقی علیہ السلام نے امامت کے علم کے ساتھ، جو خدا کے علم سے ماخوذ ہے، فیصلہ کن جوابات کے ساتھ، اپنی امامت کے بارے میں تمام شکوک کو دور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بعد امام ہادی علیہ السلام کی امامت میں جو بچپن میں امامت پر فائز ہوئے تھے کوئی مسئلہ نہیں اور کسی نے بھی اعتراض اور اشکال نہیں کیا اور سب پر واضح ہوا تھا کہ بچپن میں امام ع کو منصب امامت پر فائز ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے یہی وجہ ہے “یحییٰ بن اکثم” کے ساتھ آپ ع کی حقانیت اور یحییٰ کی نا اہلی کو ثابت کرنا اور “ابن ابی داؤد” سے مناظرہ کرکے اس پر غالب آنا کچھ مناظروں کی مثالیں ہیں۔(6)
امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت کے وقت کچھ لوگوں نے امام کی کم عمری سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ وہ معاشرہ کے معاملات کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کام کر سکتے ہیں۔امام علیہ السلام نے اس خطرے کو محسوس کیا اور بغیر کسی تعارف اور اغماض کے اسے مسترد کر دیا۔”ابو عمر جعفر ابن وافد” اور “ہاشم بن ابی ہاشم” ان لوگوں میں سے تھے۔ امام محمد تقی (ع) نے ان کے بارے میں فرمایا: “خدا ان پر لعنت کرے، کیونکہ انہوں نے ہمارے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورے ہیں اور ہمیں اپنی دنیا کا ذریعہ بنایا ہے۔” (7)
مامون کا اپنی بیٹی کی امام محمد تقی (ع) سے شادی کے بعد حدیث سازوں کا مقابلہ، ایک مجلس میں جہاں مامون اور بہت سے دوسرے، درباری ملاء بیٹھے ہوے تھےجیسے: “یحییٰ بن اکثم”، یحییٰ نے امام محمد تقی (ع) سے کہا: روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام پیغمبر کی خدمت میں آئے اور کہا: اے محمد! خدا نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا: میں ابوبکر سے راضی ہوں! آپ اس سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہے؟۔ امام ع نے فرمایا: جو شخص اس روایت کو بیان کرے اس کو چاہیئے دوسری روایت کو نظر انداز نہ کرے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے حجۃ الوداع میں بیان فرمائی تھی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے لوگ ہیں جو مجھ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اس کے بعد وہ بڑھتے جائیں گے۔ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی روایتیں میری طرف نسبت دیں اس کا ٹھکانہ جھنم کی آگ ہو گا۔ پس اگرکوئی حدیث مجھ سے روایت کی جائے تو اسے قرآن اور میری سنت کے سامنے پیش کرو، جو قرآن اور میری سنت کے مطابق ہو اسے اخذ کرو اور جو قرآن اور میری سنت کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔ . یہ روایت مذکور قرآن سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ خدا نے ایسا فرمایا ہے۔
ولقد خلقنا الانسان و نعلم ماتوسوس به نفسه و نحن اقرب الیه من حبل الورید(8)
’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا چل رہا ہے اور ہم اس کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رضا اور ناراضگی خدا پر پوشیدہ تھا ؟ یعنی خدا کو اس چیز کا علم نہیں تھا؟ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ رہے تھے!؟(9)
یحییٰ ابن اکثم نے ایک اور روایت پیش کی اور امام محمد تقی علیہ السلام نے ہر ایک کا الگ الگ جواب دیا۔ قرآن کی غلط تفسیر اور غلط تشریحات کرنے والوں کا مقابلہ کرنا امام محمد تقی (ع) نے وحی کی حرمت کے محافظ کی حیثیت سے آیات قرآن کی گمراہ کن اور غیر معقول تشریحات کرنے والوں کو روکا اور علماء کو آیات کی صحیح تفہیم کی طرف رہنمائی کی۔ ایک دن معتصم کے دربار میں بعض علماء درباری نے ایک آیت کا حوالہ دے کر ایک فتوٰی جاری کیا۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے جو اس اجلاس میں موجود تھے، ان کی غلطی کی نشاندہی کی اور سامعین کے لیے صحیح تشریح فرمائی۔
محمد بن مسعود عیاشی سمرقندی نے اپنی تفسیر میں اس دربار میں رونما ہوے واقعے کا قصہ یوں بیان کیا ہے: معتصم عباسی کے زمانے میں خلیفہ کے کارندوں نے بہت سے چوروں کو گرفتار کیا اور خلیفہ کے دربار سے حکم طلب کیا کہ کیسے انہیں سزا دیا جایے؟؟ خلیفہ نے اس حساس واقعے پر ایک مشاورتی کونسل بلائی اور اس وقت کے علماء سے ان کے لیے شرعی حد کے نفاذ کے معیار کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا: اس سلسلے میں قرآن بہترین حل ہے، جہاں یہ آیت کہتی ہے:انّما جزاء الذین یحاربون اللّه و رسوله و یسعون فىالارض فساداً ان یقتّلوا او یصلّبوا او تقطّع ایدیهم و ارجلهم من خلافٍ اوینفوا من الارض(10)
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ یا قتل کیا جایے یا پھانسی دی جائے، یا ان کے اعضاء کاٹ دیے جائیں، یا ان کو تبعید (جلا وطن )کیا جائے۔ انہوں نے خلیفہ کو مشورہ دیا کہ وہ اس آیت کے مطابق مجرموں کے لیے درج بالا سزاؤں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔
معتصم عباسی نے بھی اسی جلسے میں امام علیہ السلام سے ان کی رائے پوچھی۔ پہلے امام علیہ السلام نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن جب خلیفہ کے اصرار کا سامنا ہوا تو انہوں نے اپنی رائے اس طرح بیان کی اور فرمایا : ان لوگوں نے آیت کی غلط تشریح اور غلط استدلال کیا ہے۔
اس آیت سے حکم شرعی استنباط کرنے کے لیے آیت میں زیادہ دقت کرنے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر تمام جوانب کی طرف دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے اور مختلف جرائم کے لیے مختلف سزاؤں کا تعین کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس مسئلہ کی مختلف صورتیں اور مختلف احکام ہیں: 1- اگر یہ ڈاکو صرف راستے کو ناامن کردیا ہے اور انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی دوسرے لوگوں کے مال لوٹے ہیں، ان کی سزا صرف قید ہے، اور یہی معنی (نفی ارض) کے ہیں۔ 2- اگر انہوں نے راستے کو ناامن بنایا ہو اور بے گناہ لوگوں کو قتل کیا ہو لیکن دوسروں کے مال پر قبضہ نہ کیا ہو تو ان کی سزا موت ہے۔ 3- اگر انہوں نے عوامی راستوں کی سے امنیت کو چھین لیے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو قتل کیا ہے اور لوگوں کے مال کو لوٹا ہے تو ان کی سزا زیادہ سخت ہونی چاہیے، یعنی پہلے ان کے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے کے برعکس کاٹ دیے جائیں، پھر اسے پھانسی دی جائے۔ معتصم کو یہ نظریہ پسند آیا اور اس نے اپنے ایجنٹ کو امام علیہ السلام کے قول کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا۔(11)
امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنی امامت کے بابرکت دور میں آپ نے اپنی ثقافتی جدوجہد کو آخر دم تک جاری و ساری رکھا یہاں تک کہ
ذی قعدہ کے آخر میں 220 ہجری میں معتصم (آٹھویں عباسی خلیفہ) کے حکم پر آپ علیہ السلام کی بیوی ام الفضل (مامون کی بیٹی) نے امام علیہ السلام کو زہریلے انگور سے شھید کر دیا گیا۔(12)
امام زہر سے مسموم کرنے کے باوجود بھی ام الفضل کی دشمنی پوری نہیں ہوئی تو اس ملعونہ نے امام علیہ السلام پر دروازہ باہر سے بند کر دیا اور لونڈیوں کو حکم دیا کہ وہ دروازہ کے باہر شور مچائیں تاکہ کوئی امام محمد تقی علیہ السلام کی آواز نہ سن سکے۔(13)
بالآخر اسی زہر کی وجہ سے امام علیہ السلام کی شہادت ہوئی اور آپ کے مقدس جسم کو بغداد ( کاظمین) میں ان کے جد امجد موسیٰ ابن جعفر (ع) کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔ لیکن اسی وقت ام الفضل نے اپنے کیے پر افسوس کیا اور رونے لگی۔ امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ اب جب کہ تم نے مجھے مار دیا ہے تو رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جان لو کہ تم نے جو خیانت کی ہے اس کی وجہ سے تمہیں اس قدر تکلیف پہنچے گی کہ اس کا علاج کبھی نہیں ہو سکے گا اور تم اتنی غربت اور تنگدستی میں مبتلا ہو جائے گی کہ اس کی تلافی نہیں ہو گی۔ امام علیہ السلام کے اسی بددعا کے نتیجے میں ام الفضل شدید بیماری میں مبتلاء ہوگئی اور اپنی تمام دولت اس کے علاج پر خرچ کردی اور غربت و تنگدستی میں مبتلا ہوکر بدترین حالت میں مرگئی۔
حوالہ جات:
(1)۔بحارالانوار، علامه مجلسى، ج 50، ص 74.
(2)۔اصول کافى، محمد بن یعقوب کلینى، ج 1، ص 44۔
(3)۔تاریخ سیاسى غیبت امام دوازدهم(ع)، حسین جاسم، ترجمه سید محمد نقى آیت اللهى، ص 79 – 78.
(4)۔التوحید، شیخ صدوق، ص 101.
(5)۔سوره غاشیه، آیات 3 – 2
(6)۔حیات فکرى و سیاسى امامان شیعه(ع)، رسول جعفریان، ص 490.
(7)۔اختیار معرفة الرجال، شیخ طوسى، ص 549.
(8)۔سوره ق، آیه 16
(9)۔بحارالانوار، ج 50، ص 84.
(10)۔سوره مائده، آیه 33
(11)۔تفسیر عیاشى، محمد بن مسعود عیاشى، ج 1، ص 315
(12)۔اصول کافى، ج 2، ص 492.
(13)۔ منتهى الآمال، شیخ عباس قمى، ج 2، ص 234 – 233
دیدگاهتان را بنویسید