تازہ ترین

امام حسن عسکری علیہ السلام کا فقیہ زمانہ علی بن الحسین کے نام خط

میں تمہیں وصیت کرت اہوں ۔اے میرے قابل احترام ،قابل اعتماد اور فقیہ ابو الحسن علی بن الحسین علی بن بابویہ قمی خدا تم کو اپنی مرضی کے مطابق کامیاب و کامران فرمائے
شئیر
99 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3242

’’ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے ،عاقبت متقین کیلئے ہے، جنت موحدین کیلئے ہے، ظالمین کے علاوہ کوئی دشمن نہیں ہے ،احسن الخالقین اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، اور درود وسلام ہو سب سے افضل مخلوق محمد اور آپ ؐ کی طیبہ و طاہرہ عترت پر ۔

اما بعد: میں تمہیں وصیت کرت اہوں ۔اے میرے قابل احترام ،قابل اعتماد اور فقیہ ابو الحسن علی بن الحسین علی بن بابویہ قمی خدا تم کو اپنی مرضی کے مطابق کامیاب و کامران فرمائے ،اپنی رحمت اور تقویٰ کے ذریعہ تمہارے صلب میں نیک اولاد قرار دے۔ نماز قائم کرو ،زکات ادا کرو ،اپنے گناہوں سے استغفار کرو ،غصہ کو پی جاؤ ،صلۂ رحم کرو ،برادران کے ساتھ مواسات کرو اور ان کی پریشانیوں میں حاجتیں پوری کرنے کی کوشش کرو ،ان کی جہالت و نادانی کے موقع پر بردبار بنو، دین میں تدبر کرو، اپنے امور میں ثابت قدم رہو ، قرآن کیلئے ان سے معاہدہ کرو ،حُسنِ خُلق سے پیش آؤ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو ،اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے: ( لاَخَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاس[1]) ،’’ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر وہ شخص جو کسی صدقہ، کار خیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے ‘‘ تمام برائیوں سے اجتناب کرو ،تم پر نماز شب پڑھنا واجب ہے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی ؑ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ہے :اے علی ؑ تم پر نماز شب پڑھنا واجب ہے (اس جملہ کی آپ ؐ نے تین مرتبہ تکرار فرمایا )اور نماز شب کو سبک شمار کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ،میری وصیت پر عمل کرو، میرے شیعوں کو اس کا حکم دو یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرنے لگیں ،تم پر صبر اور انتظار فرج کرنا واجب ہے ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا فرمان ہے :میری امت کا سب سے افضل عمل انتظار فرج ہے۔

شیعہ ہمیشہ حزن و الم میں رہیں گے یہاں تک کہ میرا وہ فرزند ظہور کرے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی، اے میرے قابل احترام صبر کرو اور شیعوں کو صبر کرنے کا میرا حکم پہنچاؤ خداوند عالم کا فرمان ہے 🙁 ِانَّ الْأَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِینَ [2])،’’زمین خدا کے لئے ہے وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہتا ہے وارث بناتاہے اور انجام کار بہر حال صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے ‘‘ہمارے لئے اللہ کافی ہے وہ سب سے اچھا کار فرما ہے ،وہ سب سے اچھا مولیٰ اور سب سے اچھا مددگار ہے[3] ‘‘۔

اس خط سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:

۱۔ امام ؑ نے فقیہ معظم علی بن الحسین کے بلند مقام کی طرف اشارہ فرمایا کہ امام نے اُن کو اُن کریم صفات سے متصف فرمایا ہے جو امام ؑ کے نزدیک ان کی عظیم شان و منزلت پر دلالت کرتی ہیں ، علماء رجال اور مورخین سے روایت ہے کہ آپ بزرگ فقہاء میں سے تھے ،آل محمد (ص) کی جانب رہنمائی کرنے والوں میں سے تھے ،امور دین کے سلسلہ میں بہت ہی غیور ،ملحدین کی بنیادوں کو نیست و نابود کردینے والے اور ارکانِ شریعت میں سے تھے ،آپ ؑ اتنے مؤثق اور بلند مقام و منزلت کے حامل تھے کہ فقہائے امامیہ آپ سے فتاوے اخذ کرتے اور جب نصوص و روایات میں اختلاف ہوتا تھا اُن ہی پر اعتماد کرتے تھے جیسا کہ اسی مطلب کا شہید اول نے اپنی کتاب ’’الذکریٰ ‘‘میں اشارہ کیا ہے ۔

۲۔امام ؑ نے اس خط میں علی بن بابویہ قمی کیلئے نیک و صالح اولاد کیلئے دعا فرما ئی ہے خدانے آپ کی دعا مستجاب فرمائی اور آپ کو ابو جعفر محمد فرزند عطا کیا جس کا لقب صدوق رکھا گیا جو امت میں فضل کے اعتبار سے علماء مسلمین کی ایک عظیم میراث ہے ،آپ نے شریعت کو زندہ کیا ،ائمہ طاہرین کے آثار مرقوم کئے تین سو سے زیادہ کتابیں[4] تالیف کیں جن میں آپ ؑ کی کتاب ’’من لا یحضرہ الفقیہ ‘‘سر فہرست ہے جو بہت ہی بڑی کتاب ہے اور امامیہ فقہاء کے نزدیک معتمد و معتبر کتاب ہے ۔

۳۔بیشک یہ خط امام ؑ کی باارزش وصیتیں ،مکارم اخلاق ،محاسن صفات ،صلۂ رحم ،برادران میں مواسات و برابری ،لوگوں کی حاجت روائی ،امور دین میں غور و فکر اوردیگر امور میں تلاش و جستجو کرنے کی رغبت دلاتا ہے ۔

۴۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے شیعوں کو فرج اور ظہور قائم آل محمد (ص) کے انتظار کا حکم دیا ، جو مستضعفین اور محرومین کی آرزو ہیں ،جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ،اپنی حکومت کے دوران کلمۃ اللہ کو بلند کریں گے اور اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی حکومت کو جاری رکھیں گے۔

حوالہ جات

[1] سورۂ نساء ، آیت ۱۱۴۔

[2] سورۂ اعراف، آیت ۱۲۸۔

[3] روضات الجنات ،جلد ۴، صفحہ ۲۷۳۔۲۷۴۔

[4] روضات الجنات، جلد ۴ ،صفحہ ۲۷۶۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *