امام خمینیؒ ایک عظیم اسلامی لیڈر/تحریر احمد علی جواہری
اے نجف ، قم ، مشہد ، تہران اور شيراز كے لوگو! میں تمہیں خبردار كرتا ہوں یہ غلامى مت قبول كرو كيا تم چپ رہو گے اور كچھ نہ کہو گے ؟ کیا ہمارا سودا كر ديا جائے اور ہم زبان نہ كھوليں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[2]
امامؒ کے اس تقرير نے تخت شاہی کو ہلا كرركھ ديا پورا ايران ارتعاش محسوس كرنے لگا سات دن بعد امام خمينى كو گرفتار كركے تہران کے مہر آباد ہوائى اڈے سےجلا وطن كر ديا گیا۔
انقلاب ایران کی کامیابی میں حضرت امام خمینی ؒ کے افکار و اعتقادات نے دنیا میں عظیم اور بنیادی تبدیلیاں ایجاد کیں ۔چونکہ امام خمینی ؒ نے دکھایا کہ ہر وہ قوم، جو ظلم وجور کے مقابلے میں استقامت کرے گي، کامیاب ہوگي ۔ حضرت امام خمینی ؒ کی مدبرانہ قیادت نے ایرانی عوام کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور اسلامی قوانین کی بنیاد پر ایک اسلامی نظام قائم کیا ۔
امام خمینیؒ کی عظمت و شخصیت ایک ایسے پہاڑ کی مانند ہے کہ جس کی چوٹی تمام بلندیوں کو سرکرتی ہو، وہ عرفان کی بلندیوں پر ایسے فائز تھے کہ ان تک دسترس حاصل کرنا مشکل ہے اس کے باوجود وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہیں تھے۔ آپ کی ہمہ جہت شخصیت وکمال تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس طاقت کہاں؟ اور ہماری کوتاہ فکرہمیں اس بات کا احساس عجز دلاتی ہے کہ ہم آپ کے وجود کی گہرائیوں تک پہنچ سکیں۔آپ کی ذات گرامی عظیم الشان رفعتوں اور عظمتوں سے بھی بلند و بالا تھی جتنا جنتا جس کے ظرف کی وسعت تھی اتنا ہی اس نے اس دریائے حکمت و معرفت سے حاصل کیا ہے۔وہ ایسے اعلیٰ کردار کے مالک تھے کہ ان کے دل میں محبت الٰہی کی شمع روشن تھی سب کچھ رکھنے کے باوجود ان کی زندگی ایک سادہ ترین انسان کی سی زندگی تھی۔ ان تمام مرحلوں میں آپ کے طرز زندگی میں ذرہ بھر فرق نہ آیا بلکہ جوں جوں وسائل ملتے گئے آپ کے زہد و تقویٰ میں اور اضافہ ہوتا گیا آپ نے ہمیشہ ہی انسانی خدمت اور دین الٰہی کے احیاء و بقاء کے لئے کام کیا جو بھی ہاتھ میں آیا مستحقوں کو دے دیا۔
امام خمینی ایک کامل انسان اور اسلام کے عظیم رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند مرتبہ فقیہ ، اصولی،فلسفی، عارف اورمربی تھے۔امام خمینی نے اپنے دور کے ظالم اور جابر حکمرانوں کو للکارا اور ان کے قائم کئے گئے ظلم کے نظاموں کو چیلنج کیا ،امام خمینی نے ہمیشہ ہر مظلوم کی حمایت کی اور ہر ظالم و جابر کے خلاف قیام کیا ،امام خمینی کی عظیم شخصیت کی برکات کے نتیجے اور اسلامی اصولوں پر پابندی کے سبب ہی ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا جو آج تک امام خمینی کے نائب حضرت امام خامنہ ای کی قیادت میں منزلوں کو طے کرتا ہوا ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔
امام خمینی فقط ایک اعلیٰ فقیہ،عظیم مجتہد،جیّد مذہبی رہنما،مرجع تقلید اور مذہبی شخصیت ہی نہیں ہیں بلکہ قابل تقلید سیاسی قائد مثبت اور اعلیٰ تعمیری سیاست کے بانی، عالمی استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والے’ مسلمانوں کو اپنے نظریات اور عمل کے ذریعے وحدت کی لڑی میں پرونے والے،عالم اسلام کو ان کے حقیقی مسائل کی طرف متوجہ کرنے والے،امت مسلمہ کو اس کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے چہرے سے شناخت کرانے والے اور دنیا کو اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر میدان میں ارتقاءکے مراحل طے کرنے کی مثال پیش کرنے والے عظیم انسان ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی جدوجہد میں امام خمینی نے 15سالہ جلا وطنی کے باوجود اپنے ملک کے عوام کی تربیت اور رہنمائی اس انداز سے کی کہ بالآخر عوام اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ہم ان کے خطابات میں اور ان کے تحریری شہ پاروں میں ان کے انقلابی منصوبوں کا بخوبی مطالعہ کرسکتے ہیں، جس میں انسان ایک طرف مشکلات کی گہرائیوں میں اترنے اور دوسری طرف ان مشکلات کے حل کی راہوں کو محسوس کرتا ہے۔ امام خمینی ؒنے اپنے سیاسی تجربے کی روشنی میں ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جن سے ایک طرف ایرانی عوام کے افکار و نظریات اور عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے تھے تو دوسری طرف شہنشاہی اور استبدادی نظام بھی ان پالیسیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ پالیسیوں کا یہ تسلسل انقلاب کے بعد بھی جاری رہا کہ جب بھی آپ کسی پالیسی کا اعلان فرماتے یا اجراء فرماتے تو اس کے اثرات جہاں ایران کے داخلی حالات پر پڑتے وہاں عالمی سطح پر بھی ایران کی عزت، مقام اور طاقت میں اضافے کا باعث بنتے۔
امام خمینی ؒ کے انقلاب کے اہم ترین اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے ایک اہم اسلامی ملک میں بے دین حکومت کو اسلامی حکومت میں تبدیل کر دیا اور اس طرح سے اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کی اسلامی تحریکوں کی آئیڈیل میں تبدیل ہوگیا۔ فکری قدرت کے لحاظ سے امام خمینیؒ صرف اور صرف ایک فرد یا کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ تاریخ کا دھارا موڑنے والی شخصیت تھے۔ آیت اللہ خمینیؒ کی سیاسی اور مذہبی زندگی اور استعمار کے خلاف انکی جدوجہد تاریخ میں جلی حرفوں میں ثبت رہے گی۔
آپؒ نے ملت ایران کو اغیارکی قید سے نجات دلائی اور ان کو سر مایۂ صد افتخار ، لطیف شخصیت اور خود اعتمادی عطا کی۔ اُس وقت جب تمام سیاسی طاقتیں دین کو مٹانے کی کوشش میں مصروف تھیں، آپؒ نے ایسے نظام کو قائم کیا جس کی بنیاد صالحیت اور اخلاقی اقدار پر تھی۔
امام خمینی ؒ جیسے حکیم اُمت رہنما نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہ فقط مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے درمیان وحدت ویکجہتی کا جو ایجنڈا اُٹھایا ہے ،اُس سے اُن کے گہرے دینی مطالعے اور بلند معاشرتی شعور کی عکاسی ہوتی ہے ۔
شہید مطہری امام خمینی ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
“وہ میر کارواں کہ دلوں کے سینکڑوں قافلے جس کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں!
اس کے عقیدت افروز نام۔۔۔ ، اس کی محبت انگیز خوشگوار یادوں۔۔۔، اس کی فردوس گوش باتوں۔۔۔، اس کے نورِ بصیرت ۔۔۔۔ اور حُسن فکر کے تذکرے زباں زد خاص و عام ہیں!!
میری اقلیم قلب و روح کے محبوب و محترم فاتح۔۔۔، جمہوری اسلامی کے بانی۔۔۔، میری آنکھوں کے نور۔۔۔
حضرت آیت اللہ سید روح اللہ خمینیؒ حسنئہ سماوی میں سے ایک حسنئہ عظمیٰ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کو عطا فرمایا”۔[3]
شاعر مشرق علامہ اقبال ؒنے بھی امام خمینی ؒ کے انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریت پر مبنی نظریہ ولایت فقیہ کی بھرپور نشاندہی و تائید کرکے اس کا برملا اظہار کیا تھا۔ پہلے مغربی نظام جمہوریت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
پھر اس کا حل اسلامی جمہوریت پر مبنی نظریہ ولایت فقیہ کی بھرپور نشاندہی و تائید کرکے یوں فرمایا ۔
دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جنیوا ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے[4]
مسلمان امریکی دانشور اور امریکہ کی ٹیمبل یونیورسٹی میں دینیات کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مصطفیٰ ایوب کہتے ہیں کہ میرا ماننا ہے کہ تاریخ، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو بیسویں صدی کی سب سے عظیم شخصیت کی حیثیت سے یاد کرے گی کیونکہ وہ ایسی شخصیت کے حامل تھے جس میں سیاسی اور دینی سوجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ بات صحیح ہے کہ غیبت صغریٰ سے ایک شیعی اسلامی مفہوم کے عنوان سے ولایت فقیہ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے لیکن امام خمینی نے اس موضوع کی الگ ہی تفسیر کی کہ امام معصوم علماء فقہ کے ذریعہ حکومت میں کردار ادا کرتا ہے اور وہ علماء امام علیہ السلام کے نائب ہوتے ہیں چنانچہ اگر آپ کی شخصیت میں وہ خصوصیات جسے امام علیہ السلام نے بیان کیا ہے پائی جاتی ہوں تو وہ فقیہ ہو گا۔[5]
یونان کے عیسائی مبلغ ڈاکٹر جارج موستاکیس کا کہنا ہے کہ میں ایک مسیحی ہوں، لیکن مجھے آیت اللہ خمینی سے بہت لگاو ہے، وہ امت اسلامی کے عظیم مصلح تھے۔ میں اور سارے آزاد ضمیر عیسائی یہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ انکی پیروی کریں۔ آیت اللہ خمینی کی سیاسی اور مذہبی زندگی اور استعمار کے خلاف انکی جدوجہد تاریخ میں جلی حرفوں میں ثبت رہے گی[6]۔
سویٹزر لینڈ کے مسلمان مفکر احمد ھوبر کا کہنا ہے کہ جب -791978میں نے امام خمینی کے بارے میں خاص طور سے ایرانی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے بہت تعجب ہوا، کیونکہ امام خمینی ہماری صدی کے پہلے مذہبی رہبر ہیں کہ جو ایسا انقلاب لائے ہیں جس میں مذہبی، سیاسی اور ثقافتی تینوں پہلو شامل ہیں۔ ہماری صدی کے سارے انقلاب سیاسی اور اجتماعی انقلاب تھے اسی لئے ان کے انقلاب مذہبی رنگ و بو سے دور تھے اور آج ان کا طریقہ کار پرانا ہوگیا ہے اور انکے حامی ختم ہو رہے ہیں لیکن امام خمینی رحمة اللہ علیہ پہلے مذہبی رہبر تھے جنھوں نے دین، سیاست اور ثقافت کو ایک جگہ جمع کر دیا اور اسی لئے یہ انقلااب جاری و ساری رہے گا۔ امام خمینی کے حیرت انگيز کاموں میں سے ایک جوان نسل سے گہرا رابطہ ہے[7]۔
امام اپنے سیاسی مکتب فکر کی شکل میں زندہ ہيں اورجب تک یہ سیاسی مکتب فکر زندہ ہے اس وقت تک امام کا وجود، امت اسلامیہ کے درمیان بلکہ بشریت کے درمیان باعث برکت اورجاوداں رہے گا ۔امام خمینی ؒ کا سیاسی مکتب فکر بہت سی غیرمعمولی خصوصیات کا حامل ہے ۔میں یہاں پر ان میں سے چند کی جانب اشارہ کرناچاہوں گا ۔ان میں سے ایک خصوصیات یہ ہے کہ امام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت اورسیاست باہم آمیختہ ہيں اورامام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت سیاست سے جدانہیں ہے ، سیاست وعرفان سیاست واخلاق ۔ امام جواپنے سیاسی مکتب فکر کے مجسم نمونہ تھے ان کے اندرسیاست اورمعنویت ایک ساتھ جمع تھی امام کے تمام اعمال وافعال اوران کے تمام اصول خدا اور معنویت کے محورکے گرد گھومتے تھے ۔امام کے اندرسیاست اورمعنویت باہم تھی اور آپ اسی پرعمل کرتے تھے حتی اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی وہ اپنامحورمعنویت کوہی قراردیتے تھے ۔ امام کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا کی احسن تقویم کے معیار پر تخلیق فرمائی ہے اور وہ اس دنیا کو چلانے والا اور اس کا مالک ہے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ جو اللہ کی شریعت کی ترویج کے راستے میں قدم بڑھاتاہے الہی سنت اورقوانین الہی اس کی مددکرتے ہيں ۔امام کا یہ یقین تھا کہ (وللہ جنودالسماوات والارض وکان اللہ عزیزاحکیما) امام قوانین شریعت کوہی اپنے اقدام وتحریک کی بنیاد سمجھتے تھے اورقوانین الہی کوہی اپنی تحریک کی علامت سمجھتے تھے۔ امام کا ہر اقدام اور تحریک ملک وقوم کی فلاح وسعادت کے لئے تھے جو اسلامی اورشرعی تعلیمات کی بنیادپرشروع کئے گئے۔ اسی لئے الہی فریضہ ہی امام کی نظرمیں سعادت وبھلائی کی کنجی تھی۔ یہی چیزامام کوبڑے بڑے اہداف تک پہنچانے میں مدد دیتی تھی ۔
امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد بھی ایرانی مذہبی رہنماﺅں اور سیاستدانوں نے اتحاد بین المسلمین کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے، دُنیا بھر میں موجود ایرانی سفارتخانے اور خانہ فرہنگ اس مشن کو جاری رکھنے میں اہم کردار اداکر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی سفارتخانے اور خانہ فرہنگ میں جو بھی پروگرام منعقد ہوتے ہیں ان میں تمام مسالک کے مسلمان شرکت کرتے ہیں۔ مقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای و دیگر مذہبی رہنما اپنی تحریر و تقریر سے اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے میں اپنی توانائیاں بھرپور صَرف کر رہے ہیں لیکن اسلام دشمن سامراجی طاقتیں آج بھی مسلم فرقوں کو آپس میں لڑانے کےلئے اپنی تمام کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کچھ بے ضمیر لوگوں کو خرید کر ان سے مختلف فرقوں کے درمیان تنازعات بڑھانے اور تفرقہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں رکھتے۔
منابع
i. ماہنامہ المنتظر لاہور، جون ۲۰۱۱
ii. کلیات اقبال،چاپ فضل سنز PVT کراچی اشاعت ۶،سال ۲۰۱۰ء
iii. www.aalmiakhabar.com
iv. Urdu.khamani.ir
v. Alarabiya.net
vi. Leader.ir
vii. Urdu.irib.ir
viii. www.wikpedia.org
ix. Mhzahra.com
دیدگاهتان را بنویسید