تازہ ترین

امام خمینی ایک ناقابل فراموش شخصیت/ فدا حسین ساجدی

سالہا می گذرد حادثہ ہا می آید۔
انتظار فرج از نیمہ خرداد کشم۔
بیسویں صدی میں جب اسلامی ممالک کے حکام اور عمائدین اپنی اقوام کی ابتر حالت بدلنے کے لئے جد وجہد کے بجائے ذلت، غفلت، عیش و عشرت اور استکباری طاقتوں کی غلامی میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے مقدرات میں استعماری طاقتوں کی خفیہ اور برملا مداخلت کا سلسلہ جاری تھا۔
برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن عناصر شیعہ علماء کی طرف سے ان کےلئے لاحق خطرات سے واقف ہو کر علماء کی مخالفت اور دین کو سیاست سے جدا کرنے کی سازشیں کررہی تھی ایسے حالات میں سنہ 1902 کو شہر خمین کے ایک علم و عمل کے جذبے سے سرشارگھرانے میں امام خمینی کی ولادت ہوئی۔

شئیر
29 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5446

آپ نے قم المقدس اور نجف اشرف میں دینی علوم کی تکمیل کی۔
امام خمینی پیغمبران الہی اور اولیاء خدا کے بعد انسانی تاریخ کے وہ عظیم اور معروف شخصیت ہیں جن کا تذکرہ پوری دنیا کی علمی، سیاسی اور سماجی محفلوں میں ہوتا رہے گا۔
کسی بھی واقعہ اور شخصیت کا جاودان ہونے اور لوگوں کے دلوں میں رہتی دنیا تک باقی رہنے کےلئے خاص اسباب اور عوامل در کار ہیں جن کی فراہمی اس واقعہ اور شخصیت کو ناقابل فراموش بنا دیتی ہے۔
امام خمینی انسانی تاریخ کے ناقابل فراموش شخصیتوں میں آپ کا شمار ہونا ان وجوہات کی بنا پر ہے جن کو آپ نے اپنی مختصر اور پر فراز و نشیب زندگی میں فراہم کئے ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔۔۔۔
1- علم ودانش سے آراستہ ہونا
حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں عالم ہوتے ہیں اور علم و دانش کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں وہ رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں اگرچہ ان کے بدن نابود ہوتا ہے لیکن ان کی یاد لوگوں کے دلوں میں موجود رہتی ہے۔
امام خمینی صحیح معنوں میں اپنی ذاتی صلاحیت، تذکیہ نفس ، خود سازی اور توسل کے ذریعے معقول اور منقول علوم دونوں میں کمال کا درجہ حاصل کیا تھا اس لئے آپ کا مشن اور آپ کی یاد زندہ و جاوید رہے گی۔
2-اخلاص کا بہترین نمونہ
انسان کا وجود اصل میں اس عظیم کائنات میں ایک ذرہ کی مانند ہے اور اس کی نابود اور فنا کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے وہ اگر اپنے آپ کو بے کران اور جاودان بنانا چاہتا ہے تو ہستی مطلق سے وابستہ اور پیوستہ رہے جس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اخلاص اور للاہیت کو نصب العین قرار دے اور اس تمام حرکات و سکنات رفتار و کردار مرضی الہی کے مطابق ہو۔
امام خمینی کی شخصیت صحیح معنوں میں اخلاص اور للاہیت کا بہترین نمونہ تھی آپ نے اپنی زندگی میں اخلاص کی اعلی مثال قائم کی۔
امام خمینی رح نے اس پر آشوپ دور میں ایران میں اسلامی انقلاب کو کامیاب بنانے کے ذریعے انسانی تاریخ کا وہ کم نظیر کارنامہ انجام دیا جس کی مثال عصر حاضر میں نہیں ملتی۔
آپ کی زندگی کے تمام محاذوں میں آپ کی کامیابی کا راز آپ کے اخلاص اور للاہیت تھے آپ نے اپنے ہدف ہر مکمل اعتقاد کے ساتھ اللہ کی مرضی حاصل کرنے کے لئے قدم اٹھایا تو اللہ تعالی نے آپ کو ہر میدان میں زبردست کامیابی عطا کی اور نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا میں آپ کے لئے فداکار فراہم کیا جو پروانہ کی طرح آپ کے شمع وجود پر قربان ہونے کےلئے تیار ہیں اور آج بھی آپ کی یاد ہر ایک کے دلوں میں زندہ ہے تو یہ آپ کے اخلاص کا نتیجہ ہے۔
3- پوری بشریت کا محسن۔
الہی تفکرات میں یہ بات مسلم ہے کہ توحیدی نظریہ کے مطابق کسی انسان کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے ذات، رنگ، نسل، حسب نسب قوم اور دولت فضیلت اور برتری کا معیار نہیں ہوسکتا بلکہ برتری کا معیار صرف اللہ کا خوف اور الہی تعلیمات کی پاسداری ہے اور یہ سوچ اور فکر تمام انسانوں کے لئے پسندیدہ امر ہے امام خمینی نے اپنی پوری زندگی میں اس قرآنی عظیم نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور آپ نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ وہ چیزیں جو دنیا پرست اور مادی دنیا کے دلدل میں پھنسے ہوئے لوگ کسی انسان یا قوم کی دوسرے پر فضیلت کا معیار سمجھتے ہیں وہ نہیں بلکہ فضیلت اور عزت کا معیار اللہ کی بندگی اور حقیقی اسلام کے تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے اسی وجہ سے پوری دنیا کے مستضعفین اور وہ لوگ جن کو عالمی استکبار نے رنگ، نسل، قومی اور علاقائی معیار کی تحت ظلم، بربریت اور پستی کا نشانہ بنائے ہوئے تھے وہ آپ کے گرویدہ بن گئے اور آپ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور آپ کا مشن ان کے توسط نہائی کامیابی تک جاری رہے گا۔
4- زہد و تقوا کا پیکر
امام خمینی کی ذاتِ اعلٰی صفات علم و حکمت، دین و دانش،رشد و ہدایت اور فکر و عمل کی پیکرِ جمیل تھی۔علم و عمل،زہد و تقویٰ ،تعلیم و تربیت اور اصلاحِ افکار و اعمال آپ کی پُروقار شخصیت کے لازمی اجزا تھے۔جہدِ مسلسل،عملِ پیہم، دینی درد، شخصیت وکردار سازی ، اصلاحِ معاشرہ، پاکیزہ افکار و اعمال کی تبلیغ و اشاعت آپ کی فکر و شخصیت کے نہایت شگفتہ اور دل آویز پہلو ہیں۔ آپ نے پوری زندگی درس و تدریس، تعلیم و تربیت ، تصنیف و تالیف، قیام و جہاد اصلاح و تربیت اور وعظ و ارشاد میں گذاری ۔ آپ نے اپنے علم و تقویٰ ، فکر و تدبّر ، بصیرت و دانائی اور مقامِ رشد و ہدایت کے لحاظ سے ایک جیّد عالم دین، بے مثال فقیہ اور باکمال مصلح و داعی کی حیثیت سے بہت منفرد اور ممتاز کار نامے سرانجام دیئے ہیں۔ مبدا فیّاض اور حب اہل بیت علیہم السلام نے آپ کو مجموعہء محاسن و کمالات بنا کر امّتِ مسلمہ کی ہدایت و قیادت کے لیے بھیجا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ تادمِ حیات نیابتِ انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کا زرّیں تاج اپنے سر پر سجائے نہایت بصیرت و ہوشمندی اور کمالِ اخلاص کے ساتھ دین و دانش، امت مسلمہ اور پوری دنیا کے مستضعفین کی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے اور نظام ولایت کے نفاذ کی خاطر جدوجہدکے کارواں کو کامیابی کی منزل سے ہم کنار کرتے رہے۔ آپ بلا شبہہ طلاب، علماء اور انقلابی جوانوں کی پُرسوز اصلاح و تربیت کرنے والے ایک باوقار مبلّغ و مصلح اور قابلِ رشک معلّمِ اخلاق تھے۔ آپ نے اپنی اصلاحی کاوشوں سے بیشمار گم گشتگانِ راہ کو جادہء مستقیم پر گامزن فرمایا اور اپنے مصلحانہ افکار و کردار سے ان گنت افراد کے سینوں میں قندیلِ ہدایت روشن کرکے ان کے ظاہر و باطن کو منور و تابناک کیا۔
‎دعوت و تبلیغ امّت آپ کی دبستان حیات کا ایک مستقل باب اور نہایت زرّیں عنوان ہے، آپ کی حیات کے اس درخشاں باب نے انفس و آفاق کی اندھیری دنیا میں جو اجالا پھیلا ہے، اس کا عملی مشاہدہ کرنے والے آج بھی ہزاروں ،لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ کی ہمہ جہت دینی ، ملّی ، علمی، تحریری ، تعمیری اور تبلیغی خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپ کی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ دین و مذہب کی تبلیغ اور اصلاح معاشرہ کے لیے وقف تھا۔ اصلاحِ افکار و اعمال کے لحاظ سے آپ ایک عہد ساز اور انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے، جس کی واضح دلیل ایران کا اسلامی انقلاب ہے جو آج بھی پوری دنیا کے آزادگان کے لئے مشعل راہ اور جویندگان راہ حقیت کے لئے نور افشانی کر رہا

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *