تازہ ترین

امام رضا علیہ السلام کاجاثلیق اور راس الجالوت کے ساتھ مناظرہ

یہود ی معروف عالم راس الجالوت جسےاپنے علم پر بڑا ناز تھا امام علی بن موسی الرضا علیہ ا لسلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوا۔
شئیر
98 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5468

امام رضا علیہ السلام کاجاثلیق اور راس الجالوت کے ساتھ مناظرہ

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
خداوند متعال کی طرف سے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بارہ معصوم جانشین منتخب ہوئے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی وارث اور مکتب تشیع کے نگہبان ہیں ۔ امامت و ولایت کے آٹھویں تاجدار ا مام رضا علیہ السلام نے بھی اپنی ساری زندگی انسانوں کی تربیت اور انہیں کمال تک پہنچانے کے لئے وقف کر دی ۔آپ اپنے علم لدنی سےتشنہ علوم کو سیراب اورانہیں صراط مستقیم پر گامزن کرتےرہے ۔ آپ کی تعریف آپ کے آباءو اجداد نے عالم آل محمد کے نام سے کیا چونکہ آپ معدن علم تھے ۔عباسی خلیفہ مامون نے آپ کو مدینہ سے زبردستی خراسان لے آیا اور اپنی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ مامون اپنے مختلف اہداف اور مقاصد کی خاطر تمام ادیان و مذاہب کے علماء کو امام علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کی دعوت دیتاتھا۔ آپ نے جاثلیق اور راس الجالوت کے ساتھ بھی مناظرہ انجام دیا جو اسی سلسلہ کی ایک کڑی ۔۱۔

محدث کبیر جناب شیخ صدوق (رہ) نے کتاب عيون أخبار الرضا عليه السلام میں امام رضاعلیہ السلام کے مناظرے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے ۔۲۔ حسن بن محمد نوفلی کہتے ہیں کہ ہم سب امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مولاؑ کا خادم جسکا نام یاسر تھا مامون کی طرف سے پیغام لے کر آیا کہ مامون کا دربار سجا ہے اورمختلف مذاہب کے علماء جمع ہیں اور امامؑ کو مناظرہ کی دعوت دی گئی ہے۔ امام ؑ نے جواب بھجوایا کہ میں جانتا ہوں کہ تیرا مقصد کیا ہے اور میں کل صبح آوں گا۔راوی کہتے ہیں کہ یاسر چلا گیا اور پھر امامؑ نے مجھ سے سوال کیا : ائے نوفلی تم عراقی ہو اور عراقی لوگ ہوشیار ہوتے ہیں بتاو :کہ اس دعوت مناظرے کے پیچھے مامون کا کیا مقصد ہے؟
میں نے عرض کیا: مولاؑ یہ لوگ آپ کو آزمانا چاہتے ہیں اور یہ کام خطرناک ہے۔ امامؑ نے پوچھا کیسے خطرناک ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ لوگ اہل بدعت اور متکلم ہیں، یہ لوگ عالم نہیں ہیں کہ حق بات اور دلیل کو قبول کر لیں بلکہ اسکا انکار کریں گے اور مغالطہ کریں گے،۔اگر آپ فرمائے گا کہ خدا ایک ہے تو وہ آپ سے کہیں گے کہ پہلے خدا کی وحدانیت کو ثابت کرے، اگر آپ فرمائیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو وہ آپ سے آنحضرت کی رسالت کو ثابت کرنے کو کہیں گے اور مغالطہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو مجبور کرنے کی کوشش کریں گے کہ آپ اپنی دلیلیں واپس لے لیں۔ میں آپ پر قربان جاؤں۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ امام علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا: اے نوفلی کیا تمیں یہ خوف ہے کہ وہ لوگ میری دلیلوں کو ردّ کردیں گے اور مجھے شکست ہوجائے گا؟ میں نے عرض کیا: نہیں مولاؑ،خدا کی قسم ایسا نہیں ہے میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ ان لوگوں پر غالب آجائیں۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : اے نوفلی، جاننا چاہتے ہو کہ مامون کب اپنی حرکت پر پشیمان ہو گا؟ میں نے عرض کیا، جی مولا میں جاننا چاہتا ہوں۔ امامؑ نے فرمایا : اس وقت جب مامون یہ دیکھے گا کہ میں توریت کے ماننے والوں کو توریت سے، انجیل کے ماننے والوں کو انجیل سے، زبور کو ماننے والوں کو زبور سے جواب دوں گا اور صابئین کو عبری زبان میں، مجوسیوں کو فارسی زبان میں، رومیوں کو رومی زبان میں جواب دوں گا اور ہر فرقہ کے علماء سے انکی زبان میں مناظرہ کروں گا اور اس وقت میں سب پر غالب ہو جاوں گا اور سب میری بات کو قبول کرکے اپنی شکست تسلیم کرلیں گے تب مامون کو پتہ چلے گا کہ جو وہ چاہتا ہے وہ اسکے لیئے شائستہ نہیں ہے اور اس طرح وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو جائے گا۔ پھر امامؑ نے فرمایا:( لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم) یہاں ہم ان دونوں مناظروں کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے۔
نصاری کا بڑا عالم جاثلیق جوہمیشہ کہتے رہتے تھے کہ مسلمان اور عیسائی دونوں نبوت حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اختلاف صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہے مسلمان ان کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہیں جبکہ عیسائی ان کی نبوت کے منکر ہیں۔مامون رشید کے اشارے پر وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوا ۔مامون نے جاثلیق کی طرف رخ کر کے کہا: اے جاثلیق: یہ شخص علی ابن موسی ابن جعفر ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آپ اس سے بحث کریں ۔جاثلیق نے کہا: اے امیر المومنین میں اس شخص سے کیسے بحث کروں جو کسی ایسی کتاب سے استدلال پیش کرتا ہے جسے میں قبول نہیں کرتا ہوں اور ایسے نبی کے کلام سے استفادہ کرتا ہے جس پر میں ایمان نہیں رکھتا ہوں ۔امام نے فرمایا: اے عیسائی اگر میں انجیل سے تمہارے لئے استدلال پیش کروں تو کیا تم قبول کروگے؟جاثلیق نے کہا : میں انجیل کے الفاظ کو کیسے مسترد کر سکتا ہوں؟ خدا کی قسم میں اسے قبول کروں گا۔امام نے فرمایا:اب تم جو چاہو پوچھ لواور جواب حاصل کرو۔جاثلیق نے پوچھا: آپ عیسی مسیح اوراس کی کتاب کے بارے کیا خیال رکھتے ہیں؟ کیا آپ ان دونوں پر ایمان نہیں رکھتے؟امام نے فرمایا:میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب انجیل پر اور جو کچھ انہوں نے بشارت دی ہے اور ان کے حواریوں نے قبول کیا ہے ان پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور میں اس عیسی مسیح کو قبول نہیں کرتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اورآپ کی کتاب قرآن مجید پر ایمان نہ رکھتا ہو اوراپنی امت کو ان چیزوں کی بشارت نہ دی ہو۔جاثلیق نے کہا: کیا ہر حکم کے لئے دو گواہوں کی ضرورت نہیں ہے؟امام نے فرمایا:جی ہاں.اس نے کہا :پھر دو ایسے گواہ پیش کرو جو مسلمان نہ ہو اورعیسائی بھی قبول کرے۔ امام نے فرمایا:کیا اس شخص کو قبول کرتے ہو جو عیسی مسیح کے نزدیک مقام و منزلت پر فائز تھا؟جاثلیق نے کہا: یہ شخص کون ہے؟ اس کا نام بتائیں؟امام نے فرمایا:یوحنا دیلمی کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہو؟اس نے کہا: آپ نے عیسی مسیح کے نزدیک سب سے پیارے شخص کا نام لیا ہے۔امام نے فرمایا:میں تجھے قسم کھلاتا ہوں ، کیا یہ انجیل میں ذکر نہیں ہوا ہے کہ یوحنا دیلمی نے کہا : عیسی مسیح نے مجھے محمد عربی کے مذہب کے بارے میں آگاہ کیا اور بشارت دیا کہ وہ اس کے بعد آئے گا ۔ میں نے بھی اپنے شاگردوں کو اس چیز کی بشارت دی ہے اورانہوں نے بھی ان پر ایمان لایا ہے ۔امام نے فرمایا:اگر میں یہاں ایک ایسے شخص کو پیش کروں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ان کے اہل بیت علیہم السلام اور ان کی امت کےبارے میں جو کچھ انجیل میں ہیں، ان کی تلاوت کریں تو کیا تم ایمان لاو گے ؟جاثلیق نے کہا: یہ بہت اچھی بات ہے۔امام نے نسطاس رومی کی طرف رخ کر کے فرمایا:تم انجیل زبانی پڑھ سکتے ہو؟اس نے کہا: میں اسے مکمل طور پر پڑھ سکتا ہوں۔پھر امام نے فرمایا: اے جاثلیق کیا تم نے انجیل پڑھی ہے؟ اس نے کہا : ہاں ۔امام نے فرمایا:میں انجیل سےپڑھ رہا ہوں اگر یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی اہل بیت کے بارے میں ہے تو تم گواہی دینا اور اگر ان کے بارے میں نہیں ہے تب بھی تم گواہی دینا۔ پھر امام نے انجیل کو پڑھ لیا اوراس سے پوچھا اب تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ عیسی مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں اگر انجیل کے ان عبارتوں سے انکار کرو گے تو گویا تم نے حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہمالسلام کی نبوت سے انکار کیا ہے۔ اگر تم ان انبیاء کی نبوت سے انکار کرو گے تو تم واجب القتل ہو جاو گے کیونکہ تم خدا اوراپنے نبی اوراس کی کتاب کے منکر ہوگئے ہو۔ اس نے کہا جو کچھ انجیل سے میرے لئے روشن ہو جاتے ہیں میں ان کو تسلیم کرتا ہوں۔ امام نے فرمایا:اس کے اس اعتراف پر گواہ رہنا۔
آپ نے فرمایا : اے جاثلیق ہم اس عیسی مسیح پر جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی ہے اسےنبی برحق سمجھتے ہیں ،اس پر ہمارا ایمان ہے لیکن تم جس عیسی مسیح پر عقیدہ رکھتے ہو اس پر ہمارا ایمان نہیں ہے کیونکہ وہ نماز اور روزہ کے پابند نہیں تھے۔ جاثلیق نے کہا ہمارا تو ایسا ایمان نہیں ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار رہا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا :عیسایوں کے عقیدے کے مطابق تو حضرت عیسی خود معاذ اللہ خدا تھے تو یہ روزہ اور نماز کس کے لیے انجام دیتے تھے۔ یہ سن کر جاثلیق مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
اس کے بعد اس نے کہا :جو مردوں کو زندہ کرے، جذامی کو شفا دے، نابینا کو بینا کردے اور پانی کے اوپر چلے تو کیا وہ لائق پرستش نہیں ہے ؟ کیا اسے معبود نہیں سمجھنا چاہئے؟ امام نے فرمایا :الیسع بھی پانی پر چلتے تھے، اندھے کو بینائی دیتے تھے، کوڑی کو شفا دیتے تھے۔ اسی طرح حزقیل پیغمبر نے انسانوں کو ساٹھ برس کے بعد زندہ کیا ۔ قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔اللہ تعالی نے ایک گھنٹہ میں سب کو مار دیا اور بہت دنوں کے بعدایک نبی ان بوسیدہ ہڈیوں کے پاس سےگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آواز دو۔ انہوں نے کہا کہ اے بوسیدہ ہڈیوں اللہ کے حکم سے اٹھ جاو تو وہ سب اٹھ کھڑے ہو گئے ۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پرندوں کو زندہ کرنے ، حضرت موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر جانے والوں کا دوبارہ زندہ کرنے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مردوں کو زندہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :کیا ان چیزوں کے بارے میں توریت ، انجیل اور قرآن مجید میں شہادتیں موجود نہیں ہے؟ اگر مردوں کو زندہ کرنے سے انسان خدا اور لائق پرستش ہو سکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خدا ہونے کے مستحق ہیں۔ یہ سن کر وہ چپ ہو گیا اور اس نے اسلام قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا۔
یہود ی معروف عالم راس الجالوت جسےاپنے علم پر بڑا ناز تھا امام علی بن موسی الرضا علیہ ا لسلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوا۔ اس نےامام علیہ السلام کی خدمت میں اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے ۔ اس کے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اے راس الجالوت!کیا تم توریت کی اس عبارت سے انکارکرتے ہو جس میں موجودہے کہ ایک نور، سینا کی طرف سے آیا اور کوہ ساعیر کو روشن کر دیا اورکوہ فاران سے نمایاں ہوا۔اس نے کہا ہم نے اسےپڑھا ہے لیکن اس کی تفسیر کا علم نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا: نورسے مراد وحی ہے ،طور سینا سے مراد وہ پہاڑہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام خداوند متعال سے ہم کلام ہوتے تھے۔ کوہ ساعیر سے مرادوہ مقام ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی ۔کوہ فاران سے مراد مکہ کے اطراف ہیں جو شہر مکہ سے ایک دن کے فاصلہ پر واقع ہے۔ پھر آپ نےفرمایا :تم نے حضرت موسی کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا اس کی بات ماننا اور اس کے قول کی تصدیق کرنا۔ اس نے کہا :ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھا کہ بنی اخوان سے مراد کون ہے ؟اس نے کہا : مجھے اس بات کا علم نہیں۔ آپ نے فرمایا:کہ وہ اولاد اسماعیل ہیں۔ وہ حضرت ابراہیم کے بیٹے اورحضرت اسحاق کے بھائی ہیں اور انہیں کی نسل سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:شعیانبی کا قول توریت میں مذکور ہے کہ میں نے دو سوار دیکھے کہ جن کے پروں سے دنیا روشن ہو گئی، ان میں سے ایک گدھے پر سوار تھا اور ایک اونٹ پر۔ اے راس الجالوت تم بتاو کہ اس سے کون مراد ہیں؟ اس نے دوبارہ کہا مجھے اس کا علم نہیں تو آپ نے فرمایا : راکب الحمار سے حضرت عیسی علیہ السلام اور راکب الجمل سے مراد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔اس کے بعد ارشاد فرمایا : تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا: کہ انہوں نے ایسے امور انجام دئیے جو ان سے پہلے والے انبیاء علیہم السلام نے انجام نہیں دئیے مثلا دریا نیل کا شگافتہ ہونا، عصا کا سانپ بن جانا، ایک پتھر سے بارہ چشمہ جاری ہو جانا اور ید بیضا وغیرہ۔
آپ نے فرمایا :جو بھی اس قسم کے معجزات انجام دے اور نبوت کا مدعی ہو تو اس کی تصدیق کرنی چاہیے؟ اس نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا کیوں؟ کہا اس لیے کہ موسی کو جو قربت یا منزلت اللہ تعالی کے نزدیک حاصل ہے وہ کسی کو نہیں ہے لہذا ہم پر واجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات و کرامات نہ دکھائے ہم اس کی نبوت کا اقرار نہیں کریں گے۔آپ نے فرمایا :تم حضرت موسی علیہ السلام سے پہلے والے انبیاء کی نبوت کا کس طرح اقرار کرتے ہو حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریا شگافتہ نہیں کیا اور نہ کسی پتھر سے چشمے نکالے، نہ ان کا ہاتھ روشن ہوا، اور نہ ہی ان کا عصا اژدھا بن گیا۔ راس الجالوت نے کہا: جب ایسے خارق العادہ امورکسی انسان سے ظاہر ہوں جن کے انجام دہی سے دوسرے لوگ عاجز ہوں اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یا نہ ہوں ان کی تصدیق ہم پرواجب ہو جاتی ہے۔ امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا : حضرت عیسی علیہ السلام بھی مردوں کو زندہ کرتے تھے،مادر زاد نابینا کو بینائی دیتے تھے ۔برص اور جذام والے کو شفا دیتے تھے، مٹی کی چڑیا بنا کر ہوا میں اڑاتے تھے۔ یہ وہ امور ہیں جن سے عام لوگ عاجز ہیں پھر تم ان کوپیغمبر اور نبی کیوں نہیں مانتے ہو؟
راس الجالوت نے جواب دیا: لوگ ایسا کہتے ہیں مگر ہم نے ان کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔امام نے فرمایا :کیا تم نے حضرت موسی علیہ السلام کے معجزات کو بذات خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ یہ بھی تو معتبر لوگوں کی زبانی متواتر طریقہ سےسنا ہے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات بھی ثقہ اور معتبر لوگوں سے سنا ہے۔ تمہیں ان کی نبوت پر ایمان لانا چاہئے۔بالکل اسی طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت بھی ہے ۔ان کے بھی بہت سارے معجزات ہیں جن میں سے ایک عظیم معجزہ، قرآن مجید ہے جس کی فصاحت و بلاغت کا جواب قیامت تک کوئی نہیں دےسکے گا یہ سن کروہ خاموش ہوگیا۔
حوالہ جات:
۱۔طبرسی، الاحتجاج، ج 2، ص 396۔
۲۔ شیخ صدوق ، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 154 باب نمبر ۱۲ –

 

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *