تازہ ترین

امام رضا علیہ السلام کی زندگی پر ایک مقدمہ

مامون وہ عباسی غاصب ملعون خلیفہ جس نے سازش سے امام علیہ السلام کو زہر کھانے پر مجبور کیا،معصوم امام علیہ السلام پر ظلم کرکے شہید کردیا اور حضرت غریب الغرباء کے چاہنے والوں نے حضرت کے مقدس و اطہر پیکر کو طوس میں حمید بن قحطبہ طائی کے مکان میں قبۂ ہارونیہ میں دفن کر دیا
شئیر
52 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4962

امام رضا علیہ السلام کی زندگی پر ایک مقدمہ
نہیں معلوم کہ آپ مدینہ کے بارے میں کیا کچھ جانتے ہیں لیکن حضرت امام رضا علیہ السلام مدینے کے اچھی طرح سے واقف ہیں،مدینہ میں ہی حضرت کی ولادت ہوئی۔افسوس کہ تاریخ نے امام علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا سال، ماہ اور دن دقت سے ثبت و ضبط نہیں کیا، شاید بعض تاریخ دانوں کو تو صحیح معلومات ہوں بھی لیکن اوراقِ تاریخ میں یہ امانتداری زیادہ محفوظ نہیں۔ تاریخ نے بہت کم ہی امانت کی پاسداری کی ہے ۔ آنحضرت کی ولادت باسعادت کی تاریخ کے باب میں ۱۴۸،۱۵۱ اور۱۵۳ ہجری قمری اور ۱۹ ماہ رمضان المارک بروز جمعہ ،۱۵ رمضان المبارک،۱۰ رجب المرجب بروز جمعہ اور ۱۱ ذیقعدۃ الحرام منقول ہے ،لیکن ظاہراً مشہور و معروف قول ۱۱ ذیقعدہ ۱۴۸ ہجری قمری یعنی وہی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے سال کے موافق ہے۔
شیخ مفید،شیخ کلینی،کفعمی،شہید ثانی،طبرسی،شیخ صدوق،ابن زہرہ،مسعودی،ابوالفداء ابن اثیر،ابن حجر،کسانی اور بعض دیگر اہل قلم نے امام علیہ السلام کے سال ولادت با سعادت کو۱۴۸ ہجری قمری درج کیا ہے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کے مبارک القاب اور مقدس کنیت ،ایسے تابندہ الفاظ کی صورت میں ہیں کہ رہتی دنیا تک تاریخ کی جبین پر جن کی تابندگی پائندہ رہے گی۔حضرت کی کنیت’’ابوالحسن‘‘جبکہ القاب’’صابر،زکی،ولی،فاضل،وفی،صدیق،رضی،سراج اللہ،نور الھديٰ،قرۃ عین المؤمنین،کلیدۃ الملحدین،کفوالملک،کافی الخلق، ربالسریر،رئاب التدبیر،رؤف،انیس النفوس،شمس الشموس،غریب الغرباء،۔۔۔۔۔اور رضا‘‘ہیں۔
’’رضا‘‘امام علیہ السلام کا مشہور ترین لقب ہے کہ حضرت کی شہادت کے بعد مدت مدید گذر جانے کے بعد بھی ابھی تک ہم سب اس مہربان امام علیہ السلام کو اسی مبارک لقب’’رضا‘‘سے یاد کرتے ہیں شاید آپ اس لقب کی دلیل جاننا چاہتے ہوں:
وہ اس وجہ سے ’’رضا‘‘کہلائے کہ آسمانوں میں پسندیدہ اور زمین میں بھی خداوند متعال اس کے انبیاء اور آئمۂ ہديٰ علیہم السلام اُن سے خوشنود ہیں‘‘۔اس مبارک لقب کی ایک اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس وجہ سے کہ موافق و مخالف تمام لوگ اس مہربان امام سے راضی و خوشنود تھے؛امام علیہ السلام’’رضا‘‘کہلائے۔اگرچہ تاریخ میں اس لقب مبارک کی ایک اور وجہ بھی بیان ہوئی ہے جو کہ نادرست ہے اور وہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام اس وجہ سے ’’رضا‘‘کہلائے کہ مأمون خلیفہ ان سے راضی تھا،لیکن حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام نے اس وجہ کی تکذیب فرمائی اور اسے غلط قرار دیا۔
جب آپ حضرت کی والدہ ماجدہ کے اسماء مبارکہ کی قرائت کرتے ہیں تو محسوس کر لیتے ہیں کہ اتنے بلند پایہ اسماء کی مالک بی بی کس قدر فضائل رکھتی ہیں! امُّ البنین،نجمہ،خیزران،طاہرہ، سکن،تکتم اور شقرا امام علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کے مبارک اسماء میں شامل ہیں۔
اگرچہ ایک روایت کی رو سے حضرت امام کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی کے نام ذکر ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ علامہ مجلسی نے ذکر کیا ہے کہ :’’امام رضا علیہ السلام کے ایک ہی فرزند ارجمند بنام’’امام محمد تقی علیہ السلام‘‘بتائے گئے ہیں‘‘اور یہ نام ہم شیعوں کیلیے بہت مانوس نام ہے۔
اس مقدس تاریخچے کے عمدہ مطالب میں سے امام علیہ السلام کی تاریخ شہادت کا ذکر بھی باقی ہے کہ افسوس تاریخ پھر بھی ایک صحیح تاریخ شہادت بتلاتی نظر نہیں آتی کیونکہ تاریخ نے امام رضا علیہ السلام کی دلسوز شہادت کا سال ۲۰۲،۲۰۳ اور ۲۰۶ ہجری قمری ذکر کیسے ہیں،لیکن اکثر علماء و محققین نے حضرت کی شہادت کاسال۲۰۳ھ۔ق نقل کیا ہے۔اس حساب کے مطابق حضرت امام رضا علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ ۵۵ سالوں پر مشتمل ہے کہ ۳۵ سال کا عرصہ حضرت نے اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ بسر کیا اور دوسرے ۲۰ سال عہدۂ امام کی انجام دہی میں گذارا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہارون عباسی کی خلافت کے آخری دس سالوں کے معاصر ہوا،بعد از آن خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے امین کی خلافت کے دور میں گذارے جبکہ عہد امامت کے آخری پانچ سال خلیفہ مامون ملعون کی خلافت کے دوران بسر کیے۔
مامون وہ عباسی غاصب ملعون خلیفہ جس نے سازش سے امام علیہ السلام کو زہر کھانے پر مجبور کیا،معصوم امام علیہ السلام پر ظلم کرکے شہید کردیا اور حضرت غریب الغرباء کے چاہنے والوں نے حضرت کے مقدس و اطہر پیکر کو طوس میں حمید بن قحطبہ طائی کے مکان میں قبۂ ہارونیہ میں دفن کر دیا اور آج تک اس غریب الغرباء کی منور آرامگاہ کا غبار حضرت کے چاہنے والوں کی آنکھوں کا سرمۂ شفا ہے۔
امام رضا علیہ السلام،مدینۂ منورہ میں
مدینۂ منورہ میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی امامت کے دور کا آغاز ۱۸۳ سے ہو چکا تھا۔ اس وقت کی سیاسی حکومت ہارون الرشید کے ہاتھوں میں تھی اور اس کا دارالحکومت بغداد تھا۔خلیفہ ہارون کا طریق کار اور روش حکومت بھی دیگر ظالم و جابر حکمرانوں کی طرح شکنجے،جیل(زندان)اور قتل و غارت والی تھی،ٹیکس وصول کرنے کے بہانے لوگوں کو اذیت و آزار پہنچانا،فاطمی سادات اور شیعیانِ اہلبیت علیہم السلام کو انواع و اقسام کی تکالیف پہنچانا،۔۔۔۔۔
اسی ظالمانہ روش کے مطابق معصوم امام حضرت موسيٰ ابن جعفر علیہما السلام؛حضرت امام رضا علیہ السلام کے والد بزرگوار کو بصرہ اور بغداد کے زندانوں میں قید رکھا اور آخر کار زہر جفا سے اس بے گناہ قیدی امام علیہ السلام کو شہید کردیا ۔یہ ایسا دور تھا کہ جہاں حضرت رضا علیہ السلام کو اپنے والد بزرگوار کی جانسوز شہادت کا صدمہ اُٹھانا پڑا،وہاں دیگر علویوں کو بھی طرح طرح کے مصائب کاسامنا کرنا پڑا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کے زمانے میں ہارون الرشید ملعون اس قدر اہلبیت علیہم السلام کی لوگوں کے دلوں پر تأثیر سے پریشان اور خوف زدہ تھا کہ ان تمام مظالم کے علاوہ غیر مسلموں کے افکار کو مسلمانوں کے علوم میں داخل کرنے لگانا تھا اور اس طرح سے عوام کی توجہ ان علوم کی طرف مبذول کرنے کیلیے کوششیں کرنے لگا۔
ابوبکر خوارزمی(۳۸۳ھ)ایک خط کے ضمن میں جو کہ نیشاپور کے لوگوں کے نام لکھا،ان لوگوں کو عباسیوں خصوصاً ’’ہارون‘‘کے طرزِ حکومت کے بارے میں ان الفاظ میں آگاہ کرتا ہے:’’ہارون ایسی حالت میں مرا کہ (اپنے خیال میں)درختِ نبوت کو کاٹ چکا تھا اور نہالِ امامت کو جڑوں سمیت اُکھاڑ چکا تھا،۔۔۔۔کیونکہ(مثلاً)جب ایک ہدایت کے پیشوا اور خاندان مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سید و سردار دنیا سے چل بستے ہیں تو لوگوں کی جرأت نہیں ہوتی کہ ان کے جنازے کی تشییع اور اُن کی مرقد کی تزئین کریں لیکن جب خود اس سے متعلقہ کوئی قاتل،اداکار،مطرب وغیرہ دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو بڑے بڑے بھلے مانس اور قاضی اُس کے جنازے میں شرکت کیا کرتے اور خود حکمران اس کے سوگ کی مجلسوں میں بیٹھتے اور شریک ہوتے تھے۔ان حکمرانوں کے ادوار میں مادی(میڑیالیسٹ)اور سوفسطائی (عقلی و منطقی علوم کی تخریب کرنے والے)ان کی حکومتوں اور سرزمینوں میں امنیت رکھتے تھے اور محفوظ تھے،غیروں کے علوم کی ترویج کرنے والے محفوظ تھے لیکن(افسوس کہ) کوئی بھی شیعہ ان کے ہاتھوں سے امن میں نہیں تھا اور جو شخص بھی اپنے فرزند کا نام ’’علی‘‘رکھتا تھا،زمین کو اس کے خون سے رنگین کردیا جاتا تھا‘‘۔
اس نوعیت کے مظالم اور ایسی حاکم فضا کے پیش نظر حضرت امام رضا علیہ السلام ترجیح دیتے تھے کہ (بحکمِ خدا) اپنی امامت کو آشکار و علنی نہ کریں اورفقط اپنے بعض قابل اعتماد شیعوں کے ساتھ اس لحاظ سے رابطہ رکھیں لیکن چند سالوں کے بعد ہارون الرشید کے خلاف ایک فضا بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس خلیفے کی حکومت کمزور ہو جاتی ہے تو (بہ امر خدا) حضرت امام رضا علیہ السلام اپنی بر حق امامت کو آشکار فرمادیتے ہیں اور اعتقادی و معاشرتی میدانوں میں لوگوں کی مشکلات حل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
خود امام علیہ السلام نے فرمایا ہے’’میں اپنے جد بزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی بارگاہ اقدس میں بیٹھ جاتا تھا،حالانکہ اُس وقت مدینہ میں (ظاہری طور پر)علمی شخصیات کافی تھیں،جب بھی ان میں سے کوئی بھی کسی مسئلہ میں عاجز آجاتا تھا تو سب کا رجوع میری طرف ہوتا تھا،اپنے سوالات لے کر میرے پاس حاضر ہوتے تھے اور میں اُن کے جوابات دیتا تھا‘‘بہرحال ایسے حالات میں اس غاصب خلیفے ہارون کا جامِ عمر لبریز ہوجاتا ہے اور جب سال ۱۹۳ ھ۔ق میں ایک مخالف کاروائی(شورش)کو مٹانے کیلیے خراسان کوجاتا ہے تو وہیں پر دنیا سے گذرجاتا ہے اور طوس کے سناباد نامی علاقے میں طوس کے گورنر‘‘حمید بن قحطبہ طائی’’کے محل کے نچلے حصے کے ایک کمرہ میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
ہارون کے دونوں بیٹے ’’امین اور مأمون‘‘حکومت کے مسئلہ و موضوع پر ایک دوسرے سے اُلجھ پڑتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف نزاع و کشمکش کی فضا قائم ہو جائی ہے۔بغداد میں امین حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو دوسری طرف مرو میں مأمون تخت پادشاہی پر بیٹھ جاتا ہے۔ان دونوں بھائیوں کے درمیان پانچ سال تک یہ منازعات جاری رہتے ہیں اور آخر کار مأمون کی فوج بغداد پر حملہ آور ہوتی ہے اور ۱۹۸ ھ میں امین قتل ہو جاتا ہے اور مأمون تمام علاقے کی حکومت پر قابض ہو جاتا ہے۔
ان حالات میں علوی اور سادات مامون کی ناک میں دم کردیتے ہیں،وہ لوگ نا گفتہ بہ حالات سے تنگ آچکے تھے پہلے ہارون کے مظالم ،پھر اس کے دونوں بیٹوں کی کشمکش کی فضا اوراب اس ظالم حکمران مأمون کے ہاتھوں سے تنگ تھے۔۔۔۔
ایسے حالات تھے کہ عراق، حجاز اور یمن کے علاقوں میں ہنگامے اور حکومت مخالف کاروائیاں شروع ہو جاتی ہیں،وہ لوگ فقط ایک چیز کا مطالبہ کرتے تھے اور وہ یہ کہ حکومت خاندانِ آل محمد علیہم السلام کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔مأمون نہایت چالاکی و مکاری سے کام لیتے ہوئے حضرت امام رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کی دعوت دیتا ہے۔اس تاریخی حادثے کو دہراتے ہوئے اذہان میں ہمیشہ پہلے سوال یہ اٹھتے ہیں کہ کیوں؟ اور مأمون کا ہدف کیا تھا؟
اس لیے کہ امام علیہ السلام کو اپنے پاس رکھتے ہوئے اپنے اعمال اور سیاستوں پر ایک طرح سے مہر تائید ثبت کروانا چاہتا تھا۔امام رضا علیہ السلام(حجت خدا تھے ،ان سازشوں سے آگاہ تھے اور غاصب خلیفہ کے اہداف کو بخوبی سمجھتے تھے اس لیے) مامون کی دعوت کو مسترد کر کے منفی میں جواب دیتے ہیں،یہ سلسلہ کچھ بڑھتا ہے اور آخر کار خلیفہ سنجیدگی سے جان کی دھمکی دے دیتا ہے۔
موجودہ تاریخی اسناد امام علیہ السلام کے سفر کی مقدماتی تفصیلات کو پوری طرح سے بیان نہیں کرتیں اور ہجرت رضوی کے سفر کی بہت زیادہ مقدماتی و ابتدائی تفصیلات ذکر نہیں ہوئیں اور پردۂ ابہام میں رہ گئی ہیں،لیکن بہرحال موجودہ اسناد کے مطالعہ سے یہ مسلّمہ حقیقت ضرور سامنے آتی ہے کہ مدینہ اور مرو(خراسان) کے درمیان مکاتبات(خط و کتابت) کی فضا برقرار رہی اور امام علیہ السلام کے مدینے سے خراسان کی طرف سفر پر مسلسل اصرار بڑھتا رہا۔
مأمون خلیفہ دعوت ناموں کے علاوہ اپنے دو افراد کو مدینہ بھیجتا ہے جن کے نام ’’رجاء بن ابی ضحاک اور یاسر خادم‘‘نقل ہوئے ہیں۔ان دونوں نے مدینہ پہنچ کر امام علیہ السلام کے لیے اپنی مأموریت اور ذمہ داری اس طرح سے بیان کی:
’’انَّ المأمونَ اَمَرنا بِاشخاصِک الی خُراسان‘‘
یعنی مأمون نے ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ کو خراسان لے جائیں۔
حضرت امام رضا علیہ السلام ایسی شخصیت تھے کہ مأمون کے حربوں اور سازشوں کو مکمل طور پر سمجھتے تھے،اس کے طرزِ عمل اور روشِ کار سے آگاہ تھے،اپنے معصوم والد بزرگوار کے طولانی زندانوں کو تمام ترتلخیوں اور تکالیف کے ساتھ بھولے نہیں تھے اور جانتے تھے کہ مأمون ایسا شخص ہے جس نے اپنے بھائی کو بھی قتل کروا دیا ہے اور اس وقت مدینہ میں لوگوں کے درمیان برحق امام علیہ السلام کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا۔امام علیہ السلام کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا اور ایک ایسا سفر اختیار کرنے پر اصرار کیا جارہا تھا جس پر امام علیہ السلام دل سے راضی نہیں تھے لیکن اس تمام صورتحال کے باوجود فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جد بزرگوار کا روضۂ اقدس اور شہر چھوڑنا پڑرا تھا،اگرچہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدفنِ مقدس،مدینہ اور مدینہ کے محبت کرنے والوں سے الوداع کرنا بہت مشکل اور سخت تھا،اہل مدینہ امام رضا علیہ السلام کو دل و جان سے چاہتے تھے کیونکہ حضرت اُن کے لیے ایک مہربان باپ تھے،انہیں جغرافیائی سفر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ دلوں کی جغرافیائی حدوں میں سفر اور دلوں میں گھر کرچکے تھے اور ظاہری و سطحی تبدیلی سے معانی اور حقائق کے تبدیل ہو جانے کے مأمون کے خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے تھے بہرحال حضرت امام رضا علیہ السلام نے عالمِ غربت(یعنی اپنے آبائی وطن مدینہ منورہ سے بہت دور کے علاقے )کاسفر شروع کردیا جبکہ اس سفر پر راضی نہیں تھے۔سفر کرنے والے عالم آل محمد علیہ السلام تھے،ظاہر و باطن سے خبر دار تھے اور اس بات کا علم رکھتے تھے کے مأمونِ ملعون امام علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے گا نیز اس امر سے بھی آگاہ تھے کے اپنی اس مظلومیت اور غربت کی بنا پر بھی دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔
مدینۂ منورہ سے خراسان(مرو)کا سفر
حضرت امام رضا علیہ السلام کا اپنے جدبزرگوار اور مدینہ منورہ؛اس یادگاروں سے بھرے ہوئے آبائی وطن سے دل اٹھانا بہت سخت اور مشکل تھا۔اگر آپ اپنی زندگی میں حتی فقط ایک دفعہ بھی کسی سرزمینِ غربت کے مسافر ہوئے ہوں تو ایسے دلسوز لحظات کو محسوس کرسکتے ہیں؛بالکل یوسفِ پیغمبر کی طرح گویا مدینۂ کنعان سے خراسانِ مصر تک کا غریبانہ سفر اور جب یوسف مصر میں صاحب حکومت ،ثروت اور جلال و شوکت بھی ہوگئے تھے پھر بھی شدید دلی خواہش اور حسرت یہی تھی کہ اپنے وطن کنعان واپس پہنچ جائیں۔
عالمِ غربت کی راہوں کے راہی ہونے والے امام(جنہیں پھر اسی غربت اور عالم غربت میں مظلومانہ شہادت نصیب ہونے کی وجہ سے غریب الغرباء کہا جانے لگا اور رہتی دنیا تک ایسی تصویر غربت ہیں کہ غریب الغرباء کہلا رہے ہیں)علیہ السلام ایسی حالت میں مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الوداع اور خدا حافظی کررہے تھے جیسے جانتے تھے کہ پھر لوٹ کر یہاں آنا نصیب نہیں ہوگا۔شیخ صدوق عیون اخبار الرضا علیہ السلام میں اپنی سند کے ساتھ محول بجستانی سے نقل کرتے ہیں:حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار کے مقدس روضے سے ایسےخدا حافظی کی،آخری وداع کیا کہ باربار پلٹ کر پھر جد بزرگوار کی قبر اطہر کے پاس چلے جاتے تھے اور گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہو جاتی تھیں۔راوی کہتا ہے میں امام علیہ السلام کے نزدیک پہنچا اور (ولایت عہدی کی پیکش ہونے کی مناسبت سے)مبارکباد کہی۔امام علیہ سالسلام نے فرمایا:مجھے چھوڑ دو!میں اپنے جد بزرگوار کے جوار(ہمسائیگی)سے بہت دور لے جایا جا رہا ہوں اور اسی غربت (کی سرزمین )میں شہید کر دیا جاؤں گا۔
وہ چیز جو تاریخ کی ورق گردانی سے آج ہم سب کو معلوم ہے ،وہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے سفر کی ابتدااور انتہا ہے لیکن یہ تفصیلات کہ امام علیہ السلام کو اس ابتداء اور انتہاء کے درمیان کن نقاط سے گذار کر لے جایا گیا ہمیں اچھی طرح وضاحت سے معلوم نہیں ہے کیونکہ تاریخی بیانات میں اس بارے میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔اس بارے میں تاریخی رپورٹس اور معلومات و روایات متعدد ہونے کے ساتھ ساتھ متناقض و مختلف بھی ہیں،اس لیے سرزمین غربت کے اس سفر کے صحیح خدوخال اور مکمل درست جغرافیائی نقشہ موجود نہیں ہے۔
بشکریہ
https://news.razavi.ir/portal/home/?news/63096/38014/12371

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *