امام رضا علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
قال الامام علی بن موسی الرضا علیہ السلام
1۔ تین خصلتیں تین سنتیں
لا یكون المؤمن مؤمنا حتی تكون فیه ثلاث خصال ، سنة من ربه، وسنة من نبیه، وسنة من ولیه. فاما السنة من ربه فكتمان سره ، و اما السنة من نبیه فمداراة الناس ، و اما السنة من ولیه فالصبر فی البأساء و الضراء۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (339)۔
مؤمن، حقیقی مؤمن نہیں ہے مگر یہ کہ تین خصلتوں کا حامل ہے: ایک سنت اللہ کی، ایک سنت اپنے پیغمبر(ص) کی اور ایک سنت اپنے امام کی۔ خدا کی سنت اپنا راز چھپا کر رکھنا ہے، پیغمبر(ص) کی سنت لوگوں کے ساتھ رواداری اور نرم خوئی ہے اور اس کے امام کی سنت تنگدستی اور پریشانی کے وقت صبر ہے۔
2۔ چھپ کر نیکی کرنا
المستتر بالحسنة یعدل سبعین حسنة، والمذیع بالسیئة مخذول ، والمستتر بالسیئة مغفور له۔
اصول کافی ، ج 4 ، ص (160)۔
نیک کام چھپا کر کرنے والے کا ثواب 70 حسنات کے برابر ہے، اعلانیہ بدی کرنے والا شرمندہ اور تنہا ہے اور (دوسروں کے) برے کام کو چھپانے والا بخشا ہوا ہے۔
3۔ انبیاء کا اخلاق
من أخلاق الانبیاء التنظف۔
انبیاء کے اخلاقیات میں نظافت اور پاکیزگی شامل ہے۔
تحف العقول ، ص (466)۔
4۔ آدمی کا دوست اور دشمن
صدیق كل امرء عقله وعدوه جهله۔
تحف العقول ، ص (467)۔
آدمی کا دوست اس کی عقل اور اس کا دشمن اس کا جہل و نادانی ہے۔
5۔ عقل کامل کے لئے دس خصلتیں ضروری ہیں
لا یتم عقل امرء مسلم حتی تكون فیه عشر خصال ، الخیر منه مأمول ، و الشر منه مأمون ، یستكثر قلیل الخیر من غیره ، و یستقل كثیر الخیر من نفسه ، لا یسأم من طلب الحوائج الیه ، و لا یمل من طلب العلم طول دهره ، الفقر فی الله احب الیه من الغنی ، و الذل فی الله احب الیه من العز فی عدوه ، و الخمول أشهی الیه من الشهرة . ثم قال ( علیه السلام) : العاشرة و ما العاشرة ! قیل له : ما هی ؟ قال ( علیه السلام) : لا یری أحدا الا قال : هو خیر منی و أتقی۔
تحف العقول ، ص (467)
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دس خصلتوں کا مالک ہو: اس سے خیر و نیکی کی امید کی جاسکے، لوگ اس سے امن وامان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو بڑا سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وہ تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راہ میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راہ میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، گم نامی کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا: اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت؟ عرض کیا گیا: آپ فرمائیں وہ کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی کو بھی دیکھے کہہ دے کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اور زيادہ پرہیزگار ہے۔
6۔ یقین سب سے افضل
إن الایمان افضل من الاسلام بدرجة ، و التقوی افضل من الایمان بدرجة ، و لم یعط بنو آدم افضل من الیقین۔
تحف العقول ، ص (469)
ایمان اسلام سے ایک درجہ افضل ہے اور تقوی ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور فرزند آدم کو یقین سے افضل کوئی چیز عطا نہیں ہوئی۔
7۔ ایمان کیا ہے؟
والایمان أداء الفرائض واجتناب المحارم والایمان هومعرفة بالقلب وإقرار باللسان وعمل بالاركان۔
تحف العقول ، ص (444)۔
ایمان واجبات و فرائض پر عمل اور افعال حرام سے دوری ہے۔ ایمان دلی عقیدہ زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ساتھ عمل و کردار ہے۔
8۔ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ
علیكم بسلاح الأنبیاء، فقیل: وما سلاح الأنبیاء ؟ قال: الدعاء۔
اصول کافی ، ج 4 ، ص (214)
امام ہمیشہ اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ، کہا گیا: انبیاء کا اسلحہ کیا ہے؟ فرمایا: دعاء۔
9۔ صلہ رَحِم
صل رحمك و لو بشربة من ماء ، وافضل ما توصل به الرحم كف الأذی عنها۔
تحف العقول ، ص (469)
قرابتداری کا پیوند برقرار کرو حتی اگر وہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، اور قرابتداری کا بہترین پیوند یہ ہے کہ قرابتداروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
10۔ فہم دین کی نشانیاں
إن من علامات الفقه : الحلم و العلم ، و الصمت باب من ابواب الحكمة ، إن الصمت یكسب المحبة ، إنه دلیل علی كل خیر۔
تحف العقول ، ص (469)
فہم دین کی نشانیوں میں حلم اور علم شامل ہیں اور خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ خاموشی دوستی اور محبت کماتی ہے اور ہر نیکی کی طرف راہنمائی فراہم کرتی ہے۔
11۔ گوشہ نشینی اور خاموشی کا زمانہ
یأتی علی الناس زمان تكون العافیة فیه عشرة اجزاء : تسعة منها فی اعتزال الناس و واحد فی الصمت۔
تحف العقول ، ص (470)
وہ وقت لوگوں پر آئے گا جب عافیت کے دس اجزاء ہونگے: 9 اجزاء لوگوں سے دوری اور گوشہ نشینی میں ہونگے اور ایک جزء خاموشی میں۔
12۔ توکل کی تعریف
سئل الرضا ( علیه السلام ) عن حد التوكل ، فقال ( ع ) : أن لا تخاف احدا الا الله۔
تحف العقول ، ص (469)۔
امام رضا علیہ السلام سے توکل کی حقیقت اور اس کی تعریف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: توکل یہ ہے کہ خدا کے سے کسی نہ نہ ڈرو۔
13۔ چار افراد چار چیزوں سے محروم
لیس لبخیل راحة ، و لا لحسود لذة ، و لا لملوك وفاء ، و لا لكذوب مروة۔
تحف العقول ، ص (473)۔
بخیل اور کنجوس کے لئے چین اور آسائش نہيں ہے، حسد کرنے والے کے لئے کوئی لذت نہیں ہے، بادشاہوں میں وفا نہيں ہے اور جھوٹے شخص میں مروت اور جوانمردی نہيں پائی جاتی۔
14۔ حسن ظن، قناعت اور ۔۔۔
أحسن الظن بالله ، فإن من حسن ظنه بالله كان عند ظنه ، ومن رضی بالقلیل من الرزق قبل منه الیسیر من العمل ، ومن رضی بالیسیر من الحلال خفت مؤونته ونعم أهله و بصره الله داء الدنیا و دواءها واخرجه منها سالما الی دار السلام۔
تحف العقول ، ص (472)
خدا پر حسن ظن رکھو کیونکہ جو خدا پر حسن ظن رکھے خدا اس کے حسن ظن کے ساتھ ہے۔ اور جو بھی تھوڑے سے رزق پر راضی و خوشنود (اور قانع) ہو خدا اس کا مختصر سا عمل قبول فرماتا ہے، اور جو تھوڑے سے حلال رزق پر خوشنود ہو اس کے اخراجات کم ہونگے اور اس کا خاندان نعمتوں میں پلے گا اور خداوند متعال اس دنیا کے دکھوں اور دواؤں سے بصیرت عطا کرتا ہے اور اس دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کے دارالسلام میں منتقل کرتا ہے۔
15۔ ایمان کے چار ارکان
الایمان أربعة أركان: التوكل علی الله، والرضا بقضاء الله، و التسلیم لأمر الله، و التفویض الی الله۔
تحف العقول ، ص (469)
ایمان چار ارکان پر مشتمل ہے: خدا پر توکل، خدا کی قضا پر راضي ہونا، خدا کے امر کے سامنے تسلیم ہونا اور اپنے امور کو خدا کے سپرد کرنا۔
16۔ بہترین بندے
سئل (علیه السلام) عن خیار العباد، فقال: الذین اذا أحسنوا استبشروا، واذا اساءوا استغفروا، واذا أعطوا شكروا، و اذا ابتلوا صبروا، واذا غضبوا عفوا۔
تحف العقول ، ص (469)
امام رضا علیہ السلام سے بہترین بندوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ جب نیکی کرتے ہیں، خوش ہوجاتے ہیں، جب برا عمل کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، جب ان کو کچھ عطا کیا جاتا ہے، شکر کرتے ہیں، جب بلا اور مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں، درگذر کرتے ہیں۔
17۔ دنیاوی زندگانی
سئل الامام الرضا ( علیه السلام ) عن عیش الدنیا ، فقال: سعة المنزل وكثرة المحبین۔
بحار الانوار ، ج 76، ص (152)۔
امام رضا علیہ السلام سے دنیا کی خوشحال زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وسیع گھر اور دوستوں کی کثرت۔
18۔ قیامت کے دن فراخی چاہتے ہو تو۔۔۔
من فرج عن مؤمن فرج الله عن قلبه یوم القیامة۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (268)
جو شخص کسی مؤمن کا مسئلہ حل کرے اور اداسی کو اس سے دور کردے خداوند متعال روز قیامت غم و اندوہ کو اس کے قلب سے دور کردیتا ہے۔
19۔ مؤمن کے دل کو خوش کیا کرو
لیس شیء من الاعمال عند الله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔
اللہ عزوجل کے نزدیک فرائض کی انجام دہی کے بعد کوئی بھی عمل مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے افضل نہیں ہے۔
20۔ ایک دوسرے کے ساتھ دوست رہا کرو
تزاوَرُوا تحـابـوا و تصـافحُـوا۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)
ایک دوسرے کے ملنے جایا کرو، ایک دوسرے سے دوستی اور محبت کیا کرو۔ (متعدد روایات میں منقول ہے کہ: ہمارے امر کو زندہ رکھنے کے لئے، ایک دوسرے کو ہماری حدیث بیان کرنے کے لئے ملتے رہا کرو اور یہ کہ تمہارے میل جول میں ہمارے مکتب کی حیات ہے چنانچہ ملنا اگر لہو و لعب کے لئے ہو تو اس میں کوئی فضیلت نہيں ہے)۔
21۔ دین و دنیا کے امور مخفی رکھو
علیكم فی أموركم بالكتمان فی أمور الدین و الدنیا ، فإنه روی ” أن الإذاعة كفر ” و روی ” المذیع و القاتل شریكان ” و روی ” ما تكتمه من عدوك فلا یقف علیه ولیك”۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)
تم پر لازم ہے کہ اپنے دین و دنیا کے امور میں رازدار رہو، روایت ہوئی ہے کہ “فاش کرنا کفر ہے”، اور روایت ہوئی ہے کہ “جو اسرار کو فاش کرتا ہے وہ قاتل کے ساتھ قتل میں شریک ہے”، اور روایت ہوئی ہے کہ “جس چیز کو تم دشمن سے خفیہ رکھتے ہو تمہارا دوست بھی اس سے واقف نہ ہونے پائے”۔ (حدیث کے متن سے ظاہر ہے کہ کن کن امور کو چھپانا چاہئے)۔
22۔ چار لوگوں کے ساتھ چار رویئے اختیار کرو
اصحاب السلطان بـالحَذر، وَ الصـّدّيق بـالتّـواضُع، وَ العدوّ بـالتّحرُز، وَ العامّة بالبشـر۔
بحارالانوار،ج 78، ص 356.
سلطان اور حاکم کے اصحاب اور حاشیہ برداروں سے دوری اختیار کرو؛
دوست کے ساتھ خاکسارانہ رویہ رکھو؛
دشمن کے ساتھ احتیاط اور اجتناب کا رویہ اختیار کرو؛ اور
لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو۔
23۔ اس شخص سے امید مت رکھو
خمس من لم تكن فيه فلا ترجوه لشئ من الدنيا والاخرة: من لم تعرف الوثاقة في أرومته والكرم في طباعه، والرصانة في خلقه والنبل في نفسه، والمخافة لربه.
پانچ چیزیں اگر کسی میں نہ ہوں تو دنیا اور آخرت کے بارے میں اس سے امید وتوقع وابستہ نہ کرو: وہ جس کے وجود میں اعتماد نہ دیکھ سکو؛ وہ جس کی طینت میں کرم اور بزرگواری و جوانمردی نہ دیکھ سکو، وہ جس کے اخلاق اطوار میں استحکام و استواری نہ پاسکو، وہ جس کے نفس میں نجابت و شرافت نہ پاسکو اور وہ جس کے وجود میں خدا کا خوف نہ پاسکو۔
24۔ کس کا اجر مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے؟
ان الذی یطلب من فضل یكف به عیاله أعظم أجرا من المجاهد فی سبیل الله۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (339)۔
بے شک جو اپنے اہل و عیال کے لئے رزق و روزی وسیع کرنے کی کوشش کررہا ہے اس کا اجر و انعام خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے۔
25۔ حب آل محمد(ص) اور نیک اعمال ایک دوسرے کے بغیر نامکمل
لا تدعوا العمل الصالح و الاجتهاد فی العبادة اتكالا علی حب آل محمد ( علیهم السلام ) ، لا تدعوا حب آل محمد (علیهم السلام) و التسلیم لأمرهم اتكالا علی العبادة ، فإنه لا یقبل أحدهما دون الَاخر۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔
(خبردار) نیک اعمال اور عبادت میں کوشش کو آل محمد(ص) کی محبت کے سہارے ترک نہ کرنا، اور (خبردار) کہیں ایسا نہ ہو کہ آل محمد(ص) کی محبت اور ان کی فرمانبرداری کو عبادت کے سہارت ترک نہ کرنا، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔
26۔ تفکر عبادت ہے
لیس العبادة كثرة الصیام والصلاة، وانما العبادة كثرة التفكر فی أمر الله۔
تحف العقول ، ص (466)۔
عبادت زیادہ روزہ رکھنا اور زیادہ نماز پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ بے شک امر خدا میں زیادہ غور وتفکر کرنا ہے۔
27۔ ہماری صورت حال
قیل له: وكیف اصبحت؟ قال (ع ): اصبحت بأجل منقوص، وعمل محفوظ ، والموت فی رقابنا، والنار من ورائنا، ولا ندری ما یفعل بنا۔
تحف العقول ، ص (470)۔
عرض کیا گیا: یابن رسول اللہ(ص)! رات کیسے گذار دی؟ فرمایا: عمر کم ہوئی، کردار ثبت ہوا، اور موت ہماری گردن پر ہے اور دوزخ ہمارا پیچھا کررہا ہے اور ہم (یعنی انسان) نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا!۔
28۔ تین خصلتوں سے حقیقت ایمان تک پہنچ سکتے ہو
لا یستكمل عبد حقیقة الایمان حتی تكون فیه خصال ثلاث: التفقه فی الدین، وحسن التقدیر فی المعیشة ، والصبر علی الرزایا۔
تحف العقول ، ص (471)۔
کوئی بھی بندہ کمالِ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ تین خصلتوں کا مالک نہ ہو: دین میں سمجھ بوجھ، معیشت میں تدبیر اور اندازہ رکھنا، اور مصائب اور بلاؤں پر صبر۔
29۔ قرآن میں ہدایت تلاش کرو
قال الریان للرضا (ع): ما تقول فی القرآن؟ فقال: كلام الله لا تتجاوزوه، ولا تطلبوا الهدی فی غیره فتضلوا۔
بحار الانوار ، ج 92، ص (117)
ریان بن صلت نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: قرآن کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ امام(ع) نے فرمایا: قرآن خدا کا کلام ہے، اس سے تجاوز نہ کرو اور قرآن کے بغیر کسی اور سے ہدایت و راہنمائی مت مانگو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے۔
سوال: پھر ہم پر اہل بیت(ع) کی پیروی کیوں واجب ہے؟ جواب: وہ بھی قرآن ہی کا حکم ہے اور باعث ہدایت۔
30۔ اللہ رحم کرے اس پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے
قال عبدالسلام بن صالح الهروی: سمعت الرضا (ع) یقول: رحم الله عبدا احییٰ امرنا. قلت : وكیف یحیی امركم ؟ قال: یَتَعَلَّمُ علومَنا وَیُعَلِّمُها الناسَ۔
وسائل الشیعة ، ج 18، ص (102)۔
عبدالسلام الہروی کہتے ہیں: میں نے امام رضا(ع) کو فرماتے ہوئے سنا: خدا رحم کرے اس بندے پر جو ہمار امر (اور ہمارے مشن) کو زندہ رکھے۔ میں نے عرض کیا: وہ ایسا کیونکر کرسکتا ہے؟ فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ لے اور لوگوں کو سکھائے۔
31۔ خود احتسابی، عالم کون ہے؟
من حاسب نفسه ربح ، ومن غفل عنها خسر، ومن خاف أمن، ومن اعتبر أبصر، ومن أبصر فهم ، ومن فهم علم۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)۔
جو اپنے آپ کا احتساب کرے منافع اٹھائے گا، جو اپنے آپ سے غافل ہوجائے نقصان اٹھائے گا، جو اپنے مستقبل سے فکرمند ہوگا اور خوفزدہ ہوگا، محفوظ رہے گا اور جو دنیا کے حوادث اور واقعات سے عبرت لے، صاحب بصیرت بنے گا اور جو صاحب بصیرت ہوگا وہ مسائل کو سمجھ لےگا اور جو مسائل کو سممجھ لے وہ عالم ہے۔
32۔ عُجب کے کئی درجات ہیں
العجب درجات: منها ان یزین للعبد سوء عمله فیراه حسنا فیعجبه ویحسب انه یحسن صنعا، ومنها أن یؤمن العبد بربه فیمن علی الله ولله المنة علیه فیه۔
تحف العقول ، ص (468)۔
عُجب کے کئی درجات ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندے کا برا عمل اس کو خوبصورت نظر آئے اور سمجھے کہ اس نے اچھا کام کیا ہے، ایک یہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والا بندہ خدا پر احسان جتائے حالانکہ خدا نے اس سلسلے میں اس پر احسان کیا ہے۔
33۔ تین چیزوں کا تعلق تین چیزوں سے
إن الله عزوجل أمر بثلاثة مقرون بها ثلاثة اخری: امر بالصلاة و الزكاة، فمن صلیٰ ولم یزك لم یقبل منه صلاته ، وامر بالشكر له وللوالدین، فمن لم یشكر والدیه لم یشكر الله، وامر باتقاء الله و صلة الرحم، فمن لم یصل رحمه لم یتق الله عزوجل۔
عیون اخبار الرضا ، ج 1 ، ص (258)۔
خداوند متعال نے تین چیزوں کو تین چیزوں سے مربوط کردیا ہے (اور ایک دوسری کے بغیر ناقابل قبول ہے): نماز کو زکوٰۃ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے پس جو نماز ادا کرے اور زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہ ہوگی، نیز اس نے اپنے شکر کو والدین کے شکر کے ساتھ ذکر کیا ہے پس جو خدا کا شکر کرے اور والدین کا قدر دان نہ ہو اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا ہے۔ اور خدا نے تقوائے الہی اور اعزاء و اقارب کے ساتھ پیوند استوار رکھنے کا حکم دیا ہے پس جو اپنوں کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرے وہ متقی اور پرہیزگار شمار نہ ہوگا۔
34۔ حرص و حسد سے پرہیز کرو بخل ایمان کے خلاف ہے
ایاكم والحرص و الحسد، فإنها أهلكا الامم السالفة، وایاكم والبخل فإنها عاهة لا تكون فی حر ولا مؤمن، إنها خلاف الإیمان۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (346)
حرص و حسد سے پرہیز کرو کیونکہ ان دو نے سابقہ امتوں کو نیست و نابود کیا اور بخل و کنجوسی سے پرہیز کرو کیونکہ کوئی بھی مؤمن اور آزاد انسان بخل کی آفت میں مبتلا نہيں ہوتا۔ بخل ایمان سے متصادم ہے۔
35۔ صدقہ دیا کرو
تصدق بالشیء وإن قل، فان كل شیء یراد به الله، وإن قل بعد ان تصدق النیة فیه عظیم۔
وسائل الشیعة ، ج 1 ، ص (87)۔
صدقہ دیا کرو خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر چھوٹا کا جو خدا کی خاطر انجام دیا جائے، عظیم ہے۔
36۔ تائب بےگناہ ہے
التائب من الذنب كمن لا ذنب له۔
بحار الانوار ، ج 6 ، ص (21)
توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
37۔ بہترین عقل وتفکر
افضل العقل معرفة الانسان نفسه۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)
بہترین تعقل و تفکر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے (اور معرفت نفس حاصل کرے)۔
38۔ خدا پر حسن ظن رکھو
أحسن الظن بالله، فإن الله عزوجل یقول: أنا عند ظن عبدی المؤمن بی، إن خیراً فخیراً وإن شراً فشراً۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (116).
اللہ پر حسن ظن رکھو اور خوش گمان رہو کیونکہ خداوند عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے مؤمن بندے کے حسن ظن کے ساتھ ہوں، اگر اس کا گمان اچھا ہے تو میرا سلوک بھی نیک ہوگا اور اگر اس کا خیال میرے بارے میں برا ہے تو میرا سلوک بھی اس کے اچھا نہ ہوگا۔
39۔ صلہ رحمی طول عمر کا سبب
یكون الرجل یصل رحمه، فیكون قد بقی من عمره ثلاث سنین فیصیرها الله ثلاثین سنة ویفعل الله ما یشاء۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (221)
کبھی، ایک شخص صلہ رحمی کرتا ہے (اور اپنوں سے پیوند برقرار کرتا ہے) جبکہ اس کی عمر میں سے صرف تین سال باقی رہ گئے ہیں پس خداوند متعال اس کی عمر 30 سال تک بڑھا دیتا ہے، اور خدا جو چاہے انجام دیتا ہے۔
40۔ لوگوں کی حاجت برآری کی اہمیت
احرصوا على قضاء حوائج المؤمنين وإدخال السرور علیهم ودفع المكروه عنهم، فإنه لیس شیءٌ من الاعمال عندالله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔
مؤمنین کی ضروریات پوری کرنے اور ان کو خوشنود کرنے اور مشکلات کو ان سے دور کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فرائض کی انجام دہی کے بعد خدا کے نزدیک کوئی بھی عمل مؤمن کو خوشنود کرنے سے افضل نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: مہدوی
دیدگاهتان را بنویسید