تازہ ترین

امام رضا (ع) اور دین کا عقلی دفاع

اللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے ۔ علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں۔
شئیر
54 بازدید
مطالب کا کوڈ: 723

امام رضا (ع) اور دین کا عقلی دفاع
اللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے ۔ علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں۔

١۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امور کے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے۔
٢۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے۔
٣۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے میں اس مقالے میں امام رضا علیہ السلام کی احادیث کی روشنی میں عقل کو بیان کرنے
والی احادیث کو اس طرح ترتیب دینے کی کوشش کی ہے کہ پہلے عقائد والی احادیث پھر اعمال والی احادیث  جمع کرنے کی کوشش کی اور آخر میں ایک مناظرہ جسمیں امام رضاؑ نے عقلی تقاضوں کے مطابق دلائل  ارشاد فرمائے ہیں۔ ان احادیث کی روشنی امام رضاؑ نے دین کا جو عقلی دفاع کیا اور امام ؑ کے نزدیک عقل کا جو مقام مرتبہ واضح ہوتا ہے یا عقل کے انسانی زندگی پرکیا اثرات ہوتے ہیں اور عقل کو کس چیز کی ضرورت ہے البتہ اس مقالے میں تجزیہ کرنے کا  اس وجہ سے موقع نہیں ملا کہ اس کی بےجا طولت کا خوف لاحق ہے۔ ورنہ دل تو چاہتا ہے اس پر تجزیہ کیا جائے۔

لغت میں عقل  کا مادہ ع ،ق،ل ہے جس کے معنی الحجر والنھہی ضد الحمق یعنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جا نہ سکے، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے۔ امام رضا علیہ السلام کی احادیث  عقل کے بارے میں  بہت زیادہ ہیں ان میں چند کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
1۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا عقل کے ذریعہ خدا کی تصدیق کی جاتی ہے۔
2۔ ابو یعقوب بغدادی کہتا ہے کہ ابن سکیت نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا، خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے، خدا پر جھوٹ
باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیں کہ ابن سکیت نے کہا، خدا کی قسم، یہی (واقعی) جواب ہے۔
3۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، “ہر انسان کا دوست اس کی عقل ہے اور جہالت اس کی دشمن ہے”۔ یہ حکمت آمیز کلمہ کتنا زیبا ہے کیونکہ عقل ہرانسان کا سب سے بڑا دوست ہے جو اس کو محفوظ رکھتی ہے اور دنیوی تکلیفوں سے نجات دلاتی ہے اور انسان کا سب
سے بڑا دشمن وہ جہالت ہے جو اس کو اس دنیا کی سخت مشکلات میں پھنسا دیتی ہے۔
4۔ امام رضا علیہ السلام، سب سے افضل عقل انسان کا اپنے نفس کی معرفت کرنا ہے۔ بیشک جب انسان اپنے نفس کے سلسلہ میں یہ معرفت حاصل کرلیتا ہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا اور اس کا انجام کیا ہوگا تو وہ عام اچھائیوں پر کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ برائیوں کو انسان سے دور کر دیتا ہے اور اس کو نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے خالق عظیم کی معرفت پر دلالت کرتی ہے۔
5۔ امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا، لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے۔
6۔ امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا، محمد بن یحی، عن احمد بن محمد بن عیسی، عن ابن فضال، الحسن بن الجھم قال سمعت الرضاؑ یقول، صدیق كل امرء عقله و عدوه جھله۔ محمد بن یحی نے احمد بن محمد بن عیسی سے  انہوں نے ابن فضال سے اور انہوں نے حسن بن جہم سے سنا ہے کہ حسن بن جھم کہتا ہے کہ میں نے امام رضا ؑ سے
سنا ہے کہ آپ ؑارشاد فرما رہے کہ آدمی کا دوست اس کی عقل اور اس کا دشمن اس کا جہل و نادانی ہے۔
7۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، افضل العقل معرفة الانسان نفسه۔
بہترین تعقل و تفکر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے (اور معرفت نفس حاصل کرے)۔
8۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا عقل کامل کے لئے دس خصلتیں ضروری ہیں۔ لا یتم عقل امرء مسلم حتی تكون فیه عشر خصال، الخیر منه مأمول، و الشر منه مأمون، یستكثر قلیل الخیر من غیره، و یستقل كثیر الخیر من نفسه، لا یسأم من طلب الحوائج الیه، و لا یمل من طلب العلم طول دھره، الفقر فی الله احب الیه من الغنی، و الذل فی الله احب الیه من العز فی عدوه، و الخمول أشھی الیه من الشھرة۔ ثم قال ( علیه السلام)، العاشرة و ما العاشرة! قیل له، ما ھی؟ قال ( علیه السلام)، لا یری أحدا الا قال، ھو خیر منی و أتقی۔
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وه دس خصلتوں کا مالک ہو۔ اس سے خیر و نیکی کی امید کی جا سکے، لوگ اس سے امن و امان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو بڑا سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وه تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راه میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راه میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیاده پسندیده ہو، گم نامی کو شہرت سے زیاده پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا، اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت؟ عرض کیا گیا، آپ فرمائیں وه کیا ہے؟ فرمایا، جس کسی کو بھی دیکھےکہہ دے کہ وه مجھ سے زیاده بہتر اور زياده پرہیزگار ہے۔
9۔ ابو ہاشم جعفری کہتا ہے کہ میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ عقل کا ذکر چھڑ گیا تو آپ ؑ نے فرمایا، اے ابو ہاشم! عقل خدا کا عطیہ ہے …جو شخص زحمت سے خود کو عقلمند بنانا چاہتا ہے اس کے اندر جہالت کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔
10۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، جنگلی جانور اور گائے کا گوشت
زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی، فہم میں حیرانی، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہوتی ہے۔
11۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے، جو سمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے۔
12۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، بھی (کھانا) تمہارے لئے ضروری
ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔
13۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، محمد بن علی ہمدانی، خراسان میں ایک شخص امام رضا (ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغاز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا، میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے؟ فرمایا ؑ، یہ بھی ایسا ہی ہے، سرکہ ذہن کو قوی بناتا ہے اور عقل کو بڑھاتا ہے۔
14۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، سداب عقل کو بڑھاتا ہے۔
15۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، جنگلی جانور اور گائے کا گوشت

زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی، فہم میں حیرانی، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہوتی ہے۔
16۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا، جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اس
کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کو قضا و قدر میں متہم قرار نہ دے اور رزق دینے میں اس کو سست شمار نہ کرے۔

توحید خداوند عالم کے ثبوت پر مناظرہ:
امام رضا علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک منکر خدا آیا، آپ نے اس سے فرمایا، اگر تو حق پر ہے (جب کہ ایسا نہیں ہے) تو اس صورت میں ہم اور تم دونوں برابر ہیں اور نماز، روزہ،حج، زکات اور ہمارا ایمان ہمیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر ہم حق پر ہیں (جب کہ ایسا ہی ہے ) تو اس صورت میں ہم کامیاب ہیں اور تو گھاٹے میں ہے اور اس طرح تو ہلاکت میں ہوگا۔
منکر خدا نے کہا کہ ”مجھے یہ سمجھائیں کہ خدا کیا ہے؟ کہاں ہے؟
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ  وائے ہو تجھ پرکہ تو جس راستے پر چل رہا ہے وہ غلط ہے۔ خدا کو کیفیتوں (وہ کیسا ہے اور کیسا نہیں ہے) سے متصف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسی نے اشیاء میں کیف و کیفیت کو پیدا کیا ہے اور نہ ہی اسے مکان سے نسبت دی جا سکتی ہے کیونکہ اسی نے حقیقت مکان کو وجود بخشا ہے۔ اسی بنا پر خداوند متعال کو کیفیت اور مکان سے نہیں پہچانا جا سکتا اور نہ ہی وہ حواس سے محسوس کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی چیز کی شبیہ ہو سکتا ہے۔ منکر خدا نے کہا، ’’اگر خداوند متعال کسی بھی حسی قوت سے در ک نہیں کیا جا سکتا ہے تو وہ کوئی وجود نہیں ہے’’۔ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ وائے ہو تجھ پر تیری حسی قوتیں اسے درک کرنے سے عاجز ہوں تو اس کا انکار کر دے گا لیکن میں جب کہ میری بھی حسی قوتیں اسے درک کرنے سے عاجز ہیں، اس پر ایمان رکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ ہمارا پروردگار ہے اور وہ کسی کی شبیہ نہیں ہے’’۔ منکر خدا نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں کہ خدا کب سے ہے؟ امام علی رضا علیہ السلام، تو یہ بتا کہ خدا کب نہیں تھا تاکہ میں تجھے یہ بتاوٴں کے کہ خدا کب سے ہے؟ منکر خدا نے کہا، خدا کے وجود پرکیا دلیل ہے؟ امام علی رضا علیہ السلام،’’میں جب اپنے پیکر کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس کے طول و عرض میں کسی طرح کی کوئی کمی و بیشی نہیں کر سکتا اس سے اس کا نقصان دور نہیں کر سکتا اور نہ
ہی اس کے فوائد اس تک پہنچا سکتا ہوں، اسی بات سے مجھے یقین ہو گیا کہ اس پیکر کا کوئی بنانے والا ہے اور اسی وجہ سے میں نے وجود صانع کا اقرار کیا۔ اس کے علاوہ بادل بنانا، ہواوٴں کا چلانا، آفتاب اور ماہتاب کو حرکت دینا، اس بات کی نشانی ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ضرور ہے۔

منابع  و مصادر
1. لسان العرب ،الامام العلامہ ابن منظور ،دار احیا التراث العزلی
بیروت،طبع اولیٰ،المجلد التاسع،مادہ ع ق ل ،باب العین،ص۳۲۶
2. بحار الانوار الجامعۃ لدور اخبار الاٗئمۃ الاطھار،الشیخ العلامہ محمد
باقر مجلسیؒ ،موسسہ بیروت،الجزء التاسع والاربعون،باب احوال اصحابہ و اھل زمانہ و مناظرتھم و مناظراتہ ؑ،ص ۲۶۱۔
3. بحار الانوار الجامعۃ لدور اخبار الاٗئمۃ الاطھار،الشیخ العلامہ محمد
باقر مجلسیؒ ، دار احیا التراث العزلی بیروت لبنان،الجزء الاول،کتاب
العقل و الجہل ص۱۳۹۔
4. مراۃ العقول فی شرح اخبار ال الرسول ،علامہ شیخ الاسلام محمد باقر ؒ،الجز الاول ،کتاب العقل و الجہل ،حدیث۴ ،ص۲۳
تحریر :فرحت حسین
ایم فل اسکالر اینڈ فاضل جامعۃ الکوثرمجلسی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *