امام زین العابدین علیہ السلام اور عبادت
آپ ؑ کی عبادت کسی کی تقلید کے طور پر نہیں تھی بلکہ اللہ پر عمیق ایمان کی وجہ سے تھی، جیسا کہ آپ نے اس کی معرفت کے سلسلہ میں فرمایا ہے، آپ نے نہ جنت کے لالچ اور نہ دوزخ کے خوف سے خدا کی عبادت کی ہے بلکہ آپ ؑ نے خدا […]
آپ ؑ کی عبادت کسی کی تقلید کے طور پر نہیں تھی بلکہ اللہ پر عمیق ایمان کی وجہ سے تھی، جیسا کہ آپ نے اس کی معرفت کے سلسلہ میں فرمایا ہے، آپ نے نہ جنت کے لالچ اور نہ دوزخ کے خوف سے خدا کی عبادت کی ہے بلکہ آپ ؑ نے خدا کو عبادت کے لائق سمجھا تو اس کی عبادت کی۔
مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار اور سب سے زیادہ اللہ کی اطاعت کیا کرتے تھے۔ آپ ؑ کی عظیم عبادت و انابت کے مانند کوئی نہیں تھا ،متقین اور صالحین آپ کی عبادت کی وجہ سے متعجب تھے، تاریخ اسلام میں صرف آپ ؑ ہی کی وہ واحد شخصیت ہے جس کو زین العابدین اور سید الساجدین کا لقب دیا گیا ۔آپ ؑ کی عبادت کسی کی تقلید کے طور پر نہیں تھی بلکہ اللہ پر عمیق ایمان کی وجہ سے تھی، جیسا کہ آپ نے اس کی معرفت کے سلسلہ میں فرمایا ہے ،آپ نے نہ جنت کے لالچ اور نہ دوزخ کے خوف سے خداکی عبادت کی ہے بلکہ آپ ؑ نے خدا کو عبادت کے لائق سمجھا تو اس کی عبادت کی، آپ ؑ کی شان وہی ہے جوآپ ؑ کے دادا امیرالمو منین ؑ سید العارفین اور امام المتقین کی شان تھی جنھوں نے آزاد لوگوں کی طرح اللہ کی عبادت کی ،جس کی اقتدا آپ ؑ کے پوتے امام زین العابدین علیہ السلام نے کی ہے آپ ؑ اپنی عبادت میں عظیم اخلاص کا مظاہرہ فرماتے تھے جیساکہ آپ ؑ کا ہی فرمان ہے :’’اِنِّيْ اَکْرَہُ اَنْ اَعْبُدَاللّٰہَ وَلَاغَرَضَ لِيْ اِلَّاثَوَابُہُ،فَاَکُوْنَ کَالْعَبْدِ الطَّامِعِ،اِنْ طَمِعَ عَمِلَ،وَاِلَّالَم یَعْمَلْ،وَاَکْرَہُ اَنْ اَعْبُدَہُ لِخَوْفِ عَذَابِہِ،فَاَکُوْنَ کَالْعَبْدِ السُّوْءِ اِنْ لَمْ یَخَفْ لَمْ یَعْمَلْ‘‘۔’’میں اللہ کی اس عبادت کوپسند نہیں کرتا جس میں ثواب کے علاوہ کوئی اور غرض ہو ،اگر میں ایسے عبادت کروں گا تو لالچی بندہ ہوں گا ،اگر مجھے لالچ ہوگا تو عمل انجام دوں گا ورنہ انجام نہیں دوں گا،اور میں اس بات سے بھی کراہت کرتاہوں کہ میں اللہ کے عذاب کے ڈر سے اس کی عبادت کروں کیونکہ اگر میں اس کے عذاب کے خوف سے اس کی عبادت کروں تو میں برے بندے کی طرح ہوجاؤں گا کیونکہ اگرڈر نہ ہوتا تو اس کی عبادت نہ کرتا‘‘۔آپ ؑ کے پاس بعض بیٹھنے والوں نے سوال کیا :آپ اللہ کی عبادت کیوں کر تے ہیں ؟آپ ؑ نے اپنے خالص ایمان کے ذریعہ جواب میں فرمایا:’’اَعْبُدُہُ لِمَاھُوَاَھْلُہُ بِاَیَادِیْہِ وَاِنْعَامِہِ ۔۔۔‘‘۔(۱)اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آپ ؑ معرفت خدا کی بنا پر اس کی عبادت کر تے تھے ،نہ ہی آپ کو اس کا کو ئی لالچ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا کو ئی خوف تھا ،آپ میں یہ حالت خدا پر عمیق ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ،جیسا کہ عبادت کی اقسام کے متعلق آپ ؑ نے فرمایا ہے :’’اِنَّ قَوْماًعَبَدُوْااللّٰہَ عَزّوَجَلَّ رَھْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ الْعَبِیْدِ وَآخَرِیْنَ عَبَدُوْارَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّاروَقَوْماعَبَدُوْااللّٰہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ الاحرارِ۔۔۔‘‘۔(۲)’’جو لوگ کسی چیز (جنت )کی خواہش میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت تاجروں کی عبادت ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کی کسی چیز (جہنم )کے خوف سے عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے اور جو لوگ شکر کے عنوان سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے ‘‘۔یہ عبادت اور اطاعت کی قسمیں ہیں جو میزان کے اعتبار کے سب سے زیادہ بھاری ہیں،ان میں سے خداوند عالم آزاد لوگوں کی عبادت پسند کر تا ہے چونکہ اس میں منعم عظیم کے شکر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے نہ اس میں ثواب کا لالچ ہے اور نہ ہی اس کے عذاب کا خوف ہے ۔امام علیہ السلام نے ایک دو سری حدیث میں اسی عبادت احرار کی تاکید فرما ئی ہے :’’عِبَادَۃُ الاحرارِ لَاتَکُوْنُ اِلَّاشُکْراًلِلّٰہِ،لَاخَوْفاًوَلَارَغْبَۃً ‘‘۔(۳)’’احرار کی عبادت صرف اللہ کے شکر کیلئے ہو تی ہے اس میں نہ کو ئی خوف ہوتا ہے اور نہ لالچ ‘‘۔امام ؑ کے دل اور عواطف اللہ سے محبت سے مملو تھے یہ آپ کی فطرت میں بسی ہوئی تھی اور راویوں کا کہنا ہے :آپ ؑ ہر وقت اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں مشغول رہتے تھے ،آپ ؑ کی ایک کنیزسے آپ ؑ کی عبادت کے متعلق سوال کیاگیا تواس نے سوال کیا : اُطْنِبُ، اَوْ أَخْتَصِر۔ ۔۔؟ بل اختصری ’’تفصیل سے بیان کروں یا مختصر طور۔لوگوں نے کہا مختصر ۔تو اس نے بیان کرنا شروع کیا‘‘آپ دن میں کھانا نہیں کھاتے تھے اور رات میں ہر گز آپ کیلئے بستر نہیں بچھایاجاتا تھا۔۔۔۔(۴)امام ؑ پوری زندگی دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،کبھی آپ ؑ نماز میں مشغول رہتے اورکبھی مخفیانہ طور پر صدقہ دینے میں مشغول رہتے ۔۔۔یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ مسلمین اور عابدوں کی تاریخ میں کو ئی بھی امام ؑ جیسا بااخلاص اور اللہ کا اطاعت گزار بندہ نہیں مل سکتا ہے ۔ہم آپ ؑ کی عبادات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں پیش کر رہے ہیں: آپ ؑ کا وضوبیشک وضو نور ہے اور گناہوں سے طہارت اور نماز کا پہلا مقدمہ ہے ،امام ؑ ہمیشہ با طہارت رہتے ، راویوں نے آپ ؑ کے وضو میں اللہ کے لئے خشوع کے متعلق کہا ہے :جب امام ؑ وضوکا ارادہ فرماتے تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتاتھا آپ ؑ کے اہل و عیال نے اس کے متعلق سوال کیا : وضو کے وقت آپ کی یہ حالت کیوں ہوجاتی ہے ؟ تو آپ ؑ نے اللہ سے خوف و خشیت سے ایسا ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوتے یوں جواب دیا:’’اَتَدْرُوْنَ بَیْنَ یَدَيْ مَنْ اَقُوْمُ ؟‘‘۔(۵)’’کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑاہونے کا ارادہ رکھتا ہوں ‘‘۔آپ ؑ وضو کا اتنا اہتمام فرماتے کہ کسی سے کو ئی مدد نہیں لیتے تھے آپ ؑ خود طہارت کیلئے پانی لاتے اور اس کو سونے سے پہلے ڈھانک کر رکھتے ،جب رات آجا تی تو آپ مسواک کرتے اس کے بعد وضو کرتے اور وضو سے فارغ ہو جانے کے بعد نماز میں مشغول ہو جاتے تھے ۔(۶)آپ ؑ کی نماز نماز مو من کی معراج ہے اور متقی کو اللہ سے قریب کر دیتی ہے (جیسا کہ حدیث میں آیاہے )ذاتی طور پر امام سب سے زیادہ نماز کو اہمیت دیتے تھے ،نماز کو معراج اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ نماز انسان کو اللہ تک پہنچا تی ہے اور خالق کائنات اور زندگی دینے والے سے متصل کر تی ہے جب آپ ؑ نماز شروع کرنے کا ارادہ فرماتے تو آپ کا جسم مبارک کانپ جا تا تھا ،آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا:’’اَتَدْرُوْنَ بَیْنَ یَدَيْ مَن اَقُوْمُ،وَمَنْ أُنَاجيْ؟‘‘۔(۷)’’کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کس کو پکار رہا ہوں ‘‘۔ہم ذیل میں آپ ؑ کی نماز اورآپ ؑ کے ذریعہ نماز میں خوشبو لگانے کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کر رہے ہیں :نماز کے وقت آپ ؑ کا خوشبو لگانا امام ؑ جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو آپ نے نماز پڑھنے کی جگہ جو خوشبو رکھی تھی اس کو لگاتے جس سے مسک کی خوشبو پھیل جا تی تھی ۔نماز کے وقت آپ ؑ کا لباس امام ؑ جب نماز کا ارادہ فرماتے تو صوف (اون) کا لباس پہنتے ،اور بہت موٹا(۸)لباس پہنتے تھے کیونکہ آپ ؑ خالق عظیم کے سامنے خود کو بہت ہی ذلیل و رسوا سمجھتے تھے ۔نماز کی حالت میں آپ ؑ کا خشوعنماز میں اما م ؑ صرف خدا ہی سے لو لگاتے ،عالم ما دیات سے خالی ہوتے ،اپنے اطراف میں کسی چیز کا احساس نہ کرتے ،بلکہ آپ ؑ بذات خود اپنے نفس کا بھی احساس نہیں کر تے تھے ،آپ ؑ اپنا دل اللہ سے لگا دیتے ،راویوں نے نماز کی حالت میں آپ ؑ کی صفت یوں بیان کی ہے :جب آپ ؑ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ ؑ کا رنگ متغیر ہو جاتا ،آپ ؑ کے اعضاء اللہ کے خوف سے کانپ جاتے ،آپ ؑ نماز میں اس طرح کھڑے ہوتے تھے جیسے ایک ذلیل بندہ بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہواور آپ ؑ نماز کو آخری نماز سمجھ کر بجالاتے تھے۔امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے نماز میں خشوع کے سلسلہ میں یوں فرمایا ہے : ’’کَانَ عَلِیُّ ابْنُ الْحُسَیْنِ اِذَاقَامَ فِيْ الصَّلَاۃِ کَاَنَّہُ سَاقُ شَجَرَۃٍ لَایَتَحَرَّکُ مِنْہُ شَیْئا اِلَّا مَاحَرَّکَتِ الرِّیْحُ مِنْہُ ‘‘۔(۱۰)’’علی بن الحسین ؑ نماز میں اس درخت کے تنے کے مانند کھڑے ہوتے جس کو اسی کی ہوا کے علاوہ کو ئی اور چیز ہلا نہیں سکتی ‘‘۔نماز میں آپ ؑ کا خشوع اتنا زیادہ تھا کہ آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس وقت تک نہیں اٹھا تے تھے جب تک کہ آپ ؑ کوپسینہ نہ آجا ئے ،(۱۱)یاگویا کہ آپ ؑ اپنے آنسؤوں اور گریہ کی وجہ سے پا نی میں ڈوب گئے ہوں۔(۱۲(راویوں نے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام ؑ کو نماز کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ ؑ کے کندھے سے آپ ؑ کی ردا ہٹ گئی تو آپ ؑ نے اس کو درست تک نہیں کیاابوحمزہ ثمالی نے جب امام ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا:’’وَیْحَکْ،اَتَدْرِيْ بَیْنَ یَدَيْ مَنْ کُنْتُ؟اِنَّ الْعَبْدَ لَایُقْبَلُ مِنْ صَلَاتِہِ اِلَّامَااَقْبَلَ عَلَیْہِ مِنْھَابِقَلْبِہِ ‘‘۔(۱۳)’’تم پر وائے ہو کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ؟بندہ کی وہی نماز قبول ہو تی ہے جو دل سے ادا کی جاتی ہے ‘‘۔آپ ؑ نماز میں اللہ سے اس طرح لو لگاتے کہ ایک مرتبہ آپ ؑ کے فرزند ارجمند کنویں میں گرگئے تو اہل مدینہ نے شور مچایا کہ اس کو بچائیے امام ؑ محراب عبادت میں نماز میں مشغول تھے ، اس کی طرف بالکل متوجہ ہی نہیں ہوئے ،جب نماز تمام ہو گئی تو آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا: ’’مَاشَعَرْتُ،اِنِّيْ کُنْتُ اُنَاجِيْ رَبّاً عَظِیْماً‘‘۔(۱۴)’’مجھے احساس تک نہیں ہوا،میں اپنے عظیم پروردگار سے مناجات کر رہا تھا ‘‘ایک مرتبہ آپ ؑ کے گھر میں آگ لگ گئی اور آپ ؑ نماز میں مشغو ل تھے اور آپ ؑ نے آگ بجھانے میں کو ئی مدد نہیں کی اور لوگوں نے آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: ’’أَلْھَتْنِیْ عَنْھَا النَّارُالْکُبْریٰ ‘‘۔(۱۵)’’مجھے اس سے بڑی آگ نے اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا ‘‘۔عبد الکریم قشیری نے امام ؑ کے نماز میں اس تعجب خیز اظہار کی یوں تفسیر کی ہے کہ امام ؑ کی یہ حالت اس وجہ سے ہو تی تھی کہ آپ ؑ عبادت کے عالم میں جس چیز کی طرف متوجہ ہوتے تھے وہ آپ ؑ کودنیا اور ما فیہا سے غافل کر دیتی تھی یہاں تک کہ ثواب یا عذاب الٰہی کے تصور سے خود اپنے نفس پرمترتب ہونے والے حالات کی طرف آپ ؑ کا قلب متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ (۱۶)ہزار رکعت نماز مورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ ؑ رات دن میں ایک ہزار رکعت(۱۷)نماز بجالاتے تھے آپ ؑ کے پانچ سو خرمے کے درخت تھے اور آپ ؑ ہر درخت کے نیچے دو رکعت (۱۸)نماز پڑھتے تھے ،آپ ؑ کی اتنی زیادہ نمازیں بجالانے کی وجہ سے ہی آپ ؑ کے اعضاء سجدہ پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے تھے ،جن کو ہر سال کا ٹا جاتا تھا، آپ ؑ ان کو ایک تھیلی میں جمع کرتے رہتے اور جب آپ کا انتقال ہو ا تو ان کو آپ ؑ کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا گیا ۔(۱۹)مستحب نمازوں کی قضاآپ ؑ نے پوری زند گی میں کو ئی مستحب نماز نہیں چھوڑی،اگردن میں آپ ؑ کی کو ئی مستحبنماز چھوٹ جا تی تھی تو آپ ؑ رات میں اس کی قضا بجالاتے اور آپ ؑ نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کرتے ہوئے یوں فرمایا:’’یَابُنَيَّ لَیْسَ ھٰذَاعَلَیْکُمْ بِوَاجِبٍ،وَلکِنْ أُحِبُّ لِمَنْ عَوَّدَ نَفْسَہُ مِنْکُمْ عَادَۃً مِنَ الخَیْرِأَنْ یَدُوْمَ عَلَیْھَا‘‘۔(۲۰)
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید