امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ
امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی تو پورا مدینہ امام علیہ السلام کے سوگ میں عزادار ہو گیا، مرد و زن، گورا کالا اور چھوٹا بڑا سب امام کے غم میں گریاں تھے اور زمین و آسمان سے غم کے آثار نمایاں تھے۔
امام علي بن الحسين عليہ السلام” جو “سجاد”، “زين العابدين”، اور “سيد الساجدين”، جیسے القاب سے مشہور تھے، کربلا میں آئے تو 22 سالہ نوجوان تھے۔
11 محرم کو عمر بن سعد نے اپنے مقتولین کی لاشیں اکٹھی کروائیں اور ان پر نماز پڑھی اور انہیں دفنا دیا مگر امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و خاندان کے شہداء کے جنازے دشت کربلا میں پڑے رہے۔ عمرسعد نے کوفہ کی طرف حرکت کا حکم دیا۔ عرب اور کوفے کے قبیلوں کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور اللہ کی لعنت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم کرکے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لئے تیار ہوئے؛ اور حرم رسول اللہ (ص) کی خواتین، بچوں اور بچیوں کو بےچادر، اونٹوں پر سوار کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔
جب یہ اسراء کوفے کے نزدیک پہنچے تو وہاں کے لوگ اسیروں کا تماشا دیکھنے کے لئے اکٹھا ہو گئے۔ ایک کوفی خاتون جو اپنے گھر کی چھت سے اسیروں کے کارواں کا تماشا دیکھ رہی تھی نے اسراء سے پوچھا: ’’تم کس قوم کے اسیر ہو؟‘‘۔
جواب ملا :’’ہم اسیران آل محمد (ع) ہیں‘‘۔
چنانچہ وہ خاتون جلدی سے نیچے اتر آئی اور بیبیوں کے لئے چادریں، مقنعے اور لباس لے کر آئی۔
اب ذرا تصور کریں کہ امام سجاد علیہ السلام کا حال کیا رہا ہوگا؟
ایک طرف سے بیماری کی وجہ سے نقاہت جسم مبارک پر طاری تھی، دوسری طرف سے اہل خاندان، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں، رشتہ داروں، چچاؤں اور بابا کی شہادت دل ٹکڑے ٹکرے تھا اور پھر ان کے قلم شدہ سر آپ (ع) کے سامنے نیزوں پر جارہے تھے مگر ان سب غموں اور دکھوں سے بڑا اور تکلیف دہ غم یہ تھا کہ آپ اس کے باوجود کہ(ع) امام تھے اور غیرت الہی کا مظہر تامّ و تمام تھے آپ کے خاندان کی سیدانیاں بے مقنعہ و چادر آپ (ع) کے ہمراہ اسیر ہوکر جارہی تھیں جبکہ چاروں طرف سے نامحرموں اور دشمنوں کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں…
دارالامارہ میں اسیران آل محمد کے داخلے سے قبل، امام حسين (ع) کا سر مطہر ابن زياد کے سامنے لایا گیا۔ ابن مرجانہ کے ہاتھ میں خیزران کی ایک چھڑی تھی جس سے امام کے لب و دندان پر وہ بے ادبی کرنے لگا۔
یہ بے ادبی اور جسارت حاضرین کے اعتراض و تنقید کا باعث بنی۔ رسول اللہ (ص) کے صحابی اور جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ جہاد کرنے والے بزرگ ’’زيد بن ارقم‘‘ جو اس وقت معمر اور بوڑھے ہوچکے تھے، نے عبيداللہ سے خطاب کرکے تنبیہ کی: ’’اپنی چھڑی اٹھا لو! خدا کی قسم میں نے پيغمبر اکرم (ص) کو دیکھا کہ جن لبوں اور دانتوں کو تم چھڑی مار رہے ہو آپ (ص) ان کے بوسے لیا کرتے تھے‘‘۔ ابن ارقم یہ کہہ کر رونے لگے۔
یزید کے گورنر نے کہا: ’’اگر تم پاگل اور عقل باختہ بوڑھے نہ ہوتے تو ابھی اسی وقت تمہارا سر قلم کردیتا‘‘۔
ابن ارقم اسی وقت اٹھے اور دارالامارہ سے باہر نکلتے ہوئے کہا: “اے عرب! آج سے تم سب غلام بن گئے۔ تم نے فرزند فاطمہ (س) کو قتل کیا اور ابن مرجانہ کو اپنا امیر تسلیم کیا!۔خدا کی قسم! یہ شخص تمہارے نیک اور صالح افراد کو قتل کرے گا اور تمہارے شریروں اور جرائم پیشہ افراد سے کام لے گا‘‘۔
اسی مجمع میں رسول خدا (ص) کے ایک اور صحابی ’’انس بن مالك‘‘ بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کا سر دیکھ کر اور عبیداللہ کی جسارت کا مشاہدہ کرکے روئے اور کہا: ’’یہ رسول اللہ کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد اسراء کو ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا۔
ابن مرجانہ نے امام سجاد (ع) کو دیکھا تو کہا: ’’تم کون ہو؟‘‘
فرمایا: ’’علي بن الحسين‘‘۔
اس ملعون نے کہا: ’’کیا علی ابن الحسین کو خدا نے نہیں مارا؟‘‘
امام نے فرمایا: ’’میرے ایک بھائی کا نام بھی علی تھا جن کو لوگوں نے قتل کر ڈالا‘‘۔
ابن زياد نے کہا: ’’خدا نے مارا اسے‘‘۔
امام نے فرمایا:’’ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا = خدا موت کے وقت انسانوں کی روح اپنے قبضے میں لے لیتا ہے‘‘ (سورہ زمر آیہ 42)
ابن زياد نے غصے میں کہا: ’’میرے جواب میں دلیری دکھاتے ہو؟‘‘۔ اپنے جلادوں کوحکم دیا کہ ان کا کلام قطع کردیں اور ان کا سر قلم کردیں۔
اسی ہنگام حضرت زينب(س) نے فرمایا: ’’اے پسر زياد! تم نے جتنا ہمارا خون بہایا اتنا بس ہے‘‘۔ اورامام سجاد کو جناب زینب نے اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا: ’’واللہ میں ان سے جدا نہ ہونگی۔ اگر تم انہیں مارنا چاہتے ہو تو مجھے بھی قتل کردو‘‘۔
ابن زياد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: “عجبا كہ یہ عورت اپنے بھتیجے کے ہمراہ قتل ہونا چاہتی ہے! چھوڑو اس کو کیوں کہ یہ اپنی بیماری سے ہی مر جائے گا‘‘…
امام سجاد (ع) نے اس کے بعد سفر شام کی مشقتیں، اسيري کے دکھ درد اور دربار یزید کے عذاب کو برداشت کیا… اور اپنی عمر شریف کے آخری ایام تک کربلا اور کوفہ و شام کے مصائب کو یاد کرتے تھے اور گریہ فرماتے تھے …
روايت ہے کہ مدینہ میں ایک باطل گو مسخرہ رہتا تھا جو اپنی بذلہ گوئی اور مذاق کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا۔ اس نے ایک روز کہا: ’’علي بن الحسين نے مجھے تھکا کر رکھ دیا ہے اور میں عاجز آگیا ہوں؛ کیونکہ میں نے جتنی بھی کوشش کی انہیں نہ ہنسا سکا‘‘۔
امام سجاد (ع) محرم الحرام سنہ 94 (يا 95) ہجري، کو 57 سال کی عمر میں اموی بادشاہ “عبدالملك بن مروان” کے حکم پر اس کے ایک بیٹے کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بستر شہادت پر لیٹ گئے۔
امام علیہ السلام نے بیماری کے عالم میں اپنی اولاد کو جمع کیا اور اپنے فرزند ’’محمد بن علی‘‘ (کہ وہ بھی کربلا کی مصیبتوں میں موجود تھے جبکہ اس وقت آپ کی عمر صرف ۴ سال تھی)، کو اپنا وصی مقرر کیا اور انہیں ’’باقر‘‘ نام دیا اور اپنی دیگر اولاد کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی اور انہیں نصیحت و وصیت کی۔
اس کے بعد امام باقر علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: ’’میں تمہیں وہی وصیت کرتا ہوں جو میرے بابا نے مجھے اپنی شہادت کے دن وصیت کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں ان کے والد نے وصیت کی تھی اپنی شہادت کے وقت اور وہ یہ ہے کہ’’ ہر گز اس شخص پر ظلم مت کرنا جس کا خدا کے علاوہ کوئی یار و مددگار نہ ہو‘‘۔
امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی تو پورا مدینہ امام علیہ السلام کے سوگ میں عزادار ہو گیا، مرد و زن، گورا کالا اور چھوٹا بڑا سب امام کے غم میں گریاں تھے اور زمین و آسمان سے غم کے آثار نمایاں تھے۔ مگر ہائے رے مظلوم حسین۔۔۔
الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
اہم نکتہ
یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ امام سجاد کو “عابد بیمار” کہنا درست نہیں ہے۔ آپ (ع) فقط مکہ سے کربلا کے سفر کے دوران بیمار ہوئے اور عاشورا کے دن بیمار رہے اور اس امر کا راز اس وقت کھلا جب اس روز امام کے تمام فرزند – حتی کہ اصغر شیرخوار تک … شہید ہوئے اور جب شمر ملعون اپنے اوباش کے ہمراہ آپ (ع) کے خیمے میں پہنچا تو اس نے امام (ع) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا مگر دشمن کے لشکر میں موجود “حميد بن مسلم” – اور دوسرے قول کے مطابق “عمر بن سعد” نے امام علیہ السلام کی بیماری کا ذکر کیا اور شمر کے ارادے کو عمل جامہ نہیں پہننے دیا۔
پس حضرت سجاد (ع) کی بیماری صرف ان ہی دنوں تک محدود تھی اور شیعیان اہل بیت علیہم السلام کے لئے غیر شائستہ ہے کہ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوں اور امام سجادعلیہ السلام کو “زين العابدين بيمار یا امام بیمار یا عابد بیمار” جیسے القاب سے نوازیں! اور پھر یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ امام علیہ السلام کو امام بیمار کا لقب اموی فکر نے دیا ہو کیونکہ ایسے بےجا القاب کا فائدہ بھی صرف امویوں کو ملتا ہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید