تازہ ترین

امام زین العابدین علیہ السلام کی ماہ مبارک رمضان کے ساتھ دوستانہ انداز میں گفتگو

صحیفہء کاملہء سجادیہ در حقیقت انسان کامل کے صفحہء قلب کا مظہر ہے کہ جو چاہنے والے کی محبوب کے ساتھ دل انگیز بات چیت اور اس سے دعا کی صورت میں جلوہ نما ہوئی ہے اور اس نے کوچہء دوست کے سالکین اور محفل انس کے خلوت نشینوں کو سب سے خوبصورت الہی تعلیمات سے آراستہ کیا ہے ۔ان میں ایک امام سجاد(ع) کی دوستانہ اور دلچسپ انداز میں ماہ مبارک رمضان کے ساتھ گفتگو ہے جو اس نورانی مہینے کے بارے میں ہے ۔

شئیر
54 بازدید
مطالب کا کوڈ: 543

عارفوں کے رہنما اور سالکوں کے پیشوا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام  بھی جب ھلال رمضان المبارک کو ضیافت الہی کے آغاز کے موقعے پر دیکھتے تو انتہائی شوق کے ساتھ ماہ رمضان سے گفتگو کرتے اور اس کے آثار و برکات کو بیان فرمایا کرتے تھے ،اور اس ماہ منیر کی جدائی کے لمحوں میں بھی پورے شوق کے ساتھ اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کو الوداع کیا کرتے تھے ۔

اگر چہ ماہ رمضان کے دونوں موقعوں یعنی روئیت ہلال اور اس کے جمال کی خدا حافظی کے موقعے پر بہت سارے معارف بیان ہوئے ہیں ،لیکن اس مقالے کی گنجائش محدود ہونے کی وجہ سے ،اس کے آب زلال سے صرف چند محور میں حلقوم تر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

مہینے سے بات کرنے کا راز
امام زین العابدین علیہ السلام نے ہلال دکھائی دینے کے موقعے پر بھی  اور اس ماہ کی رخصتی کے وقت بھی اس سے ایسے گفتگو کی ہے جیسے دو اشخاص آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں ۔ہر چیز سے پہلے اس چھپے ہوئے سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ اس کام کا فلسفہ کیا ہے ،آیا چاند اور سورج کے ساتھ کہ جو دو ظاہر میں نابینا اور بہرے موجودات ہیں زندہ موجودات کی طرح گفتگو کی جا سکتی ہے؟ اس سلسلے میں کہنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن مختصر طور پر اشارہ کر دیا جائے کہ وحی عرفان اور فلسفے کی تعلیمات کی بنیاد پر جمادات اور نباتات بھی ادراک اور شعور کی نعمت سے بہرہ مند ہیں ۔اسی وجہ سے قرآن کریم کی متعدد آیات میں تصریح کی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنے پیدا کرنے والے کی تسبیح بیان کرتی ہے ،چنانچہ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اس مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، منجملہ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے : «یُسَبِّحُ لِلّهِ ما فِی السّماواتِ وَ ما فِی اْلاَرضِ(جمعه ، آیه 1 ، حشر آیه 1، حدید آیه 1 ، صف آيه 1).جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے  وہ ہر چیز خدا کی تسبیح بیان کرتی ہے ۔

یا دوسرے مقام پر ستاروں اور درختوں کے سجدے کے بارے میں خبر دی ہے اور ارشاد ہوتا ہے : «وَ النّجْمُ وَ الشّجَرُ یَسْجُدانَ؛ (الرحمن آیه 6).ستارے اور درخت خدا کے حضور میں سجدہ کرتے ہیں ۔حکیم صدر المتالھین نے وحی کی اس نوعیت کی تعلیمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ تسبیح و تقدیس معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ تمام موجودات یہاں تک جسمانی اجرام بھی ادراک اور معرفت کے حامل ہیں، اور اپنے وجودی مرتبے کے بقدر سماعت اور دانائی رکھتے ہیں ۔(الاسفار الاربعہ ،بیروت ؛نشر دار الاحیاء التراث العربی ،بی تا ج۶ ص۱۱۸ ؛ گذشتہ ج۱ ص ۱۳۹ و ۱۴۰ )

یہی  وجہ ہے کہ امیر المومنین(ع) نے نقل کیا ہے؛ رسولخدا ص نے ایک درخت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «یا أیَتُهّا الشَجِرَةَ اِن کنتِ تؤمِنینِ بِاللهِ وَالیومِ الاخَرِ و تَعلَمینَ أنِی رَسولُ اللهِ، فَانقَلِعِی بعُروُقِکِ حَتی تَقَضِ بَینَ یَدَیَّ بِاذنَ اللهَ؛(نھج الباغہ ترجمہ :علی شیروانی ،قم:نشر دار العلم ۱۳۸۱ ش خ ۱۹۲ ،ص ۳۶۰ )اے درخت ! اگر خدا و رسول اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو اور جانتے ہو کہ میں خدا کا فرستادہ ہوں ،تو خدا کے حکم سے زمین سے اکھڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو جا ،

لہذا امام سجاد علیہ السلام کی دعاوں میں ماہ رمضان سے گفتگو کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ع جانتے ہیں کہ رمضان ادراک و شعور رکھتا ہے اور سماعت و دانائی سے بر خوردار ہے ۔وہ ماہ مبارک نہ صرف حضرت کی بات سنتا تھا بلکہ امام کی گفتگو کو سمجھتا تھا اور آپ کی محبت کا جواب دیتا تھا اس سلسلے میں مولوی نے بہت اچھے اشعار کہے ہیں :

ماہ با احمد اشارت بین شود       نار ابراہیم را نسرین شود

سنگ بر احمد سلامی می کند/   کوہ یحی را پیامی می کند

ما سمیعیم و بصیریم و خوشیم/   با شما نا محرمان ما خاموشیم

چون شما سوی جمادی میروید/  محرم جان جمادی می شوید

از جمادی عالم جانھا روید/       غلغل اجزائ عالم بشنوید

(بلخی جلال الدین ،ترجمہ: علی شہروانی ،قم:نشر دار العلم ۱۳۸۱ ش ،خ ۱۹۲ ،ص ۳۶۰ )

٭ ہلال برکت اور کلید سعادت،

امام سجاد ع ہلال ماہ رمضان کی دعا کے ایک حصے میں ،اس سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «جَعَلَکَ مَفتاَ شَهرٍ حادِثٍ لِاَمْرَ حادِثٍ، فَاْساَل اللهَ رَبیَّ و ربَّکَ، و خالِقُک، وَ مُقدِرّی و مُقَدِرَّکَ وَ مُصَوِّرَکَ، أنْ یَجعَلَکَ هِلالَ بَرَکةٍ لاتَمْحَقُها الایّامُ؛ ( علی بن الحسین ع صحیفہء کامل سجادیہ ،قم :دفتر نشر الھادی ،چاپ اول ۱۳۷۶ ش ،دعای ۴۳ ص ۱۸۴)خدا نے تجھے نئے مہینے کے لیے نئے کام کی کلید قرار دیا ہے ۔میں اس خدا سے جو میرا پروردگار اور تیرا پروردگار  ہے ،میرا خالق اور تیرا خالق ہے ،میرا مقدر کرنے والا اور تیرا مقدر کرنے والا ہے ،اور مجھے صورت دینے والا اور تجھے صورت دینے والا ہے ،مانگتا ہوں کہ تجھے برکت کا مہینہ قرار دے ، اور زمانہ اس کی برکت میں کمی نہ کرے ۔

اس نورانی اقتباس میں کہ جو امام سجاد ع کی دعا کے کوثر گوارا کے ایک قطرے کی مانند ہے ،ماہ رمضان کو ہلال برکت آفرین اور کلید سعادت قرین قرار دیا گیا ہے ،اس طرح کی بات صرف وہی کر سکتا ہے کہ جس نے ایسے دوست سے ملاقات کی ہو کہ ہمیشہ جس کے انتظار میں تھا اور اب اس کو وصال کا اذن ملا ہے ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ کیوں ماہ رمضان کے دیدار کو ہلال برکت اور کلید سعادت قرار دیا گیا ہے ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ سوال کے جواب میں چند باتیں پیش کرنے کے قابل ہیں :

پہلی بات : سال کے تمام دنوں میں ماہ رمضان صرف وہ مہینہ ہے کہ جس میں بندگی اور عبادت کے اظہار کے لیے عام ماحول وجود میں آتا ہے ۔اور مومنین ،گوناگوں انفرادی ،ملکی ، اور اجتماعی شرائط کے ساتھ اطاعت و عبادت کی زیادہ سے زیادہ توفیق پاتے ہیں اور سحر کے ہنگام اس قرآنی اصل کو اپنے اندر سے ظاہر کرتے ہیں کہ : «تَتَجافی جُنوبُهُمُ عن المَضَاجِعِ یَدعُونَ رَبَهُمُ خَوفاً و طَمَعاً ؛(سجدہ، آیہ ۱۶ )ان کے پہلو بستروں سے جدا ہو جاتے ہیں ،اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور طمع کی حالت میں پکارتے ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرار سعادت کی کنجی قرآن کے اسی نکتے میں پوشیدہ ہے ۔اس بنا پر جن لوگوں نے اس پھل کو چکھا ہے انہوں نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے اور بہت خوب لکھا ہے :

ہر گنج سعادت کہ خدا داد بہ حافظ ۔۔۔۔از یمن دعای شب و ورد سحری بود

(دیوان حافظ ص ۲۱۷ )

یا ایک اور مقام پر ہم دیکھتے ہیں :

بہ طرف گلشنم گذر افتاد وقت صبح ۔۔۔آن دم کہ کار مرغ سحر آہ و نالہ بود ،

(گذشتہ حوالہ ص ۲۱۵ )

دوسری چیز : ماہ مبارک رمضان ایک ایسا موقع ہے کہ مومنرات اور سحری کے ورد کے علاوہ ،ہر روز روزے کے ذریعے سعادت کے خزانے کو کھولتا ہے۔اور  اپنی بساط کے مطابق معرفت اور علم کے خزانے لوٹتا ہے ۔اس لیے کہ روزہ انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے ،اور انسان روزے کے ذریعے ،اللہ کے اسم ، الصمد کا مظہر بن جاتا ہے ،روزہ انسان کے وجود میں اسم الصمد کی تجلی کا راستہ ہموار کرتا ہے اور انسان کو فرشتہ صفت بنا دیتا ہے ۔یعنی جس طرح فرشتے اسم الصمد کے مظہر کے طور پر ،کھانے پینے اور نیند اور آرام سے منزہ ہیں ،اسی طرح روزہ دار انسان بھی روزہ داری اور کھانے پینے سے پرہیز کے ذریعے،اپنے اندر صفت صمدیت کی تجلی کے راستے کو ہموار کرتا ہے (صادقی ارزگانی،محمد امین ، شناخت عارفانہ زہراء قم : انتشارات بوستان کتاب ،۱۳۹۲ ش ص ۲۸۹ )اسی وجہ سے مولوی کہتا ہے:

گر تو این انبان ز نان خالی کنی ۔۔۔ پر ز گوہرھائ اجلالی کنی ،

طفل جان از شیر شیطان باز کن ۔۔بعد ازا آنش با ملک انباز کن

(بلخی،مثنوی معنوی دفتر اول ص۷۶)

این دہان بستی دھانی باز شد ۔۔۔کو خورندہ لقمہ ھای راز شد

(گذشتہ ،دفتر سوم ص۵۰۱ )

لب فرو بند از طعام و از شراب ۔۔۔سوی خوان آسمانی کن شتاب،

گذشہ، دفتر پنجم ،ص ۷۹۷ )

ماہ رمضان کی عاشقانہ رخصتی،

امام سجاد(ع) ماہ رمضان کو عاشقانہ انداز میں رخصت کرتے وقت،اس کو مستقیم طور پر سلام ،اور حضوری خطاب  کرتے ہوئے ایسے معارف بیان کیے ہیں کہ جن سے ایک طرف تو ماہ رمضان کی خیر و برکت کے چھپے ہوئے راز آشکار ہوتے ہیں  اور دوسری طرف  سب کو سکھاتا ہے کہ موقعے بہار کے بادلوں کی طرح تیزی سے نکل جاتے ہیں لہذا ان کو غنیمت سمجھنا چاہیے ،اور اپنے آپ کو ان کی دل انگیز نسیم کے راستے میں رکھنا چاہیے ،یہ وہی نکتہ ہے کہ جو رسول خدا ص کی زبان مبارک سے بیان کیا گیا ہے : «انّ لِربّکُمُ فِی ایَّامِ دَهرِکُم نَفَحاتٍ اَلا فَتَعَرَّضوا لَها (ابن ابی جمہور ،عوالی اللئالی قم : مطبعۃ سید الشھداء ۱۴۰۵ ق ج۱ ص۲۹۶ ، مجلسی محمد باقر بحار الانوار بیروت ؛ نشر دار الاحیاءللتراث ۱۴۰۳ ق ج۶۸، ص ۲۲۱ ) بلا شبہ تمہارے پروردگار کی جانب سے تمہاری زندگی میں ملایم ہوائیں تمہاری طرف چلتی ہیں ،آگاہ رہو اور خود کو ان کی گذرگاہ پر رکھو ،مولوی نے اس بلند تعلیم کی شان میں یوں کہا ہے :

گفت پیغمبر کہ نفحتھای حق ۔۔۔اند این ایام می آرد سبق

گوش و ھوش دارید این اوقات را ۔در ربایید این چنین نفحات را

نفحہ آمد مر شمارا دید و رفت ۔۔۔ھر کہ را می خواست جان بخشید و رفت

(بلخی ،مثنوی معنوی ،گذشتہ دفتر اول ص ۸۹ )

اس مقام پر ہم ،ماہ رمضان المبارک کے بارے میں سید الساجدین امام العابدین کی معرفت بخش دعاووں کی جانب اشارہ کریں گے :

بڑا مہینہ اور اولیاء کی عید،

امام سجاد ع کی گفتگو کا ایک دل انگیز حصہ جو ماہ رضان کے ساتھ ہے ،اس کی یہ دوستانہ اور دلبرانہ رخصتی ہے ؛ «اَلسّلامُ عَلَیکَ یا شَهرَ اللهِ الْاَکبَر وَ عیدَ اَولیائِهِ۔ (علی بن حسین ع ، صحیفہء کاملہ سجادیہ ،گذشتہ دعای ۴۵ ص ۱۹۸ )سلام ہو تجھ پر اے بڑے مہینے اور اولیاء الہی کی عید ؛

اب یہ دیکھنا ہے کہ کیوں ماہ رمضان کو  خدا کابڑا مہینہ اور اولیاء کی عید کہا گیا ہے ؟جس طرح حضرت علی ع نے فرمایا ہے کہ قرآن کی آیتیں ایک دوسری کی تفسیر بیان کرتی ہیں ،اور ان میں سے بعض دوسری آیات کے مفہوم کی شاہد ہیں (نھج البلاغہ قم:نشر موسسہء امیر المومنین  خطبہ ۱۳۳ ) روایات معصومین ع بھی ایک ایک دوسری کا مفہوم واضح کرتی ہیں ،اور ان میں سے بعض روایات کو سمجھنے کے لیے دوسری روایات سے مدد لی جا سکتی ہے ،لہذا حضرت کی دعا کے اس حصے کو سمجھنے کے لیےحضرت کی دعا کے ایک اور حصے سے کہ جو  ماہ رمضان کی روئیت ہلال کی دعا میں آیا ہے  استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔حضرت نے وہاں ماہ رمضان کی توصیف میں تفصیل کے ساتھ گفتگو فرمائی ہے اور منجملہ ان اوصاف کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ماہ  رمضان خدا کے قرب کا مہینہ ہے روزہ داری اور اسلام کا مہینہ ہے  ماہ پاکیزگی اور ماہ تہذیب اور خود سازی ہے ،اور نماز و عبادت میں قیام اور کھڑے ہونے کا مہینہ ہے یا نزول قرآن کا مہینہ ہے کہ جس کو بشر کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس میں ہدایت کرنے والے دلایل ہیں ۔

حضرت ماہ  رمضان کی ان صفات کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : «.فَاَبانَ فَضیلَتَهُ عَلی سایرِ الشُّهُورِ بِما جَعَلَ له مِن الحُرماتِ المَوفوُرةِ وَ الفَضایِلِ المَشْهوُرَةِ۔۔۔ (علی بن الحسین ،ؑ صحیفہء کاملہء سجادیہ ،گذشتہ ، دعای ۴۴ ص ۱۸۶ ) اور اس طرح آپ نے اس ماہ کی تمام مہینوں پر فضیلت اور برتری کو ،اس کی حرمتوں کی وجہ سے اور بہتیروں کے اس کی قدردانی کی بنا پر اور اس کے فضائل اور اس کی آشکارا برتری کی بنا پر کہ جو اس کے لیے ہے ،نمایاں فرمایا ،

یا اس دعا کے ایک اور حصے میں ماہ رمضان کی برتری کی حکمت کے بارے میں یوں فرمایا ہے : ثم فضل لیلۃ واحدۃ من لیالیہ علی لیالی الف شھر و سماھا لیلۃ القدر ؛ (گذشتہ ص ۲۸۵ ) خدا نے ماہ رمضان کی ایک رات کو ہزار راتوں پر فضیلت عطا کی اور اس کا نام شب قدر رکھا ،لہذا بقول مولوی :

آفتاب آمد دلیل آفتاب ۔۔ گر دلیلت باید از وی رو متاب ،

(بلخی ،مثنوی معنوی ،گذشتہ ،دفتر اول ص ۱۰ )

ماہ رمضان کی ان صفات کے ذریعے ،ایک بڑا راز اور ماہ رمضان کا عید ہونا ،کہ کلام امام سجاد ع میں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اشارہ ہو جاتا ہے ۔اس لیے کہ ایک طرف تو یہ مہینہ آسمان کے آخری وحی نامے کے نزول کا ظرف ہے ،تو دوسری جانب اس کی ایک رات ہزار مہینوں  یعنی تقریبا ۸۳ سال سے برتر ہے۔جو ایک انسان کی طبیعی عمر ہے ۔یقینا رمضان بڑا مہینہ بھی ہے اور عظیم الشان عید بھی ہے ،لہذا مناسب ہے کہ انسان کامل کا دل اس کے فراق میں تنگ ہو اور اس کی جدائی کے وقت یہ پیغام دے اور درود و سلام کے ساتھ اس کو رخصت کرے ۔ اور اگر آنحضرت نے ماہ رمضان کو اولیائے الہی کی عید سے یاد کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے اولیاء اس ماہ میں رات کے قیام اور دن کے روزوں کے ذریعے وصال محبوب کی خوشی اور خرمی کا تجربہ کرتے ہیں اور دوست کے کوچے میں جاودانی دولت سے مالامال ہوتے ہیں ۔یہ وہی نکتہ ہے کہ جس کی توصیف میں حافظ نے کہا ہے :

وصال روز عمر جاودان بہ ۔۔ خداوندا مرا آن دہ کہ آن بہ

دلا دایم گدای کوی او باش ۔۔بہ حکم آن کہ دولت جاودان بہ

بہ داغ بندگی مردن بر این در ۔۔ بہ جان او کہ از ملک جھان بہ

ہمنشین کریم اور سب سے اچھا زمانہ

امام سجاد ع ماہ رمضان کے ساتھ گفتگو کے ایک اور حصے میں اس کو کریم ہمنشین اور زندگی کا سب سے اچھا زمانہ بتاتے ہوئے فرمایا ہے : السلام علیک یا اکرم مصحوب من الاوقات  و خیر شھر فی الایام و الساعات ؛ (علی بن الحسین (ع) صحیفہء کاملہء سجادیہ ،گذشتہ ، دعای ۴۵ ص ۱۹۸ ) سلام ہو تجھ پر اے با کرامت ہمنشین  تمام اوقات میں سے ، اور اے میری زندگی کی گھڑیوں اور اس کے دنوں میں سے بہترین ماہ !

خدائی تعلیمات کی بنیاد پر آدمی کے تمام امور اور اعمال اپنے وقت کے مقروض ہوتے ہیں ۔(دیکھیے: ابن ابی جمہور ،عوالی اللئالی ،گذشتہ ، ج۱ ص ۳۶ اور ۲۳۹ ؛ مجلسی ،بحار الانوار ،گذشتہ ، ج۷۴ ،ص  ۱۶۶ ح۹۲ ) اس بنا پر دیار دوست کے سچھے راہی اپنے وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور سلوک کی راہ میں اپنی کامیابیوں کے لیے کچھ اوقات کو غنیمت سمجھتے ہیںاور اس سے معقول فائدہ اٹھانے کے بعد اس وقت کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں حافظ کا شعر کس قدر خوبصورت اور درس آموز ہے ؛ جہاں وہ کہتا ہے :

دوش وقت سحر از غصہ نجاتم دادند ۔۔و اندر آن ظلمت شب آب حیاتم دادند

چہ مبارک سحری بود و چہ فرخندہ شبی۔۔ آن شب قدر کہ این تازہ براتم دادند

ھمت حافظ و انفاس سحر خیزان بود ۔۔۔کہ ز بند غم ایام نجاتم دادند،،،،،،،،

(دیوان حافظ،ص ۱۸۳ )

اس سلسلے میں درج ذیل داستان انتہائی سبق آموز ہے ۔

کہتے ہیں کہ سید صدر الدین عاملی کہ جو اصفہان کے ایک بزرگ عالم تھے اور نہایت ہی وارستہ انسان اور صاحب مناجات تھے ،ماہ رمضان کی ایک رات میں امیر المومنین ع کے حرم  نورانی میں داخل ہوتے ہیں،اور زیارت کے بعد اس بابرکت وقت کو غنیمت شمار کرتے ہیں ،اور چاہتے ہیں کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک کونے میں بیٹھ کر دعائی ابو حمزہ ثمالی پڑھنے میں مشغول ہو جاتے ہیں ،جب اس جملے پر پہونچتے ہیں ؛الہی لا توئدبنی  بعقوبتک ؛(قمی، شیخ عباس ،مفاتیح الجنان ،قم:نشر ناشران ،۱۳۸۹ ش ص۳۷۶ )خدایا مجھے سزا دے کر ادب نہ سکھا ،تو ان پر گریے اور آنسووں کا غلبہ ہو جاتا ہے  اور وہ روتے ہوئے اسی جملے کو بار بار پڑھتے ہیں یہاں تک کہ ہوش کھو بیٹھتے ہیں ،(رحمتی ،محمد گنجینہء معارف قم: انتشارات صبح پیروزی ،ج۱ ص ۴۸۰ )

اس بنا پر بعض اوقات سنہری مواقع کی مانند ہو تے ہیں کہ جن کے ساتھ انسان کی مصاحبت آدمی کے لیے سرنوشت ساز آثار و نتائج کی حامل ہو تی ہے ۔اس دوران  ماہ رمضان،کہ جو زمانے کی روح ہے ،انسان کے معنوی تکامل میں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مہیا کرنے میں بے بدیل کردار ادا کرتا ہے ،اس کے شب و روز اور اس کے تمام لمحے تیز چلنے والے براق کی مانند آدمی کو جمال مھبوب کے دیدار کی خاطر معنوی آسمان کی بلندیوں میں لے جاتے ہیں ۔یہ وجہ ہے کہ امام سجاد ع نے اس مہینے کو با کرامت ہمنشین اور اپنی عمر کے بہترین اوقات میں شمار کیا ہے ،اور اس کی جدائی کے وقت اس کی نوازش کی ہے اور اس کے آثار و برکات کا ذکر کیا ہے اور اس طرح اس کے چھپے ہوئے اسرار کو دوسروں کے سامنے بیان کیا ہے ۔

گرانقیمت ساتھی کی جدائی

ماہ رمضان کے ساتھ امام سجاد ع کی گفتگو کے ایک اور حصے میں آیا ہے ؛السلام علیک من قرین جل قدرہ موجودا،و افجع فقدہ مفقودا و مرجوا لم فراقہ ؛(علی بن الحسین ع صحیفہء سجادیہ گذشہ، دعای ۴۵ ص ۱۹۸ ) سلام ہو تجھ پر اے ہمدم کہ تیری آمد بہت ہی گرانقیمت تھی لیکن تیرا جانا بہت ہی دشوار لگ رہا ہے ،اور ایسا امید کا مرجع ہے کہ جس کی جدائی درد آور ہے ۔

یہاں امام ع نے پہلے سے زیادہ دوستانہ الفاظ میں ماہ رمضان سے بات کی ہے ،اور حضرت کے کلام میں استعمال ہونے والے الفاظ زیادہ دلنوازی کا پیغام دیتے ہیں ،امام نے خوبصورت بیان کے ساتھ ایک طرف اس ماہ کے وصال کے زمانے کی طرف اشارہ کیا ہے اور دوسری طرف اس کی جدائی کے لمحوں کو یاد کیا ہے اور اس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے ؛تیرا آنا میرے لیے خوشی اور مسرت لاتا ہے اور تیرا جانا رنج آور ہے ،اور میں تیرے واپس آنے کی امید میں تیرا انتظار کروں گا ۔

ماہ رمضان کے ساتھ اس طرح سے بات کرنا اس امر کی علامت ہے کہ ماہ رمضان دلوں کا محبوب ہے اور انسان کامل اس حقیقت کی گہرائی سے واقف ہوتا ہے ۔یہ وجہ ہے کہ اس کی نوازش اور ستائش کی ہے اور اس کو زیبا بھی بتایا ہے ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ اس ماہ کی کونسی خصوصیت سبب بنی ہے کہ اس کا حضور ،جانفزا ،اس کا فراق جانکاہ ،ہے اور اس کے پھر سے دیدار کی آرزو کی جاتی ہے ۔

اس طرح کے معنوی آثار اور بے بدیل برکتوں کے پیش نظر  اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی موجودگی رحمت الہی کی بارش کا سبب اور اس کی جدائی دردناک ہے ۔لہذا بالکل بجا ہے کہ انسان اس طرح پر فیض موقعے کے دوبارہ آنے کے انتظار میں رہے ،اور آسمانی دسترخوانوں کے نزول اور ضیافت الہی کے گھڑیاں گنے ۔

ایک معاصر شاعر نے ایک نظم میں رمضان کے بارے میں کہا ہے :

از این کہ ماہ ،ماہ روزہ داری است۔۔از این کہ آسمان در بی قراری است

از اینکہ فیض حق از پست و بالا۔۔۔بہ صدھا کھکشان ساری جاری است ،

بھشت از دودہء آن جان گرفتہ ۔۔۔جھنم سر خط پیمان گرفتہ ۔۔۔۔۔۔

دو عالم در فنای فیض و بسطش ۔۔۔۔رہ آزادی و عصیان گرفتہ۔۔۔۔۔

(علامہ موحد بلخی ،گلشن ناز ،نشر ہونے والی ہے )

محنت کی برطرفی اور رحمت کا فیض

ماہ مبارک رمضان کے ساتھ امام سجاد ع کی گفتگو کے ایک اور حصے میں ہم پڑھتے ہیں کہ :السلام علیک کم من سو ءحرف بک عنا ، و کم من خیر افیض بک علینا ؛(علی بن الحسین ع صحیفہء کاملہء سجادیہ ،گذشتہ دعای ۴۵ ص ۲۰۰ )سلام ہو تجھ پر ! کس قدر ناگواریاں ھیں جو تیری وجہ سے ہم سے دور ہو گئیں،اور کس قدر خیر و برکت ہے کہ جس کی تیرے سائے میں ہم پر بارش ہوئی ۔

اس جملے میں حضرت نے ایک طرف ماہ رمضان کو ایک طرف بدیوں سے روکنے والا بتایا ہے ،دوسری طرف ابر بہاری کی مانند باران رحمت کی بارش کی وجہ سے یاد کیا ہے ۔اگرچہ ماہ رمضان کے ان دو اوصاف کے بیشمار مصداق پائے جاتے ہیں ،اور یہ عظیم مہینہ جاذبہ اور دافعہ دونوں میدانوں میں منحصر اور بے بدیل کردار رکھتا ہے ۔اور زمانے کا کوئی ٹکڑا بھی اس طرح کی خاصیت سے اس قدر بہرہ مند نہیں ہو گا ۔لیکن یہاں اختصار کے ساتھ اس کے دو مصداق اشارتا بیان کیے جاتے ہیں :

الف۔بدیوں کو دفع اور رفع کرنے کے سلسلے میں رسول خدا  ص کے اس کلام نے اس دعا کے کامل مصداق کو مشخص کر دیا ہے ۔جب امیر المومنین نے آنحضرت سے پوچھا ،؛یا رسول اللہ ما افضل الاعمال فی ھذا الشھر ؛(حر عاملی ،وسایل الشیعہ ،گذشتہ ، ج ۱۰ ص ۳۱۴ )،اےاللہ کے رسول ! اس ماہ میں سبسے اچھا عمل کونسا ہے ؟حضرت نے جواب میں فرمایا ؛ افضل الاعمال فی ھذا الشھر  الورع عن محارم اللہ ؛(وہی حوالہ)اس ماہ میں بہترین عمل گناہ سے دوری ہے ۔

ب۔ رحمت الہی کے جذب اور نزول کے سلسلے میں بھی پیغمبر اکرم ص کی بات سب سے اچھی اور امید ایجاد کرنے والی ہے؛حضرت نے فرمایا :من اکثر فیہ الصلاۃ علی ثقل اللہ میزانہ یوم تخف الموازین ،و من تلا فیہ آیۃ من القرآن کان لہ مثل اجر من ختم القرآن  فی غیرہ من الشھور؛(وہی حوالہ)جو شخص اس ماہ میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے اس کے اعمال کا پلہ سنگین ہو جائے گا،اس روز کہ جب اعمال کے پلے ہلکے ہو جائیں گے ۔اور جو شخص اس ماہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے تو اس کی جزا اس شخص کی مانند ہے ،کہ جو دوسرے مہینوں میں ایک قرآن ختم کرے ،

اس روایت کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی ۶۶۶۴ آیتیں ہیں اور پیغمبر ص کے نورانی کلام کے مطابق اگر کوئی ماہ رمضان میں صرف ایک بار قرآن کریم کو ختم کرے ،تو ۶۶۶۴ بار ختم قرآن کا ثواب اس کو ملیگا ۔اور ختم قرآن کی تعداد میں جتنا اضافہ ہو گا اتنا ہی زیادہ ثواب حاصل ہو گا،یہی بیان ہے کہ جس سے امام سجادع کے کلام کا راز اور وہ بھی خاص کر رحمت الہی کی بارش کے سلسلے میں ماہ رمضان میں اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے ۔

اس سلسلے میں عارف کبیر اور حکیم دانا امام خمینی رہ کے دو تجربے سننے کے قابل ہیں ؛

لکھا گیا ہے کہ جس زمانے میں آپ نجف میں تھے ایک روز آپ کی آنکھ میں درد ہوا ،آپ ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ڈاکٹر نے آنکھ کا معاینہ کرنے کے بعد امام سے کہا :آپ کچھ دن تک قرآن نہ پڑھیں اور اپنی آنکھ کو آرام دیں ۔امام مسکرائے اور کہا ؛ ڈاکٹر صاحب !مجھے آنکھ قرآن پڑھنے کے لیے چاہیے ۔کیا فائدہ ہے کہ آنکھ ہو اور میں قرآن نہ پڑھوں ۔آپ کچھ ایسا کریں کہ میں قرآن پڑھ سکوں ۔(نقل از سیرت امام خمینی رہ قم:موسسہء تنظیم و نشر آثار امام خمینی رہ ج۳ ص ۷ ) اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام خمینی رہ ماہ رمضان میں ہر روز دس پارے قرآن پڑھا کرتے تھے  اس طرح تین دن میں ایک قرآن ختم کر دیا کرتے تھے (وہی حوالہ)

قابل ذکر ہے کہ اس فیض کا ایک روشن مصداق وہی ہے کہ جو قرآن کریم کی تلاوت سے مومنوں کو نصیب ہوتا ہے،اقبال لاھوری کے بقول :

نقش قرآن چونکہ در عالم نشست ۔۔نقشھای پاپ و کاھن را شکست

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است۔۔این کتابی نیست چیزی دیگر است

چون کہ در جان رفت جان دیگر شود ۔جان کہ دیگر شد جھان دیگر شود

(اقبال، لاھوری محمد ،کلیات اشعار فارسی ،تھران ؛ نشر کتابخانہ سنائی، بی تا ص ۷۷ )

دوبارہ ملاقات کا مشتاق

امام سجاد ع کے الوداع میں ماہ رمضان سے خطاب کرتے ہوئے اس نکتے پر بہت تاکید کی گئی ہے کہ ہم ہمیشہ تیرے دیدار کے مشتاق ہیں ؛منجملہ آپ نے یہ فرمایا ہے ؛السلام علیک ما کان احرصنا بالامس علیک و اشد شوقنا غدا الیک ؛(علی ابن الحسین ع صحیفہء کاملہء سجادیہ ،گذشتہ ،دعای ۴۵ ص ۳۰۲ ) سلام ہو تجھ پر اے وہ ماہ کے جس کے آنے کے ہم بہت مشتاق تھے اور آیندہ بھی ہم تیرے دیدار کے مشتاق رہیں گے ۔اس طرح کے الفاظ سے کہ جو کئی بار امام ع کے کلام میں استعمال ہوئے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ امام سجاد ع ماہ رمضان کے فراق میں بے تاب تھے ،اور ایک دلدادہ عاشق کی طرح جب معشوق کی جدائی کا وقت آتا تھا تو بے قرار ہو جاتے تھے اور ہمیشہ اس کے پھر سے لوٹنے کے انتظار میں رہتے تھے ۔

اس دلباختگی میں چھپا ہوا ایک راز  اور ناقابل بیان شوق اور اس ماہ سے اظہار محبت  ممکن ہے یہ ہو کہ سال کے دن اور راتیں کہ جو انسان کے اوپر گذرتے ہیں ان میں ماہ رمضان صرف وہ ماہ ہے کہ جس میں انسان امیر المومنین ع کے اس کلام نورانی کو منصہء ظہور تک پہونچاتے ہیں ،جس میں آپ نے فرمایا ہے :سیماھم سیما الصدقین ،و کلامھم کلام الابرار ،عمار اللیل و منار النھار ،متمسکون بحبل القرآن ؛(نھج البلاغہ ،صبحی صالح،قم :ھجرت ، چاپ اول ۱۴۱۴ ق خ۱۹۲ ص ۳۰۲ )میں ان میں سے ہوں کہ جن کی پیشانی سچوں کی پیشانی ہے اور جن کی بات نیکوں کی بات ہے ،راتوں کو جاگنے والے اور دنوں کو روشن کرنے والے انہوں نے قرآن کی رسی کو تھام رکھا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ اگر چہ اس فیض کا کامل حصہ انسان کامل کا حصہ ہے  لیکن جو بندگی کے سلوک کے راستے پر ہیں ،اور ماہ مبارک کی راتوں اور دنوں میں  اس کی برکتوں سے اپنی بساط کے مطابق بہرہ مند ہوتے ہیں  وہ مذکورہ مقام تک پہونچ جائیں گے ،اس طرح کے افراد ماہ مبارک رمضان کے فراق میں غمناک ہوتے ہیں  اور اس کے دیدار سے خوش ہیں اور ان کی زبان حال سے کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے :

عید رمضان آمد و ماہ رمضان رفت۔۔ صد شکر کہ این آمد و صد حیف کہ آن رفت ،

(دیوان حکیم قآنی شیرازی ،تھران ؛ نشر امیر کبیر ،۱۳۲۹ ق ص ۱۲۲ )

یہ کلام حقیقت میں امام سجاد ع کے کلام کی بازگشت ہے کہ جس میں آپ نے ماہ رمضان کے خاتمے کو مصیبت سے یاد کیا ہے اور خدا سے چاہا ہے کہ عید فطر کی آمد سے اس ماہ کے چلے جانے کی مومنین کے لیے تلافی فرمائے ،چنانچہ آپ نے فرمایا ہے :اللھم صل علی محمد و آلہ واجبر مصیبتنا بشھرنا و بارک لنا فی یوم عیدنا و عطرنا (علی ابن الحسین ،صحیفہء کاملہء سجادیہ ،گذشتہ ، دعای ۴۵  ص۲۰۲ )خدایا محمد و آل محمد پر رحمت فرما ،اور ہمارے ماہ کے چلے جانے کی ہماری مصیبت اور ہمارے رنج کو نیکی کے ساتھ دور فرما اور عید فطر کے دن کو ہمارے لیے مبارک اور نیک بنا دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقلم: حجۃ الاسلام سید مختار حسین جعفری

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *