تازہ ترین

امام علی علیہ السلام کی شخصیت بشر کی سمجھ سے بالاتر ہے

تحریر: فرحت حسین مہدوی

میں نے ایک پوسٹ پر دیکھا کہ ایک سنی بھائی علی علیہ السلام کی عظمت بیان کررہا ہے اور ایک شیعہ بھائی اس پر شرک کا الزام لگا رہا ہے جو افسوسناک تھا، چنانچہ اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کرنا ضروری سمجھا کہ:

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کردہ مقالے میں پاکستانی کالم نگار فرحت حسین مہدوی نے کہا ہے کہ میں نے ایک پوسٹ پر دیکھا کہ ایک سنی بھائی علی علیہ السلام کی عظمت بیان کررہا ہے اور ایک شیعہ بھائی اس پر شرک کا الزام لگا رہا ہے جو افسوسناک تھا۔ چنانچہ اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کرنا ضروری سمجھا کہ:

شئیر
51 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1553

سب سے پہلے ایک حدیث: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: “یا علی لا یعرف اللّه تعالی إلّا انا وانت ولا یعرفنی الّا اللّه و انت ولا یعرفک إلا الله وانت”۔

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: اے علی! اللہ کو کوئی نہیں پہچانتا سوائے میرے اور آپ کے، مجھے کسی نے نہیں پہچانا سوائے خدا اور آپ کے اور آپ کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے اور اللہ کے۔

حوالہ جات: محمد تقی مجلسی، روضةالمتقین، ج 13، ص 273؛ سید عبدالحسین شرف الدین، تأویل الآیات، ص227، ذیل آیت 94، سورہ یونس؛ سید هاشم بحرانی، مد ینة المعاجز [مجلد واحد]، ص163 و طبع جدید ج2، ص439، حدیث 663؛ حسن بن سلیمان حلی، مختصر البصایر (تالیف سعد بن عبدالله اشعری)، ص125؛ حسن بن سلیمان حلی، المحتضر، ص38 و 165 وغیرہ۔

ہے کوئی جس کے ساتھ محبت کرنے والا مؤمن ہو اور اس سے بغض رکھنے والا منافق ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “[یَا علیُّ] لَا یُحِبُّکَ إلّا مُؤمِنٌ ، وَلَا یُبغِضُکَ إلَّا مُنَافِقٌ”،

ترجمہ: اے علی، کوئی بھی آپ سے محبت نہیں کرتا سوا مؤمن کے اور کوئی بھی آپ سے دشمنی نہیں کرتا سوا منافق کے۔ (أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، ج2، ص648)

تو کیسے کوئی برابری کرے گا ایسی شخصیت کی اور اس شخصیت کو عام انسانوں میں کس کے برابر قرار دیا جاسکے گا؟

بےشک! علی علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اور اگر کوئی کہے کہ ان کی شخصیت ہماری سمجھ سے بالاتر ہے تو یہ شرک تو نہیں ہوا نا مہربانی کرکے فتوے مت دیا کریں۔ عبد ہیں اور عبدیت کے عروج پر ہیں اور ایسے مراتب پر فائز ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ علی علیہ السلام کا درجہ گھٹانا تو مقصود نہیں ہے نا بھائیو ورنہ تو ان دو گروہوں میں سے ایک ہونگے جو گمراہ ہونگے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شخصیت کی بنا پر: وہ جو ان کا درجہ ربوبیت تک بڑھاتے ہیں اور وہ جو ان کا درجہ اس قدر گھٹا دیتے ہیں کہ انہیں عام انسانوں کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔

علی علیہ السلام بشر ہیں، جس طرح کہ ان کے اور عالمین کے سرور و سردار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ بشر ہیں لیکن اگر مثال کے طور پر محمد (ص) رسول خدا ہیں، معصوم ہیں، سید الانبیاء و المرسلین ہیں، صاحب کتاب ہیں، صاحب معراج و منبر ہیں، صاحب اسلام ہیں، تو کیا وہ ایک غیر معصوم انسان کے برابر ہوسکتے ہیں؟ علی (ع) بشر ہیں لیکن وہ برادر رسول ہیں، وصی رسول ہیں، صاحب لواء ہیں، قسیم النار والجنہ ہیں، معصوم ہیں، صاحب ولایت ہیں، امیرالمؤمنین ہیں، صاحب الکوثر ہیں، شوہر بتول ہیں، حسنین کے والد ہیں، سید و سالار ہیں، امام ہیں اور ابوالائمہ ہیں، پیغمبر (ص) نے حسنین علیہما السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ دو سید ہیں اور ان کے باپ ان سے افضل ہیں، علی بشر ہیں تو ایسے بشر، صاحب نہج البلاغہ، صاحب فصاحت و بلاغت، صاحب شمشیر، صاحب لیلۃ المبیت تو کیا وہ معاذاللہ مجھ اور آپ کے برابر ہیں؟

قرآن فرماتا ہے: “قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ”۔ (سورہ زمر/ 9)

ترجمہ: کہئے کہ کیا برابر ہیں وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے؟

یہاں استفہام انکاری ہے یعنی یہ کہ جو صاحبان علم ہیں ان کے برابر نہیں ہیں جو صاحب علم نہیں ہیں؛ تو پھر تو محمد و علی علیہما السلام کیونکر عام انسانوں کے برابر ہوسکتے ہیں جو سرچشمۂ علم و عمل و اخلاص ہیں اور کائنات کی خلقت سے بھی پہلے خلق ہوئے ہیں۔

وہ بندگان خدا ہیں لیکن ہمیں اپنے آپ کو ان کے بارے بہت زیادہ بولنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے کیونکہ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کرسکیں۔

ہم توحید کے قائل ہیں، اللہ کے سوا کوئی مالک و قادر مطلق نہیں ہے اور کائنات کے تمام امور میں مؤثر ذات اللہ کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھی ان لوگوں کی صف میں شامل ہوجائیں جنہوں نے علی علیہ السلام کو دیگر اصحاب سے بھی کمتر جانا۔

علی علیہ السلام کا یہ شکوہ لوگوں کی ناسمجھی سے ہے، جنہوں نے ان کی قدر گھٹانے کی کوشش کی اور آپ کے رتبے کو پہچاننے سے قاصر رہے اور آپ کو اذیتیں دیں اور بعض مراحل میں آپ کے سلام کا جواب نہیں دیا!!!

اگر ہم علی علیہ السلام کی ولایت کے معتقدین کے طور پر علی علیہ السلام کی شخصیت کو اپنے برابر سمجھیں تو پھر اس میں تعجب کیوں کیا جائے کہ دشمنان اہل بیت انہیں دیگر اصحاب کے برابر لاکر کھڑا کردیتے ہیں!!!

کتنی عظیم مصیبت ہے یہ؟ علی کہاں اور میں کہاں اور آپ کہاں؟ اپنی اوقات دیکھنا نہ بھولیں بھائیو اس شخصیت کے بارے میں بولتے ہوئے، ہم وہابیت کی حد تک پہنچنے کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔

آخری بات:

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نے فرمایا کہ تم میری مانند نہیں ہوسکتے:

“ألا وإنّ لکُلِّ مأمومٍ اِماماً یَقْتَدى به ویَسْتَضئُ بنورِ عِلْمِه ألا وإنّ إمامَکُم قَدِ اکْتَفی مِنْ دنیاه بطمرَیْه وَمِنْ طعمِه بقُرْصَیْه ألا وَإنّکم لاتقْدِرونَ علی ذلک وَلکِنْ أعینونى بوَرَعٍ وَاجْتِهادٍ وَ عفَّةٍ وسَدادٍ”۔

ترجمہ: جان لو کہ ہر پیرو کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کی دانش کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے؛ دیکھ لو کہ تمہارے امام نے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں صرف دو روٹیوں پر قناعت کرلی ہے؛ اور بلا شک یہ سب تمہارے بس کی بات نہیں ہے؛ بس تم اتنا کرو کہ پرہیزگاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ (نهج البلاغه، مکتوب نمبر 45)

برادر ۔۔۔ مولا علی ع کو یا تو اللہ (ج) سمجھ سکتے ہیں یا نبی (ص) !

اس لئے آئمہ (ع) نے انسان کو کچھ حدود بتائے ہیں۔۔ اس کے پیچھے بھی نہ رہںا اس سے اگے بھی نا جانا ورنہ دونوں صورتوں میں گمراہ ہو جاؤ گے۔

مولا علی (ع) کو سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ۔۔ تو ہمیں قرآن حدیث سے رجوع کرنا ہوگا ۔۔ معصوم ع کا فرمان ہے بغیر معرفت کے محبت اور عبادت کسی کام کی نہیں۔

محبت کا مطلب میرے خیال میں اطاعت ہے سرکشی نہیں۔

اگر مولا(ع) کو سمجھنا ہمارے بس میں نہیں تو ہم کس حیثیت سے انہیں رب، خالق و رازق مانتے ہیں، ائمہ ع کے رب کہنے سے منع کرنے باوجود رب کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ محبت ہے؟ کیا اسے محبت کہیں یا سر کشی؟ تو کیا ہمیں اس بارے میں ائمہ کے فرامین سے رجوع کرنا ہوگا یا اپنی رائے پر قناعت کرنا ہوگی؟

کوئی بھی انسان کسی کو بھی ربوبیت الہی میں شریک کرے مشرک ہے۔ یہ ائمہ (ع) کی تعلیمات ہیں اور قرآن کا حکم۔

میری وضاحت:

جہاں تک محبت کی بات ہے تو اس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے بھی اور امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی واضح کردیا ہے کہ جو اللہ کا اطاعت گزار ہو وہ ہمارا دوست اور حبدار ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے اس میں کسی قسم کی کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔

بے شک ان کے پیچھے رہنا اور ان سے آگے بڑھنا گمراہی ہے۔

مولا علی علیہ السلام کو نہ سمجھ کر ہی تو کوئی انہیں خدائی کا درجہ دیتا ہے تو کوئی ان کا درجہ گھٹانے کی سعی باطل کرتا ہے ورنہ سمجھدار انسان تو اللہ کا نیک بندہ ہوتا ہے اور وہ اللہ اور اس کے برگزیدگان کے فرمان کے مطابق بولتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ ناسمجھ اور جاہل لوگ ہی ائمہ کے فرامین کو چھوڑ کر ان سے قدم آگے بڑھاتے ہیں اور انہیں رب اور رازق و خالق کہتے ہیں ]معاذاللہ] ورنہ جو صاحب علم و تقوی اور صاحب عمل ہیں ان کی تو کوشش ہوتی ہے کہ ان کے فرامین پر عمل کریں۔

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: یا علی! خدا کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے اور آپ کے؛ مجھے کسی نے نہیں پہچانا سوائے خدا اور آپ کے اور آپ کو کسی نے نہیں پہچانا سوائے میرے اور اللہ کے۔ گویا ہمارا ایمان ہے کہ یہ تین ہستنیاں صرف ایک دوسرے کو خوب پہنچانتے ہیں جو دوسرے ہیں تو انہیں محنت کرنا پڑتی ہے اور کسی حد تک معرفت حاصل کرلیتے ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: جان لو کہ ہر پیرو کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کی دانش کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے؛ دیکھ لو کہ تمہارے امام نے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں صرف دو روٹیوں پر قناعت کرلی ہے؛ اور بلا شک یہ سب تمہارے بس کی بات نہیں ہے؛ بس تم اتنا کرو کہ پرہیزگاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔

بشکریہ www.tasnimnews.com/ur/news/2017/02/20/1333786 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *