امام محمد باقر علیہ السلام کی فقیروں کے ساتھ مہربانی
محمد بن علی بن الحسین ؑ کا علم و فضل ،ریاست ،امامت ،شیعہ اور سنی سب کے لئے تھی ،آپ ؑ کرم میں مشہور تھے ،کثرت عیال اور متوسط حال ہونے کے باوجود آپ ؑ لوگوں کے ساتھ فضل و احسان کرنے میں مشہور تھے۔امام ؑ فرماتے تھے
فقیروں پر مہربانی کرنا امام ؑ کے بلند اخلاق میں سے تھا ،آپ ؑ ان کا بڑی فراخدلی اور اکرام و تکریم کے ساتھ استقبال کر تے ،آپ ؑ نے اپنے اہل و عیال سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر کو ئی سائل سوال کرے تو اس کو یہ نہ کہنا :اے فقیر یہ لے لو ۔بلکہ اس سے کہو :اے اللہ کے بندے خدا تم کو اس میں برکت دے ۔جیسا کہ آپ ؑ نے اپنے اہل کویہ حکم دیا تھاکہ فقراء کو اچھے القاب سے یاد کریں ،حقیقت میں آپ ؑ نے یہ اخلاق اپنے جد رسول اسلام کے اخلاق سے منتخب فرمائے تھے وہ رسول جو اخلاق میں تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔امام محمد باقر ؑ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چیز یہ تھی کہ آپ ؑ اپنے برادران ،قاصد ، خبر نشر کرنے والے اورامیدوار سے محبت کر تے تھے ،امام کی پیدائش ہی نیکی سے محبت ،لوگوں کے ساتھ صلۂ رحم اور ان کوخو ش کرنے کے لئے ہو ئی تھی ۔
ابن صباغ کا کہنا ہے : محمد بن علی بن الحسین ؑ کا علم و فضل ،ریاست ،امامت ،شیعہ اور سنی سب کے لئے تھی ،آپ ؑ کرم میں مشہور تھے ،کثرت عیال اور متوسط حال ہونے کے باوجود آپ ؑ لوگوں کے ساتھ فضل و احسان کرنے میں مشہور تھے۔امام ؑ فرماتے تھے :’’صلۂ اخوان اور معارف کے علاوہ دنیا میں کو ئی نیکی و اچھا ئی نہیں ہے ‘‘۔آپ ؑ کی عبادت امام محمد باقر علیہ السلام متقین کے امام اور عابدوں کے سردار تھے ، آپ ؑ اللہ کی اطاعت میں عظیم اخلاص سے پیش آتے تھے ،جب آپ نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اللہ کے خوف و خشیت سے آپ ؑ کا رنگ متغیر ہو جاتا ،آپ ؑ دن اور رات میں ایک سو پچاس رکعت نماز پڑھتے اور کثرت نماز کی وجہ سے امت کے علمی امور اور عام مراجعہ میں کو ئی رکا وٹ نہیں ہو تی تھی ، آپ ؑ سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے : ’’سبحانک اللھمّ انت ربّي حقّاحقا،سجدت لک یاربي تعبدا ورقا، اللھم انَّ عملي ضعیف فضاعفہ لي۔اللّھمَّ قِنِیْ عذابک یوم تبعث عبادکَ،وتُبْ عليَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرحیمُ ‘‘۔’’اے خدا تو پاک و منزہ ہے ،میرے پروردگار تو برحق ہے ،اے میرے پروردگار میں بندگی اور غلامی کی وجہ سے تیرا سجدہ کرتا ہوں ،خدایا میرا عمل ضعیف ہے ،تو اس کو میرے لئے دُوگنا کردے ، مجھے اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھ جس دن تیرے بندے اٹھا ئے جا ئیں گے ،میری توبہ قبول کرلے ،تو ،توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔
آپ ؑ قنوت اور سجود میں دو سری دعا ئیں بھی پڑھا کرتے تھے جن کو ہم نے اپنی کتاب ’’حیاۃالامام محمد باقر ؑ ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔
آپ ؑ کا زہد آپ ؑ دنیا کے زاہدوں میں سے تھے ،آپ ؑ نے رونق زندگا نی سے منھ موڑ لیا تھا آپ ؑ کے گھر میں کوئی بھی عمدہ لباس اور سامان نہیں تھا اور آپ اپنی مجلسوں میں چٹائی پر تشریف فرما ہوتے تھے ۔ امام ؑ نے دنیا پر بڑی گہرا ئی کے ساتھ نظریں دوڑائیں اس میں سے حق کے علاوہ دنیا کے زرق و برق سے زہد اختیار کیااور قلب منیب کے ساتھ اللہ سے لو لگا ئی ۔جابر بن یزید جعفی کا کہنا ہے :مجھ سے محمد بن علی ؑ نے فرمایا ہے :’’یاجابراني لَمَحْزُونٌ وانِّي لمُشْتّغِلُ القَلْبِ۔’’اے جابر میں محزون و رنجیدہ ہوں اورمیرا دل مشغول ہوگیا ہے‘‘جابر نے جلدی سے عرض کیا :آپ ؑ کس چیز سے رنجیدہ ہیں اور آپ ؑ کا دل کس سے مشغول ہوگیا ہے ؟۔
فرمایا :’’اے جابر جس کا دل دین خدا کے امور میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کے علاوہ دوسری چیزوںسے دور ہو جاتا ہے ۔اے جابر دنیا کیا ہے ؟اور کیا ہو سکتی ہے ؟کیا یہ اس مرکب کے علاوہ کچھ اور ہے جس پر تم سوار ہو،یا کپڑا ہے جس کو تم پہنے ہو ،یا وہ عورت ہے جو تم کو مل گئی ہے ۔امام ؑ کے دنیا اور اس کے غرور سے پرہیز کے سلسلہ میں متعدد کلمات نقل ہو ئے ہیں ۔
اقتباس از کتاب ائمہ اہل بیت(ع) کی سیرت سے خوشبوئے حیات
دیدگاهتان را بنویسید