تازہ ترین

امام محمد باقر (ع) کی شہادت

اسلامی روایات کی روشنی میں ٧ ذی الحجۃ الحرام اہلبیت رسول اسلام اور اُن کے دوستداروں کے لئے نہایت ہی غم واندوہ کی تاریخ ہے سن ١١٤ ھجری میں اسی تاریخ کو آسمان علم و ہدایت کا وہ درخشاں آفتاب امامت مدینہ منورہ میں غروب ہواہے کہ جس کی علمی وفکری تابندگی سے بنی امیّہ کی ایجادکردہ گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں بھی عالم اسلام کے بام و در روشن و منور تھے۔

شئیر
1844 بازدید
مطالب کا کوڈ: 789

امام محمدباقرعليہ السلام اپنے والدکي جانب سے رسولِ خدا،علي مرتضيٰ (ع) اور فاطمہ زہراسلام اللہ عليہم کي اولادہونے کااعزاز رکھتے ہي ہيں، مادرِ گرامي کي جانب سے بھي آپ (ع) ہاشمي، علوي اور فاطمي ہي ہيں کيونکہ آپ کي والدہ ماجدہ امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام کي بيٹي فاطمہ بنت حسن (ع) تھيں۔ جن کے بارے ميں امام جعفر صادق(ع) نے فرمايا:“ميري دادي صديقہ تھيں کہ امام حسن (ع) کي اولاد ميں سے کوئي بھي عورت ان کے مقام تک نہ پہنچ سکي۔ “
امام محمّدباقر(ع) نے بھی اپنے آباء واجداد کی طرح اپنے علم وعمل سے دین اسلام کی بہترین خدمت کی ۔ معاشرے میں دینی اقداروتعلیمات کافروغ،غلط نظریات پرتنقید اوران کاتجزیہ وتحلیل اورمختلف علمی و دینی میدانوں میں بہترین اورمفید شاگردوں کی تربیت اسلامی معاشرے کے لئے امام محمّدباقر(ع)کی خدمات کا ایک حصہ ہیں ۔
جابر کي روايت:
امام باقر کی دلیل امامت میں امام کے نام آنحضرت(ص)کے سلام کاذکرکیاجاتاہے جو آپ نے جابرابن عبداﷲ انصاری کے ذریعہ امام باقر(ع)کوپہونچایا۔اس سلام کی اہمیت یہ ہے کہ جس رسول کوسلام کرناساری انسانیت اپنے لئے اعزازسمجھتی ہو وہ ذات مقدس امام باقر (ع) کو سلام پہونچاتی ہے۔جابر ابن عبداﷲ انصاری کاشمارمعززاصحاب رسول میں ہوتا ہے ۔ آبان بن تغلب جو کہ امام جعفر صادق(ع) کے صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ جابر مسجد میں اکثرصدادیتے تھے۔ “اے باقرالعلم،اے باقرالعلم “لوگوں کے پوچھنے پرجابرجواب دیتے تھے کہ رسول خدانے مجھ سے کہاہے کہ تم اپنی عمرکے آخری حصہ میں میرے ایک فرزند سے ملاقات کر دگے جو میر اہم نام ہوگا اور علوم حقائق کو شگافتہ کریگا۔ (اصول کافی)
محمدبن مسلم سے روایت ہے کہ وہ جابرکے ہمراہ بیٹھے تھے توامام سجاداپنے کمسن بیٹے محمدکے ساتھ آئے اورامام نے اپنے فرزندسے کہاکہ اپنے چچاکے سرکابوسہ لو،اس وقت جابربینائی سے محروم ہوچکے تھے۔ جابرکے پوچھنے پرامام نے فرمایاکہ یہ میرابیٹامحمدہے۔جابرنے امام باقرکو اپنے آغوش میں لیااورکہا کہ ” اے محمدرسول خدا نے تجھ کو سلام بھیجا ہے۔”محمدباقرنے وعلیکم السلام کہ کرجواب دیا۔(اسی قسم سے ملتی جلتی روایت احمد حجر مکی کی مشہورکتاب صوائق محرقہ میں بھی ملتی ہیں۔)
ان روایات سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ آنحضرت ان آنے والے حالات سے آگاہ تھے کہ عہدامامت سیدسجادتک پہونچنے تک امت کا مزاج اس قدر بگڑ جائیگا کہ امام مفنترض الطاعت کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا امام بنالیں گے۔
علم کابہتاہواچشمہ:
اللہ کے رسول (ص) نے جب جابرکو اپنے فرزند،محمد(ع)بن علي (ع) کي زيارت کي بشارت دي تھي، اس وقت امام کو “باقر العلوم”کہہ کرپکاراتھااور فرمايا تھا: “وہ علم کو پوري طرح شگافتہ کرے گا۔” بے شک امام باقر (ع) تمام علوم کا دريائے ناپيدا کنار تھے۔ ايک ايسا چشمہ کہ جو جوش مارتا رہے اور علم کے پياسوں کو سيراب کرتا رہے۔
آپ (ع) کے ايک شاگرد،جناب جابربن يزيدجُعفي جوبقولِ خود،امام (ع)سے سترہزاراحاديث کے ناقل ہيں،کہتے ہيں:
“ميں نے ان “امام باقر(ع)” کي اٹھارہ سال خدمت کي۔ جب ميں ان سے جداہورہاتھاتو ميں نے عرض کيا: “حضور! مجھے اپنے علم سے سيراب کيجئے۔ ”امام (ع) نے سناتوپوچھا:“کيا اٹھارہ سال بعدبھي سيراب نہيں ہوئے ہو؟”جابر نے عرض کيا:“آقا آپ ايسا چشمہ ہيں جس کا آبِ شيريں کبھي ختم نہيں ہوسکتا۔”
علم و دانشِ امام(ع) کا يہ جوش مارتا چشمہ صرف علم کے پياسے شيعوں کے لئے باعثِ سيرابي نہ تھا بلکہ امت مسلمہ کے تمام علمائ کے لئے خوشگوار آبِ حيات تھا۔ آپ (ع) کا وجودِ پُربرکت مختلف اديان اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپني جانب مائل کر ليتا تھا اور ہر طرح کے لوگوں کو اپنے عظيم علمي مقام کے اعتراف پر مجبور کر ديتا تھا۔ چنانچہ اہلسنت کے مشہور مورخ ابن حجر ہيثمي اپني کتاب صواعق المحرقہ ميں آپ (ع) کي تعريف کرتے ہوئے لکھتے ہيں:
“آپ (ع) علم کوشگافتہ کرنے والے اوراس کوجمع کرنے والے تھے۔ آپ (ع) کا عمل آپ کي پہچان تھا اور آپ کو بلند کرتا تھا۔ آپ کا دل پاک اور علم و عمل پاکيزہ تھا۔آپ (ع) عظيم اخلاق کے مالک اور اپنا وقت بندگيِ خدا ميں گذارتے تھے اور عرفاني مقامات ميں ايسے عظيم درجات پر فائز تھے کہ کسي کو اس کے بيان کا يارا نہيں۔”
امام باقرکی سیاسی شخصیت
واقعہ کربلا کے بعد ائمہ اہلبیت کی ذمہ داریوں کا ایک نیا باب کھلتا ہے ان کی اولین ذمہ داری ان نظریات کا تحفظ اور اشاعت جن کے لئے کربلا میں قربای دی گئی تھی۔ لیکن ائمہ معصومین اپنے آپ کو سیاسی ماحول سے لا تعلق بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔اصلاح اخلاق،عقائد،خاندانی اوراجتماعی تعلقات اورتنازعات اوراقتصادیات ایسے امور ہیں کہ ان کوملوکیت کے استبداداورجہل کے سایہ سے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا۔ وقت ضروری جب ان امور میں امام سے مدد یا مشورہ طلب کیا گیا تو امت کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر امام وقت نے حکومت کی مدد کی۔
امام باقر کی سیاسی بصیرت سے متعلق ایک اہم واقعہ اسلامی سکہ کی تیاری اور رواج کا ہے۔مختصر واقعہ یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان کے حکومت کے دور میں مسلم ممالک کا اپنا کوئی سکہ نہیں تھا بلکہ رومی سکہ کا رواج تھا ۔ حکومتی استعمال کے لئے کاغذ مصر میں تیار ہوتا تھا جہاں نصرانی حکمراں تھے کاغذوں پر واٹر مارک کا ٹھپہ عام رواج تھا۔ نصرانی بادشاہوں نے واٹر مارک کے طور پر رب، ابن “روح القدس ، کا نشان بنایا جو باپ، بیٹا اور روح القدس کے عقیدہ تثلیث کا پر چار کرتا تھا۔ جب اس امر کی اطلاع عبدالملک کو ملی تو اس نے گو رنر مصر کو لکھا کہ رومی ٹریڈ مارک کی جگہ اسلامی کلمہ “”اشھداً لا الہ الا ھوا”” لکھو۔ یہ فیصلہ قیصر روم کے لئے نا گوار تھا اس نے عبدالملک کو دھمکی دی کہ اگر رومی ٹریڈ مارک دوبارہ رائج نہیں کیا گیا تو تمام سکوں پر رسول اکرم (ص) کے بارے میں ناسزا لکھ کر تمام اسلامی ممالک میں بھیج دیگا۔ جو مسلمانوں کے لئے انتہائی تحقیر اور ہتک آمیز ہوگا۔ اس لئے تعجب نہیں ہونا چاہئے اگر آج خاکوں کے ذریعہ سے آنحضرت کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاکے بنانا ان کا آبائی پیشہ تھا۔ ٣٠٠ سال پہلے قیصر کے اس فیصلہ پر عبدالملک بیحد پریشان ہوا تو آخر کار مشیروں کے کہنے پر حضرت باقر کی طرف رجوع ہوئے جو ابھی ظاہری امامت پر فائز نہیں ہوتے تھے۔ (امام سجاد کی شہادت ٩٥ھ) امام نے مشورہ دیاکہ سفیرروم کوشام کے پایہ تخت میں روک لیاجائے اورنئے اسلامی سکہ ڈھال دیئے جائیں جس میں ایک طرف کلمہ توحیدہو،دوسری طرف کلمہ رسالت ہو اور سنہ ایجاد لکھ دیا جائے، یہ علم امامت کی برکت تھی آپ نے تمام سکوں کے نمونہ، وزن اور سائز سب اپنی نگرانی میں بنوا کر رائج کردیا۔ قیصر روم بالکل لاچارہوگیا، اس طرح امام باقر کی مدد سے اسلامی سکوں کا رواج عمل میں آیا۔
فرزندِ رسول(ص)امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعدامام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے ١٩سالہ دور امّامت میں بنی امیہ کے پانچ ظالم و جابر حکمرانوں کا مقابلہ کیا اور سیاسی اعتبار سے شدید گھٹن اور تشدد آمیزماحول میں جس وقت حصول اقتدارکے لئے بنی امیہ اوربنی عباس برسرپیکارتھے امام علیہ السلام نے پُرسکون علمی و فکری تحریک کے ذریعے اسلام و قرآن کی الٰہی تعلیمات کی حفاظت اور نشر و تبلیغ کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ امام محمد باقرعلیہ السلام نے بنی امیہ کے وظیفہ خوارملاؤں کی اسلام دشمن ،تحریفات وتاویلات کی بے شرمانہ یورش کانہایت ہی تحمل اورعلمی واستدلالی بحثوں کے ذریعے مقابلہ کیااوراُن کے غلط عقائد و نظریات کی جڑیں اکھاڑکرپھینک دیں لیکن لب ولہجے کی لطافت،معنوی وقاراوربردبارانہ رفتار کے ذریعے راہ حق و حقیقت پرچلنے والوں کے لئے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔
شهادت امام محمد باقر علیه السلام
امام محمدباقر علیہ السلام کایوم شہادت چونکہ ایام حج کے ساتھ منسلک ہے آیئے تھوڑی دیر کے لئے آپ کو مکّہ کی روح پرورفضاؤں میں لے کر چلتے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے ایک قریبی دوست افلح نقل کرتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ خانۂ کعبہ کی زیارت کے قصدسے روانہ ہوا۔ جس وقت آپ مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آپ کی نگاہیں خانۂ کعبہ پر پڑيں آپ نے بلند آواز سے گریہ شروع کر دیا ۔ میں نے عرض کی : فرزند رسول ! ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں اگر آپ اتنی بلند آواز سے گریہ کریں گے تو لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے اس وقت فرمایا : افلح ! تم کیوں نہيں سمجھتے ہو ! میں یہاں آکر کیسے گریہ نہ کروں شاید اسی گریہ کا سبب آج خدا کی خاص رحمت شامل حال ہو جائے اور کل کامیاب رہوں۔ عزیزان گرامی! اموی حکمران عبدالملک ابن مروان کے ذریعہ عالمِ اسلام کے اس عظیم امام و پیشوا امام محمد باقر علیہ السلام کی زہر دغا سے شہادت پر تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *