امام محمد تقی علیه السلام کا علمی اور سیاسی مقام و منزلت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ترجمہ و ترتیب محسن عباس مقپون
امام محمد تقی علیه السلام کا علمی اور سیاسی مقام و منزلت
اشاریہ
ائمہ ؑ کی پاک سیرت کے مطالعے اور ان کی علمی ، سیاسی و مبارزاتی جد جہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ذوات مقدسہ علم و معرفت کا سرچشمہ اور علوم الہیہ کا خزانہ ہیں۔ جہل و گمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں انہی ذوات مقدسہ کے نہ بجھنے والے علمی انوار کی ضوفشانیاں ہر طرف نظر آتی ہیں ۔ ائمہ ؑ میدان سیاست میں باطل قوتوں کی امیدیں خاک میں ملا کر اہل حق کو جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔
سلسلہ امامت کی نویں کڑی اور آسمان عصمت و طہارت کا گیارہواں درخشاں ستارہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام بھی باقی دیگر ائمہ معصومین ؑ کی مانند علمی کمالات کا حامل اور سیاسی اعلیٰ افکار کے مالک تھے۔ آپ ؑ اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت کے بعد بچپنے میں امامت و رہبری کے منصب پر فائز ہوئے اور اپنے زمانے میں اسلامی معاشرے میں موجود تمام تر مشکلات کے باوجود اسلامی حیات بخش تمدن و ثقافت کو عام کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ تحریرہذا میں امام جواد علیہ السلام کی جانب سے انجام پذیر علمی و سیاسی جد و جہد پر روشنی ڈالی جائے گی تاکہ راہ امامت و ولایت پر چلنے والوں کے لیے توشہ راہ ثابت ہوجائے۔
عصر امام جواد ؑ کی اجتماعی اور سیاسی حالات
امام محمد تقی ؑ نے ایسی حالات میں اپنی امامت کا آغاز کیا جن حالات میں شیعہ طاقتور ہونے کے باوجود سیاسی و معاشرتی فضا عقیدتی چیلنجز و دیگر اختلافات سے روبروتھی۔ امام جواد ؑ کے دوران امامت میں ستمگر خلافت عباسی کے دو ظالم و جابر حکمران مامون اور معتصم ناحق کرسی اقتدار پر براجمان تھے. مامون چونکہ امام علی بن موسی الرضا ؑ کی شہادت کی وجہ سے بری طرح بد نام اور سیاسی طور پرہزیمت اٹھا چکا تھا اس لیے امام جواد ؑ کو اذیت و آزار دینے کو مصلحت نہیں سمجھتا تھا۔ مامون شیعوں کی روز بروز بڑھتی طاقت کو دیکھ کر حالات کو سازگار رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ان حالات کو پیش نظر رکھ کر مامون نے امام جواد ؑ کو بھی اپنے بابا حضرت امام رضا ؑ کی طرح حکومتی منصب دینے کی پیش کش کی بالآخر امام جواد ؑ نے حکومتی امور میں دخالت نہ کرنے کی شرط پر ولایتعہدی کو قبول کیا البتہ امام جواد ؑ کا مشروط طور پر منصب قبول کرنا مامون کی حکومت کی مشروعیت پر سوالیہ نشان تھا۔ امام جواد ؑ نے حکومتی امور میں مداخلت نہ کرنے کی شرط پر ولایتعہدی کو قبول کرکے عملی طور پر اپنی مجبوری کا اعلان کردیا اس طرح امام ؑ نے مامون کی اپنی حکومت کو امام کی مشارکت سے مشروع قرار دینے کی مذموم کوشش کو ناکام بنا لیا۔ اس حساس موقع پر شیعوں کے لیے سب سے زیادہ خطرہ مذہب معتزلہ کی نشو ونما تھا، وہ دور، اعتزالی مکتب باقاعدہ طور پر رائج اور ان کے طاقتور ہونے کا دور تھا۔ حکومت وقت بھی ان کے طرفداروں کی حمایت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی تھی۔ مذہب معتزلہ کے اعتقادات کے مطابق دینی دستورات اور اسلامی تعلیمات کو عقل کے معیار پر پرکھا جاتا تھا اور جو احکام اسلامی عقل سے سازگاری نہیں رکھتے تھے انہیں انکار کرتے تھے۔ ان کے اعتقاد کے مطابق کم سنی میں امامت کے منصب پر کسی کو فائز ہونے کو عقلی معیارات سے متصادسمجھتا تھا اس لیے اس سلسلے میں نہایت مشکل اور پیچیدہ سوالات پیدا کر کے امام محمد تقی ؑ کو علمی اور سیاسی میدان میں شکست دینا چاہتے تھے۔ لیکن امام جواد ؑ اپنے لاجواب استدلال کے ذریعے ان کے ساتھ علمی و فکری مناظرات میں غالب آئےان کی طرف سے امامت اور کمسنی کے مابین عدم سازگای جیسے شکوک و شبہات پر خط بطلان کھینچ دیا اور اپنی امامت ثابت کرتے ہوئے بتا دیا کہ منصب امامت کے لیے سن و سال معیار نہیں بلکہ یہ تو منصب الہی ہے کہ اللہ جسے حق دار پالیتا ہے عطا فرماتا ہے۔
امام محمد تقی ؑ کی امامت کے دوران اعتقادی اور فکری جنگ کے علاوہ ایک اور مشکل مرحلہ خلافت عباسی کے دو خلیفوں کی لوگوں کے ساتھ چال بازیاں تھیں۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق عباسی خلفا میں مامون سب سے زیادہ چالاک اور نہایت منافق انسان تھا، وہ ہمیشہ شیعی فکر کو شکست اور اس پر غالب آنے کے لیے ناکام کوششیں کرتا تھا اور اپنے زعم باطل کے مطابق شیعہ اماموں کو علمی میدان میں شکست دینے کے لیے علمی مناظروں کا اہتمام کرتا تھا اس طرح وہ تشیع کی جڑوں کو کاٹنے پر تلا ہوتا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ستارہ شیعہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے تاکہ غاصب و ظالم حکمرانوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے روئے زمین پر باقی نہ رہے۔ لیکن ان حالات میں امام محمد تقی ؑ نے ثابت قدمی اور الہی طاقت کے ساتھ ناحق خلفا کی جانب سے ایجاد کردہ ہر قسم کے فکری انحرافات، دین کی بنسبت لاپرواہیوں، توہین آمیز رفتار و کردار اور چالوں کا مقابلہ کر کے حقیقی اسلام و شیعہ مکتب فکر کی حقانیت کو ثابت کیا۔ (1) امام جوادنے حکومتی مشینری کی جانب سے شدید پابندیوں کے باوجود مختلف مناطق میں وکلاء اور نمایندوں کا انتخاب عمل میں لاکر شیعوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھا۔ مامون اور معتصم کی حکومتی قلمرو میں اپنی جانب سے نمایندہ اور سفیر منتخب فرما کر سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور شیعی اقتدار کو محفوظ رکھا۔ مثلا امام جوادؑ اپنے وکیلوں کو دستور دیتے تھے کہ حکومتی مشینری کا حصہ بن کر حساس عہدوں پر فائز ہوجائیں اسی طرح کچھ اور افراد امام ؑ کی جانب سے مختلف شہروں کے حاکم بن کر حکومتی سرگرمیوں پر نہایت دقت کے ساتھ نظر رکھتے تھے۔ (2)
امام جواد ؑ کی امامت کے دوران موجود کچھ عقیدتی انحرافات کی جڑیں سابقہ ادوار میں موجود تھیں، امام بزرگوار نے مختلف مناسبتوں میں ان انحرافات کا مقابلہ کیا اور حق اور درست نظریات کو بیان کر کے لوگوں کے اعتقادات کو صحیح راستے پر گامزن کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔
امام جواد ؑ نے اپنی امامت کے دوران موجود گمراہ کن فرقوں کی نشان دہی بھی کی ۔ امام ؑان سے دور رہنے کی تلقین فرماتے تھے۔ ان فرقوں میں سے ایک فرقہ مجسمہ کے نام سے مشہورتھا جن کا اعتقاد یہ تھا کہ خدا جسم رکھتا ہے ۔ امام جواد ؑ نے اپنے پیروکاروں سے ان کے متعلق فرمایا جو خدا کی جسمانیت کا قائل ہیں ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور انہیں زکات نہ دیں(3)۔ (یعنی یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں)۔ دوسرا گمراہ کن فرقہ، فرقہ واقفیہ تھا جو امام موسی کاظم ؑ کی امامت پر متوقف ہوئے اور آپ ؑ کے فرزند امام موسی الرضا ؑ کی امامت کا منکر ہوگئے۔ تیسرا گمراہ کن فرقہ فرقہ زیدیہ تھا جن کے بارے میں ائمہ ؑ نے سخت موقف اختیار کیا۔ چنانکہ امام جواد ؑ نے انہیں آیہ “وجوه یومئذ خاشعه عامله ناصبه”(4) کا مصداق قرار دیا ہے یعنی یہ لوگ ناصبی ہیں۔(5)
امام جواد ؑ کا علمی مقام و منزلت
اگرچہ مناصب الٰہیہ کے استحقاق میں مخصوص سن و سال کی شرط نہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام میں سے بعض ایسے پیامبران کمسنی میں اس الہی منصب پر فائز ہوئے ہیں اس کے باوجود امام محمد تقی ؑ کا کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہونے کے سلسلے میں نہ صرف امام کے مخالفین بلکہ شیعوں کے بعض عام و خاص لوگ بھی اس پراعتراض کرتے تھے اور اسے ایک اعتقادی مشکل مرحلہ سمجھا جاتا تھا۔
چار صدی ھجری کے معروف عالم دین ابن رستم طبری لکھتے ہیں جب امام جواد ؑ کی سن مبارک چھے سال کچھ مہینے کی تھی مامون نے آپؑ کے والد بزرگوار امام رضا ؑ کو مرتبہ شہادت پر فائز کیا۔ اس حالت میں شیعہ حضرات پر پریشانی لاحق ہوئی اور کم سنی میں منصب امامت کے سلسلے میں اختلافات نے سر اٹھانا شروع کیا۔ دوسرے شہروں میں موجود شیعہ افراد بھی اس سلسلے میں سرگرداں نظر آئے۔(6) اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں انہوں نے ایک گروہ تشکیل دیا جن کے ارکان نے امام جواد ؑ کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں اور یہ یقین حاصل کرنے کے لیے کہ کیا امام ؑ علم امامت کے حامل ہیں یا نہیں؟ سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور جب امام محمد تقی ؑ کی جانب سے مدلل اور اطمینان بخش جواب پائے گئے تو انہیں قلبی طور پر سکون حاصل ہوا اور امام ؑ کے علمی مقام و منزلت کے معترف ہوئے۔ امام ؑ سے کیے گئے سوالات اور امام ؑ کی جانب سے مستحکم جوابات کو سن کر نہ صرف شیعہ حضرات امام ؑ کے علمی مقام و منزلت سے آشنا ہوئے بلکہ دوسرے مذاہب کے علما بھی امام جواد ؑ کی علمی عظمت کے معترف ہوئے ان میں سے بعض کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
امام جواد ؑ کے علمی مقام و منزلت کا اعتراف کرنے والے علما و دانشمندوں میں سے احمد بن خطیب بغدادی(وفات 463ق)، یحیٰ ابن اکثم(وفات242ق)، عز الدین ابن اثیر جوزی(وفات630ق)، ابن تیمیہ حرانی دمشقی(وفات758ق)، ابن عمادحنبلی دمشقی(وفات1089ق) ان کے علاوہ بھی تاریخ میں بہت سے علما و دانشوروں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے امام جواد ؑ کے علم و معرفت اور حلم و بردباری کا بہ بانگ دہل اعتراف کیا ہے۔
امام جواد ؑ کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ آپؑ، لوگوں کے اذہان میں موجود تصورات سے بھی واقف ہوتے تھے اس کے بارے میں ایک دلچسپ داستان میں امام ؑ کے علم و فضل کی تجلی نظر آتی ہے۔ قاسم بن عبد الرحمان کہتے ہیں میرا تعلق زیدی مذہب سے تھا اور ایک دن شہر بغداد کا سفر کیا، کچھ مدت وہاں ٹھہرا ایک دن دیکھا کہ گلی میں شور شرابا ہے اور لوگ جوق در جوق ایک بلندی کی طرف جانے میں مصروف ہیں لو گ بھاگ بھاگ کر اس بلندی پر پہنچنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ایک جگہ پر دنگ ہو کر دیکھ رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے کہا ابن الرضا امام جوادؑ تشریف لارہے ہیں! میں بھی وہیں کھڑا ہوا اور ماحول کا نظارہ کرنے لگا اچانک دیکھا کہ ایک سواری ہماری طرف آرہی ہے میں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ شیعوں کو اپنی رحمت سے دور رکھے۔! کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک کم عمر نوجوان کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں، یہی بات میرے ذہن میں خطور ہی ہوئی تھی کہ آنحضرتؑ نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے اس آیت قرآنی کی تلاوت کی فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِي ضَلَالٍ وَسُعُر(7) ۔ اور کہہ دیا کہ کیا ہم اپنے ہی میں سے ایک شخص کا اتباع کرلیں اس طرح تو ہم گمراہی اور دیوانگی کا شکار ہوجائیں گے ۔ اس دوران میں نے سوچا کہ لگتا ہے یہ تو جادوگر ہے اور میرے دل اور ذہن میں موجود تصورات کی بھی خبر رکھتا ہے، دوسری بار امام ؑ نے مجھ سے مخاطب ہوکر اس آیت کی تلاوت کی أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ ۔(8) کیا ہم سب کے درمیان ذکر صرف اسی پر نازل ہوا ہے درحقیقت یہ جھوٹا ہے اور بڑائی کا طلبگار ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ امام جواد ؑ میرے اندر موجود اسرار سے آگاہی رکھتا ہے تو میرا ان پر اعتقاد کامل ہوا اور مذہب زیدیہ سے دستبرداری کا اعلان کیا اور امام جواد ؑ کی امامت کا اعتراف کرتے ہوئے مذہب حقہ امامیہ کا پیروکار بنا اور معترف ہوا کہ یہی برحق اور لوگوں پرحقیقی حجت خدا ہے۔ (9)
کم سنی میں منصب الہی پر اعتراض کا قرآنی جواب
کم سنی میں منصب امامت پر اعتراض کا مسئلہ خود امام جواد ؑ کے زمانے میں بھی رائج تھا اور لوگ امام سے اس کے متعلق پوچھتے تھے۔
مرحوم کلینی لکھتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص امام جواد ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور پوچھنے لگا اے فرزند رسول!کچھ لوگ آپ کی امامت کے متعلق شک و شبہ مبتلا ہیں۔ امام ؑ ے جواب میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے ضناب داود ؑ پر وحی کی کہ اپنے فرزند سلیمان کو اپنا جانشین قرار دے حالانکہ جناب سلیمان اس وقت کم سن تھے۔ بنی اسرائیل کے دانشوروں نے اسے نہیں مانا اور لوگوں کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کیے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جناب داود ؑ پر وحی نازل کی اور حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے کمسنی پر منصب ا لہی پر معترضین اور سلیمان کی جانب سے ایک ایک لکڑی کا عصا زمین میں گھاڑدیں اور ہر عصا پر ایک خاص علامت لگادیں تاکہ اپنے عصا کی کو تشخیص دیا جاسکے۔ پھر رات کی تاریکی میں ان عصاوں کو کہیں چھپا لیں، اگلے دن جس جس کا عصا زمین میں گھاڑ دیا گیا ہے وہ اس صورت حال کا مشاہدہ کرنے جائیں اور اپنا اپنا عصا وہاں سے اٹھا لیں، جس کا عصا سبز ہوچکا ہے وہی جانشین حق اور برحق حجت خدا ہے۔ سب اسی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اپنے عصا کا مشاہدہ کرنے گئے تو سب نے دیکھا کہ حضرت سلیمان ؑ کا عصا سبز ہوچکا ہے، سب نے اس صورت حال کو دیکھ کر اعتراف کرتے ہوئے کہا حضرت سلیمان ؑ اللہ کا نبی اور اس کی حجت حق ہیں۔ (10)
امام جواد ؑ کے اصحاب میں سے ایک صحابی علی بن اسباط کہتا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد تقی ؑ کی خدمت میں تھا اور کم سنی میں امام ہونے پر شک میں مبتلا تھا اسی دوران امام ؑ میرے سامنے تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے امامت کی حقانیت پر حجت پوری کردی ہے جس طرح سے نبوت کی حقانیت پر۔ جناب یحیٰ ؑ کے بارے میں آیت قرآنی ہے يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا۔(11) یحیٰی علیہ السّلام ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی ۔
جناب یوسف ؑ کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ(12) ۔اور جب یوسفؑ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ پس اس بنا پر جس طرح اللہ تعالیٰ کسی کو چالیس سال کی عمر میں علم و حکمت عطا کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ اسی حکمت و علم کو کسی کم سن کو بھی عطا کرے۔ (13)
امام جواد ؑ اورشاگردوں کی تعلیم و تربیت
امام جواد ؑ وسیع علم و آگاہی کے مالک تھے لیکن دربار خلافت کی جانب سے شدید سیاسی پابندیوں کی وجہ سے سر عام علمی خدمات انجام نہیں دے سکتے تھے لہذا امام حسن العسکری کے زمانے تک علمی میدان میں نہایت محدود انداز میں علمی کارنامے انجام دئے۔ امام ؑ نے اپنی کم عمری کے باجود اپنی بابرکت حیات مبارکہ میں امت محمدیہ کی خطیر ذمہ داری یعنی رہبری کے علاوہ بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جنہوں نے نبوت و امامت کے آسمانی پیغام کو عام کرنے میں تلاش و کوشش جاری رکھی۔ علم سوانح رجال کے علما نے امام محمد تقی ؑ کے شاگردوں کی تعداد کو ایک سو دس افراد بیان کیا ہے(14)۔ ان میں سے ۲۶ شاگردوں نے مجموعی طور پر 78 علمی آثار چھوڑے ہیں جن میں علی بن مہزیار سر فہرست ہیں ان کے 35 آثار علمی موجود ہیں ان کے علاوہ محمد بن عبد اللہ مہران ہیں جن کے 7 علمی آثار، معاویہ بن حکم کے 7 علمی آثار تاریخ میں ثبت و ضبط ہیں۔(15) حضرت عبد العظیم حسنی بھی امام جواد ؑ کے اصحاب میں سے شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کثیر تعداد میں امام ؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔(16) امام جواد ؑ کے دیگر شاگردوں اور راویوں میں علمی ممتاز شخصیات میں سے احمد بن محمد بن نصر بزنطی، زکریا بن آدم، حسین بن سعید اہوازی اور احمد بن محمد بن خالد برقی کا نام لے سکتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ کہ امام جواد ؑ سے روایت نقل کرنے والے راوی صرف شیعہ مکتب فکر کے افراد میں منحصر نہیں بلکہ اہل تسنن کے راویوں نے بھی امام جواد ؑ سے اسلام کے حقیقی معارف کو نقل کیا ہے، ان میں سے خطیب بغدادی مشہور ہے کہ جنہوں نے امام جواد ؑ سے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔(17) اسی طرح ابو بکر بن ثابت اور ابو اسحاق ثعلبی نے تاریخ اور تفسیر کے سلسلے میں امام جواد ؑ سے روایات نقل کی ہیں۔ (18)
ایک قابل غور نکتہ
امام جواد ؑ سے منقول روایات کی ایک خصوصیت یہ کہ آپ ؑ سے مختلف اور متنوع قسم کی روایات نقل ہوئی ہیں جو اپنے عصر کے تقاضوں کے عین مطابق تھیں ہم یہاں نمونے کے طور پر بعض موضوعات کا ذکر کرتے ہیں۔
1 توحید اور اس سے متعلق شبہات کے بارے میں منقول روایات۔ (19)
2 تفسیر قرآن، تاویل قرآن اور بطون آیات کے سلسلے میں منقول روایات۔
3 نماز، زکات، حج و دیگر فروعی مسائل کے بارے میں منقول روایات۔
4 احکام کی علت، حکمت اور فلسفے سے متعلق روایات۔
امام جواد ؑ کے علمی مناظرے
عباسی خلافت کے حکمران امام جواد ؑ کے علمی مقام و منزلت پر سوالیہ نشان لگانے اور امام کے علمی مرتبے کو کم کرنے کے سلسلے میں اپنے زعم باطل کے مطابق علمی مناظروں کا اہتمام کرتے تھے لیکن عباسی ظالم حکمرانوں کی اس کارستانیوں سے وہ اپنا مقصد حاصل نہ کرسکے بلکہ ان علمی مناظروں سے الٹا ان کی رسوائی ہوئی اور ان کی سازشیں طشت از بام ہوئیں۔ امام جواد ؑ کم سنی میں امامت کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود تمام علمی مذاکرات اور مناظروں میں نہایت اعلی ٰ انداز میں کامیاب قرار پائے ان مناظروں میں سے بہت سے مناظرے انتہائی مفید اور اہم ہیں۔ دشمنوں کا امام جواد ؑ کے ساتھ علمی مناظرہ کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ امام جواد ؑ کی کم سنی میں امامت پر فائز ہونے کے بارے میں کچھ حضرات کے عقیدتی تزلزل کو مزید متزلزل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور دوسری طرف مکتب اعتزال اور افراطی عقائد کے حامل لوگوں کی جانب سے عقلی موضوعات پر مشتمل پیچیدہ سوالات اٹھا کر امام جواد ؑ کو علمی میدان میں شکست سے دوچار کرنے کی ٹھان لی تھی لیکن امام جواد ؑ نے تمام کے تمام مناظروں میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا شدہ علم و حکمت کی بنیاد پر دشمنوں کو ناکوں چنے چبوادئے۔ اسی وجہ سے بعد میں آنے والے اماموں کے لیے کمی سنی میں منصب امامت پر فائز ہونے والے اعتراض کا سامنا نہ ہوا جیسا کہ امام ہادی ؑ بھی کم سنی میں منصب امامت پر فائز ہوئے لیکن کسی کی طرف سے کم سنی جیسے اعتراضات یا سوالات نہیں اٹھائے۔ امام جواد ؑ کے ساتھ علمی مناظرات میں سے یحیٰ ابن اکثم اور ابن ابی داوود کا مناظرہ مشہور ہیں جن میں امام جواد ؑ نے ان دونوں کو علمی شکست دے کر اپنی اسلامی تعلیمات اور مذہب حقہ شیعہ کی حقانیت کو ثابت کیا۔ (20)
امام جواد ؑ اور وحیانی علوم کا تحفظ
امام جواد ؑ کا اپنی حیات مبارکہ میں سارا ہم و غم یہ تھا کہ معاشرے میں قرآن مجید کی تعلیمات عام ہو اور لوگ اپنے رفتار و گفتار اور استدلال میں آیات قرآنی سے مدد لیں تاکہ معاشرہ قرآنی اعلیٰ مرتبے کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکے۔ اسی مقصد کے پیش نظر امام جواد ؑ اپنی روز مرہ گفتگو اور لوگوں کے درمیان ملاقاتوں میں آیات قرآنی کی کثرت سے تلاوت کرتے تھے۔ امام جواد ؑ نے حریم وحی کے تحفظ کے سلسلے میں آیات قرآنی کی غیر عقلانی اور نا درست تفسیر کرنے سے لوگوں کو روکا اور اس میدان میں سرگرم علما و دانشوروں کو آیات قرآنی کے درست انداز میں فہم و ادراک کی رہنمائی کی۔
ایک دن معتصم عباسی کی مجلس مذاکرہ میں دانشوروں نے قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہوئے ایک حکم شرعی استنباط کیا، امام جو کہ اسی نشست میں تشریف فرماتھے حکم شرعی کے استنباط کے سلسلے میں ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی اور درست اور صحیح تفسیر سے انہیں آگاہ کیا۔ محمد بن مسعود عیاشی سمرقندی نے اپنی تفسیر میں اس ماجرا کو یوں نقل کیا ہے معتصم عباسی کے دور میں حکومت عباسی کے آلہ کاروں نے کچھ ڈاکووں کو گرفتار کر کے لائے اور حکومتی عدالت سے ان کے جرم اور سزا کی نوعیت کا مطالبہ کیا ۔ غاصب حاکم نے اسے حساس نوعیت کا ایشو قرار دیتے ہوئے ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی تاکہ اپنے زمانے کے دانشوروں سے ان ڈاکووں کے جرم اور سزا کی نوعیت اور مقدار کے بارے میں صلاح مشورے کیے جائیں۔ مشاورتی کمیٹی کا بیان آیا کہ قرآن میں اس کا بہترین حل موجود ہے، اور اس آیت کو بطور نمونہ پیش کیا إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔(21) بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ اور پیر مختلف سمت سے قطع کردئیے جائیں یا انہیں ارض وطن سے نکال باہر کیا جائے .یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب عظیم ہے۔ کمیٹی کے اراکین نے خلیفہ کو مشورہ دیا کہ اس آیت میں بیان شدہ کسی سزا کو ان پر جاری کیا جائے۔ معتصم نے امام جواد ؑ سے بھی اس کے متعلق نظریہ پوچھا۔ امام ؑ نے شروع میں اپنی رائے پیش کرنے سے معذرت خواہی کی ، لیکن معتصم نے جب اصرار کیا تو امام جواد ؑ نے یوں اظہار نظر فرمایا مشاورتی کمیٹی کے اراکین نے قرآنی آیت سے غلط استدلال کیا ہے بیان شدہ آیت سے حکم شرعی استنباط کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہے تاکہ اس مسئلے کے تمام پہلووں کو مد نظر رکھ کر حکم اجرا کیا جائے کیونکہ جرم کی نوعیت کے مطابق سزا کا حکم جاری ہوگا اس لیے کہ اس مسئلے کی مختلف صورتیں ہیں اور ہر صورت کا حکم الگ الگ ہے۔
پہلی صورت
اگر ان ڈاکووں نے صرف راستے کے امن کو خراب کیا ہے، کسی کو قتل کیا ہے اور نہ کسی کے مال کو غارت کیا ہے تو ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو صرف قید کیا جائے، آیت الہی میں موجود جملہ “نفی الارض” کا مفہوم یہی ہے۔
دوسری صورت
اگر ان ڈاکووں نے راستے میں نا امنی پیدا کرکے کچھ لوگوں کو قتل کیا ہے اور کسی کا مال نہیں لٹایا ہے تو ان کی سزا پھانسی ہے۔
تیسری صورت
اور اگر ان ڈاکووں نے راستے کو نا امن کرنے کے علاوہ لوگوں کو قتل کردیا ہے اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا ہے تو ان کی سزا شدید ہونی چاہیے، یعنی پہلے ان کے ہاتھ اور پیر مختلف سمت سے قطع کردئیے جائیں پھر انہیں ارض وطن سے نکال باہر کیا جائے اس کے بعد انہیں پھانسی دی جائے۔ معتصم نے امام جواد ؑ کی اس بات کو پسند کیا اور اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ ان مجرموں کو امام جواد ؑ کے بیان کردہ حکم کے مطابق سزا دی دیا جائے۔ (22)
امام محمد تقی ؑ کی کچھ روایات اور کلمات قصار
شیعہ سنی کتب احادیث میں امام محمد تقی ؑ کی دوسو بیس سے زائد حدیث مختلف موضوعات مثلا فقہی، اخلاقی اورسیاسی و سماجی کے بارے میں منقول ہیں ان روایات کو امام کے ایک سو بیس راویوں نے نقل کیا ہے۔ امام ؑ سے منسوب کثیر تعداد میں ان روایات سے امام کی علمی منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فقہی، تفسیری اور عقیدتی مسائل پر مشتمل امام جواد ؑ کی احادیث اور دعا و مناجات کی شکل میں امام کے فرامین بھی تاریخی اور حدیثی کتب میں موجود ہیں، امام ؑ کے بہت سے کلمات قصار بھی آپؑ کے اخلاقی کمال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ امام ؑ کے کچھ کلمات قصار کو ابن صباغ مالکی نے اپنی کتاب “الفصول المہمہ” میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح کتاب “تحف العقول” اور دیگر منابع حدیثی میں امام جواد ؑ کے گوہر بار کلمات کا تذکرہ ملتا ہت۔ امام جوادؑ کی فقہی احادیث کا ایک بڑا حصہ ان خطوط میں موجود ہے، جنہیں امام ؑ نے اسلامی مختلف شہروں کے حکمرانوں کے سوالات کے جوابات میں بیان فرمائے ہیں۔۔ (23)
ہم اس تحریر کا امام محمد تقی ؑ کی ایک خوبصورت، پر برکت اور دلچسپ حدیث کے ساتھ اختتام کرتے ہیں۔ ثَلاثُ خِصالٍ تُجتَلبُ بِهِنَّ المَحَبَّةُ الإِنصافُ فِي المُعاشَرَةِ، وَالمُؤاساةُ فِي الشِّدَّةِ وَالاِنطِواعِ ، وَالرُّجوعُ إلى قَلبٍ سَليمٍ . (24) تین چیزوں کے ذریعے لوگوں کی محبت اور اور دوستی کو حاصل کرسکتے ہیں۔ 1 لوگوں کے ساتھ انصاف2 لوگوں کے ساتھ غم و خوشی کے موقع پر ہمدردی3 قلب سلیم۔
امید ہے کہ امام جواد ؑ کی یہ نورانی حدیث اور دیگر فرامین ہماری تاریک دنیا کو منور کردے اور زندگی کی مشکلات کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوجائے۔ آمین
منابع و ماخذ
1۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج۵۰، ص 74۔
2۔ تاریخ غیبت ، امام دوازدہم، حسین ، جاسم، ترجمہ سید محمد تقی، آیت الللہی، ص 78۔79۔
3۔ التوحید، شیخ صدوق، ص101۔
4۔ سورہ غاشیہ، آیہ، 2۔3۔
5۔ حیات فکری امامان شیعہ، رسول جعفریان، ص490۔
6۔ دلائل الامامہ، محمد بن جریر طبری، ص204۔
7۔ سورہ قمر ، آیہ24۔
8۔ سورہ قمر ، آیہ25۔
9۔ منتخب میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شہری، ص51۔
10۔ اصول کافی، محمد بن یعقوب، کلینی، ج1، ص383۔
11۔ سورہ مریم، آیہ 12۔
12۔ سورہ یوسف، آیہ 22۔
13۔ اصول کافی، ج1، ص384۔
14۔ رجال طوسی، ابو جعفر محمد بن حسن طوسی، ص397، 409۔
15۔ سیر حدیث در اسلام، سید احمد میر خانی، ص266، 278۔
16۔ حیات فکری و سیاسی امامن شیعہ، ص491۔
17۔ اعیان الشیعہ، سید محسن امین، ج2، ص35۔
18۔ مناقب آل ابی طالب، ابن شہر مازندرانی، ج4، ص384۔
19۔ التوحید، ص82۔
20۔ حیات فکری و سیاسی امامن شیعہ، ص482،486۔
21۔ سوارہ مائدہ، آیہ 33۔
22۔ تفسیر عیاشی، محمد بن مسعود عیاشی، ج1، ص315۔
23۔ حیات فکری و سیاسی امامن شیعہ، ص489، 490۔
24۔ کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، علی بن عیسی اربلی، ج2، ص349۔
دیدگاهتان را بنویسید