امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے خلاف جدوجہد
آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔
امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ کے محلے صریا میں پیدا ہوئے (1) آپ (ع) کا نام “علی” رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2) اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب “النقی اور الہادی” ہیں۔ (3) اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔ آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام “سیدہ سمانہ” ہے۔ (5)
آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7) امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔(8) آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9) آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10)
امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوكل عباسی، منتصر عباسی، مستعين عباسی اور معتز عباسی۔ (11)
معاشرے کے ہادی و راہنما
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہيں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہيں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔
جبر و تفویض
علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد “جبر و تفویض” کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہيں۔
شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (12) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں “مرو” میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ “خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کيا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہيں اور ہم مجبور ہيں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا”، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟
فرمایا: یابن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! “امرٌ بین الامرین” سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔
میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟
فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضي اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔
جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلام
شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔
امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (13)
شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ “اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟”؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہيں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (14)
شايد امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔
امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف “لا جَبْرَ وَلا تَفْويضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن”؛ (15) کا حوالہ دیتے ہيں اور فرماتے ہیں: “اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هَلْ اَجْبَرَ اللّهُ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى؟ فَقالَ الصّادِقُ عليهالسلام هُوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقيلَ لَهُ: فَهَلْ فَوَّضَ اِلَيْهِمْ؟ فَقالَ عليهالسلام : هُوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهُمْ مِنْ ذلِكَ”۔ (16)
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زيادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (17)
پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟
فرمایا: خداوند اس سے کہیں زيادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “النّاسُ فِى القَدَرِ عَلى ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهَنَ اللّهَ فى سُلْطانِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّهَ جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وَكَلَّفَهُمْ ما لا يُطيقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّهَ فى حُكْمِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّهَ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطيقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطيقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّهَ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّهَ؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ”۔ (18)
لوگ “قَدَر” پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں (فرقۂ قَدَریہ کے تین گروہ ہیں):
٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہيں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اپنے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچارہوگیا ہے۔
٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور
٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہيں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔
اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہيں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں: “َاَمّا الْجَبْرُ الَّذى يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّهَ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّهَ فى حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ {وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَداً}۔ (19) “وَقَوْلَهُ {ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ}”۔ (20) ۔۔۔؛ (21)
ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہوگا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے “تیرا پروردگار کسی پر بھی ظلم نہيں کرتا”، نیز فرماتا ہے: “یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے”۔
امام علیہ السلام تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں:
“وَاَمَّا التَّفْويضُ الَّذى اَبْطَلَهُ الصّادِقُ عليهالسلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَهُ فَهُوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ فَوَّضَ إِلَى الْعِبادِ اخْتِيارَ أَمْرِهِ وَنَهْيِهِ وَأَهْمَلَهُمْ”؛ (22)
ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق علیہ السلام نے باطل کردیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
“فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّهَ تَعالى فَوَّضَ اَمْرَهُ وَنَهْيَهُ إلى عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّهِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَهُ وَوَعيدَهُ، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّهَ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشيئَتِهِ، فَاِنْ شاءَ الْكفْرَ أَوِ الاْيمانَ كانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ۔۔۔”؛ (23)
ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلاکر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کہ وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کئے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئي رد ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔
امام ہادی علیہ السلام یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو “امرٌ بین الأمرین” سے عبارت ہے؛ فرماتے ہیں:
“لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهِمْ بِها، فَاَمَرَهُمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِهِ وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهُمْ، وَنَهاهُمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاهُ وَعاقَبَهُ عَلَيْها”؛ (24)
ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ
ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جاسکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہيں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہيں ہے جو ان ہی مقاصد کے لئے وضع کی گئی ہیں۔
لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہيں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف کا شکار تھے۔
غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومین علیہم السلام کو معاذاللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں نئی نہيں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔
غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آرہے ہيں۔ حتی کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اعتقادی مسائل پیدا کررہے تھے۔
نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے
امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں:
“إنَّ قَوْما مِنْ شيعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّى يَقُولُوا فينا ما قالَتِ الْيَهُودُ فى عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصارى فى عيسَى ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا هُمْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهُمْ”۔ (25)
ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیز (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہيں کرنے دیتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
“اَحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّهِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّى بَغَّضْتُمُونا إلَى النّاسِ”۔ (26)
ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔
یہاں اس بات کی یادآوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہيں: “نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص؛
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] اور قدیم ہونے کا قائل ہوجائے؛
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہيں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) یا ائمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ یا وہ شخص اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الہام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہيں؛
٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ ائمہ انبیاء ہی ہیں؟
٭ یا کہا جائے کہ بعض ائمہ کی روح بعض دوسرے ائمہ میں حلول کرچکی ہے۔
٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (27)
جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالی بھی کہتے ہيں اور بعض لوگ انہيں نصیری بھی کہتے ہیں۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہوچکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات امو مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔ (28)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کررہے تھے چنانچہ امام علیہ السلام نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: على بن حسكہ قمى، قاسم يقطينى، حسن بن محمد بن بابا قمى، فہري، محمد بن نُصير نميري اور فارِس بن حاكم تھے۔ (29)
احمد بن محمد بن عيسى اور ابراہيم بن شيبہ، امام ہادی علیہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں على بن حسكہ اور قاسم يقطينى کی شکایت کرتے ہیں اور امام علیہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:
“لَيْسَ هذا دينُنا فَاعْتَزِلْهُ”؛ (30)
ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔
اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی:
محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لئے لکھا:
“لَعَنَ اللّهُ الْقاسِمَ الْيَقْطينى وَلَعَنَ اللّه عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائى لِلْقاسِمِ فَيُوحى اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا”۔ (31)
ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔
نصر بن صبّاح کہتے ہیں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصير نميرى اور فارس بن حاتم قزوينى پر امام ہادی (علیہ السلام) نے لعنت بھیجی۔ (32)
ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی علیہ السلام کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔
محمد بن عیسی کہتے ہیں:
“إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِى عليهالسلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوينىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ”۔ (33)
ترجمہ: امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دی جو اس کو ہلاک کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کردیا۔
مُجَسِِّمہ اور مُشَبِّہہ
مسلمانوں کے درمیان گمراہی اور ضلالت پر مبنی عقائد کبھی شیعیان اہل بیت (ع) تک بھی سرایت کرجاتے تھے اور روایات کے مطابق یہ عقائد امام ہادی (علیہ السلام) کے زمانے میں اہل تشیع کر درمیان اختلاف کا سبب بنے؛ مجسمہ وہ لوگ تھے جو خدا کو جسم سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اور مشبہہ وہ لوگ تھے جو خدا کو مخلوقات سے تشبیہ دیتے تھے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ شیعہ تعلیمات کا سرچشمہ شفاف اور پاک ہے چنانچہ ان کے عقائد بھی انحرافات سے دور رہے ہیں اور یہ تعلیمات ہر شیعہ کے لئے فخر و اعزاز کا سرمایہ ہیں؛ تا ہم بعض اوقات بعض وجوہات کی بنا پر انحرافی افکار اہل تشیع میں بھی رواج پاتے رہے ہیں اور ہمارے ائمہ (علیہم السلام) نے بھی ان کا مقابلہ کیا ہے اور تشیع کے شفاف چہرے کو ان ناپاک توہمات سے پاک کردیا۔
شیخ صدوق (رحمۃاللہ علیہ) اپنی کتاب “التوحید” میں لکھتے ہیں: “میں نے یہ کتاب مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر روا رکھی جانے والی تہمتوں کے باعث تالیف کی؛ جو کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں۔۔۔؛ لہذا اللہ سے تقرب اور اس پر توکل کرکے اس کتاب کا آغاز کیا جو توحید و یکتا پرستی اور تشبیہ اور جبر کی نفی کرتی ہے”۔ (34)
پس یہ ایسا مسئلہ نہ تھا جس کو ائمہ طاہرین (علیہم السلام) نظرانداز کریں کیونکہ اس قسم کے عقائد توحید کے بنیادوں اصولوں سے متصادم تھے۔
صقر بن ابى دلف امام ہادی (علیہ السلام) سے توحید کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور آپ (ع) فرماتے ہیں:
«إنَّهُ لَيسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ جِسْمٌ وَنَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِى الدُّنْيا وَالاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبى] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ واللّه مُحدِثُهُ وَمُجَسِّمُهُ؛ (35)
“جو شخص گمان کرے کہ خداوند عزّو جلّ خداوند جسم ہے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم ایسے افراد سے دنیا اور آخرت میں، بیزار ہیں۔ اے ابن ابی دلف! جسم مخلوق ہے اور اس کو وجود میں لانے والا اور اس کو جسم بخشنے والا خدا ہے”۔
نیز سہل بن زیاد ابراہیم بن محمد ہمدانی کہتے ہیں: میں نے امام ہادی (علیہ السلام) کو لکھا:
“اس شہر میں آپ کے پیروکاروں کے درمیان توحید کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ وہ صورت ہے”۔
امام (علیہ السلام) نے میرے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا:
“سُبْحَانَ مَنْ لَا يُحَدّ وَلَا يُوصَفُ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السّمِيعُ الْعَلِيمُ أَوْ قَالَ الْبَصِيرُ”۔ (36)
“پاک ہے وہ ذات کہ محدود ہوجائے یا وصف و بیان میں سمائے اور کوئی چیز اس کی مانند نہیں ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے یا (سہل کہتے ہیں کہ ہمدانی نے کہا: جاننے والا یا) کہا: دیکھنے والا”۔
نیز بعض دوسروں کا خیال تھا کہ خداوند متعال کی ذات قابل رؤیت ہے اور اس کے سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) نے اس تصور کا بھی مقابلہ کیا اور اس سلسلے میں امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
“جاءَ حِبْرٌ إلى أميرِ الْمُؤْمِنينَ عليهالسلام فَقالَ: يا أَميرَ الُؤْمِنينَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حينَ عَبَدْتَهُ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَهُ۔ قالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فى مُشاهِدَةِ الاَْبْصارِ وَلكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْيمانِ”۔ (37)
یہودی احبار میں سے ایک حبر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے پاس آیا اور پوچھا: کیا آپ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے؟ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی بندگی نہيں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔
حبر نے دوبارہ پوچھا: خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی؟
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: وائے ہو تم پر! آنکھیں نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہيں کرسکتیں بلکہ دل ہیں جو حقیقت ایمان سے اس کو دیکھتا ہے”۔
امام ہادی (علیہ السلام) سے پروردگار کی رؤیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ (ع) نہایت مدلل اور منطقی انداز خدا کی رؤیت کی نفی کرتے ہیں اور رؤیت کے قائل ہونے کو تشبیہ قرار دیتے ہیں؛ دیکھئے:
“عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الثّالِثِ (عليه السلام) أَسْأَلُهُ عَنِ الرّؤْيَةِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِيهِ النّاسُ فَكَتَبَ لَا تَجُوزُ الرّؤْيَةُ مَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الرّائِي وَ الْمَرْئِيّ هَوَاءٌ لَمْ يَنْفُذْهُ الْبَصَرُ فَإِذَا انْقَطَعَ الْهَوَاءُ عَنِ الرّائِي وَ الْمَرْئِيّ لَمْ تَصِحّ الرّؤْيَةُ وَ كَانَ فِي ذَلِكَ الِاشْتِبَاهُ لِأَنّ الرّائِيَ مَتَى سَاوَى الْمَرْئِيّ فِي السّبَبِ الْمُوجِبِ بَيْنَهُمَا فِي الرّؤْيَةِ وَجَبَ الِاشْتِبَاهُ وَ كَانَ ذَلِكَ التّشْبِيهُ لِأَنّ الْأَسْبَابَ لَا بُدّ مِنِ اتّصَالِهَا بِالْمُسَبّبَاتِ”۔ (38)
احمد بن اسحق کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن ثالث (حضرت امام ہادی علیہ السلام) کو خط لکھا اور آپ (ع) سے خدا کو دیکھنے کے سلسلے میں لوگوں کے اختلاف کے بارے میں دریافت کیا؛ تو آپ (ع) نے جواب میں تحریر فرمایا: جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے (رائی اور مرئی) کے درمیان ایسی ہوا موجود نہ ہو جس میں بصارت نفوذ کرتی ہے، دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا۔ پس اگر اس قسم کی ہوا دیکھنے والے اور دید کے ہدف (مرئی) کے درمیان منقطع ہوجائے، دیکھنا ممکن نہ ہوگا۔ اور اگر رائی مرئی کو دیکھے تو وہ دونوں ایک دوسرے کی مانند اور شبیہ ہونگے (کیونکہ وہ دونوں ایک خاص سمت میں واقع ہوئے ہیں) کیونکہ دیکھنے والا جب دیکھے جانے والے دید کے سامنے قرار پائے گا تو دید کی شرط کے لحاظ سے ان کے درمیان تشابہ اور اشتباہ واقع ہوگا اور یہ وہی تشبیہ ہے جو ممتنع ہے (کہ خدا کی کوئی مثل ہو) کیونکہ سبب اور مسبب کے درمیان اتصال حتمی ہے”۔
امام ہادی (علیہ السلام) سے ـ جن سے زیارت جامعہ کبیرہ بھی منقول ہے ـ خالق کائنات اور معرفت امام کے بارے میں بھی نورانی جملے نقل ہوئے ہیں۔ سہل بن زیادہ کہتے ہیں:
«إلهى تاهَتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهِّمينَ وَقَصُرَ طُرَفُ الطّارِفينَ وَتَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفينَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاويلُ الْمُبْطِلينَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجيبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلى عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَكانِ الَّذى لا يَتَناهى وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَلا عِبارَةٍ هَيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ يا اَوَّلىُّ، يا وَحدانىُّ، يا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِى الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَنَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ؛(39)
پروردگارا! توہم زدہ لوگوں کے گمان خطا سے دوچار ہوئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نگاہ کا عروج [حتی کہ تیرے اوصاف کے قریب بھی] بھی نہ پہنچ سکی؛ اور وصف کرنے والوں کے اوصاف ناکارہ ہوچکے ہیں اور باطل دعوے کرنے والوں کے اقوال اور دعوے تیری شان کی بلندی اور حیرت انگيزی کے سامنے بےبس اور مضمحل ہوئے؛ کیونکہ تیر شوکت و عظمت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ [انسانی عقل کا] اس تک پہنچنا تصور کیا جاسکے۔ تو اس بلندی پر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور کوئی بھی آنکھ تجھے نہیں دیکھ سکتی اور کسی بھی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت نہیں ہے۔ کتنے دور ہیں [انسانی افکار تیرے مقام والا کے ادراک سے] اے سرچشمۂ وجود! ایک یگانہ! اے یکتا! تو اپنی کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالاتر ہے اور اپنی جبروت کی بنا پر ہر تیز بین مفکر کی دید و ادراک کی زد سے ماوراء ہے”۔ (40)
________________________________________
مآخذ:
1۔ ارشاد، شیخ مفيد، ج 2 ص 297 ـ مناقب آل ابىطالب ـ ابن شهر آشوب، ـ ج 3 ص505۔
2۔ مناقب آل ابىطالب، انتشارات ذوىالقربى، ج1، 1379، ج4، ص432۔
3۔ جلاء العيون، ملامحمدباقر مجلسى، انتشارات علميه اسلاميه، ص568۔
4۔ مناقب، ص432۔
5۔ ارشاد، همان۔
6۔ مناقب، ص433۔
7۔ مناقب، ص433۔
8۔ مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297۔
9۔ ارشاد، ص297۔
10۔ اعلام الورى، طبرسى، دارالمعرفه، ص339۔
11۔ مناقب، ص433۔
12۔ عيون اخبار الرضا (ع) ـ شیخ صدوق ـ ج 1 ص 114۔
13۔ تحف العقول، ابن شعبه حرّانى، مؤسسة الاعلمى للمطبوعات، صص339 ـ 338۔
14۔ تحف العقول ، ص340۔
15۔ تحف العقول۔ انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔
16۔ تحف العقول۔
17۔ اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ ـ العياذ باللّه ـ خداوند متعال ظالم ہے حالانکہ وہ خود ارشاد فرماتا ہے: {وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَداً} سورہ کہف (18) آیت 49۔ واضح رہے کہ مرجئہ اور اشاعرہ جو جبر کے قائل ہیں عدل کو ایک اصول کے طور پر تسلیم نہیں کرتے اور ان کے خیال میں خدا (معاذاللہ) اگر ظلم بھی کرے، درست ہے۔
18۔ تحف العقول ۔ ابن شعبہ حرانی ـ ص 371۔
19۔ سورہ کہف (18) آیت 49۔
20۔ سورہ حج (22) آیت 10۔
21۔ تحف العقول، ص461۔
22۔ همان، ص 463۔
23۔ همان، ص 464۔
23۔ همان۔ ص 465۔
25۔ اختيار معرفة الرجال ـ شیخ طوسى، تصحيح وتعليق المعلم الثالث ميرداماد الاستربادي تحقيق السيد مهدي الرجائي مؤسسة آل البيت عليهم السلام ۔ ص 336۔
26۔ الطبقات الكبرى، ابن سعد، دار صادر بيروت، ج5، ص214۔
27۔ بحار الانوار ـ علامہ مجلسی ـ ج25، ص 346۔
28۔ وہی ماخذ۔
29۔ اختيار معرفة الرجال ص 806۔
30۔ وہی ماخذ ص 803۔
31۔ وہی ماخذ، ص 804۔
32۔ وہی ماخذ۔
33۔ وہی ماخذ، ص 807۔
34۔ التوحید ـ شیخ صدوق ـ ص 18۔
35۔ التوحید شیخ صدوق ص104، ح20۔
36۔ همان، ص100، ح9 ـ اصول كافى جلد 1 ص 136 حدیث 5۔
37۔ توحيد، ص109، ح6۔
38۔ همان، ص109، ح7۔ اصول كافى جلد 1 ص :130 رواية: 4۔ وضاحت از مترجم و شارح اصول کافی، جناب حاج سيد جواد مصطفوي: “طبیعی دان کہتے ہیں کہ آنکھ میں کسی چیز کے منعکس ہونے کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں: 1۔ دید کا ہدف (مرئی) کثیف ہونا چاہئے (اور جگہ گھرنا چاہئے) تا کہ روشنی کو منعکس کرکے منتشر کردے؛ اسی بنا پر اجسام لطیف ـ جیسے ہوا، فرشتے اور جن وغیرہ نہیں دیکھے جاتے سوائے اس وقت کہ جب وہ جسم کثیف کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ 2۔ رائی اور مرئی کے درمیان فاصلہ معین ہو جو نہ زیادہ دور ہو اور نہ ہی حد سے زیادہ قریب اور فاصلہ موجود ہو۔ 3۔ دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان لطیف ہوا بھی موجود ہو ایک شعاعی جسم کو حمل کر منتقل کرے”۔ امام ہادی (علیہ السلام) نے ان ہی میں سے بعض شرائط کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور فرمایا ہے: اگر خدا دیکھا جائے تو تو ان ہی حالات میں ہونا چاہئے۔ کیونکہ شرط اور مشروط اور سبب اور مسبب کے درمیان اتصال اور رابطہ حتمی ہے اور اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ خدا بھی مخلوق کی طرح ہو کیونکہ وہ دید کا ہدف قرار پایا ہے اور ہدف دید کو ـ جیسا کہ کہا گیا ـ جسم کثیف ہونا چاہئے اور خداوند متعال اس سے کہیں بالاتر ہے۔
39۔ التوحید، 66 ح19۔
40۔ حسین مطہری محب نے یہ اقتباس مرحوم علامہ باقر شریف قرشی کی کتاب “حياة امام علي الهادي عليهالسلام” دفتر انتشارات اسلامى، ص112۔ سے اخذ کرکے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا اور بندہ ناچيز ف۔ح۔مہدوی نے اسے انٹرنیٹ سے اخذ کیا اور اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس مضمون کی بعض عبارات میں مختصر تبدیلی لائی گئی اور اس کے مآخذ کو دوبارہ دیکھا گیا اور ان کی تطبیق کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم:حسين مطهري محب ترجمہ: ف۔ح۔ مہدوی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید