تازہ ترین

انصاف کی فراہمی تک پاناما کیس سنتے رہیں گے، سپریم کورٹ

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں اور عدالت انصاف کی فراہمی تک یہ کیس سنتی رہے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے وراثتی جائیداد کی تقسیم اور تحائف کی وصولی پر جواب کے لیے مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ تفصیل جمع کرانے کے لیے پیرتک کی مہلت دی جائے جس پر جسٹس کھوسہ نےاستفسار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ تمام دستاویزات ہیں اور پیش کردی جائیں گی لیکن اب آپ دستاویزات پیش کرنے کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔

شئیر
15 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1306

 

اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل پر الزام ہے کہ 25 اپریل 2000 کو مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان دیا جس میں 14.866ملین روپے کی منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تاہم اسحاق ڈار اپنے بیان کی مکمل تردید کرتے ہیں، فوجی بغاوت کے بعد انہیں گھر پر نظر بند رکھا گیا اور تعاون پر حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی گئی، پہلے سے لکھے گئے بیان پر زبردستی دستخط کرائے گئے اور بیان لینے کے بعد دوبارہ حراست میں لے لیا گیا جب کہ اسحاق ڈار 2001 تک فوج کی تحویل میں رہے اور رہائی پر انٹرویو میں بیان کی تردید کی۔شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ 1994 میں حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپر ملزکے خلاف دو ایف آئی آر کاٹی گئیں جس میں میاں شریف، حسین نواز، عباس شریف، نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز نامزد تھے جب کہ ان ایف آئی آرز کا چالان پیش ہوا اور فیصلہ 1997 میں ہوا جس میں عدالت نے تمام نامزد ملزمان کے خلاف چالان ختم کرتے ہوئے بری کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے جب کہ نیب ریفرنس میں بھی وہی الزامات لگائے گئے جو ایف آئی اے نے لگائے، 1997 میں عدالت عالیہ ان الزامات پر ملزمان کو بری کر چکی جب کہ 1992 کے پروٹیکشن قانون کے تحت ایک الزام میں بری ہونے پر دوبارہ کارروائی نہیں ہو سکتی۔ اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ کیا اسحاق ڈار اپنے بیان حلفی سے انکاری ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ تصدیق نہیں کرتا تو اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں اور اعترافی بیان عدالت عالیہ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے تاہم اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کیس میں چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنا چاہیے تھی اور اگر چیئرمین نیب اپیل میں سپریم کورٹ آتے تو ہم دوبارہ تفتیش کا حکم دیتے جب کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا تعلق شریف فیملی کے مالی جرائم سے نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے بیان پر استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں صرف چالان ختم ہوا ہے، ایف آئی آر موجود ہے۔ درخواست میں صرف چالان ختم ہوا اور ملزمان بری ہو گئے یہ کیسے ممکن ہوا، اعترافی بیان کاغذ کا ٹکڑا نہیں، شواہد کا حصہ ہے جس پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی، نیب ریفرنس قانون کے تحت تحقیقات نہ ہونے پر خارج ہوا جب کہ ہائی کورٹ نے اس کیس کو تکنیکی بنیادوں پر ختم کیا تھا۔ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ اس وقت حمزہ شہباز کے علاوہ خاندان کے سب لوگ بیرون ملک تھے، جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی شامل تفتیش نہ ہو تو 12 ارب کا معاملہ ختم کر دیا جائے گا، اسحاق ڈار کے خلاف کیس میں دو ججز نے انٹراکورٹ اپیل سنی جو عموماً پانچ ججز سنتے ہیں جب کہ پروٹیکشن قانون بنا تو نواز شریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس وقت اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے اور نہ ہی ایم این اے۔ جسٹس شیخ عظمت نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ کیا پروٹیکشن قانون کے مطابق بیرون ملک اکاو¿نٹس کو بھی تحفظ حاصل تھا جس پر شاہد حامد نے کہا کہ صرف ملک کے اندر اکاو¿نٹس کو تحفظ حاصل تھا۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اوگرا کرپشن کیس میں توقیر صادق کے خلاف کسی نے اپیل نہیں کی جس پر سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ ایک نسل جوان ہو گئی اور کبھی تو اس کیس کو حتمی ہونا ہے، جسٹس کھوسہ نے کہا 1.2ارب روپے ملک کا پیسہ ہے، کیا کبھی کیس کا میرٹ پر فیصلہ ہوا۔ وکیل شاہد حامد نے اسحاق ڈار کی نااہلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست کا حوالہ دیا جس پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ کلین چٹ کے لیے ایسے فیصلے لئے جاتے ہیں، فرخ بھٹی عدالت میں اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے گئے اور عدالت کے پوچھنے پر کہہ دیا کہ میرے پاس اعترافی بیان ہی نہیں اور آپ اس کیس کو بنیاد بنا کر یہاں دلائل دے رہے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کو معافی دی گئی تھی اور اگر معافی نہیں دی گئی تو یہ ایک ملزم کا بیان ہے، وعدہ معاف گواہ کا معافی کے بعد بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے اور ملزم کو معافی کی پیشکش کی جاتی ہے، قبول کرنے کے بعد ایسا بیان دیا جاسکتا ہے اور کئی کیسز میں ملزم معافی کی پیش کش قبول نہیں کرتے تاہم اس کیس میں یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ شاہد حامد نے دلائل میں کہا کہ مجسٹریٹ کو اختیار نہ تھا کہ وہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ریکارڈ کرتا اور نیب نے کافی غور کیا کہ منی لانڈرنگ پر اپیل دائر کی جائے یا نہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار کو اعترافی بیان دینے سے پہلے معافی ملی یا بعد میں، شاہد حامد نے اپنے جواب میں کہا کہ اسحاق ڈار کو پہلے معافی مل گئی تھی اور اعترافی بیان بعد میں ریکارڈ ہوا جب کہ نومبر2007 میں شریف خاندان وطن واپس آیا لیکن ریفرنس دوبارہ نہیں کھلا جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ معافی ملنے کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے اور اعترافی بیان بطور ملزم نہیں جب کہ یہاں بے گناہ افراد مقدمہ لڑتے ہیں اور معافیاں قبول نہیں کرتے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب بتائیں کہ نیب کے سیکشن 26 (ای) کے تحت دو طرح کی معافی ہوتی ہے، ایک معافی مشروط طور پر یا غیر مشروط طور پر ہوتی ہےلہذا بتائیں کہ اسحاق ڈار کا بیان معافی دینے کے بعد ریکارڈ کیا گیا یا پہلے جب کہ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان سے متعلق ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیر کے روز اسحاق ڈار کیس سے متعلق عدالت کی معاونت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ اپیل کیوں فائل نہیں کی گئی۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت فیصلہ نہیں کر رہی تاہم عدالت سست روی کا شکار نہیں ہے، ہم کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے اور قانون پر فیصلہ دیں گے لوگوں کی خواہشات پر نہیں ، انصاف کے تقاضے پورے ہونے تک کیس سنیں گے اور یہ کیس تب تک سنیں گے جب تک مطمئن نہیں ہوتے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *