اولاد کی تربیت اور والدین کی ذمہ داریاں
والدین کی گردن پر جو عظیم ذمہ داری ہے وہ قرآن اور تعلیمات اہلبیت کی روشنی میں اولاد کی تربیت اور معاشرے کو اچھے اور نیک افراد پیش کرنا ہے والدین پر یہ ذمہ داری اولاد کی پیدائش سے پہلےبھی اور پیدائش کے بعد بھی عائد ہوتی ہے۔ نطفہ ٹھہرتے وقت اور حمل کے دوران بھی والدین کو چاہئے کہ اسلامی آداب کا خیال رکھیں اور اپنےکردار اور گفتار و رفتار کو اسلامی بنائیں ۔ پیدائش کے بعد والدین پر یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ بزرگان نے بچے کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: ۱۔ ایک سے سات سال تک ۔ سات سے چودہ سال تک ۳۔ چودہ سے اکیس سال تک کہ جن میں سے ہر ایک مرحلہ میں والدین کو بچے کےساتھ ایک خاص طریقے سے زندگی کرنے کی ضرورت ہے۔گھر کا ماحول ،والدین کی طرز زندگی اور رہن سہن بچے کی تربیت پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں ۔

اولاد والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور امانت ہے اس امانت کے بارے میں قیامت کے دن والدین سے سوال ہوگا اگر امانتداری کا لحاظ رکھا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے مستحق ہوں گے اور اگر اس امانت میں خیانت کی ہیں تو سزا کے مستحق ہوں گے ۔ والدین کی سب سے عظیم ذمہ داری اولاد کی تربیت ہے اوریہ ذمہ داری والدین کے لئے اس وقت ممکن ہے جب اولاد اور والدین کے درمیان پیار و محبت اور الفت کا رشتہ قائم ہوں۔ لیکن اگر ان کے درمیان یہ رشتہ برقرار نہ ہو ں یا کمزور ہوں یا ان کے درمیان صرف مادیات کی بنیاد پر رشتہ قائم ہوں تو ایسی صورت میں تربیت کی یہ سنگین ذمہ داری ادا نہیں ہوگی۔
اسی طرح تربیت کی اس عظیم ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لئے ایک مظبوط اور مثالی خاندان کا ہونا ضروری ہے کیونکہ نکہ اولاد کی تربیت خاندان میں ہوتی ہےاگرخاندان کے افراد خصوصا والدین کے درمیان رشتے کی بنیاد مظبوط اور پیار و محبت پر ہوں تو ایسے خاندانوں میں اولاد کی تربیت بھی اچھی ہوگی اور اگر خاندان کے افراد کے درمیان محبت و الفت نہ ہوں بلکہ بار بار لڑائی جھگڑا ہوتا ہو اور والدین ایک دوسرے کے احترام کے قائل نہ ہوں تو یہ حالات اولاد کی تربیت پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور ایک مثالی خاندان کی تشکیل کے لئے انتخاب ہمسر میں ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا جن کی طرف اسلام نے اشارہ کیا ہے۔ آج ہم اپنے معاشرے میں اکثر خاندانوں کی بنیادیں متزلزل دیکھتے ہیں اور آئے روز میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتے دیکھتے ہیں جن کے اثرات ان کی اولادوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اولاد اور والدین کے درمیان وہ عظیم رشتہ جو اسلام نے قائم کیا ہے، نہیں ہے۔ مادیات کی دنیا میں غرق ہونے کی وجہ سے نہ والدین کو اولاد کی اور نہ اولاد کو والدین کی فکر ہےجس سے ایک طرف اولاد کی تربیت میں رکاوٹ آرہی ہے تو دوسری طرف والدین بھی بڑھاپے میں دلسوز اولاد کی دیکھ بال اور مہر و محبت سے محروم ہو جاتےہیں۔ امام سجادؑ والدین پر اولاد کے حق ان الفاظ میں بیان فرماتے ہی:
“تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ جان لو: وہ تجھ سے ہے اُس کی اچھائی اور برائی تجھ سے وابستہ ہے اور اسکی اچھی تربیت، خدا تک پہنچنے میں اس کی راہنمائی اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں اس کی مدد کے حوالے سے تم سے سوال کیا جائے گا۔ پس اُس کے لئے اس طرح کام کرو کہ اس کے ساتھ اچھائی کی صورت میں اپنے آپ کو ثواب کا مستحق اور اُس کے ساتھ برائی کی صورت میں اپنے آپ کو عقاب کا مستحق سمجھیں۔”
امیر المؤمنینؑ والدین کی ذمہ داریوں میں سے بعض کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: “اور فرزند کا حق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھا سا نام تجویز کرے اور اسے بہترین ادب سکھائےاور قرآن مجید کی تعلیم دے” اس کے علاوہ بعض دوسرے احادیث میں بھی اچھے نام اور تعلیم و تربیت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں عجیب و غریب نام آئے ہیں اور بعض لوگ ترجیح دیتے ہیں کہ کسی اداکار ، گلوکار یا کسی کھلاڑی وغیرہ کا نام اپنے بچے کےلئے تجویز کریں۔ تعلیم کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو آج ہمارے معاشرے ہر قسم کی تعلیم ملتی ہے صرف قرآن مجید کی تعلیم نایاب ہے حتی کہ بعض لوگ قرآن کی عبارت سے بھی ناآشنا ہیں۔
پیدائش سے پہلے
اگر ہم چاہیں کہ معاشرے میں صحیح اور سالم بچے ہوں جو ہم جسمانی اعتبار سے اور ہم روحانی اعتبار سے کمال تک پہنچیں تو ضروری ہے پیدائش سے پہلے ان کی تربیت پر توجہ دیں بعض روایات انسان میں اچھے اخلاق کے وجود کو والدین کے شریف اور کریم ہونے کا نتیجہ سمجھتی ہیں زندگی بھر اچھے اخلاق کا حامل رہنا خاندانی شرافت پر دلیل ہے خاندانی شرافت ایک انسان کی طرز زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اسی لئے ازدواجی زندگی کے لئے انتخاب ہمسر کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ عورت اچھی خصوصیات اور صفات کے مالک ہوں یا کم سے کم بری صفات نہ پائی جاتی ہوں تاکہ اولاد پر بھی وہ اثرات مرتب نہ ہوں۔ پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں: “ایک اچھے خاندان میں شادی کرو کیونکہ خون اثر رکھتا ہے” یہاں خون سے مراد ممکن ہے خصوصیات اور صفات ہوں جو جنسی رابطے کی وجہ سے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔ اسی طرح بہت ساری روایات اور زیارات میں ائمہ معصومین کی شرافت اور کرامت میں مؤثر ایک اہم عامل ،ان کے آبا و اجداد کی شرافت کو قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح جسمانی اعتبار سے بھی اگر صحیح و سالم اولاد چاہیں تو ضروری ہے نطفہ ٹھہرنے سے پہلے سوچیں اور توجہ کریں جیسا کہ بعض روایات اپنے رشتے داروں میں شادی کرنے سے منع کرتی ہیں جیسا کہ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں: “رشتے داروں میں شادی نہ کرو کیونکہ اس طریقے سے جو بچے پیدا ہوں گے وہ کمزور ہوں گے۔”
ایک اور نکتہ جو بچے کی پیدائش سے پہلے تربیت میں اثر گزار ہے اور قابل توجہ ہے وہ نطفہ ٹھہرتے وقت اسلامی آداب کی رعایت ہے؛ کیونکہ ہمبستری کے وقت والدین کی روحانی اور جسمانی حالات بچے کی روحانی اور جسمانی خصوصیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: “ہمبستری کے وقت خدا کا نام لے لو تاکہ جب نطفہ ٹھہر جائے تو شیطان کے ہاتھوں سے محفوظ رہے” جنابت کی حالت میں ہمبستری نہ کریں کیونکہ ایسی صورت میںاگر نطفہ ٹھہر جائے تو ممکن ہے بچہ پاگل پیداہوں، اسی طرح ہمبستری کا زمان بھی بچے کی روح اور جسم پر اثر انداز ہونے کے بارے میں روایات آئی ہیں۔
بچے تربیت میں ایک اور مؤثر عامل کہ جس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ نطفہ یا جنین پر والدین کے غذا کے اثرات ہیں پیغمبراکرمؐ کی ایک حدیث میں اپنےایک ساتھی سے فرمایا: “حرام غذا مت کھاؤ، حرام لباس مت پہنو اور خدا کی نافرمانی نہ کرو کیونکہ خدا شیطان سے فرماتا ہے کہ گنہگاروں اور حرام خوروں کے اموال اور اولاد میںشریک ہوجاؤ اور انہیں جھوٹے وعدے دیدو۔”
یہ روایت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر والدین حرام کاموں اور چیزوںسے پرہیز نہ کریں تو ان کی اولاد کا رہن سہن اور طرز زندگی اچھی نہیں ہوگی اور خاص طور پر حمل کے دوران ماں کی غذا کے اثرات بچے کی تربیت پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس دوران ماں کو کھجور، بہ، ۔۔۔۔کھلانے کی تاکید ہوئی ہے۔جس سے بچے کے اخلاق کے ساتھ ساتھ بچے کی ذہنی تربیت بھی ہوتی ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ بچے کی خوشبختی اور بدبختی رحم مادر سے ہی شروع ہوتی ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے اچھے خاندانوں میں بعض اوقات برے افراد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح بہت سارے برے خاندانوں میں بعض اوقات اچھے افراد پیدا ہوتے ہیں جسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ والدین کا رہن سہن خصوصا حمل کے ایام میں ماں کا کردار بچے کی شقاوت اور سعادت کے لئے بہت اہم ہے۔ بڑے بڑے علما و فقہا کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک یہی بیان ہوا ہے کہ ان کے والدین ان کی پیدائش سے پہلےہی ان کی تربیت کا انتظام کرتے تھے چنانچہ شیخ مرتضیٰ انصاری کہ جن کا شمار مکتب اہلبیت کے عظیم علما میں ہوتا ہے جس کی کتابیں (رسائل و مکاسب) آج تک ہمارے تمام دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں جنہیں پڑھے بغیر مجتہد نہیں بنتا، “جب ان کی ماں سے کہا گیا کہ آپ کا بیٹا علم و تقویٰ کے بلند چوٹی پہ پہنچا ہے تو جواب میں فرمایا کہ میں اس انتظار میں تھا کہ میرا بیٹا اس سے بھی زیادہ ترقی کرےکیونکہ میں نے بغیر وضو کے کبھی اُسے دودھ بھی نہیں پلایا ہےحتی ٰ کہ موسم سرما کی سرد راتوں میں بھی۔”
پیدائش کے بعد
یوں تو بچے کی جسمانی اور روحانی تربیت میں بہت سے داخلی اور خارجی عوامل جیسے: خاندان، اسکول، ماحول، معاشرہ، دوست احباب،کتاب اور وعظ و نصیحت مؤثر ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ مؤثر عامل خاندان ہے کیونکہ بچے کی زیادہ تر زندگی خاندان میں ماں باپ اور بہن بھائیوںکے ساتھ گزرتی ہےاور والدین کا کردار ان کی رفتار اور گفتار سے زیادہ اولاد پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا والدین کو چاہئے کہ وہ اولاد کے لئے ایک نمونہ عمل ہوں۔ وہ روایات جو بچے کی تربیت کے لئے ایک قاعدہ کلی دیتی ہیں ان میں سے بعض روایات بچوں کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کرتی ہیں ۔
پہلا حصہ: 1-7 سال
یہ دورہ ایک سے سات سال تک ہے جو کہ بچےکی آزادی اور سرداری کا دورہ ہے۔ یہ دورہ بچے کی شخصیت کے تکامل اور اس میںتبدیلی کے لئے بہت اہم ہے جس سے غفلت نہیںبرتتنا چاہئے اور اس عرصہ میں بچہ بہت ہی پیار و محبت اور مہربانی کی طرف محتاج ہوتا ہے۔ اگر گھر میں اسے پیار و محبت نہ ملی تو وہ اس کے حصول کے لئے دوسروں کی طرف رخ کر سکتا ہے۔
دوسرا حصہ: 7-14سال
یہ دورہ سات سے چودہ سال تک ہے جو بچے کی نگرانی ، تربیت اور مختلف پروگرامز میں اسے شرکت کی تشویق دلانے کا دورہ ہے۔یہ دورہ ابتدائی سات سال کے بالکل برعکس ہوتا ہے جس میں بچے کے ساتھ ایک سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا اور اپنی زندگی کو والدین کی چاہتوں کے زیر سایہ گزارنے کا مطالبہ کرنا ہوگا اگر چہ سختی برتتنے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔
تیسرا حصہ: 14-21سال
یہ دورہ چودہ سے اکیس سال تک ہے جو گزشتہ دو دوروں کے نتائج کا دورہ ہے بلکہ حقیقت میں بچے کو پہلے دو دورے میں سکھائی ہوئی معلومات پر عمل کرانے اور اس کی شخصیت کا دورہ ہے۔اس دور میں بچے زیادہ حساس اور جلد ناراض ہوتے ہیں، دوسروں کے رفتار کے مقابلے میں جلد ردعمل دکھانا چاہتے ہیں، اپنے دوستوں اور ہم عمر افراد کو اپنے لئے نمونہ عمل کے طور پر لیتے ہیں اور ان کے رفتار کی پیروی کرتے ہیں، اپنی شخصیت کےاظہار کے خواہاں ہوتے ہیں اور زیادہ تر اجتماع اور کسی عہدے کو اپنے ذمے لینا چاہتے ہیں۔
ایسے میں اس کے اطرافیان خاص طور پر والدین کو چاہئے کہ اس جوان کے احساسات کو درک کریں ، اس کےساتھ محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آئیں اور اسکی شخصیت کے احترام کا قائل ہوں اور اپنے امور میں اسکی رأی اور نظریات کا احترام کریں۔
ایک اور روایت میں والدین کو حکم ہوا ہے کہ بچوں کو سات سال تک کھیلنے دیں اور آزاد چھوڑیں یعنی کسی طرح کی پابندی نہ لگائیں اور سات سال تک اس کی تربیت کریں اسے اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں لیکن بہت ہی اچھے انداز سے یہ کام کریں اور سات سال تک اسے اپنے ساتھ لے جائیں یعنی اسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا سکھائیں تاکہ اس کے بعد وہ اپنی خاندانی زندگی کے امور کو خود انجام دینے کے قابل ہوں۔
اہم نکات
آخر میں بچے کی تربیت اور اصلاح کے لئے چند ضروری نکات کی طرف اشارہ کریں گے جن کی طرف والدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
I. والدین کو چاہئیے کہ عمل سے بچوں کی تربیت کریں نہ زبانی، کیونکہ والدین کی نصیحتیں بچوں پر اس وقت اثر کرتی ہیں جب والدین ان کے لئے عملی نمونہ ہوں۔
II. ہمیشہ کوشش کریں کہ صبر اور حوصلے سے ان کی باتیں سنیں تاکہ وہ اپنے دل کی باتیں آپ سے شیئر کریں۔
III. کبھی کھل کر بچوں کی تکذیب اور تحقیر نہ کریں اور سبق آموز داستانوں کے ذریعہ غیر مستقیم طور پر انہیں برے کاموں سےروکیں۔
IV. کبھی بھی خوفناک ، دکھی اور غیر مناسب باتیں اس سے نہ کہیں کیونکہ بچوں کی روح بہت نازک ہوتی ہے جلد ہی متأثر اور سست ہوجاتی ہے۔ اور بڑوں کی مشکلات کو تحمل کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے۔
V. جہاں تک ممکن ہوں ان کے ذاتی کاموں کو انہیں پر چھوڑ دیں اور اگر کوئی مشکل پیش آئیں تو جلد حل کونے کی کوشش نہ کریں بلکہ ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ خود حل کریں اور آئندہ بھی مشکلات حل کرنا سیکھیں۔
VI. اپنی باتوں میں مادی امور کو کم اہمیت اور معنوی امور کو زیادہ اہمیت کے حامل دکھائیں تاکہ بچے مادیات سے زیادہ سے معنویات کو اختیار کریں۔
VII. والدین کو چاہئے بچوں کی گفتگ، اور آمد ورفت کو عاقلانہ طریقے سے کنٹرول کریں اور ان پر نظر رکھیں کیونکہ بچوں کے خراب ہونے کا سب سے زیادہ امکان برے دوستوں کی ہمراہی ہے۔
VIII. اگر بچوں سے کوئی وعدہ کریں تو ضرور اس پر عمل کریں اور اپنی وسعت سے خارج یا جن میں بچوں کی بہتری نہ ہوں ایسے وعدوں سے پرہیز کریں تاکہ والدین پر بچوں کا اعتماد ختم نہ ہوں۔اس کے علاوہ بہت ساری باتیں ہیں جن کی رعایت کر کے اولاد کی تربیت کو بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ ہم اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور پروردگار سے دعا کرتے ہیں کہ والدین کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے کی توفیق دے۔
دیدگاهتان را بنویسید