اَزرَی بِنَفسِهِ مَنِ استَشعَرَ … /نہج البلاغہ صدائے عدالت، اثر: محمد سجاد شاکری
ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۲
قال امیر المومنین: اَزرَی بِنَفسِهِ مَنِ استَشعَرَ الطَّمَعَ وَرَضِیَ بِالذُّلِ مَن کَشَفَ عَن ضُرِّهِ وَهَانَت عَلَیهِ نَفسُهُ مَن اَمَّرَ عَلَیهَا لِسانَهُ
حصہ اول: شرح الفاظ
1۔ اَزرَی: پست کیا، ذلیل کیا، خوار کیا۔
2۔ استَشعَرَ: لازم قرار دیا، شعار بنایا۔
3۔ الطَّمَعَ: حرص، طمع، لالچ۔
4۔ رَضِیَ: راضی ہوگیا، مان لیا۔
5۔ الذُّلِ: ذلت، خواری، پستی۔
6۔ کَشَفَ: واضح کیا، آشکار کیا، اظہار کیا۔
7۔ ضُرِّ: پریشانی، حاجت، ضرورت، مشکل۔
8۔ هَانَت: ذلیل ہوا، پست ہوا، بے حیثیت ہوا۔
9۔ اَمَّرَ: حکمران قرار دیا، حاکم بنایا۔
10۔ لِسان: زبان، بولنے کا وسیلہ اور عضو۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا، اس نے اپنے کو پست کیا۔ اور جس نے اپنی پریشانی (حاجت، ضرورت) کو آشکار کیا، وہ ذلت و خواری پر راضی ہوگیا۔ اور جس نے اپنی زبان کو خود پر حاکم بنایا، اس نے خود کو پست کیا۔
حصہ سوم: شرح کلام
مولا امیر المومنین(ع) اس کلام میں انسان کے تین برے صفات کے منفی آثار کی طرف اشارہ فرما رہے رہیں۔ کہ یہ تینوں صفات ایک مشترکہ منفی صفت کے حامل ہیں۔ اور وہ اثر عزت نفس کا ختم ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کی عزت و آبرو ختم ہونے اور ذلت و رسوائی کا شکار ہونے کے تین عوامل ہیں۔
الف۔ طمع و لالچ
ب۔ حاجتوں کا برملا اظہار۔
ج۔ زبان کی آزادی۔
الف) طمع اور لالچ کے منفی اثرات:
بہت ساری بری صفات کی طرح طمع بھی انسان کی شخصیت میں بہت برے اثرات چھوڑتا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں۔
1۔ عزت نفس کا زوال:
طمع رکھنے والا انسان در واقع اپنی شخصیت اور نفس کو ذلت و پستی کی وادی میں دھکیل رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ طمع انسان کی آنکھوں پر پردہ اور عقل پر تالا لگادیتا ہے۔ اور اگر انسان آنکھ اور عقل دونوں سے اندھا ہوجائے تو ہر وہ کام کرنے کو تیار ہوجاتا ہے جو انسان کو بے عزت اور بے آبرو بنا دے۔
لہذا مولا نے فرمایا: “جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے آپ کو پست و ذلیل کردیا” اور دوسری جگہ فرمایا: “طمع کا پھل دنیا و آخرت دونوں کی ذلت ہے”
2۔ عقل کا زوال:
طمع اور لالچ کا پردہ انسان کے قلب پر پڑ جاتا ہے تو پھر وہ غور و فکر اور تعقل و تفکر کے قابل نہیں رہتا لہذا مولا نے ایک اور جگہ فرمایا: “عقلوں کی اکثر قتلگاه لالچ کی بجلیوں تلے ہے۔”
3۔ علم و حکمت کا زوال:
جب انسان کے پاس عقل ہی نہ رہے تو علم و حکمت تو یقینا نہیں رہ سکتی۔ پس طمع و لالچ رکھنے والے انسان کی فقط عقل زائل نہیں ہوتی، بلکہ ساتھ ہی ساتھ علم و حکمت اور دانش معرفت بھی خیر باد کہہ جاتی ہیں۔ مولا اسی مطلب کو یوں بیان فرماتے ہیں: “طمع دانشمندوں اور علماء کے دلوں سے علم و حکمت کو بھگا دیتا ہے۔”
4 ۔ دین کا زوال:
جب انسان کے پاس عزت نفس نہ رہے، عقل نہ رہے اور علم و حکمت بھی نہ رہے تو دین بھی نہیں رہتا اور طمع رکھنے والا انسان دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کیونکہ اس کی نگاہ میں جس چیز کی لالچ بیٹھ گئی ہے اس کے لئے اسی شیئ کا حصول مقصد بن گیا ہے، اس کا حصول صحیح ہو یا غلط اس کی نظر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی لئے وہ اپنی راہ میں حائل ہونے والے ہر رکاوٹ کو پھلانگ کر اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چاہے اس کے سامنے کی رکاوٹ اس کی عقل ہو یا علم ہو یا دین۔ یہاں تک کہ وہ اپنی عزت نفس کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ امام صادق سے جب پوچھا گیا کہ کس چیز کی وجہ سے انسان دین سے خارج ہوتا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: طمع و لالچ۔
ب) حاجتوں کا برملا اظہار:
عموما اعلی ظرفیت کے مالک افراد، چاہے کتنی ہی مشکلات اور مجبوریوں کا شکار ہو جائیں کبھی اپنی مشکلات کسی دوسرے کے پاس بیان نہیں کرتے۔ مگر بہت مجبور ہوجائیں کہ ایسی صورت میں فقط با اعتماد اور خاص افراد کے پاس ہی اپنا راز بیان کرتے ہیں۔ پس جو لوگ اپنی مشکلات ہر کسی کے سامنے فاش کرتے ہیں وہ در واقع پست ظرفیت اور بے صبر ہوتے ہیں۔ ہر کسی کے سامنے اپنی مشکلات اور مجبوریاں بیان کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ انسان کی عزت نفس باقی نہیں رہتی۔ بلکہ لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے۔ اسی لئے امیر المومنین نے ایک جگہ فرمایا ہے:
“تیری آبرو، جمے ہوئے برف کی مانند ہے، مانگنے سے وہ پگھل جاتا ہے۔ پس خیال رکھیں کس کے سامنے پگھلا رہے ہو۔”
ج) زبان کی آزادی:
اگر زبان کا استعمال درست نہ ہو تو انسان دنیا میں بھی مصیبتوں کا شکار ہوجاتا ہے اور آخرت میں بھی سخت ترین عذاب الہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔ لہذا مولا نے ایک جگہ ارشاد فرمایا “زبان درندہ ہے اگر آزاد چھوڑ دیا جائے تو کاٹے گی۔”
زبان کو آزاد چھوڑنے کے بہت سارے نقصانات ہیں ان میں سے فقط دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔ کثرت خطا:
انسان جتنا زیادہ بولتا ہے اتنا ہی اس کی خطائیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مولا فرماتے ہیں: “جس کی باتیں زیادہ ہو، اس کی خطائیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔” لہذا ضرورت سے زیادہ نہیں بولنا چاہئے اور سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔
2۔ لوگوں کا فرار:
جو انسان حد سے زیادہ بولتا رہتا ہے اور کبھی خاموش رہنے اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دینے کی عادت نہیں رکھتا، ایسے افراد کو دیکھتے ہی لوگ فرار کرتے ہیں اور اس سے چھپ چھپ کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام فرماتے ہیں: “زیادہ باتیں کرنے کی عادت دوستوں کو تھکا دیتی ہیں”
پس ہر بات کو بولنے سے پہلے سوچ کر اور تول کر بولنا چاہئے۔ کیونکہ غور فکر کے ساتھ بولنے والے سے خطائیں کمتر ہوتی ہیں۔ اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل کے کمال کی علامت ہے۔ مولا ایک جگہ فرماتے ہیں:
“جب عقل کامل ہوتی ہے تو باتیں کم ہوجاتی ہیں۔”
دوسری جگہ فرماتے ہیں: “عاقل کی زبان دل کے پیچھے ہے اور احمق کا دل زبان کے پیچھے ہے۔”
پس انسان اپنی زبان کو کنٹرول کرے تو وہ بہت ساری خطاؤں اور مشکلات سے سالم رہ سکتا ہے حتی کہ امام نے مومن کی نجات کو زبان کی حفاظت اور کنٹرول میں قرار دیتے ہوئے فرمایا:
“مومن کی نجات زبان کی حفاظت میں ہے۔”
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید