اپوزیشن لیڈر کاظم میثم اور وفد کا قم میں گلگت بلتستان کے علماء اور طلباء کے ساتھ کھلی کچہری، مختلف موضوعات پر سوال و جواب
اپوزیشن لیڈر کاظم میثم اور وفد کا قم میں گلگت بلتستان کے علماء اور طلباء کے ساتھ کھلی کچہری، مختلف موضوعات پر سوال و جواب
قم ایران: 28 جنوری کو حسینیہ بلتستانیہ قم میں گلگت بلتستان کے چیلنجز اور ان کے حل کے موضوع پر ایک اہم نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس نشست میں گلگت بلتستان کے مختلف علماء کرام اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ پروگرام کے مہمانان گرامی حجۃ الاسلام والمسلمین قبلہ شیخ احمد نوری (ممبر جی بی کونسل)، جناب کاظم میثم (ممبر و اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی)، جناب سید سہیل شاہ (ممبر جی بی اسمبلی)، جناب وزیر سلیم (ممبر جی بی اسمبلی) تھے۔ اس پروگرام میں قم میں مقیم گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور طلاب کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کا شرف قاری عابد وزیری نے حاصل کیا۔ حجۃ الاسلام شیخ مختار ثقفی نے سلام کے کچھ اشعار پیش کئے اور جامعہ روحانیت بلتستان کے سکریٹری جنرل جناب شیخ سجاد شاکری نے نظامت کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے تمام مہمانوں، علمائے کرام اور طلاب عظام کو خوش آمدید کہا۔ انھوں نے اس اہم نشست کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے علمائے کرام اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان اس طرح کی نشست اور مکالمے کو وقت کی ضرورت قرار دیا ۔
گلگت بلتستان کے اہم مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد نوری نے کہا کہ اس علاقے کی سب سے بڑی مشکل آئینی حقوق سے محرومی ہے۔ ان کے مطابق وفاق کی جانب سے ایک آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کو چلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کا ایک اور بڑا مسئلہ اقتصادی وسائل کی کمی ہے، اور وفاق کی جانب سے اس حوالے سے بھی علاقے کو محروم رکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے گلگت بلتستان پر عالمی سطح پر توجہ مرکوز ہونے کے اثرات پر بھی بات کی، جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ تاہم، ان کے مطابق ہمارے پاس اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصانات کا سامنا ہو رہا ہے۔
محترم وزیر سلیم نے گلگت بلتستان کی مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ پچھتر سالوں سے آئینی حقوق سے محروم ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں باہمی اتفاق و اتحاد کی کمی بھی ایک بڑی پریشانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم آپس میں مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔
جناب کاظم میثم نے گلگت بلتستان کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں تعلیم یافتہ طبقہ اپنے علاقے کے مسائل اور چیلنجز کے بارے میں سنجیدگی سے غور نہیں کرتا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا ہمارے پاس علاقے میں موجود معدنیات کی مقدار اور قیمتوں کی کوئی تحقیق ہے؟ ان کے مطابق علاقے میں افرادی قوت کی کمی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ یہاں تک کہ بنیادی شہری ضرورتوں پر مبنی مہارتوں میں بھی ہمارے پاس افراد نہیں ہیں جس وجہ سے ہمارے لوگ غیر شعوری طور پر غیروں کو اپنوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
ہمیں اپنی آواز قومی و بین الاقوامی میڈیا تک پہنچانے کے لئے قابل ،درد مند اور ماہر صحافی چاہئے۔
محترم سید سہیل شاہ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بات کی اور اس حوالے سے موجود ابہامات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے محرومی کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا اور وفاق کی جانب سے دیگر صوبوں کی نسبت گلگت بلتستان کو کم بجٹ دینے کو ایک المیہ قرار دیا۔
پروگرام کے اختتام پر سوالات کا سیشن شروع ہوا، جس میں شرکاء نے گلگت بلتستان کے مختلف مسائل، چیلنجز اور حقوق کے بارے میں سوالات کیے۔ اس سیشن میں سوالات کی زیادہ تر تعداد آئینی حقوق، گرین ٹورزم، خالصہ سرکار، بنیادی شہری حقوق اور دیگر محرومیوں کے بارے میں تھیں۔ مہمانوں نے خوش اسلوبی سے ان سوالات کے جوابات دئے اور ان مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
آخر میں حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ مختار مدبری صاحب نے دعائے امام زمانہ سے اس نشست کا اختتام کیا۔
واضح رہے یہ پروگرام جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے گلگت بلتستان کے مسائل اور چیلنجز پر تبادلہ خیال کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، جسے تمام مہمانوں، علماء کرام اور طلاب نے بھرپور سراہا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید