تازہ ترین

اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا(حجت الاسلام شیخ محمد حسین اعجاز)

اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
تحریر :محمدلطیف مطہری کچوروی
{شکریہ شیخ حسنین اعجازصاحب}
سر زمین کچورا سے تعلق رکھنے والا ایک ممتاز،خدمت گزار عالم دین دار فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :{العلم نور یقذفہ اللہ فی قلب من یشاء } علم ایک ایسا نور ہے جسے خداوند متعال جس کے دل میں چاہے ڈال دیتا ہے۔

شئیر
43 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5881

عالم ربانی جناب شیخ حسین اعجاز جو اس دنیا سے ابدی دنیا کی طرف چلےگئے لیکن سینکڑوں سوگوار آنکھوں کو ہمیشہ کے لئے پر نم چھوڑگئے۔ خداوند متعال نے شیخ صاحب کے دل میں علم کا ایسا نور ڈال دیا جس کے ذریعے انہوں نے ہزاروں جہالت کی تاریکیوں کو روشن کئے اور ہزاروں مردہ روحوں میں جان پھونک دیے۔
اس حضرت کی رحلت سےکچورا اورمضافاتی علاقوں میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے پر کرنا فی الحال ناممکن ہے۔اس فداکار شخصیت کا وجودکچورا اور دیگر علاقوں کے عوام کے لئے باعث عزت و افتخار تھے جس نے اپنی زندگی میں علوم آل محمد اورمعارف ناب اسلامی سےعلاقے کو روشن کرتے رہے اور اپنے نورانی تبلیغات سے مردہ روحوں کو زندگی بخشی اور جہالت کی تاریکیوں کو اپنے علم کی شمع فروازں سے منور کئے۔
مرحوم شیخ صاحب قوت ایمان اور شوکت بیان میں اپنی نظیر آپ تھے۔گلشن علم دین کا یہ سدابہار پھلدار درخت جلد ہی خزان کو جاپہنچے اور اس کے بیش قیمت ایمان افروز پھل سے اہل کچورا اور دیگر علاقہ والے محروم ہوئے۔جس طرح علی ابن ابی طالب علیہ السلام نےفرمایا تھا:کہ جب عالم مرجاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہو سکتا۔
مرحوم شیخ محمد حسین اعجاز نے 1957 سے لیکر 1960 تک پرائمری سکول کچورا میں ماسٹر کاچو قاسم کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کیا اسکے بعدعلوم دینی کی تحصیل کی خاطر آبائی گاوں پوندس کچورا چھوڑ کر سندھ حیدر آباد مدرسہ مشارع العلوم چلے گئے۔وہاں مولانا سید ثمر حسن زیدی کے سرپرستی میں آٹھ سال تحصیل کر کے اعتماد العماء کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
علوم دینی کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے اور مختلف بزرگ اساتیدسے کسب فیض کے لئے مقدس سر زمین نجف اشرف چلے گئے۔وہاں مولا کائنات باب العلم کے جوار میں بزرگ اور جید اساتید آقای خوئی ، امام خمینی اور آیت اللہ سید محمد شیرازی کے دروس سے استفادہ کرتے رہے۔نجف اشرف مدرسہ سید کاظم میں فقہی کتاب ،مدرسہ اخوندمیں ادبیات کی کتاب سیوطی، مدرسہ ہندی میں مطول ،مدرسہ خلیل حاجی میں اصول فقہ اور علم کلام، مدرسہ شیرازی میں تفسیر اورمدرسہ بادکوبہ میں علم احادیث اوردیگر علوم پڑھنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ مرد قلندر نجف اشرف سے واپس آ کر کچھ عرصہ تبلیغ دین کی خاطر فیصل آباد میں رہے اس کے بعد آبائی گاوں پوندس کچورا اور دیگر مضافاتی علاقوں میں اسلام ناب محمدی کی تبلیغ و ترویج میں شب روز مصروف عمل ہوئے۔ ان کا زہد و تقوی صرف عام لوگوں کو نہیں بلکہ معاشرے میں کام کرنے والے علماء کے لئے بھی نمونہ عمل ہیں۔مرحوم شیخ صاحب صراط مستقیم کی طرف دعوت دینے والے سچے مسیحا تھے ۔ شاید برسوں تک ہم ان کو بھلا نہ سکے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :[موت قبیلۃ ایسر من موت عالم]ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے تحمل کرنے میں آسان تر ہیں ۔[کنز العمال ۲۸۸۵۸]
شعر و شاعری کی دنیا میں بھی اپنا جوہر دکھاتے رہے اوریوں بے شمار نوحہ جات اورقصائد کے خالق بھی بنے۔اپنی خوبصورت آواز کے ذریعہ سے معصومین علیہم السلام کی مدح سرائی کرتے تھے اس لئے اہل بلتستان آپ کو شیخ طوطا کے نام سے جانتے تھے۔مرحوم شیخ صاحب عجیب شخصیت کےمالک تھے ۔ روندو ،بگاردو ،ژھری ،بشو، قمراہ اور حوطو تک تبلیغ کے لیے جاتے تھے۔اکثر پیدل سفر کرتے تھے اور جب اقتصادی طور پر آپ کسی گاڑی کا کرایہ بھی نہیں دے سکتے تو ٹرک ،ٹینکر اور ٹریکٹر وغیرہ پر بھی سوار ہو کر تبلیغ دین کے لئے نکل جاتے تھے۔
موت کا ہمیشہ سے انتظار رہتا تھا اورجب سے آپ نجف اشرف سے واپس آئے روزانہ قبرستان کی زیارت کرتے تھے۔ہمیشہ دل میں یہی آرزو رکھتے تھے کہ موت کا وقت زیادہ سخت نہ ہو۔دو سال پہلے جب بندہ حقیر جامع مسجد کچورا میں رمضان المبارک میں روزانہ درس دے رہا تھا اورشیخ صاحب نماز جماعت پڑھارہے تھے۔رمضان المبارک کی انیسویں تاریخ کو مجھ سے کہنے لگے اگر آپ اجازت دیں تو آج میں درس دونگا کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اگلے سال تک میں زندہ رہ سکوں اور مولی علی علیہ السلام کا ذکر کر سکوں۔ آج میری تمنا ہے کہ میں آج مجلس پڑھوں ۔ہمیشہ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے ۔کوئی بھی دینی طالب علم جامع مسجد میں آجاتا تو فورا نماز کی امامت کے لئے آگے کر دیتے تھے۔جب بھی ایران سے کوئی بھی طالب علم گاوں پہنچ جاتا تو مرحوم شیخ صاحب نہایت ہی تواضع کے ساتھ ملنے پہنچ جاتے تھے۔کچورا اورمضافات میں اگر کوئی فوتگی ہوجاتی تو شیخ صاحب ہمیشہ تسلیت کے دوسروں سے پہلے ہی تشریف لاتے تھے۔
آج کچورا اوردیگر مضافاتی علاقوں میں اس عالم مجاہد کا کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا ۔ شیخ حسین اعجاز صاحب کو پہلی مرتبہ چھوٹے عمر میں ہی دیکھا تھا۔گفتاروکرداردیکھتے ہی اس شخص کی سادہ زیستی عیاں ہوجاتی تھی ۔شیخ صاحب زیادہ سے زیادہ اپنے عمل سے دین مبین کی طرف دعوت دیتے تھے۔تبلیغ دین کی خاطر کچورا ،بگاردو،ژھری،بشو ،قمراہ اور حوطو تک آپ سفر کرتے اور اہل بیت علیہم السلام کے محافل و مجالس کی زینت بن جاتے ۔ایک عرصہ سے جامع مسجد کچورا میں خدمات انجام دے رہے تھے اور امام جمعہ کی غیر موجودگی میں بعنوان نائب امام جمعہ بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ امام علی علیہ السلام کے اس قول کے مظہر تھے: کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح سے زندگی گزار لو کہ اگر مرجائے تو سب تمہارے اوپر آنسو بہا لیں اور اگر زندہ رہے تو سب تمہارے مشتاق ہو اور ذوق و شوق سے تمھارے پاس آجائے [نہج البلاغۃ حکمت ۹]۔ جب ان کی رحلت ہوئی تو سینکڑووں کی تعداد میں مرد و زن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے یہی ایک عالم باعمل سے عشق کی نشانی ہے ۔ ان کا دل اہل بیت عصمت و طہارت کی محبت سے سرشار تھے ۔ان کی ساری زندگی غم حسین علیہ السلام میں اشک بہاتے اور مظلوم کربلا کے مصائب بیان کرتے رہے۔
موت کے بارے میں ان کا اپنا ایک شعر یہ ہے:
ستروق بیونگمی جقلا بیوس ینی شزدے نظر اعجازیکھہ.
قبری گوچھن کا شخصے نا نی لین خبر مولا علی.
زندگی کے آخری لمحات میں اپنے گاوں میں محرم الحرام کی مناسبت سے علم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نصب کرکے مصائب پڑھتے ہیں اچانک انہیں انکی زوجہ اورشریک حیات کی رحلت کی خبر دیا جاتا ہے تو اچانک ان کی حالت خراب ہو جاتی ہے فورا انہیں ہاسپٹل لے جانے کی کوشش کیا جاتا ہے ۔ جب انہیں گاڑی میں سوار کیا جاتا ہے تو کلمہ طیبہ اورصلوات پڑھ کر پانی دیا جاتا ہے تو اسی پانی کو پیتے پیتے عزادران امام حسین علیہ السلام کو مزید عزادار کر کے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔
شیخ صاحب نےقلیل عرصے میں بڑی خدمات انجام دئیے ۔شب وروز پیغام کربلا کو معاشرے میں روشناس کرانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور ہمیشہ ملت تشیع کی سر بلندی ،مظلومین کی حمایت اور ظالموں کے خلاف میدان میں رہے۔مرحوم شیخ صاحب کی زندگی کا پیغام ہر فرد کے لئےیہی ہے کہ وہ کمال کی خاطر کو شش و جد وجہد سے ہر گز پیچھے نہ ہٹیں ۔اپنی زندگی کو جو بہترین انسانی سرمایہ ہے حقایق کے بازار میں معنوی حیات میں تبدیل کر دیں جو کہ ایک اعلی انسانی حیات یعنی حیات طیبہ ہے اور رہتی دنیا تک باقی رہتاہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم اسلام ناب محمدی {ص} کے اصول اورقوانین پر عمل پیرا ہوں۔
مرقد پہ تیری رحمت حق کا نزول ہو
حامی تیرا خدا اور خدا کا رسول ہو

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *