اہلیان بلتستان بیدار رہیں/محمد حسن جمالی
بلتستان” امنیت کے اعتبار سے پاکستان کا وہ منفرد خطہ ہے جہاں امن وسکون ہی لوگوں کی پہچان ہے، اس خطے میں رہنے والے کٹر مذہبی ہیں ،یہ خطہ مختلف علاقوں پر محیط ہے، جن میں سر فہرست علاقہ کهرمنگ ,خپلو اور شگر کا نام آتا ہے اور سکردو کو بلتستان میں مرکزیت حاصل ہے، یہ بلتستان کا بڑا شہر شمار ہوتا ہے، جس میں بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ آباد ہیں ،اس شہر کی آبادی میں ہرسال اضافہ ہوتا جارہا ہے ،سکردو میں مختلف زبان اور مختلف مسلک سے تعلق رکهنے والے لوگ ایسے پرسکون رہ رہے ہیں جیسے ایک گهر میں اس گهر کے افراد رہتے ہیں، یہاں کے باشندے اپنے اپنے مسلک کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں، یہاں کے لوگ فرقہ واریت جیسی بیماری سے محفوظ ہیں ،یہاں کے افراد جس مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتے ہوں سماجی معاملات اور اجتماعی زندگی میں مذہبی رنگ کو مٹا کر اخوت اور بهائی چارگی سے رہتے ہیں ، یہاں کے لوگوں کو بالکل ہنسی اور خوشی میں اپنے امور نمٹانے کی عادت ہے،

بلتستان میں رہنے والوں کی اکثریت شیعہ امامیہ ہے ،جس کی وجہ سے یہ خطہ عرصہ دراز سے داخلی اور خارجی دشمنوں کی نظروں میں ہے، انہوں نے بہت عرصہ پہلے سے خطہ امن بلتستان میں امنیت خراب کرنے کے لئے غیر محسوس طریقے سے اپنی فعالیتوں کا آغاز کیا تها، جن میں لسانی اور فرقہ واریت پر مبنی تعصب کو لوگوں کے دل ودماغ میں پروان چڑها کر ایک دوسرے سے متنفر کروانا شامل ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتهہ ساتهہ لگتا یہ ہے کہ دشمن اپنے عزائم اور اہداف میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں، جس پر گواہ؛ حالیہ بلتستان کی پولیس سمیت حساس اداروں کے اہلکاروں نے سکردو بھٹو بازار میں کباڑ کا کاروبار کرنے والے شخص جس کا تعلق مہمند ایجنسی ہے کے گھر پر چھاپہ مار کر بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد برآمد کر لینے والا واقعہ ہے، معتبر ذرائع کی اطلاعات کے مطابق چھاپہ مار ٹیم نے ناصر خان کے گھر کے مختلف حصوں کو چیک کیا اور ملزم کے واش روم کے گٹر سے 200مارٹر گولوں کے خول، 60ایم ایم ، 50راکٹ لانچر کے کھوکھے، 160کے قریب دیگر ذرات سمیت 430دھماکہ خیز ذرات برآمد کر لیے، اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دشمن بلتستان میں بهی وسیع پیمانے پر دہشتگردی کے واقعات رونما کرنا چاہتے ہیں، اہلیان بلتستان کی امنیت انہیں ہضم نہیں ہورہی ہے،سکردو میں اس وقت فقط بلتستان کے لوگ آباد نہیں، بلکہ پاکستان کے مختلف مقامات کے لوگوں نے امنیت کی تلاش میں یہاں آکر گهر بسائے ہوئے ہیں، جن میں ذیادہ تعداد پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے ہے، آپ سکردو جاکر مارکیٹ میں ذرا چکر لگائیں، آپ کو دکانوں میں ذیادہ پٹهان نظر آئیں گے، موچی کا کام اور حمام میں کام کرنے والے افراد یا پنجاب سے ہوں گے یا پشتو بولنے والے،
غرض دوسری جگہوں سے سکردو میں آکر بسنے یا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے بلتستانیوں کے رزق میں کمی نہیں آتی ہے ،پوری دنیا میں یہ سسٹم ہے کہ لوگ رزق کی تلاش میں مختلف ملکوں اور شہروں کا رخ کرتے ہیں ،مگر بات یہ ہے کہ باہر سے آکر سکردو میں خراب کاری اور غیر قانونی واخلاقی کام کرنے کی اجازت بالکل نہیں دینی چاہئے، بدون شک بلتستانیوں نے اپنی امنیت پر حد سے ذیادہ اعتماد کربیٹهیں ہیں، دشمنوں کی چالوں اور پریپوگنڈوں سے یکسر طور پر وہ غافل ہیں ،وہ سوچ بهی نہیں سکتے تهے کہ سکردو جیسے پر امن شہر سے اتنی بهاری مقدار میں دهماکہ خیز مواد بر آمد ہوگا، مگر ناصر خان کے گهر سے یہ برآمد ہوا اور اس واقعے نے پورے بلتستانیوں کے حد سے ذیادہ امنیت پر کئے ہوئے اعتماد پر خط بطلان کهینچا اورسب کو محو حیرت کردیا ،ساتهہ ہی اس سے ؛ گویا بلتستان سکردو میں خطرے کی گهٹی بجی ہے، اس دہماکہ خیز مواد نے اپنی زبان بے زبانی سے “اہالیان بلتستان” کو یہ کهلا اعلان کردیا ہے کہ اے اہل بلتستان ،دشمن تم سے تمہاری امنیت چهننے کے لئے تمہارے شہر سکردو میں ہتهیار سے لیس ہوکر پہنچ گئے ہیں، آپ کے شہر میں انہوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرکے بستی بسانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ آپ کے بغل میں بیٹهکر آپ کی جان لینے کے درپے ہیں ،وہ آپ کے شہر سکردو کو دوسرا پاراچنار بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ،دشمنوں نے بلتستانیوں کی نفسیات کا دقت سے مطالعہ کرکے یہ بهانپ لیا ہے کہ یہ ایک شریف اور سادہ قوم ہے لہذا ہماری سادگی سے انہوں نے سوء استفادہ کیا اور کررہے ہیں، چنانچہ بہت ساری برائیوں کو حسین عنوان اور خوبصورت نام دے کر بلتستانی معاشرے میں عام کیا، ہماری ثقافت میں فحاشیت کے عنصر کو شامل کردیا، ہماری عوام کو علمآء سے متنفر کرکے ان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، ہمارے لوگوں کو دینی مدارس سے بالکل جدا کرکے یہ غلط فکر ان کے ذہنوں میں رچائی بسائی گئی ہے کہ دینی مدرسوں میں پڑهنے والے روشن خیال نہیں ہوتے ہیں، زندگی میں ترقی اور پیشرفت ان کے حصے میں نہیں آتی ،ان کی سوچ محدود ہوتی ہے، در نتیجہ عملی زندگی میں ان کا مستقبل تاریک رہتا ہے وغیرہ
ترقی اور فلاحی کاموں کے نام سے آغا خان اور این جی اوز جیسی تنظیموں کو بلتستان میں فعال کیا گیا ،تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ وطالبات کو اسلامی تعلیمات سے دور کرکے صرف مغربی نظام تعلیم کو اوڑهنا بچهونا قرار دینے پر مجبور کروادیا ،جن افراد کے ہاتهہ میں بلتستانی عوام کی زمام ہے، مشکلات کے وقتوں میں جو پڑهے لکهے افراد بلتستانی عوام کا مرجع وماوی ہیں، ان کو ہمارے دشمنوں نے مختلف لالچیں دلاکر خریدا گیا ،حق اور حقائق پر مبنی باتیں کرنے سے ان کو روکوایا گیا، مختلف بے بنیاد مصلحتوں کا شکار کرواکرانہیں عوامی اجتماع اور بلتستانی معاشرے میں شعور اور مثبت فکر اجاگر کردینے سے منع کیا گیا اور ہماری قوم کو اچهی طرح خواب غفلت میں سلادیاگیا”چنانچہ اہلیان بلتستان غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں اگر اسی طرح بلتستان والے دشمنوں سے غافل رہے تو خدشہ یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں بلتستان کی عوام اور دینی سیاسی اور سماجی ذمہ دار افراد مولای متقیان کے اس کلام کا مصداق بن جائیں گے آپ نہج البلاغہ کے خطبہ جہاد میں فرماتے ہیں: میں نے اس قوم سے لڑنے کے لئے رات بھی اور دن بھی علانیہ بھی اور پوشیدہ بھی تمہیں پکارا اور للکارا, اور تم سے کہا کہ قبل اس سے کہ وہ جنگ کے لئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو. خدا کی قسم جن افراد پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پرٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے . یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا. اسی بنی غامد کے آدمی (سفیان ابنِ عوف) ہی کو دیکھ لو کہ اس کی فوج کے سوار (شہر) انبار کے اندر پہنچ گئے اور حسان ابنِ حسان بکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا
اور مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور اس کے پیروں سے کڑے (ہاتھوں سے کنگن) او گلو بند اور گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا . سوا اس کے کہ اِنّاَ لِلهِ وَ اِنّاَ اِلَیهِ رَاجِعُون کہتے صبر سے کام لیں یا خوشامدیں کر کے اس سے رحم کی التجا کریں – وہ لدے پھندے ہوئے پلٹ گئے نہ کسی کو زخم آیا نہ کسی کا خون بہا اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیئے العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے تمہارا بُرا ہو تم غم و حزن میں مبتلا رہو تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو, تمہیں ہلاک و تاراج کیا جا رہا ہے مگر تمہارے قدم حملے کے لئے نہیں اٹھتے . وہ تم سے لڑ بھڑ رہے ہیں اور تم جنگ سے جہ چراتے ہو. اللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں اور تم راضی ہو رہے ہو. اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے اور اگر سردیوں میں چلنے کے لئے کہتا ہوں . تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا ہے , اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے . یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کے لئے باتیں ہیں . جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو تو پھر خدا کی قسم ! تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ بھاگو گے . اسے مردوں کی شکل و صورت والے نامردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی, اور تمہاری حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے . میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا , نہ تم سے جان پہچان ہوتی ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج واندوہ کا باعث بنی ہے اللہ تمہیں مارے , تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے . تم نے مجھے غم و غزن کے جرعے َے در َے پلائے, نافرمانی کر کے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا. یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ علی ہے تو مردِ شجاع . لیکن جنگ کے طور طریقوں سے واقف نہیں
پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلیان گلگت بلتستان خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ، ذمہ داران حساس ہوجائیں، سکیورٹی اور امنیتی نظام کو مضبوط بنائیں، دشمنوں کی چالوں اور پریپوگنڈوں کو سمجهیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے عوام میں شعور اور بصیرت پیدا کرنے میں پڑها لکها طبقہ اپنا کردار ادا کرے، مشکوک افراد پر کڑی نظر رکهیں، آپس میں اتحاد واتفاق کی طاقت کو مستحکم کریں، دینی ذمہ دار افراد بے بنیاد مصلحتوں کے خول سے باہر نکل کر عوام کو حقائق سے باخبر کرتے رہیں، پولیس اور فوج کو بهی احساس ذمہ داری کے ساتهہ اپنے اپنے وظیفے پر عمل کرنا ہوگا جتنے بهی چیک پوسٹ ہیں مسافروں کو روک کر اچهی طرح تلاشی لے لیں شناختی کارڈ چیک کریں پهر انہیں چهوڑ دیں خلاصہ یہ ہے کہ اہلیان بلتستان بیدار رہیں-
دیدگاهتان را بنویسید