ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی! مداخلت کا الزام
سوشل میڈیا پر ایران اور سعودی عرب کی باہمی کشیدگی پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اس درمیان کچھ سوالات کیے جاتے ہیں جو کہ وضاحت طلب ہیں
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایران، سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت کیوں کرتا ہے؟
مداخلت کسے کہتے ہیں اور کونسی مداخلت بری ہے اور کونسی مداخلت مستحسن؟
ان باتوں کی طرف جانے سے پہلے ایک بات ضرور یاد رہے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں اور کہاں مداخلت کر سکتے ہیں اور کہاں پر نہیں یہ بھی اہم ہے ہمارا پیش فرض یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ہمارے لیے سب کچھ ہیں
تو آئیں اب دیکھتے ہیں کہ مداخلت کیا ہے؟
کسی بھی شخص کی شخصی زندگی کے امور میں اس کی روزمرہ زندگی کو مختلف طریقوں سے مشکلات سے دوچار کرنا جیسا کہ ساس اور بہو کے درمیان ہمیشہ سے یہی شکایت رہی ہے۔
ساتھ ہی باپ کی طرف سے بیٹے کو برے کاموں سے روکنا اور نیک کاموں کی طرف ترغیب بھی ایک قسم کی مداخلت شمار ہوتی ہے لیکن یہ مداخلت نیک اور مستحسن ہے۔
لیکن اجتماعی زندگی میں بھی مداخلت پایی جاتی ہے کسی بھی ملک کی سرحدوں کو پار کرتے ہویے اس ملک کی گورنمنٹ کے لیے مشکلات کھڑی کرنا، اس ملک کے باشندوں کو ملکی قوانین کی مخالفت پر ابھارنا، اور اس طرح کے دیگر مسائل ہیں جنہیں آج کل مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کی دنیا میں کتنے ممالک پابند ہیں؟ دنیا میں جس کی بھینس اس کی لاٹھی کا فارمولا چل رہا ہے جس ملک میں طاقت ہو وہ ہر دوسرے ملک کے امور میں مداخلت فقط نہیں بلکہ چڑھایی بھی کرتا ہے جیسے امریکہ کا عراق اور افغانستان پر حملہ، فرانس کا سوڈان پر حملہ، روس کا یوکرین پر حملہ اور سعودی عرب کا یمن پر حملہ اور بحرین کے امور میں فوج بھیجنا اور عوام کا قتل عام یہ سب مداخلت کی بارز مثالیں ہیں۔
سب کہتے ہیں کہ مداخلت انسانی اقدار کی منافی ہے اور بین الاقوامی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتی ہیں، تو سوال یہ ہے پھر یہ مداخلت کیوں ہوتی ہے اور کیوں کوئی کچھ نہیں کہتا
اگر دوسرا ملک کچھ کہے تو پھر ایک اور مشکل کھڑی ہوگی وہ یہ کہ فرض کرتے ہیں کہ ایک ملک سعودی عرب کا یمن پر حملہ کی مذمت کرے تو یہ یا تو یمن کے اندورنی مسائل میں مداخلت شمار ہوگی یا سعودی عرب کے معاملات میں مداخلت تو آپ بتائیں کہ کیا راہ حل ہے اور یہ مداخلت بھی ہے یا نہیں
اگر اس چیز کو ہم مداخلت سے تعبیر کریں یعنی ظالم کے خلاف آواز اٹھانا اور مظلوم کی حمایت کرنا اگر یہ مداخلت ہو تو پھر یہ جو دنیا میں حقوق بشر کی تنظیمیں ہر ملک میں حقوق بشر کے خلاف جو کام ہوتے ہیں اس کے خلاف جو آواز اٹھاتے ہیں وہ بھی مداخلت ہوگی جبکہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ مداخلت ہے بلکہ یہ جو ممالک دوسرے کی سرحدات کی خلاف ورزی کرتے ہویے ملک پر حملہ کرتے ہیں یا کرچکے ہیں وہ بہی یہی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ہم مظلوم کی حمایت کر رہے ہیں۔
تو اب دیکھتے ہیں کہ ایران نے سعودی عرب کے کس معاملے میں مداخلت کی ہے؟
سعودی عرب کے شیعوں پر جو مظالم ڈھایے جارہے ہیں اس بارے میں ایران صرف اتنا کہتا ہے کہ سعودی عرب کا ہر باشندہ کو بنیادی حقوق دیے جایں۔ اور جب سعودی عرب کی عوام خود آل سعود کے خلاف مظاہرہ کرتی ہے تو اس میں ایران کا کیا قصور ہے؟
کیا کویی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ عوام اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کرے؟
اور اگر مطالبہ کرتا ہے تو پھر اس کی سزا کیا ہونی چاہیے۔ آج دنیا میں عام جرم اور سیاسی جرم کے قوانین ہی الگ ہیں چونکہ یہ جو سیاسی مجرم کہلاتا ہے وہ موجودہ گورنمنٹ کا مخالف ہے اس کے ساتھ عام مجرم جیسا برتاو نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ شخص ممکن ہے موجودہ گورنمنٹ کی نظر میں مجرم ہو لیکن کل اگر گورنمنٹ تبدیل ہونے کی صورت میں یہ قومی ہیرو بن سکتا ہے جیسا کہ موجود حکومتوں میں اس بات کو مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ تحریک آزادی پاکستان کے رہنما اس دور کی گورنمنٹ کی نظر میں مجرم تھے لیکن اب وہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے قومی لیڈر اور ہیرو بن گیے یہی حال دنیا کا بھی ہے اس لیے سیاسی جرایم کے قوانین ہی الگ ہیں اور سیاسی قیدوں کی جیلیں بھی الگ ہیں تاکہ ان کے ساتھ مجرم جیسا سلوک نہ ہو۔
سعودی عرب کے ان آخری چند سالوں میں جو افراد قید ہویے وہ بھی انہی سیاسی مجرمین کے زمرے میں آتے ہیں، وہ صرف موجودہ گورنمنٹ کے مخالف ہیں انہوں نے معاشرے میں کویی ایسی برایی نہیں کی ہے ایسے گناہ کے مرتکب نہیں ہویے جو معاشرے کے اقدار اور ملکی قوانین کے منافی ہوں بلکہ وہ تو قانون کی بالادستی اور عدل و مساوات چاہتے ہیں، انہی افراد میں سے ایک شہید آیت اللہ باقر النمر بھی تھے جنہوں نے کبھی خشونت سے متوسل نہ ہوئے کبھی اسلحہ ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ سول نافرمانی کی اور اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور یہ تو تمام ممالک اور بین الاقوامی قوانین میں ایک شہری کا حق ہے اور اس حق کے طلبگار کی آواز کو ختم کرتے کے لیے چند سال ان کو قید میں رکھا اور اب صرف گورنمنٹ کی نافرمانی کرنے پر انکا سر قلم کردیا اور یوں انکی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کیا
اس عالم میں ایران اس مظلوم شخص کی حمایت کرتا ہے اور وہ بھی معنوی حمایت تو اس میں پرابلم کیا ہے؟
ہاں شیخ النمر کی شہادت چونکہ جہان تشیع کے لیے المیہ تھی اس لیے ساری دنیا میں مظاہرے ہویے اور اسیطرح ایران میں بھی مظاہرے ہویے اور سرکاری سطح پر اس قتل کی مذمت ہوئی تو مداخلت کہاں کی، ہاں چند جوانوں کا مشتعل ہوکر سفارتخانہ اور قونصلیٹ کو آگ لگانا ایک قبیح کام ہے اور ہر شخص اس کی مذمت کرتا ہے اور ایرانی گورنمنٹ نے بھی مذمت کی ہے لیکن اسطرح کی حرکت نہ تو اب تک کی پہلی حرکت تھی اور نہ آخری ہوگی مختلف ممالک کے سفارتخانوں پر حملے ہویے ہیں اس سے پہلے بھی تو پھر اس میں یکدم سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ چلیں سعودی عرب نے اس لیے رابطہ ختم کردیا لیکن کویت، سوڈان اور جیبوتی نے کیوں ایسا قدم اٹھایا؟ کیا انکا سعودی عرب کا ساتھ دینا ایران کے امور میں مداخلت نہیں؟ (اگر ہم ہر حرکت کو مداخلت سے تعبیر کریں تو)
اصل بات یہ تھی کہ یہ ایک پری پلان حرکت تھی اور شہید آیت اللہ النمر کی پھانسی کی قباحت اور وقاحت کو پوشیدہ رکھنے اور انظار عمومی کو پھانسی سے توجہ ہٹانے کے لیے طے کی گیی تھی اور اس میں کسی حد تک سعودی عرب کامیاب بھی ہوا۔ اور عالمی سطح پر توجہ اصل موضوع سے ہٹایا، اور ایران کے انتظامی امور کے کچھ افیسران کا یہاں تک کہنا ہے کہ مظاہرہ کرنے والوں کا سفارت پہنچنے سے پہلے ہی اندر سے آگ لگایی گیی تھی اور وقت آنے پر معلوم ہوگا کہ آگ لگانے والے کون لوگ تھے اور انکے کیا اہداف تھے؟
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اگر دیکھا جایے تو کسی بھی ملک میں کویی مظلوم ٹھہر رہا ہو اور ہم اس مظلوم کی فریاد نہ سنیں تو ہم مسلمان نہیں جیسے کہ حدیث نبوی ہے کہ جو شخص مسلمین کے امور کا اہتمام کیے بغیر رات گزارے تو وہ مسلمان نہیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی اسی بات کی اشارہ کرتی ہیں جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ تم مسلمانوں کا بہترین امت ہونے کی اصل وجہ یہ کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو۔
پس مداخلت کرنے اور مظلوم کی حمایت میں آواز بلند کرنا یا ظالم کی مذمت کرنے میں بڑا فرق ہے
آخر میں مداخلت کی چند ایک مثالوں پر قارئین محترم سے سوال کرتا ہوں
امریکہ کا مغرب سے آکر افغانستان پر حملہ کرنا کیا یہ مداخلت نہیں؟
امریکہ کا عراق پر حملہ کرنا کیا یہ مداخلت نہیں؟
سعودی عرب کا داعش، طالبان اور القاعدہ کی حمایت اور مالی سپورٹ کرتے ہویے شام اور عراق میں جنگ کیا مداخلت نہیں؟
ترکی کا داعش کی حمایت کرتے ہویے اپنے ملک سے داعش کو شام اور عراق بھیجنا کیا یہ مداخلت نہیں
بحرین کی 80 فیصد عوام گورنمنٹ کی مخالف ہونے پر سعودی عرب کا فوج بھیج کر انکو قتل عام کرنا اور مساجد اور امام بارگاہوں کو ویران کرنا کیا یہ مداخلت نہیں؟
پاکستان سے پوچھے بغیر 34 ملکی فوجی اتحاد میں شامل کرنا کیا یہ مداخلت نہیں؟
روس کا یوکرین پر حملہ کرنا کیا یہ مداخلت نہیں؟
سعودی عرب کی حمایت میں کویت، بحرین اور جیبوتی کا سفارتی تعلقات ختم کرنا کیا یہ مداخلت نہیں؟
فلسطین کے خلاف اسرائیل کا سپورٹ کرنا کیا یہ مداخلت نہیں
مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت ختم کرنے میں سعودی عرب کی کارکردگی کیا یہ مداخلت نہیں؟
یمن پر حملہ کرنے کیلیے جعلی اتحاد کی تشکیل اور پاکستان کی قومی اسمبلی سے مخالفت کے باوجود آخری وقت تک اتحادی گروپ میں پاکستان کا پرچم رکھنا ، کیا یہ مداخلت نہیں
چین میں مسلمانوں کے قتل عام پر آواز اٹھانا کیا یہ مداخلت نہیں
بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی کے حکم پر آواز اٹھانا کیا یہ مداخلت نہیں۔
ایسی ہزاروں مثالیں صرف آپکو سعودی عرب کے بارے میں ہی ملیں گی۔
بس صرف تعصبات سے بالاتر ہوکر آزاد اندیشی کی ضرورت رہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید