ایمان اور کفر کا معیار
ایمان اور کفر کا معیار
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
عالم اسلام کے دیرینہ مباحث میں سےایک ایمان و کفر کی بحث ہے جس کےبارے میں بہت زیادہ افراط و تفریط ہوا ہے۔مرجئہ فقط قلبی لگاؤ کو انسان کے ایمان اورفلاح کے لئے کافی سمجھتے ہیں وہ گناہ کو اخروی سعادت اور معنوی کمال کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھتے۔(لا تضرمع الایمان معصیته،کمالا تنفع مع الکفر طاعة)۔
۱۔ خوارج کے بعض فرقےعمل صالح کوایمان کا جزو قرار دیتے ہوئے گناہان کبیرہ کےمرتکبین کو کافر قرار دیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی اکثریت { شیعہ و سنی}کا نظریہ ہے کہ حقیقت ایمان تصدیق اور قلبی اعتقاد سے عبارت ہے جبکہ نیک اعمال، ایمان عملی کے ثمرات ہیں ۔(ان الایمان عبارة عن التصدیق القلبی بالله تعالی و بما جاء به رسوله من قولاوفعل والقول اللسانی سبب ظهوره و سائر الطاعات ثمرات موکدة)
۲۔ ایمان سے مراد دل سے خدا کی تصدیق کرنا اور اپنے قول و فعل کے ذریعے جو کچھ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئےہیں ان پر اعتقاد رکھناہے ۔
اسلام اورایمان کے درمیان فرق موجود ہے۔ جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:(قَالَتِ الْاٴَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا اٴَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ)۔۳” بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہ دیجئے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔مذکورہ آیت کے مطابق اسلام اور ایمان کے درمیان فرق یہ ہے کہ اسلام ظاہری قانون کا نام ہے اور جس نے کلمہ شہادتین زبان پر جاری کرلیا وہ مسلمانوں کے دائرہ میں داخل ہوگیا، اور اسلامی احکامات اس پر نافذ ہوں گے۔لیکن ایمان ایک واقعی اور باطنی امر ہے، جس کا مقام انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور اس کا ظاہری چہرہ۔ اسلام کے لئے انسان کے ذہن میں بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں یہاں تک مادی اور ذاتی منافع کے لئے انسان مسلمان ہوسکتا ہے، لیکن ایمان میں معنوی مقصد ہوتا ہے جس کا سر چشمہ علم و بصیرت ہوتی ہے، اور جس کاحیات بخش ثمرہ یعنی تقویٰ اسی کی شاخوں پر ظاہر ہوتا ہے۔۴۔
یہ وہی چیز ہے جس کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: (الإسْلَامُ عَلَانِیَةَ ،وَالإیْمَانُ فِی الْقَلْبِ)۵۔اسلام ایک ظاہری چیز ہے اور ایمان کی جگہ انسان کا دل ہے۔ایک اورحدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :(الإسْلَامُ یُحُقِّنُ بِہِ الدَمُ وَ تُوٴدیٰ بِہِ الاٴمَانَةُ ،وَ تُسْتَحِلُّ بِہِ الفُرُوجِ ،وَالثَّوابُ عَلٰی الإیِمَان) ۔۶۔اسلام کے ذریعہ انسان کے خون کی حفاظت، امانت کی ادائیگی ہوتی ہے اور اسی کے ذریعہ شادی کا جواز اپیدا ہوتا ہے اور(لیکن) ایمان پر ثواب ملتا ہے۔
اور یہی دلیل ہے کہ کچھ روایات میں اسلام کا مفہوم صرف لفظی اقرار میں منحصر کیا گیا ہے جبکہ ایمان کو عمل کے ساتھ قرار دیا گیاہے : (الإیِمَانُ إقَرارٌ وَ عَمَلٌ، وَالإسلامُ إقْرَارُ بِلَا عَمَل)۔۷۔ ایمان ؛ اقرار و عمل کا نام ہے، جبکہ اسلام، بغیر عمل کے صرف اقرار کا نام ہے۔ فضل بن یسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: (إنَّ الإیِمَانَ یُشَارِکُ الإسْلاَم وَ لا یُشَارِکْہُ الإسْلام ،إنَّ الإیْمَانَ مَا وَقرَ فِی القُلُوبِ، وَالإسْلاَمُ مَا عَلَیْہِ المَنَاکِحَ وَ المَوَارِیث وَ حُقِنَ الدِّمَاءُ)۔۸۔ ایمان ، اسلام کے ساتھ شریک ہے، لیکن اسلام،ایمان کے ساتھ شریک نہیں ہے بعبارت دیگر{ ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہرمسلمان مومن نہیں ہے} ایمان، انسان کے دل میں ہوتا ہے، لیکن اسلام کی بنا پر نکاح، میراث اور جان و مال کے حفاظتی قوانین جاری ہوتے ہیں۔اس مفہوم کا فرق اس صورت میں ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ استعمال ہوں، لیکن اگر جدا جدا استعمال ہوں تو ممکن ہے کہ اسلام کے وہی معنی ہیں جو ایمان کے لئے ہیں، یعنی دونوں الفاظ ایک ہی معنی کے لئے استعمال ہوں۔۹۔
بنابریں فقط ایمان کے ذریعے معنوی کمال تک نہیں پہنچاجا سکتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل صالح کا ہونا بہت ضروری ہے۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون)۔۱۰۔
جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے۔(إِنَّ الْانسَانَ لَفِى خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْاْ بِالْحَقّ وَ تَوَاصَوْاْ بِالصَّبر)۔۱۱۔انسان یقینا خسارے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
حقیقت ایمان تصدیق ہے اور اس کا مقام قلب ہے جبکہ متعلقات ایمان سے مراد توحید ،نبوت ،معاد اور وہ سب چیزیں ہیں جو پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمخدا کی طرف سے لے کر آئےہیں ۔جیساکہ ارشاد ہو تا ہے :(ءَامَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَ الْمُؤْمِنُونَ كلُ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَ مَلَئكَتِهِ وَ كُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَينْ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِه)۱۲۔رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں اور سارےمومنین بھی اللہ، فرشتوں اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم رسولوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے ۔
انسان کے ایمان کو ثابت کرنے نیزاس کی دنیوی و اجتماعی زندگی میں اس کے آثارکو مترتب کرنے کا مرسوم طریقہ زبان کے ذریعے اس کا اقرار ہے لیکن اگر کوئی اس حوالے سے مشکل رکھتا ہو تو وہ اشارہ یا تحریر کے ذریعے اپنےایمان کو ثابت کر سکتا ہے۔ایمان کے مقابلے میں کفر ہے جس سے مراد توحید،نبوت اور معاد سےا نکار کرنا ہے نیز جوکچھ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلملے کر آئےہیں ان کا ایسا انکارہو جونبوت کے انکار کا باعث بنے توایسا شخص کافر ہے ۔(الکافر من کان منکر الالوهیة او التوحیداو الرسالة او ضروریات الدین مع الالتفات الی کونه ضروریابحیث یرجع انکاره الی انکار الرسالة.) ۱۳۔وہ شخص جو خداوند متعال کی الوہیت، توحید ،اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رسالت کا انکار کرے نیز ضروریات دین کوجانتے ہوئے اس طرح انکار کرے کہ جس کی بازگشت رسالت سے انکار کرنا ہو تو وہ کافر ہے ۔
ایمان کے مختلف مراتب ہیں جن میں سے پہلامرتبہ یہ ہے کہ انسان توحید ،نبوت ،معاد اور ماانزل اللہ پراعتقاد رکھےاور جب بھی کوئی ان چیزوں کا اقرار کرے تو دنیوی زندگی سے مربوط بعض اسلامی احکام اس پر مترتب ہو جاتےہیں ۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےا نسان کے ایمان کی کمترین درجے کے بارے میں سوال کیاتو آپ ؑنےفرمایا:اگر کوئی توحیدونبوت اور ان کی اطاعت کا اقرار کرےنیز اپنےزمانے کے امام کی معرفت رکھتا ہوتووہ مومن ہے ۔۱۴۔
ایمان کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان عملی میدان میں بھی اپنے عقیدےکا پابند رہےاور خداوند متعال کے اوامر و نواہی پر عمل کرے ۔اسی لئے احادیث میں منقول ہے (الایمان ما خلص فی القلب و صدقه الاعمال)۱۵۔ایمان دل سے قبول کرنے اور اعمال کے ذریعے تصدیق کرنے سےعبارت ہے نیزارشاد ہوتا ہے(الایمان قول وعمل اخوان شریکان)۱۶۔ ایمان قول و عمل کا نام ہے جو آپس میں شریک ہیں۔
ایمان کا عالیترین مرتبہ یہ ہے کہ انسان ہر حالت میں خدا کی قضا و قدر کے سامنے سرتسلیم خم کرے اوررضایت الہیٰ کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ دل نہ لگائے ۔امام محمد باقر علیہ السلامسے منقول ہے :پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمجب سفر میں تشریف فرما تھے توایک گروہ نے آپ سے ملاقات کی ۔یہ لوگ اپنے آپ کو مومن قرار دیتے تھے۔پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنےان سے ایمان کی حقیقت اور نشانیوں کےبارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا :(الرضا بقضاءالله و التسلیم لامر الله و التفویض الی الله تعالی)خداوند متعال کی قضا وقدرپرراضی رہنا ،اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور تمام کاموں کے نتیجے کو اسی پر چھوڑنا ۔پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ان لوگوں کو{ ان صفات کی موجودگی پر}عالم اور حکیم قرار دیا جو نبوت کے مقام سے نزدیک مقام کا حامل ہے۔ اس کے بعد آپ ؐنے فرمایا : اگر تم اپنی باتوںمیں سچے ہو تو ایسےمکانات نہ بناوٴ جس میں نہ رہنا ہو اور اس قدر مال و دولت جمع نہ کرو جس کی ضرورت نہ ہو اور اپنےپروردگار کی مخالفت سے پرہیز کرو کیونکہ تم نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔۱۷۔پس اگر مسلمان ایمان کے مراتب کی طرف توجہ دے تو یہ اس کے اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ امت اسلامی کی وحدت کے لئے بھی ایک راہ گشا نسخہ ثابت ہو سکتا ہے ۔لہذا جب ایمان کے پہلے مرتبے پر ہی انسان پر بعض اسلامی احکام نافذ ہوں تو اسلامی مذاہب کےپیروکاروں کو ایک دوسرےکی تکفیر نہیں کرنی چاہیےجیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتاہے:(وَ لَا تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا)۱۸۔ اور جو اسلام کی پیشکش کرےاس سےیہ نہ کہنا کہ تم مومن نہیں ہو ۔ اس وقت اسلام کے نام پر بعض سلفی اوروہابی گروہ جیسے داعش اور طالبان وغیرہ مسلمانوں کی تکفیر میں مشغول ہے جنہیں اسلام ناب محمدی کا ذرہ برابربھی علم نہیں ہے۔یہ لوگ اسلام دشمن عناصر سے جنگ کرنے کے بجائے مسلمانوں کو قتل کرنے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام بدنام ہو رہا ہے ۔
ایمان اور کفر کا معیار کسی کے اختیار میں نہیں ہے جس کی بنا پر وہ کسی گروہ کو مومن اور کسی گروہ کو کافر قراردے بلکہ اس کا معیار اورنمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ہے کہ آپ نے کن حالات میں افراد کے ایمان کو قبول کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے زمانے میں ایمان کا معیار تین چیزوں کی گواہی تھی ۔۱۔ توحید۲۔ نبوت ۳۔ قیامت۔ اگر کوئی ان تینوں امور کا اقرار کرتے تواسے مسلمان سمجھے جاتے تھے ، بنابرایں تمام اسلامی فرقے جو ان تین اصولوں پر یقین رکھتے ہیں وہ سب کے سب ایمان کے دائرے میں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو خیبر والوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے بھیجا۔ امام علی علیہ السلام خیبر کی طرف چند قدم جانے کے بعد رسول خدا سے سوال کیا : یا رسول اللہ! خیبر والوں سے جنگ کب تک ہے ؟ آپ نے فرمایا:(حتى يشهدوا أن لا إله إلاّ الله وأنّ محمّداً رسول الله). ۱۹۔ جب تک وہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
بلاشبہ اسلام میں بعض مسائل پر اعتقاد رکھنا بدیہی اور ضروری ہو گیا ہے، جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت کا عقیدہ ، معاد جسمانی ، خداوند متعال کے لئے جسم کا قائل نہ ہونا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپ کی اہلبیت سے محبت کا عقیدہ وغیرہ ۔ جب بھی کوئی ان میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو گویا اس نے ان تین اصولوں یعنی توحید ،نبوت اورمعاد میں سے کسی ایک کا انکار کیا ہے تو ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب لوگ اپنے ایمان کا اقرار کرتے تو آپ کبھی بھی ان سے یہ نہیں پوچھتے۔کیاتم انبیاء اور اولیاء کی قبروں کی زیارت کرتےہو یا نہیں؟
کیا تم لوگ انبیاء اوراولیاء سے متوسل ہوتے ہو یا نہیں؟ وغیرہ ۔
آخر میں اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ عموما اسلام کے معنی {فقہی اور کلامی لحاظ سے}شہادتین کا اقرار کرنا ہے خواہ قلبی اعتقاد اور یقین کے ساتھ نہ بھی ہو۔ اس کا نتیجہ وہی ہے جو ایمان کے پہلے مرتبے پر مترتب ہوتا ہے یعنی اسلام کے ظاہری احکامات اس پر نافذ ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس طرح کا ایمان آخرت میں نجات بخش نہیں ہے لیکن اسلام ایک اور معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جو تسلیم اور انقیاد درونی سے عبارت ہے یعنی قلبی اعتقاد اور دل سے تسلیم کرنا ۔ اسلام کا یہی مفہوم ایمان اور اس کے مراتب کےمساوی ہیں ۔ ۲۰۔
حوالہ جات :
۱۔الملل و النحل ،ج1،ص 139۔شرح المواقف ،ج8،ص 396۔
۲۔ابن میثم بحرانی،قواعد المرام،ص170۔
۳۔حجرات،۱۴۔
۴۔ https://www.makarem.ir
۵۔ مجمع البیان ، جلد ۹، صفحہ ۱۳۸
۶۔ کافی ، جلد دوم، ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۱و۲
۷۔ایضا۔
۸۔ کافی ، جلد دوم ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم، حدیث۳۔
۹۔ تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۲۱۰
۱۰۔نحل،۹۷۔
۱۱۔العصر،۲۔۳
۱۲۔بقرۃ ،285۔
۱۳۔ عروۃ الوثقی، سید کاظم یزدی ۔
۱۴۔بحار الانوار ج66،ص16۔
۱۵۔معانی الاخبار ،باب معنی الاسلام و الایمان،ص 187۔
۱۶۔ایضا ً۔
۱۷۔ایضا ً۔
۱۸۔نساء 94۔
۱۹۔صحيح بخارى، ج 2، مناقب على (عليه السلام) ; صحيح مسلم، ج6، باب فضائل على (عليه السلام) .جواب آیت الله سبحانی۔
۲۰۔بحار الانوار، ج 69،ص 127 – 128۔
دیدگاهتان را بنویسید