تازہ ترین

ایمان کی حقیقت اور اس کے  ارکان، مؤمنِ اوّل حضرت علیؑ کی نظر میں/تحریر: محسن عباس

ایمان کی حقیقت اور اس کے ارکان

تمہید:

ایمان ہر مسلمان کی  اعتقادی بنیادی ضروریات میں سے ہے  اور ہر مؤمن کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ  وہ ایمان کی حقیقت   کی آگاہی حاصل کرے،

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4206

ایمان و اعتقاد انسانی کردار کا آئینہ دار  ہوتا ہے  اور گفتار و عمل، اعتقادی  اور ایمانی  صفات کی غمازی کرتا ہے لہذا جو حقیقی ایمان  سے مملو ہوگا کردار و اعمال بھی  ایمان دارانہ ہوگا اور جو اس حقیقت سے عاری ہوگا  منافقانہ کردار اپناتا ہے  اور دل و زبان اور کردار و عمل کی اس عدم ہم آھنگی  میں سرگرداں زندگی گزارتا ہے ، یا فرضی اور خیالی ایمان کی دنیا میں  مست و بے ہوش رہتا  ہے اور  حقیقت سے ناآشنا ہوکر  ظن و گمان کی وادیوں میں  مارا  مارا پھرتا ہے  اور جب پردے ہٹ جائے اور حقیقت کھل کر سامنے آئے تب اپنی جہالت و گمان سے بھری زندگی  پر کف افسوس مَلتا رہے  گا ، لیکن اس تنبّہ اور توجہ کا کیا فائدہ جس کے بعد  انسان کوئی عمل انجام نہیں دے سکتا  ، اس وقت تو صرف اور صرف کئے ہوئے اعمال کا حساب و کتاب دیناہے۔ پس حقیقی مؤمن کی صف میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ حقیقی ایمان سے آگاہی حاصل کرے ۔ اور یہ آگاہی صرف اور صرف  مؤمن اول  حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے در پر دستک دے  کر ہی حاصل ہوگی اور یہ معلوم ہوگا کہ حقیقت ایمان کیا ہے اور وہ کونسے ارکان ہیں جن پر ایمان  استقرار پاتا ہے،  اسی دَر سے ہی مثبت اور حقیقت پر مبنی جواب مل سکتا ہے کیونکہ اسی در سے ہی علم و  حکمت کے چشمے پھوٹتے ہیں اور علی ؑ کی واحد شخصیت ہے کہ وہ جہاں کلّ ایمان ہیں وہاں مؤمن اول کے لقب سے  بھی ملقب  ہیں۔  لہذا  علوی حکمت آمیز کلمات قصار  میں غور وخوص کرتے ہیں کہ مؤمنین کے امیر  اس  کے بارے  میں کیا فرماتے ہیں۔ 

قانون مقالہ نویسی (اختصار)کا لحاظ رکھتے ہوئے  ہم  اس مقالے میں نہج البلاغہ کی حکمت نمبر 31 کے پہلے حصے (ارکان ایمان) کے بارے میں کچھ وضاحتیں ضبط تحریر میں لائیں گے۔

سب سے پہلے مولا علی ؑ کے فرمان  کو یہاں نقل کر کے  اس کا سلیس ترجمہ،اس کے بعد اس کی تشریح بیان کی جائے گی۔

    حضرت امام علیؑ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو  فرمایا : الايمان على اربع دعائم ،على الصّبر و اليقين و العدل و الجهاد۔  ایمان کے چار ستون ہیں:

1/  صبر،

2/  یقین،

3/  عدل ،

4/  جھاد۔

  پھر آپؑ نے ایمان کے ہر رکن کے  مزید شعبے یوں بیان کئے: فالصّبر منها على اربع شعب على الشّوق و الشّفق و الزّهد و التّرقّب فمن اشتاق الى الجنّة سلا عن الشّهوات و من اشفق من النّار اجتنب المحرّمات و من زهد فى الدّنيا استهان بالمصيبات و من ارتقب الموت سارع فى الخيرات۔  پھر صبر کے چار شعبے ہیں :

1/ شوق،

2/  خوف ،

3/  زھد،

4/ انتظار موت۔ پھر جس نے جنت کا  اشتیاق پیدا کرلیا اس نے خواہشات کو بھلا دیا  اور جسے جہنم کا خوف حاصل ہوگیا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔ دنیا میں زھد اختیار کرنے والا  مصیبتوں کو ہلکا تصور کرتا ہے اور موت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔

  اس کے بعد  یقین کے چار شعبوں کی یوں وضاحت کی:و اليقين منها على اربع شعب على تبصرة الفطنة و تاوّل الحكمة  و موعظة العبرة و سنّة الاوّلين فمن تبصّر فى الفطنة تبيّنت له الحكمة و من تبيّنت له الحكمة عرف العبرة و من عرف العبرة فكانّما  كان فى الاوّلين ۔ یقین کے بھی چار شعبے ہیں:

1/ ہوشیاری کی بصیرت،

2/ حکمت کی حقیقت رسی،

3/ عبرت کی نصیحت،

4/ سابق بزرگوں کی سنت۔ ہوشیاری میں بصیرت رکھنے والے پر حکمت روشن ہوجاتی ہے اور حکمت کی روشنی عبرت کو واضح کردیتی ہے  اور عبرت کی معرفت گویا سابقہ اقوام سے ملا دیتی ہے۔

  پھر عدل کی شاخیں بیان کیں:و العدل منها على اربع شعب على غائص الفهم و غور العلم و زهرة الحكم و رساخة الحلم فمن فهم علم غور العلم و من علم غور العلم صدر عن شرايع الحكم و من حلم لم يفرّط فى امره و عاش فى النّاس حميدا۔عدل کے بھی چار  شعبے ہیں:

1/ تہہ تک پہنچ جانے والی سمجھ،

2/  علم کی گہرائی،

3/  فیصلہ کی وضاحت،

 4/ عقل کی پایداری۔ جس نے  فہم کی نعمت پالی وہ علم کی گہرائی تک پہنچ گیا  اور جس نےعلم کی گہرائی کو پا لیا وہ فیصلہ کے گھاٹ سے سیراب ہوکر  باہر آیا اور جس نے عقل استعمال کرلی  اس نے اپنے امر میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور لوگوں کے درمیان قابل تعریف زندگی گذار دی۔  

  ایمان کا چوتھا  رکن جہاد قرار دیکر  مولا ؑ نے اس کی مزید شاخیں  اس طرح بیان کیں: و الجهاد منها على اربع شعب على الامر بالمعروف و النّهى عن المنكر و الصّدق فى المواطن و شنان الفاسقين فمن امر بالمعروف شدّ ظهور المؤمنين و من نهى عن المنكر ارغم أنوف المنافقين و من صدق فى المواطن قضى ما عليه و من شنى‏ء الفاسقين و غضب للَّه غضب اللَّه له و ارضاه يوم القيمة انشاء اللَّه۔ 

 جہاد کے بھی چار شعبے ہیں:

1/ امر بالمعروف ،

2/  نہی از منکر،

3/ ہر مقام پر ثبات قدم،

4/ فاسقوں سے نفرت و عداوت۔ لھذا جس نے امر بالمعروف کیا اس نے مؤمنین کی کمر کو مضبوط کردیا۔اور جس نے منکرات سے روکا اس نے کافروں کی ناک رگڑ دی، جس نے میدان جہاد میں ثبات قدم کا مظاہرہ کیا وہ اپنے راستہ پر آگے بڑھ گیا  اور جس نے فاسقوں سے نفرت و عداوت کا برتاؤ کیا  پروردگار اس کی خاطر اس کے دشمنوں سے غضب ناک ہوگا اور اسے روز قیامت خوش کردے گا۔

ایمان کا معنی ومفہوم

  ایمان  کا لفظ”امن” سے مأخوذ ہے امن کا مطلب اطمینان  نفس  اور باطنی سکون  ہے جو خوف کے زائل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ اصطلاحی لحاظ سے ایمان کے معنی یہ ہیں کہ انسان حق کو اطمینان نفس اورقلبی تصدیق  کے ساتھ قبول کرے اور یہ تصدیق قلبی تین چیزوں سے حاصل ہوتی ہے:

الف:قلبی یقین،

 ب: زبان سے اقرار،

ج: اعضاء و جوارح کے ذریعے عملی مظاہرہ ،اگر یہ تین چیزیں انسان میں جمع ہوں تو وہ  صدیقین کے مقام پر فائز ہوتا ہے، جیسے کہ خداوند کا ارشاد ہے: وَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۔   (اور جو لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لائے وہی خدا کے نزدیک صدیق کا درجہ رکھتے ہیں) 

مؤمن انسان اپنے اعتقادات اور نظریات کو ہرقسم کے شک و شبہہ اور وہم و خیال سے  نکال کر امان کی منزل تک لے آتا ہے پس اگر کسی کو امن و سکون اورآرام و اطمینان چاہیے تو وہ دائرہ ایمان ہی میں میسر ہے۔ ایمان اس حقیقت کا نام ہے جس کی بنیادیں مقدس اقدار پر قائم ہیں۔ 

ایمان کی فضیلت و اہمیت

سُئِل الاما م الصادق  ؑ، اَیُّ الاعمال افضل عند اللہ؟  قال الامامؑ:ما لا یقبل اللہ شیئاً الا بہ، قال الراوی: وما ھو؟ قال الامامؑ: الایمان با للہ الّذی لا الہ الا ہو اعلی الایمان درجۃً۔ (حضرت امام  جعفر صادق    ؑ سے پوچھا گیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر عمل کونسا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: بہترین عمل وہ ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کوئی عمل قبول نہیں کرتا، راوی نے سوال کیا کہ وہ کونسا  عمل ہے؟ آپؑ نے فرمایا: اللہ  کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، پر  ایمان بہترین عمل ہے۔)پس اعمال کی قبولیت کا دار و مدار ایمان ہے ،  ایمان کے بغیر اللہ تعالیٰ انسان سے  کوئی  عمل قبول نہیں کرتا۔

دنیا میں ہر انسان شرف کرامت کا مشتاق ہوتا ہے  اور یہ صرف ایمان کے سائے میں ہی ممکن ہے چنانکہ امیر المؤمنین علی ؑ نے فرمایا: لا شرف اعلی ٰ من الایمان، (ایمان سب سے بڑا شرف ہے۔)

صبر ایمان کا پہلا رکن

صبر کا لفظ اپنے اندر خاص معنی اور مفہوم  رکھتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا حقیقی معنی متروک ہوکر رہ گیا ہے، جس صبر کا ہم معنی و مفہوم لیتے ہیں اس سے سستی، غیر ذمہ دارانہ کردار، فقر و تنگدستی میں صبر کا دامن تھامے رکھنا، کوئی مصیبت آن پڑے تو  آہ و فغاں نہ کرنا، اپنے آپ کو ذلت و خواری میں مبتلا کرنا اور ہر مسئلے پر خاموشی اختیار کرنا، جیسے مفاہیم مراد لیتے ہیں جبکہ صبر کا  حقیقی معنی ان مفاہیم سے کوسوں دور ہے۔ وہی افراد صبر سے یہ مفاہیم لیتے ہیں جو اپنی الہی و دینی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔

قرآن و روایات کے تناظرمیں  ذاتی و معاشرتی اور دینی و الہی امور اور مسائل کے سامنے شجاعت و بہادری، استقامت ودریا دلی، عفت و پاکی ، مقاومت اور اطمینان نفس کے ساتھ راہ حق میں ڈٹے رہنا کا نام صبر ہے۔ 

 شوق صبر کا پہلا شعبہ

 امام المتقین حضرت علی ؑ کی نگاہ میں صابر شخص وہ ہے جس میں کمال کی طرف بڑھنے کا شوق موجود ہو، یقیناً راہ جنت اور کمال مطلوب میں موانع اور رکاوٹیں آئیں گی، ان موانع کے سد باب اور حصول مقصد کے لئے پہلا قدم صبر ہے اور یہی صبر  تب حاصل ہوگا جب شوق و اشتیاق انسان کے اندر موجزن ہو۔ اس کا  لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان خواہشات دنیوی کے پیچھے نہیں جاتا ۔ اسی لئے امام ؑ نے فرمایا کہ صبر کا پہلا شعبہ شوق ہے ۔ کیونکہ شوق سے خالی کوئی بھی حرکت اور عمل  نتیجہ آور نہیں ہوسکتا، مثلاً میدان جنگ و جھاد اور دینی اقدار کے تحفظ کے لئے انسان مجاہدانہ کوشش کرتا ہے اور یہ کوشش شوق و اشتیاق کے بغیر سعی لاحاصل ہوکر رہ جاتی ہے۔ پس شوق صبر کا   ایک اہم شعبہ ہے۔ 

خوف صبر کا دوسرا شعبہ

خوف کے بارے امام علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں: الخوف جلباب المتقین۔  یعنی  خوف خدا عرفاء کی خلعت ہے۔  ایک اور حدیث میں امامؑ نے فرمایا: نعم العبادۃ الخشیۃ۔  یعنی  بہترین عبادت خوف خدا ہے۔  خوف خدا  انسانی زندگی میں اچھے  اور نیک اعمال کی انجام دہی اور گناہ و لغزشوں سے دور رہنے  کے لئے  ایک اہم محرک ہے، یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات علی ؑ نے اسے صبر کا  ایک شعبہ قرار دیا ہے اور  خوف خدا کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔

زھد صبر کا تیسرا شعبہ

زھد  لغوی اور عرفی لحاظ سے دنیا اور امور دنیوی کی نسبت بے رغبت ہونے کو  کہتے ہیں  لیکن اخلاقی اور عرفانی اصطلاح میں  زھد عبودیت کی منزل ہے یعنی زاھد انسان دنیا سے اپنا ناطہ توڑ دیتا ہے اور  منازل آخرت کی طرف ہمیشہ حرکت میں ہوتا ہے۔  قرآن نے دو جملوں میں زھد کی بہترین اور کوتاہ ترین تعریف یوں بیان کی ہے: لِّكَيْلَا تَأْسَوْاْ عَلىَ‏ مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُواْ بِمَا ءَاتَئكُمْ۔  ( جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ کرو۔)اس سے  معلوم ہوتا  ہےکہ زھد ایک قلبی  امر ہے جس میں دو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں،  ہاتھ سے نکل جانے والی چیزوں پر افسوس نہ کرنا اور موجودہ  چیز پر خوش حال نہ ہونا، پس حقیقی زھد وہ ہے جو انسان کو دنیا کے زرق و برق کی طرف مائل نہ کرے   بلکہ مال ودولت کو  صرف کمال مطلوب تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھے لھذا حقیقی زھد تین چیزوں سے حاصل ہوتا  ہے:

1/ انسان  کے اندر  مال و دولت کی طرف  رغبت و میل موجود ہو، کیونکہ اس کے اندر میل و رغبت نہ تو اس کو زھد نہیں کہلاتا، مثلاً بیمار انسان کے سامنے لذیذ ترین کھانہ بھی رکھا جائے  وہ اسے کھانے کی طرف  راغب نہیں ہوتا کیونکہ اس کے اندر رغبت ہی نہیں۔ لھذا اس کو زھد نہیں کہا جاتا۔

2/ دنیا کے مال و دولت پر دست رسی رکھتا ہو اس کے باوجود  اس سے بے رغبتی کا اظہار کرے،

3/ اپنی   پوری خواہش کے باوجود، ایک اعلیٰ اور ارفع ھدف کے حصول کی خاطر  دنیوی مال و ثروت سے دستبردار ہو جائے، پس یہ تین خصوصیات جس  میں پائی جائے وہ حقیقی زھد  کا مالک بنا۔   بالفا ظ دیگر زھدیعنی کم سرمائے  پر زیادہ نفع حاصل کرنا، لھذا  زاھد انسان  صحرائی درخت کےمانند ہے جسے پانی کم ملتا ہے اور اس کے رشد و نمو کے لئے کوئی کھاد  وغیرہ کا انتظام بھی نہیں ہوتا لیکن اس کی ٹہنیاں اور شاخ دوسرے درختوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں اور اس کی لکڑی سے پیدا ہونے والی آگ کے شعلے زیادہ ، بلند اور بادوام ہوتے ہیں۔  

حقیقی زھد اور عوام فریبانہ زھد

  حقیقی زھد  یہ ہے کہ انسان  تمام مخلوقات عالم سے کوئی امید نہ رکھے اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف  توجہ ہو ، جبکہ بعض لوگ کبھی ایسا زھد بھی اختیار کرتے ہیں جو عوام  کو دھوکہ دینے کے لئے   لباسِ زھد کا انتخاب کرتے ہیں ، مولائے متقیان امام علی ؑ نے اس حقیقت  کو  اپنے ایک خطبے میں لوگوں کی چند اقسام کے ضمن میں  یوں بیان کیا ہے: ومنھم من ابعدہ عن طلب الملک ضؤلۃ نفسہ وانقطاع سببہ فقصرتہ الحال، فتحلی باسم القناعۃ، و تزین بلباس اھل الزھادۃ۔۔۔۔   یعنی بعض وہ ہیں جنہیں حصول اقتدار سے نفس کی کمزوری اور اسباب کی نابودی نے دور رکھا ہے اور جب حالات نے سازگاری کا سہارا نہیں دیا تو اسی کا نام قناعت رکھ لیا  ہے یہ لوگ اہل زھد کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں جبکہ نہ ان کی شام زاھدانہ ہے اور نہ صبح۔

پس امام علیؑ کی نظر میں بہترین زھد ، زھد کو مخفی رکھنا ہے، چنانکہ آپؑ نے فرمایا: افضل الزھد اخفاء الزھد۔  یعنی بہترین زھد ، زھد کا مخفی رکھنا اور اس کا اظہار نہ کرنا ہے۔ کیونکہ  بناوٹی زھد کا  اظہار ریاکاری اور نفاق ہے۔

صبر کا چوتھا شعبہ ترقّب(موت کا انتظار)

انسان اپنی زندگی میں کسی مشکل یا خطرے کا احساس نہ کرے تو مشکل کے حل اور خطرے کے ازالے کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاتا، اسی طرح اپنے گناہوں کی طرف متوجہ نہ ہو تو  گناہ زدائی کے لیے توبہ کے راستے کو اختیار نہیں کرتا، اوراس کے بر عکس اگر وہ خواب غفلت سے بیدار ہو جائے اور اپنے گردو نواح میں موجود مشکلات اور خطرات کا  احساس کرے اور سرانجام پانے والے گناہوں کی سزا کا تصور کرے تو وہ چاک و چوبند اور اپنے کیے ہوئے اعمال کے حساب و کتاب کے لئے تیار رہتا ہے۔ انسان کی زندگی میں ایک ناقابل انکار حقیقت اس کی موت اور حیاتِ عارضی کا اختتام ہے۔ لیکن دنیا کے عیش و نوش میں غرق انسان اس سے غفلت برتتا ہے اور  اسےعواقب زندگی کا خیال نہیں رہتا، جبکہ اس حقیقت پر توجہ اور ایمان انسان کو گناہوں سے پرہیز کرنے کی راہ میں ممدو معاون ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لئے زاد راہ حاصل کرنے کا سبب بنتا ہے۔ انسان اگرچہ معاشرے میں رائج کچھ قوانین کے زیر اثر اور تخلف کی صورت میں سزا کےخوف سے بعض گناہ انجام نہیں دیتا لیکن تمام گناہوں سے بچنے کا مطمئن اوراصلی ترین راستہ پروردگار عالم پر ایمان اور موت کی طرف دھیان اور توجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  پرپختہ ایمان رکھنے والا اور موت کی آمد کا منتظر انسان ہر وقت محاسبہ نفس میں مشغول رہتا ہے، گذشتہ گناہوں اور لغزشوں سے توبہ اور آنے والے گناہوں سے بچنےکی فکر میں رہتا ہے۔ 

مرحوم شیخ بہائی اپنی کتاب “سفینۃ البحار” میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ابن صمّہ(ایک عارف انسان) اکثر اوقات محاسبہ نفس میں مشغول رہتے  تھےایک دن اپنی گذری ہوئی عمر کا یوں حساب کیا کہ  میں نے ساٹھ سال کی  زندگی گذاری ہے اور اسے دنوں میں حساب کروں تو اکیس ہزار پانچ سو دن بنتے ہیں اگر ہر دن کم از کم ایک گناہ کا مرتکب ہوا ہوں تو  مطلب یہ ہےکہ میں اکیس ہزار  سے زیادہ گناہ کا مرتکب ہوا ہوں، یہ کہہ کر ایک زور دار چیخ ماری اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔  پس جو انسان موت کی یاد سے غافل رہے  تو وہ نہ کسی گناہ کے انجام سے  باز رہے گا  اور نہ ہی تہذیب نفس کے لئے کوئی قدم اٹھائے گا۔  یہی وجہ ہے  کہ قرآن اور روایات میں انسانوں کو موت اور عاقبت زندگی کی طرف بارہا  توجہ دلائی گئی ہے ،  چنانکہ مولائے متقیان امام علی ؑ نے فرمایا:اَلا فاذکروا۔۔۔۔ (آگاہ ہو جاؤ   ابھی موقع ہے اسے(موت) یاد کرو جو لذتوں کو فنا کردےنے والی ، خواہشات کو  مکدر کدےنے والی اور امیدوں کو قطع کردےنے والی ہے، ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب  کررہے ہو اور اللہ سے مدد مانگو کہ اس کے واجب حق کو ادا کرو اور ان نعمتوں کا شکریہ اداکرو جن کا شمار کرنا  ناممکن ہے۔)  ایک اور مقام پر آپؑ نے فرمایا:اُذکروا انقطاع اللذات و بقاء التبعات۔  (یہ یاد رکھو کہ  لذتیں ختم ہونے والی ہیں اور ان کا حساب باقی رہنے والا ہے۔)

موت کے انتظار میں رہنے والا شخص نیک کام کی انجام دہی میں پس و پیش نہیں  کرتا بلکہ ہر نیک کام کی انجام دہی میں دوسروں سے سبقت لیتا ہے ۔ کاش معاشرے میں نیکی میں سبقت کا یہ انداز ہوتا جس کی مولائے کائنات نے  نقشہ کشی کی ہے  کہ ہر انسان نیکیوں کی طرف سبقت کرے ۔

ایمان کا دوسرا رکن یقین

حدیث کی تعبیر  کے مطابق مومن کو  جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یقین کا مرحلہ ہے ، یقین کی نعمت انسان سے چھن جائے تو وہ اسلامی اصول و معارف  کو دل سے قبول نہیں کرتا  اور اس کا نتیجہ بے عملی یا بد عملی کی صورت میں نکل آتا ہے ۔ امام المتقین ؑ نے یقین کے چار شعبے بیان کئے ہیں۔

 ہوشیاری کی بصیرت، یقین کا پہلا  شعبہ

ہوشیاری کی بصیرت کا حامل انسان حکمت کی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے۔ 

حکمت کی حقیقت رسی، یقین کا دوسرا  شعبہ

حکمت کی روشنی عبرت کو واضح کردیتی ہے۔ اسی لئے مولائے متقیانؑ نے اسے مؤمن کا ہی حصہ قرار دیا ہے، چنانکہ آپؑ  کا فرمان ہے: الحکمۃ ضالۃ المؤمن، فخذ الحکمۃ ولو من اھل النفاق۔  حکمت مؤمن کی گمشدہ دولت ہے ، لہذا جہاں ملے لے لینا چاہئے، چاہے وہ منافق سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

حکمت اور خوف خدا

حیث تکون الحکمۃ تکون خشیۃ اللہ و حیث تکون خشیۃ اللہ تکون رحمتہ۔   یعنی   جتنی حکمت ہوگی اتنا ہی خوف خدا ہوگا اور اللہ سے جتنا خوف ہوگا اس کی رحمت بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ 

حکمت اور دلوں کی زندگی

 امام علی ؑ فرماتے ہیں: اجمعوا ھذہ القلوب و اطلبوھا  طرف الحکمۃ فانھا تمل کما تمل الابدان۔   یعنی  ان دلوں کو اکھٹا کرو اور ان کے لئے حکمت کی لطافتیں طلب کرو کیونکہ دل بھی جسم کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔

یقین کا تیسرا اور چوتھا شعبہ عبرت اور  سابقین کی سنت

امام فرماتے ہیں : فی تصاریف الدینا اعتبار۔  یعنی   زمانے کے نشیب و فراز میں عبرتیں ہیں۔ ایک اور  حدیث میں  امام ؑ فرماتے ہیں: مؤمن دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس دنیا سے صرف ضرورت بھر غذا حاصل کرتا ہے اور (اس دنیا کے دلربا آھنگوں کو) متنفر اور غضبناک ہو کر سنتا ہے۔ 

عدل کے چار شعبے

  فہم کی گہرائی  علم کی  گہرائی تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے اور جس نے علم کی گہرائی کو پا لیا وہ فیصلہ کے گھاٹ سے سیراب ہوکر  باہر آیا۔

عقل کی پایداری کا سبب عدل ہے

انسانی زندگی میں عقل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عقل و شعور کے ذریعے ہی انسان دوسرے مخلوقات سے ممتاز ہوتا ہے اور عقل تعقل کے ذریعہ ہی انسانی زندگی رواں دواں ہے۔ امیر المؤمنین علی ؑ فرماتے ہیں: الانسان بعقلہ،   یعنی (انسان عقل کے ذریعے ہی انسانیت کے درجے پر  ہے۔ ایک اور مقام پر آپؑ نے فرمایا: اصل الانسان لبّہ،  ( انسان کی اصالت اس کی عقل و خرد پر ہے۔)عقل انسان کے لئے ایسی نعمت ہے جو اس کو بے نیاز کردیتی ہے جیسے کہ مولا علیؑ نے فرمایا: ان اغنی  الغنی العقل،  ( بہترین دولت و ثروت عقل ہے۔) دوسری دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ  قدرتِ عقل کے ذریعے سے انسان علم و حکمت تک رسائی حاصل کرتا ہے ،  خود شناسی، خدا شناسی اور دین شناسی بھی عقل کے ذریعے ہی ممکن ہے   اس  کامطلب یہ ہوا کہ ان تمام چیزوں میں عقل کا کردار نما یاں ہے ، اس کے علاوہ فضائل اخلاقی کے کسب کرنے کا بہترین ذریعہ بھی عقل ہے ۔ چنانچہ مولائے متقیان ؑ فرماتے ہیں: نفس کا کمال عقل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔   ایک اور حدیث میں امام  علیؑ نے عقل کو گناہوں سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ 

عقل اور اخلاق کے درمیان رابطہ

عقل اور اخلاق  کے درمیان تقابلی جائزہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ دونوں آپس میں تاثیر گذار ہونے  کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا تاثیرپذیر بھی ہیں ، اخلاق پر عقل کی تاثیر گذاری اس طرح سے ہے کہ  عقل کے ذریعے انسان مفاہیم اخلاقی اور خوب و بد میں تمیز دیتا ہے اور اس کے بعد امر و نہی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور عملی زندگی میں بدکرداری سے دوری  اختیار کر کے اچھے کردار کا مالک بن جاتا ہے جبکہ اخلاق ، عقل پر یوں اثر گذار ہوتا ہے کہ فضائل اخلاقی اور  دینی اقدار پر مبنی کردار عقل انسانی کی پایداری اور تقویت کا سبب بنتا ہے جبکہ رذائل اخلاقی اور گناہ و فسق و فجور  عقل کی تضعیف کا باعث بنتا ہے۔  اسی لئے امام علی ؑ فرماتے ہیں: من حلم لم یفرط فی امرہ و عاش فی الناس حمیداً۔  یعنی  جس نے عقل استعمال کردی  اس نے اپنے امر میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور لوگوں کے درمیان قابل تعریف زندگی  گذار دی۔ ایک اور جگہ پر آپؑ فرماتے ہیں: اپنی قوت شہوانی کے ساتھ جنگ کرو اور اپنے غصے پر غالب آجاؤ،  غلط عادات سے پرہیز کرو تاکہ تمہارا نفس کمال کی طرف جائے اور عقل کامل ہوجائے۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمال نفس اور کمال عقل میں محکم رابطہ موجود ہے اور ایک دوسرے پر اثرانداز  ہوتا ہے۔ 

عقل کی پایداری کو عدل کےشعبوں میں سے ایک شعبہ قرار دینے کی  وجہ  امام علیؑ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس میں راوی نے  آپؑ سے سوال کیا کہ مولا !ہمیں عاقل کی صفات بتائیے۔ آپؑ نے فرمایا: عاقل کی صفت یہ ہے کہ جو اشیاء کو ان کی جگہوں پر قرار دے، پھر سائل نے سوال کیا کہ مولا! پھر جاہل کی کیا صفات ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: میں بتا چکا ہوں، یعنی جو اس کے برخلاف  انجام دے  وہ جاہل ہے۔ 

جھاد کا پہلا اور دوسرا شعبہ امر بہ معروف  و  نہی از منکر 

اسلامی معاشرے میں نیکیوں کو عام کرنا اور برائیوں سے بچانے کے عمل کا نام امر بہ معروف اور نہی از منکر ہے ، اس  کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  معاشرے کے افراد ایک جسم کے اعضاء کے مانند ہیں  اگر جسم کے کسی حصے میں درد یا زخم  پیدا ہوجائے تو پورے جسم کا سکون چھن جاتا ہے اور اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے اسی طرح معاشرے میں بھی اگر  کوئی خلاف قانون شرع و دین عمل انجام دیتا ہے تو اس  کا اثر پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے  ارد گرد کے افراد کے اعمال و کردار پر بھی نظر رکھے اور صلاح سعادت کا حکم کرے اور شقاوت و بدبختی اور گناہوں سے نہی کرے۔ امیرالمؤمنین علی ؑ  نے امر بہ معروف اور نہی از منکر کی حکمت اور فلسفہ  یوں بیان کیا ہے: فرض اللہ الامر بالمعروف مصلحۃ للعوام و النھی عن المنکر ردعاً للسفھاء۔   یعنی اللہ تعالیٰ نے امر بہ معروف کو عوام کی مصلحت کے لئے اور نہی از منکر کو بیوقوفوں کو برائیوں سے روکنے کے لئے  واجب کیا ہے۔

ثبات قدم جھاد کا تیسرا شعبہ

مشکلات اور مصائب میں ثابت قدمی انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے   اور رحمت خدا کے نزول کا سبب بھی ہے ۔ امام علی ؑ ابن ابی طالب ؑ نے اسی ثابت قدمی اور صبر و تحمل ہی کی وجہ سے اپنے ایک خاص صحابی جناب خباب ابن ارت، جنہیں کفار مکہ نے بے پناہ اذیت دی لیکن اپنے اسلام پر ثابت قدم رہے، کے تحسین آمیز کلمات میں یوں تعریف کی ہے: یرحم اللہ خباب ابن الارت، فلقد اسلم راغباً، و ھاجر طائعاً، و قنع بالکفاف، و رضی عن اللہ، و عاش مجاھداً۔  خدا خباب ابن الارت پر رحمت نازل کرے، وہ اپنی رغبت سے اسلام لائے، اپنی خوشی سے ہجرت کی اور بقدر ضرورت سامان پر اکتفا کی، اللہ کی مرضی سے راضی رہے اور مجاہدانہ زندگی گذاردی۔

جھاد کا  چوتھا شعبہ فاسقوں سے عداوت

حبّ و بغض اور دوستی و دشمنی انسانی زندگی کی بنیادوں میں شامل ہے ان کے بغیر زندگی میں شور و نشاط باقی نہیں رہتا بلکہ زندگی بے ھدف ہوکر رہ جاتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی عقیدے کے بغیر زندگی مفہوم نہیں رکھتی اور بغیر عشق و محبت کے عقیدہ استوار نہیں ہوتا پس کمال و جمال سے عشق و محبت اور زشتی و بدی سے عداوت و نفرت انسانی زندگی کا جزو لاینفک ہے اور روایات کے مطابق  حقیقی ایمان بھی انہی دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔ چنانکہ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: ھل الایمان الّا الحب و البغض۔ یعنی (کیا ایمان محبت و نفرت کے علاوہ کچھ اور ہے۔) پس فسق و فجور سے نفرت و عداوت، جھاد کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے اور تولیّ و تبری محبت و نفرت کی تجلی گاہ ہے جس کوروایات کی تعبیرکے مطابق ایمان کا  دستاویز قرار دیا ہے۔ 

 نتیجہ

  یہ کہ انسان  ایمان  کی حقیقت تک اسی صورت مین پہنچ سکتا ہے  جب وہ ارکان ایمان اور  ان کے مختلف شعبوں  سے آشنائی حاصل کر کے اس پر عمل پیرا  ہوجائے  تب جاکر وہ مؤمن حقیقی کی صفت سے ہمکنار ہوسکتا ہے  جس کے  لئے ضروری ہے کی دلی تصدیق کے ساتھ ساتھ اعضاء و جوارح کے ذریعےعمل و کردار کا مظاہرہ بھی کرے۔ 

خداوند ہم سب کو حقیقی ایمان عطا کرے اور اسی کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین۔

حوالہ جات

 

——-

 

 

  :مفردات فی غریب القرآن، ص90۔

  : حدید/19۔

  : عرفان اہلبیت(شرح زیارت جامعہ کبیرہ) ص126۔ غلام حسین عدل،  ناشر مرکز فکر اسلامی ، اسلام آباد، 2008 عیسوی۔

  : اصول کافی، ج2، ص 33۔

  : غرر الحکم، ج6، ص379۔

  : ایضاً، ص 171۔

  : ایضاً۔

  : حدید/23۔

  : اخلاق عملی، محمد رضا مھدوی کنی، ص626، ناشر: فرہنگ اسلامی قم، 1386 شمسی۔

  : نہج البلاغہ، خطبہ/32۔

  : ایضاً، حکمت/28۔

  : سفینۃ البحار،ج3، ص28، مادہ ذنب کے ذیل میں۔

  : فرہنگ اخلاق، عباس اسماعیل یزدی،ص 469، انتشارات مسجد جمکران، چاپ دوم، 1385شمسی۔

  : نہج البلاغہ، خطبہ99۔

  ایضاً، حکمت433۔

  : ایضا، حکمت/80۔

  ایضاً، ص152۔

  :ایضا۔

  : ایضاً، ص36۔

  ایضاً، ص35۔

  : غرر الحکم، ج2، ص61۔

  : بحار الانوار، ج1، ص87۔

  : نہج البلاغہ، حکمت/28۔

  : غرر الحکم، ج3، ص234، حدیث 4318۔

  : ایضاً، حدیث 3887۔

  : نہج البلاغہ، حکمت31۔

  : غرر الحکم، ج3، ص365، حدیث4760۔

  : تجلیات حکمت(امیر المؤمنین ؑ کی احادیث کا مجموعہ)، ص329،  سید  اصغر ناظم زادہ قمی، انصاریاں پبلیکیشنرز قم، 1996 عیسوی۔

  : نہج البلاغہ، حکمت/252۔

  : ایضاً، حکمت/43۔

  : اخلاق عملی، محمد رضا مھدوی کنی، ص79، ناشر: فرہنگ اسلامی قم، 1386 شمسی۔

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *