ایک تابوت اور ایک کروڑ کا ہجوم
تحریر نذر حافی
7جون 1989ء کا روز۔۔۔ سورج کی گرمی سے درو دیوار دہک رہے تھے۔۔۔
شجر و حجر گرمی کی حرارت سے سلگ رہے تھے۔۔۔لیکن ۔۔۔اس کے باوجود ۔۔۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور مردوں کا ہجوم تہران کے مصلٰی بزرگ (عید گاہ) کی طرف ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
چشم فلک ایک عظیم الشان جلوس کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ تہران ائیرپورٹ پر بین الاقوامی شخصیات کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہر شخص سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی، فضا میں نوحہ و ماتم کے باعث ارتعاش تھا اور عالمی میڈیا یہ سب مسلسل تاریخ کے سینے میں اتارتا جا رہا تھا۔ ایک کروڑ سے زائد افراد اپنے محبوب قائد کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے جمع ہوچکے تھے۔
ایران کے مشہور مرجع تقلید آیت اللہ العظمٰی گلپائیگانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد یہ جلوس تہران کے قبرستان “بہشت زہرا” کی طرف روانہ ہوا، عید گاہ سے “بہشت زہرا “30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 30 کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک کروڑ کے ہجوم نے پا پیادہ طے کیا۔ سیاہ لباس میں ملبوس لوگوں کے ہاتھوں میں ماتمی پھولوں کے گلدستے اور آنکھوں میں اشکوں کے دریا تھے، عوام کا یہ سمندر سڑکوں پر رواں دواں تھا اور فضاء میں ایک ہیلی کاپٹر تابوت کو اُٹھائے ہوئے محو پرواز تھا، کافی دیر تک لوگ چلتے رہے اور ہیلی کاپٹر پرواز کرتا رہا۔
بلآخر تابوت کو دفن کرنے کے مخصوص احاطے میں ہیلی کاپٹر اترا اور تابوت کو باہر لایا گیا تو ایک کروڑ کا ہجوم سمندر کی موجوں کی طرح تابوت کی طرف بڑھا۔ لوگوں نے انتظامیہ سے تابوت لے لیا، اب تابوت ایک کروڑ کے ہاتھوں پر تیر رہا تھا، لوگ رو رہے تھے، گریہ کر رہے تھے، تابوت پر پھول پھینک رہے تھے اور تابوت کو چوم رہے تھے۔ عشق و محبت کے ایسے مناظر چشم ہستی نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ زمین پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور کان پڑتی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر شخص اس کوشش میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح حضرت امام خمینی (رہ) کے تابوت کا بوسہ لے لے، اب عوام کے ہاتھ تھے اور امام کا تابوت۔
کافی دیر بعد بالکل غیر متوقع طور پر عینی شاہدین کے مطابق عوام کے ہاتھوں پر تیرے ہوئے تابوت کی حرکت کی سمت تبدیل ہوگئی اور تابوت اپنے مدفن کے قریب آنے لگا۔ جیسے ہی تابوت مدفن کی حدود میں پہنچا، ڈیوٹی پر مامور انتظامی اداروں کے اہلکاروں نے تابوت کو اپنی حفاظت میں لے لیا، ہیلی کاپٹر بھی فضاء سے اتر آیا۔ ابھی انتطامیہ کے لوگ تابوت کو ہیلی کاپٹر میں پوری طرح رکھنے بھی نہ پائے تھے کہ عوام کے دباو کے باعث ہیلی کاپٹر کو ایسے حال میں پرواز کرنی پڑی کہ تابوت کا کچھ حصہ ہیلی کاپٹر سے باہر ہی رہ گیا، ہیلی کاپٹر نے دوبارہ “منظریہ” کی طرف پرواز کی۔ منظریہ وہ مقام ہے
جہاں پہلے امام خمینی (رہ) کا تابوت رکھا گیا تھا۔
دانشوروں نے تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی اہم شخصیت کا جنازہ دوبارہ واپس لایا گیا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں بلکہ دوسری بار ہوا ہے۔ آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال پہلے بھی ایک اہم ترین شخصیت کا جنازہ دوبارہ واپس پلٹایا گیا تھا۔ تاریخ میں آج تک صرف ایک خاندان ایسا ہے جس کے دو تابوت مدفن سے پلٹے ہیں۔ یہ دونوں تابوت آل محمدؐ کے ہیں۔ ایک تابوت حضرت امام حسنؑ کا ہے اور دوسرا حضرت امام خمینی (رہ) کا ہے۔ ان دونوں جنازوں کے پلٹنے میں نمایاں فرق یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کا جنازہ محبت و عشق کے باعث پلٹا، جبکہ حضرت امام حسنؑ کا جنازہ جب واپس پلٹا تو تیروں کی بارش سے زخمی ہوچکا تھا۔
بادشاہت نے حضرت امام حسنؑ کے جنازے کو بھی مجروح کرکے اسلام کو مجبور اور محکوم دین بنا لیا تھا۔ وقت کے سینے میں صبر امام حسنؑ عرفان فقہاہت بن کر گھلتا رہا اور دنیا کے افق پر مکتب آل محمدؐ سے اطراف ہستی کو منور کرتے رہے۔ نسل در نسل علم و عرفان کا یہ سلسلہ جب عصر حاضر میں داخل ہوا تو صبر امام حسنؑ پیکر امام خمینی (رہ) کی صورت میں جلوہ فگن ہوا، حضرت امام خمینی (رہ) نے سیرت امام حسنؑ کا عملی اعادہ کرتے ہوئے نہ صرف بادشاہت کے غرور کو خاک میں ملایا بلکہ آپ نے تاریخ کے چودہ سو سالہ جبر کا سینہ چاک کرکے اسلام کی عظمت رفتہ کو بھی بحال کیا۔
جس طرح امام خمینی (رہ) کی زندگی طاغوت کے لیے سد راہ تھی، اسی طرح آپ کا جنازہ بھی موجودہ صدی میں طاغوت کیخلاف ریفرنڈم ثابت ہوا، ایسا ریفرنڈم کہ جس نے طاغوت کی شان و شوکت اور رعب و دبدبے کی مکمل نفی کر دی، عوامی اجتماع نے 7 جون 1989ء کو بہشت زہرا (س) میں طاغوت عالم پر واضح کر دیا کہ تم مکر و فریب کے ذریعے اقوام عالم کو گمراہ کرتے ہو اور امام خمینی (رہ) نے علم و عمل کے ذریعے اسلام حقیقی کی حقانیت کو ثابت کیا ہے۔ 7 جون 1989ء کو لوگ روتے رہ گئے، عرفاء آہ و بکا کرتے رہے، عشاق گریہ کناں رہے اور یوں حضرت امام حسن ؑ کے صبر، شجاعت اور علم و عمل کا وارث یہ جلیل القدر رفقیہ پورے عالم اسلام کو سوگوار چھوڑ کر عالم بقاء میں اپنے جد نامدار حضرت محمدؐ کی طرف کوچ کر گیا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید