تازہ ترین

بدا٫ قرآن و حدیث کی روشنی میں/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

بدا٫کے لغوی معنی مخفی اور پنہان ہونے کےبعد ظاہرو آشکار ہونا ہیں ۔جب یہ لفظ انسان کے لئے استعمال ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص پر کوئی شئے مخفی وپنہان ہونےکےبعد ظاہرو آشکارہوجائے۔ خداوند متعال کے لئے اس قسم  کا معنی محال ہے  کیونکہ خدواند متعال اپنی ازلی اور ناقابل تغییر علم کے ذریعے سب چیزوں کےبارے میں علم رکھتا ہے لہذا ارادہ الہی  ہمیشہ کے لئے تغیر وتبدل ناپذیر ہے ۔

شئیر
27 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4302

ائمہ اطہارعلیہم السلام کی احادیث کے مطابق ذات الہی  کے لئے بدا٫ کایہ معنی صحیح نہیں ہیں ۔ائمہ اطہارعلیہم السلامکی احادیث میں عقیدہ بدا٫ کو اہم دینی اعتقادات میں سے قرار دیا ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتےہیں:(ما عظم الله عزوجل بمثل البدا)۱ بدا٫  کےبرابر عظمت الہی  کا اظہار کسی اور چیز سے نہیں ہوا۔(ما عبد الله بشئی مثل البدا)۲خدا کی عبادت بدا٫ کے برابر اور کسی چیزسے نہیں کی گئی ۔ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں:خداوند متعال نے جب تک کسی نبی سے بدا٫ کا اقرار نہیں لیا اسے نبوت کے لئے مبعوث نہیں کیا ۔۳

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:(من زعم ان الله عزوجل یبدو له فی شئی لم یعلمه امس فابروا منه)۴جس کا عقیدہ ہے کہ خداوندمتعال کے لئے پہلے کسی چیز کا علم نہیں تھا پھر اس چیزکا علم پیدا ہواہے تو اس سے اظہار برائت کرو۔ ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں :خداوند متعال کسی چیز کے بارے میں ارادہ کرنے یا  اسےانجام دینے سے پہلے اس چیز کے بارےمیں علم رکھتا ہے اور کوئی چیز ذات الہی  پر آشکار نہیں ہوتامگر وہی کچھ جو اس کے علم میں ہے۔ لہذا خدا کے لئےکوئی مخفی و پنہان چیز ظاہر نہیں ہوتی(کیونکہ یہ مستلزم جہل ہے جبکہ خداوند متعال ہرچیز کا علم رکھتا ہےاور وہ علام الغیوب ہے)

مذکورہ احادیث کی روشنی میں واضح ہوتاہے کہ ذات الہی  کے بارے میں بدا٫  حقیقت میں ابدا٫  و اظہار ہے ۔یعنی جو کچھ خدا کے علم میں ہے اور انسان کے علم میں نہیں ،اسےخداوند متعال اظہار و آشکار کرتا ہے ۔ اسےبدا٫  کہنے کا سبب یہ ہے کہ یہ مقام فعل الہی  میں نمایاں ہوتا ہے اگرچہ ذات الہی  میں جہل اور تغییر محال ہیں ۔ خداوند متعال انبیاء کرام پر غیبی طریقے سے نظر رکھتا ہے تاکہ یہ لوگ وحی کے پہنچانے میں خطا سے محفوظ رہیں ۔قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے 🙁 لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُواْ رِسَالَاتِ رَبهِّم)۵تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنےرب کےپیغامات کو پہنچا دیا ہے ۔ واضح ہے کہ خداوند متعال پہلے سے ہی آگاہ ہے کہ انبیاء، وحی الہی  کوصحیح طریقے سےلوگوں تک پہنچائیں گے ۔لہذا (لیعلم)سے مراد یہ ہے کہ یہ حقیقت ،مقام فعل میں تحقق پائے اور لوگ اس سے آگاہ ہو جائیں۔اسی طرح وہ آیات بھی ہیں جن میں کہا گیاہے کہ خداوند متعال اپنے بندوں سے امتحان لیتا ہے تاکہ  یہ جان لے کہ کون سے لوگ سچے، کون جھوٹے ،کون مجاہد اورکون غیر مجاہد ہیں ۔(ولقد فتنا الذین من قبلهم فلیعلمن الله الذین صدقوا و لیعلمن الکذبین)۶بے شک ہم نے ان سے پہلے والوں کا امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے اور کون جھوٹے ہیں ۔(ولنبلونکم حتی نعلم المجاهدین منکم والصابرین ونبلوا اخبارکم)۷یقینا تم سب کا امتحان لیں گےتاکہ یہ دیکھیں کہ تم میں جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون لوگ ہیں اور اسی طرح تمہارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ۔ ۸

جس طرح مذکورہ آیات میں علم سے مراد اعلام و اعلان ہے اسی طرح بدا٫  سے مراد  بھی  ابدا٫  ہے ۔ اسی تعبیرکو بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے جیساکہ وہ لکھتے ہیں :(ان ثلاثة فی بنی اسرائیل ، ابرص و اقرع و اعمی ، بد الله ان یبتلیهم ، فبعث الیهم ملکا ……)۹بنی اسرائیل میں تین شخص تھے،ایک برص والا،دوسرا اندھا اور تیسرا کوڑھی۔اللہ تعالی نے چاہا کہ ان کا امتحان لے چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔۔

ابن اثیر اس حدیث میں لفظ بدا٫ کےمعنی  قضااور حکم سےکرتا ہے۱۰کیونکہ بدا٫  کے حقیقی معنی خداوند متعال کے بارے میں محال ہے جو کسی مخفی چیز کے ظاہر و آشکار ہونےکے معنی میں ہے ۔لہذا ائمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں موجودلفظ بدا٫  کو حقیقی معنی میں نہیں لینا چاہیے ۔ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے شدت کے ساتھ اس معنی کی نفی کی ہے جبکہ شیعہ علماء بھی اس معنی  کوغلط قرار دیتے ہیں۔بنابریں شیعہ مذہب کی طرف ایسی باتوں کی نسبت دینا افتراء  کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

مقام تکوین میں بدا٫  کی مثال مقام تشریع میں نسخ کی طرح ہے۔ یعنی جو حکم نسخ ہوتا ہے اس حکم کے بارے میں خداوندمتعال پہلے سے ہی علم رکھتا ہے۔ جو مختصر مدت کے لئے تشریع ہوتاہے لیکن خطاب شرعی میں مطلق ذکرکیا جاتا ہے جس کی بنا پر انسان یہ تصور کرتا ہے کہ یہ حکم ابدی ہے لیکن ناسخ کے آنے کے بعد اسے اپنے غلط تصور کا علم ہوجاتاہے ۔ 

شیخ طوسی اس بارے میں فرماتےہیں:جن رویات میں بدا٫ کا ذکرہے اگروہ ان امور سے مربوط ہوں جو قابل نسخ ہیں تو ان سب کی بازگشت نسخ کے معنی میں ہے لیکن اگر وہ امور تکوینی سے مربوط ہوں توان سے مراد، ان امور کے شرائط میں تغیر وتبدل ہے کیونکہ ممکن ہے کہ انسان افعال الہی  کے بارے میں کسی چیز کا تصور کرے لیکن اس کے لئے اس کے برعکس کوئی اور چیز ظاہر و آشکار ہو ،یا یہ کہ انسان اس فعل کے بارے میں توعلم رکھتاہے لیکن اس کے شرائط سے آگاہ نہیں ہے جبکہ خدا کے لئے کوئی بھی  نئی چیز ظاہرو آشکار نہیں ہوتی،اور ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے  ۔۹(کیونکہ وہ تمام چیزوں کے بارےمیں پہلے سے ہی جانتا ہے )

ائمہ اطہارعلیہم السلام کی روایات کے مطابق بدا٫ پر اعتقاد رکھنا گویا یہودیوں کے عقیدے کو باطل قراردیناہےکیونکہ یہ لوگ خداوند متعال کی قدرت کومحدود فرض کرتے ہیں ۔امام جعفرصادق علیہ السلاماس آیت کریمہ (وَ قَالَتِ الْيهَودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ)۱۱ (یہودی کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں)کی تفسیر کرتےہوئے فرماتے ہیں :ان کی مراد یہ تھی کہ خداوند متعال کا کام تخلیق کائنات کے بعد ختم ہوا ہےاوراب وہ کائنات میں کوئی کمی و بیشی نہیں کرسکتا جبکہ خداوند متعال ان کو جھٹلاتے ہوئے ارشادفرماتاہے:(غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بمِا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاء)۱۲جبکہ اصل میں انہیں کے ہاتھ بندھےہوئے ہیں ۔وہ  اپنےقول کی بنا پر ملعون ہیں۔ خدا کےتودونوں ہاتھ کھلے ہوئےہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتاہے۔اس کے بعد امام  ؑ آیت محوو اثبات سےاستدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۱۳:(الم تسمع الله عزوجل یقول: يَمْحُواْ اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَ يُثْبِتُ  وَ عِندَهُ أُمُّ الْكِتَاب)۱۴کیا تم نے خداوند عزوجل کا کلام نہیں سنا ہے جس میں وہ  ارشاد فرماتا ہے:اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کےپاس ہے ۔

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سلیمان مروزی کے ساتھ مناظرہ کرتےہوئے فرماتے ہیں :تم یہودیوں کی طرح گفتگو کرتے ہو۔سلیمان نے کہا: یہودی کیا کہتے ہیں ؟آپ ؑنے فرمایا:یہ لوگ کہتے ہیں :(يَدُاللَّهِ مَغْلُولَةٌ)اور ان کا مقصد یہ ہے کہ خداوند متعال کائنات کی تخلیق سے فارغ ہونے  کے بعد کسی چیز کو وجود میں نہیں لاسکتا ۔۱۵

مذکورہ روایتوں میں غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ عقیدہ بدا٫  میں ذات الہی  کی زبردست تعظیم اور اس کی صحیح پرستش و عبودیت مضمر ہیں  ۔

مسئلہ بدا٫  ایک اور جہت سے بھی قابل بحث ہے وہ یہ کہ انسان کےاچھےاور برےاعمال اس کی تقدیر پر اثر انداز ہوتےہیں۔یعنی انسان کی زندگی میں جتنی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان سب میں اس کے اچھے اور برے اعمال کا عمل دخل ہے۔جیساکہ صلہ رحمی سے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ قطع رحمی سے انسان کی عمر کوتا ہ ہوجاتی ہے۔صدقہ ،مختلف حوادث حتی کہ موت کو بھی ٹال دیتا ہے ۔عاق والدین موت کو نزدیک کرتا ہے جبکہ ان سے نیکی کرنے سے انسان کی زندگی میں خیر و برکت آجاتی ہے ۔واضح ہےکہ یہ مطالب مسلمانوں کے مسلمہ عقائد میں سےہیں ،نیز آیات و روایات بھی انہیں مطالب کی تاکید کرتی ہیں۔

صحیح مسلم میں انس بن مالک سے نقل ہے کہ اس نے کہا : میں نے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسےسناکہ جو بھی اپنےرزق کی فروانی اور موت کی تاخیر چاہتا ہے اسےصلہ رحمی بجالانا چاہیے ۔۱۶سیوطی حضرت علیعلیہ السلام سےنقل کرتےہیں :کہ آ پؑ نے اس آیت(يَمْحُواْاللَّهُ مَايَشَاءُوَيُثْبِتُ)(اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے )کی تفسیرکے بارے میں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے پوچھاتو پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:اس آیت کی تفسیرکے ذریعے تمہاری اور میری امت کی آنکھوں کو روشن کروں گا۔اس کےبعد آپؐ نےفرمایا:خداکی راہ میں صدقہ دینے ،والدین کےساتھ نیکی کرنے اور اچھےکاموں کے بجالانے سے شقاوت ،سعادت میں بدل جاتی ہے اور یہ انسان کی عمر میں اضافہ اور برے حوادث کو دور کرتا ہے ۔ ۱۷عیاشی امام محمد باقر علیہ السلامسے  اور آپ ؑپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نقل کرتےہیں :جوشخص قطع رحمی انجام دیتا ہے  اس کی عمر میں سے اگر تینتیس(33)سال باقی ہوں توخداوند متعال اس کی عمر کوتین سال یا اس سے کمتر قرار دیتا ہے ۔اس وقت امامؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:(يَمْحُواْاللَّه ُمَايَشَاءُوَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَاب)۱۸اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے اور اصل کتاب اسی کےپاس ہے ۔ انسان کی تقدیر  میں تغیرو تبدل کچھ خاص اسباب و علل کی بنا پر واقع ہوتا ہے جو قضا و قدر کو شامل ہے کیونکہ خداوند متعال کے ازلی علم میں کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔اگرچہ نظام عالم میں رونما ہونے والے حوادث  اسباب وعلل کے تابع ہیں اور یہ تدریجا واقع ہوتے ہیں۔خداوند متعال کی حکیمانہ مشیت میں نظام طبیعت اسی طرح سے ہی مقدر ہوا ہے ۔۱۹

مذکورہ مباحث سے ظاہر ہوتا ہے  کہ بدا٫  کے بارے میں جتنے اختلافات پائے جاتے ہیں در حقیقت وہ سب کے سب لفظی نزاع ہیں کیونکہ  بداءکےمنکرین اس چیز کا انکار کرتے ہیں جس پر بدا٫  کے معتقدین بھی اعتقاد نہیں رکھتے۔منکرین اس لئے بدا٫ کا انکار کرتےہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ علم الہی  میں تغیر و تبدل کا باعث بنتا ہے۔( نیز اس کالازمہ جہل ہے حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے) یہ لازمہ اس وقت صحیح ہے جب یہ (بدا٫)انسان کے بارے میں استعمال ہو ۔لہذا ائمہ اطہارعلیہم السلام کی روایتوں  میں بدا٫ کاجو معنی  ہیں نیز شیعہ علماء جس بدا٫  پر اعتقاد رکھتے ہیں ان سب کا لازمہ علم الہی  میں تغیر و تبدل نہیں ہے ۔

حوالہ جات:

۱۔اصول کافی ج1،باب بدا٫ ۔

۲۔ایضا ً۔

۳۔ایضا ً،حدیث 13، 14 ۔

۴۔بحارالانوار،ج4 ،ص11۔

۵۔جن ،28۔

۶۔عنکبوت،3۔

۷۔ محمد ،31.

۸۔صحیح بخاری،ج3،ص258۔کتاب بدا٫  الخلقۃ۔

۹۔النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر ،ج1،ص109۔

۱۰۔الغیبۃ،ص 264 – 265 ۔

۱۱۔مائدۃ ،64۔

۱۲۔مائدۃ ،64۔

۱۳۔توحید شیخ صدوق ،ص 167۔بحار الانوار ،ج4،ص104۔

۱۴۔رعد،39۔

۱۵۔توحید شیخ صدوق ،ص444۔بحار لانوار ،ج4،ص96۔

۱۶۔{ من سره ان یبسط علیه رزقه اوینسا فی اثره، فلیصل رحمه}صحیح مسلم،ج4،ص1982۔تحقیق محمدفواد عبد الباقی۔

۱۷۔الدرالمنثور،ج4،ص66۔

۱۸۔تفسیر عیاشی،ج2،ص 220۔

۱۹۔فخر الدین رازی ،تفسیر کبیر، ج19،ص 65۔شہید اول ،القواعد و الفوائد،ج2،ص55۔

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *