تازہ ترین

بن سلمان کا دورہ پاکستان اور امت مسلمہ کی غیرت کا تقاضا/ تحریر:  محمد حسن جمالی 

 اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ وطن عزیز پاکستان مظالم کے خلاف قیام کا نتیجہ ہے ـ جب ہندو ریاست کے اندر مسلمانوں پر ستم کی انتہا ہوئی تو قائد اور اقبال جیسی درد مند اور دلسوز شخصیات نے سرجوڑ کر یہ فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کو ہندو ریاست کی ناانصافیوں سے نجات دلانے کا واحد راستہ ان کے لئے ہندووں سے جداگانہ مملکت معرض وجود میں لانا ہے، چنانچہ انہوں نے اس مقدس ہدف کے حصول کے لئے شب وروز ایک کرکے جدوجہد کی درنتیجہ وہ اپنے ہدف میں کامیاب ہوئے ، انہوں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لئے مستقل ریاست تشکیل دی گئی تاکہ مسلمان غلامانہ زندگی سے جھٹکارا پاکر امن اور سکون سے آذادانہ زندگی گزارسکیں اس مقصد کے پیش نظر بانی پاکستان نے تین اہم اور دقیق چیزوں کو اس کی بنیاد قرار دیا جو ایمان، اتحاد اور تنظیم سے عبارت ہے ـ آپ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ تین عنصر پاکستان کی بقاء ، سلامتی اوراستحکام کا ضامن ہیں اور یہی اس مملکت کی پیشرفت اور ترقی کا راز ہیں ـ

شئیر
27 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4418

قائد اعظم محمد علی جناح کے اس جامع فرمان پر آپ کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے نہ صرف توجہ نہیں دی بلکہ اس کے خلاف عمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، البتہ پاکستان کے دشمنوں نے قائد کے اس فرمان پر غور کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستانی قوم کو اگر ایمان اتحاد اور تنظیم پر کاربند رہنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کا موقع دیا جائےتو اس ملک کی ترقی اور استحکام قطعی ہے ،لہذا انہوں نے پاکستان قوم کا ایمان متزلزل کرنے ،ان کے درمیان قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات کی آگ بھڑکاکر انہیں متفرق کرنے اور انہیں غیر منظم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا،چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بھی ایک دوسرے سے متحد ہوکر قوم وملت کی خدمات سرانجام دینے کے لئے حاضر نہیں ـ پاکستانی قوم میں ایمانی قوت کمزوری کی طرف رواں دواں ہے ـ ہماری قوم منظم ہوکر اپنے دشمنوں کے قابلے میں مقاومت دکھانے کے بجائے مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوجاتی جارہی ہے ـ

 

 دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہماری قوم اور حکمران قائد کے فرمان پر دل وجان سے عمل کرنے کی کوشش کرتے اور ان کی شخصیت سے ذرا متاثر ہوجاتے ، مگر ایسا نہ ہوسکا ،ہاں پنڈت جواہر لعل نہرو جناح کی شخصیت سے متاثر ہوکر بے اختیاریہ کہہ اٹھا تھا کہ اگر کانگرس میں قائداعظم ہوتے تو کبھی پاکستان نہ بنتا ـ یہ کوئی معمولی جملہ نہیں ـ جواہر لعل نہرو نے قریب سے اس شخصیت کی گہرائی کا علم حاصل کرلیا تھا، وہ یہ جان چکے تھے کہ قائد اعظم دور رس نگاہ اور عمیق فکر کے مالک ہیں ، وہ پختہ علم اور معلومات رکھنے کے ساتھ  قائدانہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں ،ان کے فرمودات تقدیر ساز رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں ـ 

 

 پاکستانی حکمرانوں نے نہ قائد اور اقبال کے پر عزم اور پرخلوص کارناموں کو یاد رکھا اور نہ ہی ان کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی گئی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان مسائلستان بن گیا ـ ہندو ریاست میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کا سایہ پاکستانی مسلمانوں کے سروں پر دوبارہ چھانے لگا، اقلیتی گروہ کے لئے زندگی کا دائرہ تنگ ہوا، اس ملک میں ضیاء الحق کے دور سے کالے قانون کا اجراء شروع ہوا اور اسی کے دور سے ہی اس ملک میں دہشتگردوں کو پھلنے اور پھولنے کا موقع میسر آیا ، مختلف مدارس میں دہشتگردوں کی باقاعدہ ٹرینینگ اور تربیت کا انتظام ہوا اور اس کام کے لئے سب سے ذیادہ سعودی ریال کا رول رہا ـ ضیاء الحق کے زمانے سے آج تک یہ مدارس سعودی فنڈنگ سے چل رہے ہیں ـ چنانچہ انہی مدارس کے فارغ التحصیلان آج پورے ملک کے اطراف میں وسیع پیمانے پر سعودی عرب کے لئے فعالیت سرانجام دے رہے ہیں ـ جن کی سب سے بڑی فعالیت پورے ملک میں وہابیت اور تکفیریت کا پرچار اور اس عقیدے سے بنی ہوئی تنظیمیں طالبان اور داعش جیسوں کو تقویت فراہم کرنا ہے ـ 

 

تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی سادہ لوح مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد “نظریہ تکفیرت” پر سوچنے کی زحمت گوارا کرنے کے لئے حاضر نہیں ، جب کہ قرآن مجید کی آیات کے فقط ترجمے پر ذرا بھی غور کیاجائے تو اس کا بطلان آشکار ہوجاتا ہے ـ انصاف اور فکری آذادی کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی بھی عقیدتی نظرئے کو قبول کرنے سے پہلے انسان کو کم از کم صاحب نظریہ اور اس کے مکتب ومسلک کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئےـ اسی طرح حق اور باطل کے معیار اور میزان پر اس نظرئیے کو جانچ کر اس کی صداقت معلوم کرنا چاہئے ـ جب ہم اس زاویہ فکر سے نظریہ تکفیریت وسلفیت کے صاحبان کے مسلک کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے وہ فرقہ وہابیت سے تعلق رکھتے ہیں ، جس کے خود ساختہ ہونے میں اب کسی بھی انصاف پسند محقق کو شک نہیں ـ اس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہابیت، اہل سنت کے ایک فرقے کا نام ہے جو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں محمد بن عبدالوہاب کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس فرقے کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے۔ وہابی فروع دین میں احمد بن حنبل‌‌ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی حصے میں مقیم ہیں۔ اس فرقے کے مشہور مذہبی پیشواؤں میں ابن ‎تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب قابل ذکر ہیں۔وہابی قرآن اور سنت میں تأویل کے بجائے آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنے کے معتقد ہیں۔ اس بنا پر وہ بعض آیات و روایات کے ظاہر پر استناد کرتے ہوئے خدائے متعال کے اعضا و جوارح قائل ہوتے ہوئے ایک طرح سے تشبیہ اور تجسیم کے معتقد ہیں۔وہابی اعتقادات کے مطابق اہل قبور حتی پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین کی زیارت، ان کے قبور کی تعمیر؛ ان پر مقبرہ یا گنبد بنانا، ان ہستیوں سے متوسل ہونا اور ان قبور سے تبرک حاصل کرنا حرام ہے۔ وہابی مذکورہ تمام اعمال کو بدعت اور موجب شرک سمجھتے ہیں اسی بنا پر سعودی عرب پر مسلط ہونے کے بعد وہابیوں نے تمام اسلامی مقدسات بطور خاص شیعہ مقدس مقامات کو منہدم کرنا شروع کیا، انہدام جنت البقیع اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں ائمہ بقیع کے علاوہ کئی دوسرے بزرگ صحابیوں اور صحابیات کے مزار کو سنہ1344ھ میں وہابیوں نے منہدم کر دیا۔نجد کے ایک قبیلے کا سردار محمد بن سعود جو “درعیہ” کا حاکم تھا، نے محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کو قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ عہد و پیمان باندھا جس کے نتیجے میں انہوں نے سنہ ۱۱۵۷ھ میں نجد اور اس کے گرد و نواح پر قبضہ کرتے ہوئے ان نظریات کو پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلانا شروع کر دیا۔ ریاض کو فتح کرنے کے بعد اسے دارالخلافہ قرار دیا جو ابھی بھی سعودی شاہی حکومت کا دارالخلافہ ہے۔ موجودہ دور میں سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت ہے جہاں اس فرقے کے علماء کے فتووں پر حکومتی سربراہی میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔1)

 وہابی و سلفی مکتب فکر کے خشک عقیدے کا علمبردار سعودی عرب نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں شدت پسندی کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ، اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں خرچ کئیں ، داعش طالبان اور القاعدہ جیسی انسانیت کش تنظیموں کو مضبوط کیا جن سے وابستہ انسان نمادرندوں نے لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا شعار بلند کرتے ہوئے یمن، عراق ،افغانستان شام، پاکستان وغیرہ میں ہزاروں مسلمان مرد عورت اور بچوں کو بڑی بے دردی سے زبح ، قتل کیا اور بہت سوں کو جلادیا ـ اس ملک کے خادم الحرمین کے دعویدار شاہ سلمان نے تو ٹرمپ جیسے مسلمانوں کے سرسخت دشمن کے ساتھ رقص کرکے عالم اسلام کا سر شرم سے جھکادیا ـ اس نے اسرائیل کی گود میں جا بیٹھکر یہ ثابت کردیا کہ ہمیں تو بہر صورت کفار کو خوش رکھنا ہے فرق نہیں پڑھتا ہمارے اس عمل سےدنیا کے مسلمانوں اور اسلام کو فائدہ پہنچے یا ضرر  ـ ہمیں تو اپنے مفادات عزیز ہیں ـ ہم اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہمہ وقت اپنے آقا امریکہ واسرائیل کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لئے تیار  رہتے ہیں ـ چنانچہ جب انہوں نے ہمیں امر کیا کہ آیت اللہ باقر نمر کے وجود کو صفحی ہستی سے مٹادو ہم نے حکم کی تعمیل کی، جب انہوں نے ہمیں حکم کیا کہ یمن پر جھنگ کرکے اس میں رہنے والے مسلمانوں کو خون میں نہلاو ہم نے اطاعت کی ، جب انہوں نے ہمیں اشارہ دیا کہ شام اور عراق میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے والی داعش کی مدد کرو ہم نے سرتسلیم خم کیا ،جب انہوں نے ہمیں پیغام بھیجا کہ پوری دنیا میں ایران کے خلاف پریپیگنڈہ کرکے اس سے دنیا والوں کو متنفر کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کرو ہم نے کہا یس سر اطاعت جی .. یہ تو کچھ نمونے تھے اس طرح کے ہزاروں بار سعودی عرب، امریکہ واسرائیل کا مہرہ بن کر مختلف محاز اور میدانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرچکے ہیں ـ 

 

سعودی حکمرانوں خصوصا شاہ سلمان اور بن سلمان کے ظلم وستم کی بے شمار داستانوں کے سبب آج پوری دنیا انہیں ظالم اور جابر حکمران کے طور پر جانتی اور پہچانتی ہے ـ خصوصا جمال قاشقچی جو اپنے قلم کے ذریعے حقائق کی نشاندہی کرانے والے صحافی تھے کے وحشیانہ قتل سے سعودی حکمرانوں کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آگیا اور یہ ثابت ہوا کہ یہ لوگ تو انسانیت کے قاتل ہیں ـ مگر افسوس!  پاکستان کے ناداں حکمران  ظالم انسان بن سلمان کو وطن عزیز میں مدعو کرکے پوری دنیا میں ایک بار پھر پاکستان کو بدنام کرنے کے درپے ہیں ـ وہ آنے والے دنوں میں پاکستان آرہے ہیں ـ تحریک انصاف کی حکومت اس ظالم شہزادے کے استقبال کی بھرپور تیاریاں کررہی ہے ـ شنید ہے کہ اس عیاش پرست انسان کی عیاشی کے تمام لوازمات فراہم کرچکے ہیں ـ سعودی وفد اور سپورٹنگ سٹاف بارہ سو لوگوں پر مشتمل ہو گا ‘ سعودی عرب سے ورزشی سامان سمیت‘ گاڑیاں‘ ، ڈاکٹرز، نوکر چاکر اور سیکورٹی کی ٹیمیں پاکستان پہنچ چکی ہیں ـ انصاف حکومت نے دار الخلافہ میں دو فائیو سٹار ہوٹلز سمیت آٹھ ہوٹلز مکمل بک کر لئے ہیں اور 0 30 گاڑیاں بھی کرائے پر لے لی گئی ہیں‘ قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا ـ وہ خواہشات نفسانی اور مادی مفادات کے اسیر ہوتے ہیں سو انہوں نے سعودی ریال لیکر اسے اسلامی ریاست میں مدعو رکھا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا ـ امتحان تو پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کی غیرت کا ہے ـ یہ طے ہے جو لوگ اسلام کی  شناخت اور آگاہی کا شدبد رکھتے ہوں گے وہ کھبی بھی اس ظالم کے پاکستان آمد پر خوش نہیں ہوسکتے چہ برسد وہ ان کا استقبال کریں ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے دین نے مسلمانوں کو ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کرنے کادرس دیا ـ ظالم کا ساتھ دینے والا روز قیامت اسی کے ساتھ محشور ہوگا ـ ظالم کو خوش کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرنا مظلوم کے زخموں پر نمک چھڑکانے کا مترادف ہے ـ یوں حقیقی مسلمان کی غیرت مسلمانی ہرگز بن سلمان کی آمد سے خوش ہونے کی اجازت نہیں دیتی ـ بن سلمان کے استقبال کی حمایت اور مخالفت، کھرے اور کھوٹے حقیقی اور نام نہاد مسلمانوں کی پہچان کو نمایاں کردیتی ہے

 اس موقع پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر خوب آئینہ دکھارہا ہے

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں

قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے

حوالہ:

 ۱) ویکپیڈیا شیعہ

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *