تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۱)
تشیع کی پیدائش
تشیع کی پیدائش، حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل جانشینِ رسول ماننے کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے دور حیات سے ہی ہو چکی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی تئیس سالہ تبلیغ کے دوران عمومی طور پر اور بعض جگہ خصوصی طور پر علی علیہ السلام کو اپنے جانشین اور خلیفہ کے عنوان سے پہچنوانا اس بات کا سبب بنا کہ مسلمانوں میں ایک خاص گروہ جو علم و ایمان اور تقویٰ و پرہیز گاری کے اعتبار سے اسلامی سماج کی برجستہ شخصیتوں پر مشتمل تھا اس تفکر کو لے کر آگے بڑھا اور رسول اسلام (ص) کی زحمات کا مثبت جواب دیا۔(۱)
ہم یہاں پر ان موارد کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں جہاں رسول اسلام(ص) نے اس موضوع کو بیان کیا اور لوگوں کو اپنے بعد علی علیہ السلام کی پیروی کرنے کا حکم دیا:
الف:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعثت کے ابتدائی ایام میں جب آپ اللہ کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو دین حنیف کی طرف دعوت دینے پر مامور ہوئے تھے(۲) تو اسی دعوت میں جسے ’’ دعوت ذوالعشیرہ‘‘ کہتے ہیں واضح الفاظ میں فرما دیا تھا کہ جو بھی اس کام میں میری مدد کرے گا، میرا ہاتھ بٹائے گا وہ میرا جانشین،خلیفہ اور وصی ہو گا۔ تین بار رسول اسلام(ص) نے لوگوں کے درمیان یہ مطالبہ رکھا تینوں مرتبہ سوائے علی علیہ السلام کے کسی نے آپ کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا جبکہ علی علیہ السلام کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس تھی۔ علی علیہ السلام نے ہر کام میں دوسروں پر سبقت لی، سب سے پہلے ایمان لائے، سب سے پہلے پیغمبر اکرم(ص) کے وعدوں کو قبول کیا اور سب سے پہلے آپ کی مدد اور نصرت کا وعدہ کیا (۳) عام طور پر یہ چیز محال ہے کہ کسی نہضت اور تحریک کا سربراہ اپنی تحریک کے پہلے دن ہی اپنے جانشین اور وزیر کو مقرر کر دے بغیر اس کے کہ دوسروں کو اس کی پہچان کروائے یا خود اسے پہچانے اور دوسرے اس کی جانشینی پر کوئی اعتراض نہ کریں۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تحریک کا سربراہ اسے روز اول سے پہچانتا ہو اور سامعین بھی اس کے جانشین کو خود تحریک کے سربراہ کی ہوبہو تصویر دیکھتے ہوں ورنہ ابھی تو جانشین نے اپنا کوئی جوہر کمال نہیں دکھلایا کہ لوگ اتنی اہم بات سن کر خاموش ہو جائیں اور زبان درازی نہ کر سکیں۔
ب: شیعہ و سنی راویوں نے متواتر طریقے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے متعدد مقامات پر صریح اور واضح الفاظ میں یہ بیان کیا کہ علی علیہ السلام (۴) اپنے قول و فعل میں ہر خطا اور لغزش سے معصوم ہیں۔ جو بات کہیں اور جو عمل انجام دیں وہ دین مبین اسلام کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے چونکہ آپ دینی معارف و احکام کی نسبت سب سے زیادہ آگاہ تھے۔(۵)
ج: علی علیہ السلام نے ایسی ایسی قیمتی خدمات اور حیرت انگیز جانفشانیاں انجام دیں جن کی مثال پوری تاریخ اسلام چھان مارنے سے بھی نہیں ملتی۔ شب ہجرت تلواروں کے سائے رسول اسلام(ص) کے بستر پر سو جانا(۶) بدر و احد اور خبیر و خندق جیسے معرکوں کو بہادری اور شجاعت کے ساتھ سر کرنا اور علمی میدانوں میں بڑے سے بڑے دانشمندوں کے پیچیدہ سوالوں کے آناًفاناً جواب دینا ایسے نمایاں کارنامے ہیں جو صرف اور صرف علی علیہ السلام کی ذات گرامی سے وقوع پذیر ہوئے اور اگر آپ کی ذات والا صفات ان مواقع میں سے کسی ایک موقع پر نہ ہوتی تو اسلام وہی دفن ہو کر رہ جاتا۔ رسول اسلام(ص) کے شانہ بشانہ رہ کر رسول اکرم(ص) کی حفاظت بھی کرنا اور اسلام کو بھی دشمنوں اور منافقوں کے شر سے بچانا صرف اور صرف علی علیہ السلام کے بس کی بات تھی۔(۷)
د: غدیر خم میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے کھلے عام لاکھوں کے مجمع میں حکم خدا کے مطابق لوگوں پر حجت تمام کرتے ہوئے علی علیہ السلام کو مقام ولایت و امامت کے لیے منصوب کیا اور انہیں اپنے بعد دین اسلام کا حقیقی والی و وارث بنایا۔ (۸)
واضح سی بات ہے کہ جب کسی ایک شخصیت کے اتنے فضائل اور کمالات لوگوں کے سامنے برملا ہوں گے(۹) اور پھر خود رسول اکرم(ص) کا علی علیہ السلام کی نسبت بے والہانہ لگاو لوگ مشاہدہ کریں گے(۱۰) تو وہ لوگ جن کے دل میں واقعی اسلام کا درد ہو گا جنہوں نے دین کو دین الہی سمجھ کر قبول کیا ہو گا وہ تو یقینا علی علیہ السلام کی شخصیت کا کلمہ پڑھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ان کے گرویدہ ہو کر ان کی اطاعت میں جھٹ جائیں گے لیکن اس کے برخلاف جن لوگوں نے دین کو صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے قبول کیا ہو گا وہ ہر وقت اندر ہی اندر علی علیہ السلام سے حسد اور کینے کی آگ میں جلیں گے اور اس تاک میں رہیں گے کہ کب رسول کی آنکھیں بند ہوں اور ہم علی (ع) کے مقابلے میں قد علم کریں اور دین کے نام پر اقتدار کی کرسی چھین لیں، اس کے بعد دیکھیں گے کہ جس کی لاٹھی ہوگی اسی کی بھینس۔
گزشتہ تمام باتوں کے علاوہ شیعہ سنی سب کی کتابوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے مروی حدیثوں میں ’’ علی کا شیعہ‘‘ ’’ اہلبیت کا شیعہ‘‘ جیسے الفاظ کثرت سے نظر آتے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ گروہ مرسل اعظم(ص) کے زمانے سے ہی ظہور پا چکا تھا(۱۱)۔
اقلیت اہل تشیع کے اکثریت اہلسنت سے جدا ہونے کے اسباب
علی علیہ السلام کے شیعہ اور پیرو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے نزدیک آپ کے اس عظیم مقام و منزلت کی وجہ سے اس بات کے قائل تھے اور ہیں کہ رحلت رسول (ص) کے بعد مقام خلافت اور مسلمین کی مرجعیت کے مستحق صرف علی علیہ السلام ہیں اور ظاہری حالات بھی اسی چیز کی تائید کرتے تھے جیسا کہ بستر بیماری پر رسول اسلام(ص) کا قلم و دوات طلب کرنا اور علی علیہ السلام کی خلافت کے سلسلے میں وصیت کرنا۔(۱۲)
لیکن شیعوں کے انتظار کے برخلاف ٹھیک اسی وقت جب ادھر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے رحلت فرمائی اور ابھی آپ کا جسد مطہر دفن بھی نہیں ہوا تھا اور کچھ مخصوص اصحاب آپ کی تکفین و تدفین کے فرائض انجام دینے میں مشغول تھے تو صحابہ کرام کی کثیر تعداد بغیر اس کے کہ اہلبیت رسول سے بھی کسی قسم کا مشورہ کرے، انتخاب خلیفہ کے امر میں ان کی رائے بھی حاصل کرے یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان اکابر اصحاب جیسے سلمان فارسی، ابوذر ٖغفاری، عمار اور مقداد وغیرہ کو بھی اس کام میں شامل کرے سقیفہ بنی ساعدہ میں انتخاب خلیفہ کے لیے جمع ہو گئی اور اپنے طور پر کافی جرح و بحث کے بعد خلیفہ مسلمین بنا کر آگئی اور علی(ع) اور ان کے چاہنے والوں کو اس کام کا مخالف قرار دے دیا۔ (۱۳) علی علیہ السلام اور ان کے ساتھی جیسے عباس، زبیر، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار پیغمبر (ص) کی تدفین کے فرائض انجام دے کر جب فارغ ہوئے تو انہیں اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے خلیفہ منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کیا لیکن جواب دیا گیا کہ مسلمانوں کی صلاح اسی کام میں تھی(۱۴)
یہ انتقاد اور اعتراف اس کا سبب بنا کہ اقلیت اکثریت سے جدا ہو جائے اور علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو ’’شیعیان علی‘‘ کے نام سے اسلامی سماج کے اندر مشہور و معروف کر دیا جائے۔ حکومت وقت نے کافی کوشش کی کہ یہ گروہ اس نام سے مسلمانوں کے درمیان معروف نہ ہو اور اسلامی سماج دو حصوں میں تقسیم نہ ہو لیکن اس کے باوجود خلافت کے ماننے والے خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے اجماع کا نتیجہ سمجھتے اور ان کے مخالفین کو مسلمانوں سے جدا قرار دیتے اور انہیں برے برے القاب سے یاد کرتے تھے(۱۵)۔
البتہ شیعہ انہیں ابتدائی ایام سے ہی سیاسی دباو میں دب گئے اور سوائے اعتراض کے اپنی اقلیت کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کر پائے۔ علی علیہ السلام نے اسلام اور مسلمین کی مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ حکومت پر اعتراض کرنے والوں نے تمام مشکلات کو تحمل کر لیا لیکن خلیفہ کی بیعت نہیں کی اور رسول اسلام کا حقیقی جانشین اور عالم اسلام کی مرجعیت کا حقیقی حقدار علی علیہ السلام کو ہی قرار دیا (۱۶) علمی اور معنوی میدان میں آپ کو ہی سب سے زیادہ اعلی و اشرف مانا گیا اس اعتبار سے یہ گروہ سب کو علی علیہ السلام کی طرف ہی دعوت دیتا رہا (۱۷)۔
جانشینی اور علمی مرجعیت دو اہم مسئلے
اسلامی تعلیمات کی بنا پر شیعہ اس بات کے معتقد تھے کہ سماج کے اندر جو چیز اول درجہ اہمیت کی حامل ہے وہ اسلامی تعلیمات اور دینی ٖثقافت کی نشر و اشاعت ہے (۱۸) دوسرے درجہ پر ان کا حد کمال کو پہچانا ہے۔
دوسرے الفاظ میں، اولاً؛ سماج کے لوگوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ باقی دنیا کی نسبت ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ان کو بجا لانا چاہیے اگر چہ مخالفین کو اچھا نہ لگے۔
ثانیاً؛ ایک دینی حکومت کو سماج کے اندر واقعی طور پر اسلامی نظم اور نسق برقرار کرنا چاہیے اس طریقے سے کہ لوگ سوائے خدا کے کسی کی پرستش نہ کریں اور مکمل آزادی اور اجتماعی عدالت سے بہرہ مند ہوں اور یہ دونوں وظائف اس شخص کے توسط سے انجام پانا چاہیے جو الہی عصمت کا مالک ہو ورنہ ممکن ہے کچھ ایسے افراد اس منصب پر بیٹھ جائیں اور احکام صادر کرنے لگیں جو خود ان احکام سے بحد کافی آشنائی نہ رکھتے ہوں اور بجائے دوسروں کی اصلاح کے ان کی گمراہی کا سبب بنیں اور بجائے اس کے کہ اسلامی سماج میں اسلامی عدالت قائم ہو، ملک قیصر و کسریٰ میں تبدیل ہو جائے اور دین کی پاکیزہ تعلیمات دوسرے ادیان کی طرح تحریف کا شکار ہو جائیں ایسے میں اس دور کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صرف وہی شخص امور مملکت کو اپنے ذمہ لے سکتا تھا جو رسول اسلام(ص) کی تائید اور تصدیق سے اپنے تمام اعمال اور اقوال میں معصوم اور مکمل طور پر کتاب و سنت کی روش پر عمل پیرا ہوتا ہو ۔ اور ایسی ذات تنہا علی علیہ السلام کی ذات گرامی تھی۔(۱۹)
اور اگر چنانچہ اکثریت یہ کہتی بھی تھی کہ خلافت موجودہ خلیفہ کا حق نہیں ہے تو قریش انہیں اپنے تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی آواز کو دبا دیتے۔ جیسا کہ ایک جماعت نے زکات دینے سے انکار کیا تو ان کے ساتھ جنگ کی اور زکات نہ لینے سے نظر اندازی نہیں کی۔
جی ہاں شیعوں نے اس کے باوجود کہ حکومت وقت کی تائید نہیں کی اصل اسلام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے کھلے عام مخالفت کرنے سے بھی گریز کیا اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے روز مرہ امور، ان کے اجتماعی امور اور جنگی مسائل میں شرکت کرتے تھے حتی امیر المومنین علی علیہ السلام انہیں جنگی مسائل میں مشورہ دیتے اور جہاں اسلام کو خطرہ ہوتا مداخلت کرتے اور جب خلفاء وقت باہر سے آنے والے افراد کے سوالوں کے جواب دینے سے عاجز ہو جاتے تو آپ آگے بڑھ کر ان کے جواب دیتے اور انہیں قانع کر کے بھیجتے تھے۔ (۲۰)۔
انتخاب خلافت کے طریقے پر شیعوں کا نظریہ
شیعہ معتقد تھے کہ اسلامی شریعت جس کا منبع کتاب الہی اور سنت رسول ہے قیام قیامت تک اپنے اعتبار پر باقی ہے اس میں ہر گز کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ (۲۱) اور اسلامی حکومت نفاذ شریعت میں کسی قسم کا عذر اور بہانہ پیش نہیں کر سکتی اس کی صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ شوریٰ کے مشورہ سے شریعت کے سائے میں وقت کے تقاضے کے مطابق تصمیم لے۔ لیکن خلافت کے مسئلے میں شیعوں کے خلیفہ وقت کی بیعت نہ کرنے کی وجہ، بیعت لینے والوں کی طرف سے سنت رسول کو نظر انداز کر دینا تھا۔ رسول اسلام کا بستر بیماری پر قلم و دوات طلب کرنا اور کچھ منافقین کی طرف سے توہین رسالت کرنا اور شان رسالت میں گستاخی کر کے آپ کو منفی جواب دینا اور جنازہ رسول کو چھوڑ کر خلافت کی لالچ میں سقیفہ قائم کرنا یہ وہ اسباب تھے جنہیں رسول اسلام(ص) کے جید صحابہ کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی انہیں فراموشی کے حوالے کر کے بیعت کر سکتے تھے۔ شیعہ کتاب الہی اور سنت رسول دونوں کو ہمطراز سمجھتے تھے لیکن حکومت وقت کے نزدیک سنت رسول کی کوئی اہمیت نہیں تھی حکومتی عہدہ دار اس بات کے قائل تھے کہ کتاب خدا ایک قانونی کتاب ہونے کے حوالے سے اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کافی ہے سنت رسول کوئی اعتبار نہیں رکھتی، حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنت رسول کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس نظریہ کے پیش نظر صحابہ کی شان میں کئی حدیثیں گڑھ لیں کہ صحابہ مجتہد ہیں اور مجتہد اگر صواب کا فتوی دے تو دو ثواب کماتا ہے اور اگر خطا پر مبنی فتویٰ دے تو ایک ثواب اسے ملتا ہے لہذا صحابہ وقت کے تقاضے کے مطابق تصمیم لے سکتے ہیں جس کا ایک واضح نمونہ خالد بن ولید کا واقعہ ہے خالد بن ولید خلیفہ وقت کے وزراء میں سے تھا جو مالک بن نویرہ کے گھر میں رات کے وقت مہمانی کے عنوان سے داخل ہوا مالک بن نویرہ مسلمانوں کی معروف شخصیات میں سے ایک تھے۔ خالد نے مالک کو دھوکے سے قتل کر دیا اور اس کا سر جدا کر کے چولہے میں جلا دیا اور اس کے بعد اس کی بیوی سے زنا کیا اس شرم ناک واقعہ کے بعد خلیفہ وقت نے اسے سزا دینا تو دور کی بات اسے اس کے مقام سے معزول بھی نہیں کیا اور اس کے گناہ کبیرہ کو اجتہادی خطا کا لقب دے کر اسلامی حد جاری کرنے سے بری قرار دیا (۲۲)! ( تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف سنت رسول کی مخالفت کر کے اس کے اعتبار کو ختم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اپنے شرمناک اعمال کو شرعی رنگ دینے کے لیے منگھڑت سنت کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے اور اسے سنت رسول کی طرف نسبت دے کر صحابہ کے گناہوں کو اجتہاد کی عبا سے چھپایا جا رہا ہے)۔
اس کے علاوہ اسلامی حکومت نے اہلبیت اور اولاد رسول(ص) کو خمس سے محروم کر دیا (۲۳) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی احادیث کو نقل کرنا کلی طور پر ممنوع قرار دے دیا۔ اور اگر کہیں کوئی حدیث نقل کی جاتی یا لکھی جاتی تھی تو ناقل کو سزا اور حدیث کو جلا دیا جاتا تھا۔(۲۴) اور یہ ممنوعیت خلفاء راشدین سے لے کر عمر بن عبد العزیز کے زمانے تک باقی رہی، (۲۵) دوسرے خلیفہ کے دور میں یہ سیاست واضح تر ہو گئی خلیفہ دوم نے شریعت کے اندر تحریف کا کام کھلے عام شروع کر دیا حج تمتع اور متعہ نساء کو حرام، اور ’’ حی علی خیر العمل‘‘ کو اذان میں ممنوع قرار دیا۔ (۲۶) اس کے علاوہ تین طلاق کے طریقے کو بدل دیا۔ (۲۷)
دوسرے خلیفہ کا دور تھا کہ بیت المال لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم نہیں ہوتا تھا (۲۸) جس کی وجہ سے بعد میں مسلمانوں کے درمیان طبقاتی اختلافات ایجاد ہو گئے جو ایک دوسرے کے خون پینے کا باعث بنے۔ انہی کے زمانے میں معاویہ نے شام میں قیصر و کسریٰ کی طرح حکومت کی اور خلیفہ نے اسے کسرائے عرب کا نام دے دیا لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
خلیفہ دوم سن ۲۳ ہجری کو ایک ایرانی غلام کے ہاتھوں مارے گیے اور چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں اکثریت کے رائے سے حضرت عثمان کو خلیفہ سوم منتخب کیا گیا۔ تیسرے خلیفہ نے حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لیتے ہی اپنے تمام رشتہ داروں اور بنی امیہ کے سفاک ترین افراد کو دیگر تمام مسلمانوں پر مسلط کر دیا؛ حجاز، عراق، مصر اور دیگر اسلامی بلاد میں حکومت کی باگ ڈور سب بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ (۲۹) بنی امیہ نے اسلامی قوانین کو ایک گوشے میں رکھ کر اپنی قانون نافذ کر دی، ظلم و ستم، قتل و غارت اور فسق و فجور کا سلسلہ شروع کردیا۔ خلیفہ کے پاس ان کے وزیروں کی شکایتوں کی بوچھاڑ ہونے لگی، خلیفہ مسلمانوں کی باتوں اور شریعت الہی کو نظر انداز کر سکتے تھے لیکن اپنی کنیزوں کی باتوں اور خاص کر مروان بن حکم کے مشوروں کو کیسے درکنار کر سکتے تھے؟۔(۳۰) لوگوں کی شکایتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات انہیں شکایت کے نتیجہ میں الٹی ڈانٹ جھپٹ کھانا پڑتی تھی۔ (۳۱) انہی کارناموں کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ۳۵ ہجری کو لوگوں نے ان پر شورش برپا کی اور چند دن محاصرہ کرنے کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
خلیفہ سوم نے اپنے عہد خلافت میں حکومت شام کو معاویہ سے رشتہ داری کی بنا پر پہلے سے زیادہ قوی کیا در حقیقت حکومت کا مرکز شام ہو گیا اور مدینہ صرف تشریفاتی حیثیت کا حامل ہو گیا۔ (۳۲) خلیفہ اول کی خلافت اکثریت صحابہ کی رائے سے منتخب ہوئی، خلیفہ دوم پہلے کی وصیت سے اور خلیفہ سوم چھے افراد پر مشتمل شوریٰ کے ذریعے منتخب ہوئے جس کے آئین نامے کو دوسرے خلیفہ نے پہلے سے مرتب کر رکھا تھا۔ اور کلی طور پر تینوں خلفاء کی ۲۵ سالہ خلافت کے دور میں یہ سیاست رہی کہ اسلامی قوانین اجتہاد اور وقتی مصلحت کے مطابق سماج میں نافذ ہوں اور اسلامی سماج میں یہ چیز رائج کر دی گئی کہ قرآن بغیر تفسیر اور دقت کے پڑھا جائے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی کوئی حدیث نہ کاغذ پر لکھی جائے اور نہ کسی کی زبان پر جاری ہو۔
صرف قرآن کا کتابت کرنا جائز تھا حدیث کی کتابت سختی سے منع تھی(۳۳) جنگ یمامہ کے بعد جو ہجرت کے بارہویں سال وقوع پذیر ہوئی اور جس میں بہت سارے قاری قرآن قتل ہو گئے اس جنگ کے بعد عمر بن خطاب نے آیات قرآن کی جمع آوری کا حکم دیا کہ کچھ لوگ مصحف کو جمع کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں وہ اپنے دستور میں یہ کہتے ہیں کہ کوئی اور ایسی جنگ واقع ہو گئی تو یہ باقی ماندہ قاری بھی ختم ہو جائیں گے تو قرآن کلی طور پر ہمارے درمیان سے ختم ہو جائے گا لہذا ضروری ہے کہ آیات قرآنی کی جمع آوری کی جائے اور اسے مصحف کی شکل دی جائے (۳۴)۔
قرآن کریم کے سلسلے میں یہ تصمیم لیا گیا حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث کہ ’’ بہت سارے ایسے قرآن پڑھنے والے ہیں جن پر خود قرآن لعنت کرتا ہے‘‘ فراموش کر دی گئی اس لیے کہ قرآن کی جمع آوری میں نقل بمعنی، زیادہ، کمی اور بھول چوک کا امکان پایا جاتا تھا اس لیے کہ کوئی بھی انکے درمیان معصوم تو تھا نہیں۔ قرآن کی جمع آوری کا سلسلہ شروع ہوا لیکن احادیث کو نقل کرنا جرم تھا جو حدیث لکھی جاتی تھی اسے اسے جلا دیا جاتا تھا،یہاں تک کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد اسلام کے ضروریات جیسے نماز و روزے کے مسائل میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا اور قرآن کریم اور احادیث رسول میں علم کو حاصل کرنے اور اسے وسعت دینے کے بارے میں جتنی تاکید اور تشویق ہوئی تھی سب بے اثر ثابت ہوئی۔ اور مسلمان صرف جنگوں اور پے در پے فتوحات اور غنائم جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔ انہیں علم و معرفت حاصل کرنے اور اہلبیت رسول(ع) کہ جن میں کی عالم ترین شخصیت حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان موجود تھے، سے کچھ سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی حتی قرآن کریم کی جمع آوری میں بھی ان سے کوئی مشورہ یا ان کی مشارکت حاصل نہیں کی جبکہ آپ رسول اسلام(ص) کی رحلت کے فورا بعد کچھ عرصہ خانہ نشین ہو کر قرآن کریم کو نزول کے مطابق مرتب کر چکے تھے(۳۵)
یہ مسائل اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل اس بات کا سبب بنے کہ علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو اپنے عقیدہ میں زیادہ پکا کریں اور ان امور اور وقائع کی نسبت انہیں زیادہ ہوشیار کریں۔ علی علیہ السلام بھی جو کھلے عام لوگوں کی تربیت کرنے سے قاصر تھے خصوصی طور پر کچھ لوگوں کی تربیت میں مصروف رہے۔
اس ۲۵ سالہ دور خلافت میں علی علیہ السلام کے چار عظیم اور صمیمی ساتھیوں میں سے تین (سلمان فارسی، ابوذر غفاری اور مقداد) دنیا سے چل بسے لیکن کثیر تعداد میں دیگر صحابہ اور تابعین حجاز، یمن، عراق اور دوسری جگہوں سے علی علیہ السلام کے گرویدہ ہو گئے۔ اور انہوں نے آپ کی سیرت اختیار کر لی، نتیجہ میں خلیفہ سوم کے قتل کے بعد ہر طرف سے لوگ آپ کے در پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو بیعت لینے پر مجبور کر دیا اور خلافت کی لگام آپ کے ہاتھوں میں لاکر رکھ دی۔
سلسلہ خلافت کا امیر المومنین (ع) پر اختتام اور آپ کی سیرت عملی
امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت سن ۳۵ ہجری قمری کی ابتدا میں شروع ہوئی اور تقریبا چار سال اور پانچ مہینے تک باقی رہی۔ علی علیہ السلام نے اپنے دور خلافت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کا احیاء کیا اور اسے دوبارہ اسلامی سماج کے اندر نافذ کیا۔ (۳۶) اور جو گزشتہ خلافتوں کے دور میں دین اسلام کے اندر تبدیلیاں واقع ہوئیں انہیں اصلی حالت میں لانے کی کوشش کی نیز حکومتی امور میں جو نالائق افراد تھے انہیں درکنار کر دیا۔ (۳۷) در حقیقت امیر المومنین علیہ السلام کا دور حکومت ایک انقلابی تحریک تھی جس نے اسلام کو دوبارہ زندگی عطا کی۔
علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے پہلے دن ہی تقریر میں یہ فرما دیا: آگاہ ہو جاو! جو مشکلات رسول اسلام (ص) کے دور میں تم لوگوں کے دامنگیر تھیں وہ دوبارہ لوٹ آئی ہیں اب دوبارہ تم لوگوں کو زیر و رو ہونا پڑے گا اور صاحبان فضیلت آگے آئیں گے اور نااہل پیچھے۔ (آج حق اور باطل دونوں کے ماننے والے ہیں) اور اگر باطل کے ماننے والے زیادہ ہیں تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اور اگر حق کے ماننےوالے کم ہیں تو کبھی کم بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور ان میں ترقی کی امید بھی زیادہ ہوتی ہے۔ البتہ بہت ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز انسان کی طرف پشت کر لے دوبارہ اس کی طرف اپنا رخ موڑ لے۔(۳۸)
علی علیہ السلام نے اپنی انقلابی تحریک کو جاری رکھا جیسا کہ ہر انقلابی تحریک کا لازمہ یہ ہے کہ وہ دشمن عناصر مخالفت کا جھنڈا لہرا کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کے مفادات خطرہ میں ہوتے ہیں۔ خلیفہ سوم کے خون کا بدلہ لینے والے کئی شر پسند عناصر نے اسلام کے اندر داخلی طور پر جنگیں برپا کیں جو تقریبا امیر المومنین علیہ السلام کے پورے دور خلافت میں چلتی رہیں اور جنہوں نے آپ کی خلافت کو انتہائی متاثر کیا۔ ان جنگوں کے اسباب فراہم کرنے والے افراد صرف اپنے ذاتی مفادات رکھتے تھے اور خلیفہ سوم کا انتقام صرف ایک بہانہ تھا ورنہ ان کے قتل میں خود یہی لوگ شریک تھے۔ (۳۹)۔ پہلی جنگ کہ جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے اس کا سبب وہ طبقاتی اختلاف تھا جو دوسرے خلیفہ کے دور میں بیت المال کی تقسیم کے سلسلے میں وجود میں آیا تھا۔ علی علیہ السلام نے لگام خلافت کو ہاتھ میں لیتے ہی بیت المال کو برابر سے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا۔ (۴۰) جیسا کہ سیرت رسول اسلام بھی یہی تھی آپ کا یہ طریقہ کار طلحہ و زبیر کو سخت برا لگا انہوں نے زیارت کے بہانے مکہ کا سفر اختیار کیا اور ام المومنین عایشہ کہ جو مکہ میں تھیں اور علی علیہ السلام کے ساتھ زیادہ اچھے روابط نہیں رکھتی تھیں کو اپنے ساتھ لیا اور جنگ جمل کے لیے آمادہ کر کے مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر دیا۔(۴۱)
یہی طلحہ و زبیر اس کے باوجود کہ مدینہ میں تھے جب خلیفہ سوم کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا اور خلیفہ سوم کے گھر کو محاصرہ میں لیا گیا تو انہوں نے اس وقت ان کا کوئی دفاع نہیں کیا۔ (۴۲) اور ان کی موت کے بعد سب سے پہلے وہ افراد جنہوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی بیعت کی (۴۳) یہی لوگ تھے اور اسی طرح ام المومنین عایشہ خود ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے خلیفہ سوم کے قتل کے لیے لوگوں کو اکسایا۔(۴۴) اور جب پہلی بار خلیفہ کے قتل کی خبر سنی تو اسے گالیاں دیں اور خوشی کا اظہار کیا۔ در اصل خلیفہ کے قتل کے اسباب فراہم کرنے والے اصلی لوگ خود صحابہ تھے جو مدینہ سے دور دراز کے علاقوں میں خطوط لکھتے اور لوگوں کو ان کے قتل پر ابھارتے تھے۔
دوسری جنگ جسے جنگ صفین کہا جاتا ہے اور جو ایک سال چھ مہینے تک کھچ گئی تھی اس کا سبب خلافت کی وہ لالچ تھی جس کا خمار معاویہ کے دماغ میں چڑھا ہوا تھا اس نے بھی بظاہر خلیفہ سوم کے انتقام کو بہانہ بنا کر جنگ برپا کی اور کئی ہزار لوگوں کا ناحق خون بہایا۔ معاویہ نے اس جنگ میں حملہ کیا نہ کہ دفاع کیا اس لیے کہ خونخواہی اور انتقام کبھی بھی دفاعی صورت میں انجام نہیں پاتا۔
اس جنگ کا عنوان’’خلیفہ سوم کا انتقام‘‘ تھا اس کے باوجود کہ خلیفہ سوم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس پر آشوب ماحول میں معاویہ سے مدد مانگی تو معاویہ نے شام سے لشکر تیار کیا اور مدینہ کے راستے میں جاکر مدینے سے باہر اتنا رکا رہا کہ ادھر خلیفہ کو مار ڈالا گیا اس کے بعد شام واپس چلا گیا اور قصاص کے بہانے سے قیام کر لیا۔(۴۵)
اسی طریقے سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے خلافت پر قبضہ کر لیا پھر اسے خلیفہ سوم یاد نہیں رہے اور نہ ان کے قاتلوں کی تلاش کرنا اس کے پیش نظر رہا!۔
جنگ صفین کے بعد جنگ نہروان وجود میں آئی اس جنگ میں کچھ لوگ جن میں صحابی بھی تھے جنگ صفین میں معاویہ کے اکسانے پر علی علیہ السلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے اسلامی ممالک میں آپ کے خلاف تبلیغات شروع کیں اور جہاں جہاں امیر المومنین علیہ السلام کے چاہنے والے تھے انہیں شہید کر دیا حتی انہوں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کئے اور ان کے شکموں سے بچوں کو نکال کر ذبح کیا۔(۴۶)
علی علیہ السلام نے اس فتنے کو بھی بڑی ہوشیاری سے سمیٹا لیکن کچھ عرصے کے بعد مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں بعض خوارج کے ہاتھوں آپ شہید ہو گئے۔
حواشی و حوالہ جات
۱: شیعہ وہ نام ہے جو رسول خدا(ص) کے زمانے میں خود آپ کی زبان مبارک پر جاری ہوا اور اس کے بعد جناب سلمان، مقداد اور عمار یاسر اس نام سے معروف ہو گئے۔(حاضر العالم الاسلامی،ج 1،ص 188)
2: و انذر عشیرتک الاقربین (سوره شعرا،آیه 214)
۳: اس حدیث کے ذیل میں علی(ع) نے فرمایا: میں نے جو اس وقت سب سے چھوٹا تھا کہا: میں آپ کا وزیر بنوں گا۔ پیغمبر نے اپنا ہاتھ میری پشت پر رکھا اور فرمایا: یہ نوجوان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ہو گا لہذا اس کی اطاعت کرو۔ لوگ ہنس رہے تھے اور ابی طالب سے کہہ رہے تھے: تمہیں اپنے بیٹے کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ (تاریخ طبری،ج 2 ص 321.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 116.البدایة و النهایة،ج 3،ص 39.غایة المرام،ص 320)
۴: ام سلمہ کہتی ہیں: پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: علی ہمیشہ حق اور قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن اور حق بھی ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ ( یہ حدیث اہل سنت کے درمیان ۱۵ طریقوں سے اور اہل تشیع کے درمیان ۱۱ طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور ام سلمہ، ابن عباس، ابوبکر، عایشہ، علی، ابو سعیدخد ری، ابولیلی اور ابوایوب انصاری اس کے راویوں میں سے ہیں۔ غایة المرام بحرانی،ص 539 و 540۔ البدایة و النهایه،،ج 7،ص 36)
۵: پیغمبر اکرم نے فرمایا: ’’حکمت کی دس قسمیں ہیں جس میں سے نو علی کو عطا کی گئی ہیں اور ایک پوری امت کو‘‘۔(البدایة و النهایة،ج 7،ص 359)
۶: جب کفار مکہ نے محمد مصطفیٰ (ص) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا کر ان کے گھر کو گھیرے میں لیا اور پیغمبر نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کر لیا تو علی (ع) سے فرمایا: کیا تم راضی ہو رات کو میرے بستر پر سو جاو تاکہ دشمن یہ سمجھیں کہ میں سو رہا ہوں اور میرا پیچھا نہ کریں؟‘‘۔ علی (ع) نے ان خطرناک حالات میں آپ کی فرمائش کو دل و جان سے قبول کیا اور تلواروں کے سائے میں سو گئے۔
7: تواریخ و جوامع حدیث.
۸: حدیث غدیر شیعہ سنی علماء کے درمیان متواترہ اور مسلمہ حدیثوں میں سے ہے جو سو سے زیادہ صحابیوں کے ذریعے نقل ہوئی ہے اس کے بارے میں تفصیل سےجاننےکے لیے رجوع کریں: غایة المرام،ص 79 ، عبقات الانور،جلد غدیر اور الغدیر کی طرف۔
9: تاریخ یعقوبی (ط نجف) ج 2،ص 137 و 140.تاریخ ابی الفداء ج 1،ص .156؛ صحیح بخاری،ج 4،ص 107.مروج الذهب،ج 2،ص 437.ابن ابی الحدید،ج 1،ص 127 و .161
10: صحیح مسلم،ج 15،ص 176.صحیح بخاری،ج 4،ص 207.مروج الذهب،ج 2،ص 23 و ج 2،ص 437.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 127 و .181
۱۱: جابر کہتے ہیں: میں پیغمبر اکرم کی خدمت میں تھا کہ علی دور سے نمایاں ہوئے۔ پیغمبر نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت میں کامیاب ہیں‘‘۔ ابن عباس کہتے ہیں جب یہ آیت ’’ ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئک هم خیر البریة‘‘ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے علی سے فرمایا: ’’اس آیت کے مصداق آپ اور آپ کے شیعہ ہیں جو قیامت میں راضی ہوں گے اور خدا بھی آپ سے راضی ہو گا‘‘۔ یہ دو حدیثیں اور اس طرح کی دسیوں حدیثیں تفسیر الدر المنثور، ج ۶، ۳۷۹ اور غایۃ المرام، ص۳۲۶ میں نقل ہوئی ہیں۔
۱۲: پیغمبر اکرم نے اپنی رحلت سے پہلے اسامہ بن زید کی سرداری میں ایک لشکر تیار کر کے مدینے سے باہر جنگ کے لیے روانہ کیا اور سوائے حضرت علی کے سب کو اس جنگ میں شرکت کا حکم دیا بعض نے اس حکم کی مخالفت کی جن میں سر فہرست حضرت ابوبکر اور عمر تھے اس واقعہ نے پیغمبر اکرم کو شدید ناراحت کیا۔ (شرح ابن ابی الحدید،ط مصر،ج 1،ص 53)
پیغمبر اکرم نے اپنی وفات سے قبل فرمایا: ’’ دوات اور قلم لاو تاکہ میں تمہیں ایک وصیت لکھ کر دوں تاکہ میری بعد گمراہ نہ ہو‘‘۔ حضرت عمر نے آپ کو قلم و دوات دینے سے منع کر دیا اور کہا: یہ بیماری کی حالت میں ہذیان کہہ رہے ہیں !!! (معاذ اللہ) (تاریخ طبری،ج 2،ص 436.صحیح بخاری،ج 3.صحیح مسلم،ج 5.البدایة و النهایه،ج 5،ص 227.ابن ابی الحدید،ج 1،ص 133)
جبکہ یہ واقعہ خلیفہ اول کی موت کے وقت بھی تکرار ہوا اور خلیفہ اول نے حضرت عمر کی خلافت کی وصیت کی جبکہ وہ وصیت کرتے وقت بیہوشی کے عالم میں تھے لیکن یہاں پر حضرت عمر نے کچھ نہیں کہا حالانکہ پیغمبر اکرم معصوم اور آپ کے حواس صحیح و سالم تھے۔ (روضة الصفا،ج 2 ص 260)
13:شرح ابن ابی الحدید،ج 1،ص 58 و ص 123135.یعقوبی،ج 2،ص 102.تاریخ طبری،ج 2،ص 445 .460
1۴:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 103106.تاریخ ابی الفداء ج 1،ص 156 و 166.مروج الذهب،ج 2،ص 307 و 352.شرح ابن ابی الحدید،ج 1،ص 17 و .134
۱۵: عمرو بن حرث نے سعید بن زید سے کہا: کیا کسی نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا؟ اس نے جواب دیا: کسی نے مخالفت نہیں کی مگر وہ لوگ جو مرتد ہو گئے تھے یا مرتد ہونے کے قریب تھے! (تاریخ طبری،ج 2،ص 447)
۱۶: حدیث ثقلین میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ قرآن اور اہلبیت قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے‘‘۔ یہ حدیث سو طریقوں سے زیادہ ۳۵ صحابہ کے ذریعے نقل ہوئی ہے۔ رجوع کریں غایۃ المرام، ص۲۱۱۔
نیز پیغمبر اکرم نے فرمایا: میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں لہذا جو شخص علم کا طالب ہے اس کے دروازے سے داخل ہو۔ (البدایة و النهایه،ج 7،ص 359)
۱۷: تاریخ یعقوبی، ج۲،ص ۱۰۵ سے ۱۵۰ تک
۱۸: فرمان رسول: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمہ،(بحار،ج 1،ص 172)
19:البدایة و النهایه،ج 7،ص .360
20:تاریخ یعقوبی،ص 111،126 و .129
۲۱: خداوند عالم کا ارشاد ہے: و انه لکتاب عزیز لا یأتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه۔ ’’قرآن ایسی مستحکم کتاب ہے جس کے پس و پیش سے ہر گز باطل وارد نہیں ہو سکتا‘‘۔(سوره فصلت،آیه 41 و 42)
ان الحکم الا لله؛ خدا کے علاوہ کوئی صاحب حکومت نہیں ہے۔ (سوره یوسف،آیه 67) یعنی صرف اگر شریعت اور قوانین کوئی قابل اجرا ہے تو وہ صرف اللہ کی شریعت اور اس کا قانون ہے۔
و لکن رسول الله و خاتم النبیین؛ لیکن (رسول) اللہ کے رسول اور خاتم نبیین ہیں (سوره احزاب،آیه 40) اس آیت سے پیغمبر اکرم کی ختم نبوت و شریعت ثابت ہوتی ہے۔
و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکافرون . جو خدا کے حکم کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے۔ (سوره مائده،آیه 44)
۲۲: تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 110.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص .158
۲۳: در المنثور،ج 3،ص 186.تاریخ یعقوبی،ج 3،ص 48 علاوہ از ایں خود قرآن میں وجوب خمس کے بارے میں واضح آیت موجود ہے۔ و اعلموا انما غنمتم من شی ء فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی ، (سوره انفال،آیه 41)
۲۴: حضرت ابوبکر نے اپنے دور خلافت میں پانچ سو حدیثوں کو جمع کیا عایشہ کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ رات سے صبح تک میں نے اپنے باپ کو مضطرب دیکھا صبح انہوں نے مجھ سے کہا: حدیثوں کو لے کر آو میں لے کر آئی انہوں نے سب کو جلا دیا۔ (کنزل العمال،ج 5،ص 237)
حضرت عمر نے تمام شہروں کو لکھا: جس کے پاس جو حدیث ہے وہ نابود ہو جانا چاہیے (کنز العمال ج 5،ص 237)
محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: عمر کے زمانے میں بہت ساری احادیث جمع ہو گئی تھیں جب انہیں ان کے پاس لے کر گئے تو انہیں جلا دیا گیا۔(طبقات ابن سعد،ج 5،ص 140)
۲۵: 25تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 151
۲۶: پیغمبر اکرم (ص) نے حجۃ الوداع میں اعمال حج کو آیہ فمن تمتع بالعمرہ۔۔۔ کے مطابق ان لوگوں کے لیے جو بیرون مکہ سے آتے ہیں ایک خاص شکل میں انجام دینے کا حکم دیا لیکن حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں اس عمل کو حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح رسول خدا کے زمانے میں عقد موقت (متعہ) جائز اور رائج تھا حضرت عمر نے اپنی خلافت کے دور میں اس پر قدغن لگا دی اور مخالفت کرنے والوں کے لیے سزا مقرر کر دی۔ اسی طرح زمانہ پیغمبر میں اذان کے اندر حی علی خیر العمل کہا جاتا تھا لیکن اس جملہ کو اذان سے نکال دیا کہ اس کی وجہ سے لوگ جہاد کو اہمیت نہیں دیتے۔ اسی طرح رسول کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک ہی طلاق انجام پاتا تھا لیکن خلیفہ دوم نے اجازت دے دی کہ ایک مرتبہ ہی تینوں طلاق دے سکتے ہیں!! یہ تمام وہ مسائل ہیں جو حدیث، فقہ اور علم کلام کی کتابوں میں موجود ہیں۔
۲۷: تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 131.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص .160
28:اسد الغابة،ج 4،ص 386.الاصابه،ج .3
29:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 150.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 168.تاریخ طبری،ج 3،ص 377 و غیرہ .
30:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 150.تاریخ طبری،ج 3،ص .397
۳۱: اہل مصر کے ایک گروہ نے حضرت عثمان پر دھاوا بولا تو حضرت عثمان نے خطرے کا احساس کر کے حضرت علی علیہ السلام سے مدد طلب کی اور اپنی نالائقی اور پشیمانی کا اظہار کیا۔ علی علیہ السلام نے مصریوں سے فرمایا: تم لوگوں نے حق کو احیاء کرنے کے لیے قیام کیا ہے اور عثمان نے توبہ کر لی ہے اور کہہ رہے ہیں: میں اپنے کئے پر نادم ہوں اور آئندہ تین دن میں آپ کے مطالبات پورا کروں گا اور ظالم گورنروں کو معزول کروں گا۔ اس کے بعد علی علیہ السلام نے عثمان کی طرف سے ایک قرار داد لکھی اور لوگ واپس چلے گئے۔
راستے میں حضرت عثمان کا غلام مل گیا جو اونٹ پر سوار تھا اور مصر کی طرف جا رہا تھا لوگ اس پر مشکوک ہوئے اور اس کی تلاشی شروع کر دی۔ اس کے پاس سے ایک خط ملا جو حضرت عثمان نے حاکم مصرکی طرف لکھا تھا جس میں یہ مضمون تھا:’’ بنام خدا، جب عبد الرحمان بن عدیس تمہارے پاس پہنچے تو اسے سو کوڑے مارنا اور اس کا سر و ڈاڑھی مونڈھ کر طویل عرصے کےلیے جیل میں ڈال دینا اور یہ کام عمرو بن احمق، سودان بن حمران اور عروۃ بن نباع کے ساتھ بھی انجام دینا!!
لوگوں نے غلام سے خط چھینا اور دوبارہ حضرت عثمان کی طرف لوٹ آئے اور کہا: تم نے ہمارے ساتھ خیانت کی ہے عثمان نے خط کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ لیکن لوگوں نے کہا تمہارے غلام کے پاس خط تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ میری اجازت کے بغیر اس عمل کا مرتکب ہوا ہے۔ کہا: اس کی سواری تمہارا اونٹ تھا۔ کہا: چوری کر کے لےگیا۔ کہا: خط تمہارے امضا اور مہر کے ساتھ ہے، جواب دیا کہ اس نے یہ کام میری اطلاع کے بغیر انجام دیا ہے!
لوگوں نے کہا کہ بہر صورت تم خلافت کے لائق نہیں ہو، تمہیں استعفا دینا ہو گا۔ اس لیے کہ اگر یہ کام تمہاری اجازت سے انجام پایا ہے تو ہمارے ساتھ خیانت ہے اس کی تمہیں سزا ملنا چاہیے اور اگر تمہارے اجازت کے بغیر انجام پایا ہے تو یہ خلافت کےلیے تمہاری عدم صلاحیت کا ثبوت ہے۔ بہر حال یا استعفا دو یا اپنے ظالم عاملین کو معزول کرو۔
حضرت عثمان نےجواب دیا: اگر میں چاہوں کہ تمہاری مرضی کے مطابق عمل کرو تو اس مطلب یہ ہے کہ تم حاکم ہو پس میں کس کام کا ہوں؟ لوگ غصے کی حالت میں دربار سے نکل گئے۔ (تاریخ طبری،ج 3،ص 402409.تاریخ یعقوبی،ج 2 ص 150 و 151)
32:تاریخ طبری،ج 3،ص .377
33:صحیح بخاری،ج 6،ص 89.تاریخ یعقوبی،ج 2،ص .113
34:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 111.تاریخ طبری،ج 3،ص 129 .132
۳۵: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۱؛ شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۹۔ بہت ساری روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر کی بیعت کے بعد کچھ لوگوں کو حضرت علی (ع) کے پاس بھیجا گیا اور ان سے بیعت کا مطالبہ کیا علی علیہ السلام نے جواب دیا میں نے عہد کیا ہے کہ سوائے نماز کے گھر سے باہر نہ نکلوں یہاں تک کہ قرآن کریم کی جمع آوری نہ کر لوں۔ نیز نقل ہوا ہے کہ حضرت علی چھ مہینے تک گھر سے باہر نہیں نکلے اور اس دوران جمع آوری قرآن کر کے مکمل کیا۔ اس کے بعد جمع شدہ قرآن کے مصحف کو ایک اونٹ پر حمل کیا اور لوگوں کو لاکر دکھلایا۔ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے جنگ یمامہ جس کے بعد خلفاء نے قرآن جمع کرایا حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوسرے سال انجام پائی۔
36:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص .154
37:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 155.مروج الذهب،ج 2،ص .364
38:نهج البلاغه،خطبه .15
۳۹: رحلت پیغمبر کے بعد بعض انگشت شمار افراد نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور حضرت علی(ع) کی پیروری میں باقی رہے جن میں سر فہرست جناب سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد اور عمار تھے۔ اور خلافت امیر المومنین علی (ع) کے آغاز پر بھی انگشت شمار لوگوں نے آپ کی بیعت کی مخالفت کی اس گروہ میں سر فہرست لوگ سعید بن عاص، ولید بن عقبہ، مروان بن حکم، عمرو بن عاص، بسر بن ارطاۃ، عمرۃ بن جندب، مغیرہ بن شعبہ وغیرہ تھے۔
ان دو گروہوں کی بائیوگرافی کا مطالعہ کرنے اور ان کے کردار کو ملاحظہ کرنے سے بخوبی ان کی شخصیت اور ان کے مقصد کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ پہلا گروہ وہ ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے خاص، زاہد، پرہیزکار اور فداکار صحابہ کا ہے جن کے ساتھ پیغمبر اکرم کو شدید الفت تھی۔ جن کے بارے میں رسول نے فرمایا: خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چار افراد کو دوست رکھتا ہے اور مجھے بھی انہیں دوست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پوچھا گیا کہ ان کے نام کیا ہے تو فرمایا: علی، ابوذر، سلمان اور مقداد۔ (سنن ابن ماجه،ج 1،ص 66)
حضرت عایشہ کہتی ہیں رسول خدا نے فرمایا: اگر دو چیزیں عمار کے سامنے پیش ہوں عمار جو حق ہو گا اسے اختیار کریں گے۔(سنن ابن ماجه،ج 1،ص 66)
نیز فرمایا: ’’ابوذر سے زیادہ سچا زمین اور آسمان میں کوئی نہیں ہے ‘‘۔(سنن ابن ماجه،ج 1،ص 68)
یہ وہ لوگ ہیں جن سے کبھی ایک بار بھی غیر شرعی کام انجام نہیں پایا کسی کا ناحق خون نہیں بہایا، کسی پر ظلم نہیں کیا، کسی کا مال نہیں لوٹا اور کسی کی گمراہی اور فساد کا باعث نہیں بنے۔
لیکن تاریخ دوسرے گروہ کے مظالم اور جرائم سے بھری پڑی ہے کتنوں کے ناحق خون کئے کتنے مسلمانوں کا مال لوٹا، کتنوں کو بیوا کیا، کیسے کیسے شرم آور اعمال انجام دئیے تاریخ انہیں بیان کرنے سے بھی شرمندہ ہے۔ کسی بھی صورت میں یہ کردار قابل توجیہ نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی بعض کا یہ کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے یہ جو چاہیں کرتے جائیں، اسلام کا نقشہ بدلتے جائیں قوانین الہی کو پائمال کرتے جائیں، دوسروں کا حق مارتے جائیں لیکن خدا ان سے راضی ہے!!
40:مروج الذهب،ج 2،ص 362.نهج البلاغه،خطبه 122.تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 160 شرح ابن ابی الحدید ج 1،ص .180
41:تاریخ یعقوبی،ج .تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 172.مروج الذهب،ج 2،ص .366
42:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص .152
43:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 154.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص .171
44:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص .152
۴۵: جب حضرت عثمان حملہ آوروں کے محاصرے میں آ گئے تو انہوں نے معاویہ کو ایک خط کر اس سے مدد مانگی معاویہ نے ۱۲ ہزار کا لشکر تیار کر کے مدینے کی طرف حرکت کی لیکن لشکر کو حکم دیا کہ شام کی سرحد پر رک جائیں۔ اس کے بعد خود عثمان کے پاس آئے اور لشکر کی تیاری کی خبر دی۔ حضرت عثمان نے کہا: تم نے جان بوجھ کر لشکر کو وہاں روکا ہے تاکہ میں قتل ہوجاوں اس کے بعد تم قصاص کا بہانہ کر کے قیام کرو۔ (تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 152.مروج الذهب،ج 3،ص 25.تاریخ طبری،ص 402)
46:مروج الذهب،ج 2،ص .41
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید