اصل بات یہ ہے کہ اب ان عمارتوں اورپلوں کےحوالےسے تحقیق کرنے سےگلگت بلتستان کی غریب عوام کو کیا فایدہ ملے گا.
جیسے نواز شریف اور ان کے اقرباسے کتناپیسہ لےکر قومی خزانے کوبهردیاہے اوربلوچستان کے مشتاق رئیسانی سے پلی بارگین کے زریعے لیے پیسے سے بلوچستان کی مظلوم عوام کوکتنافائدہ ملاہے؟
اسی طرح گلگت بلتستان کےلئے بهی اس سے زیادہ ثمرےکی کیاضمانت ہے؟
کیونکہ نیب کی سابقہ کارکردگی کے مطابق تو ایساہی لگتاہے کہ نیب کے اوپر بهی ایک نیب بیٹهادیناچاہئے.وہ اس لئے کہ نیب کی زد میں حسب معمول فقط غریب طبقہ ہی نےآناہے،اگرکسی نے رشوت دےکرنوکری حاصل کی ہے، تو نوکری اوررشوت میں دیےپیسےدونوں سے ہاته دهوبیٹهے گا،یارشوت دے کرکسی غیرمعیاری سڑک،پل یاعمارت کو اوکے کروایاہے، تواس کا زمہ دار بهی انهیں ہی ٹهراینگے اور اس کےرشوت پہ دیے پیسےبهی چلےجاینگے،مگرلاکهوں ،اربوں کی بدعنوانی کرنےوالے بیوروکریٹس، سیاستدان اورادارےصرف چند لاکه روپےقومی خزانےکو لوٹاکر برئ زمہ ہو ہی جاینگے.
یہ میں اس لیے کہہ رہاہوں کہ ایف.ایی.ایے کی طرح نیب بهی فقط ایک تفتیشی ادارہ ہی ہوتااور پلی بارگین کے نام سےاس ادارے کو عفوو درگزرکرنےکےاس قدر وسیع اختیارات نہ دے دیےہوتے توکم ازکم کوئی جج،سیاستدان،تجزیہ نگار اور صحافی، نیب کو اس قدر متہم نہیں کرسکتا.
آج اگرنیب متہم ہے تو اس بناپرہے کہ نیب نے آج تک جن بندوں کو پکڑاہے ابتداء میں انهیں بدعنوانی کی وہیل اورسائمن مچهلیوں کےنام سے پکڑاہے مگرجب اس شخص نے بدعنوانی کااقرارکیاتومهاشیراورجهنگامچهلی بناکر پیش کیاہےاوران سے ایک تہائی پیسہ قومی خزانےمیں جمع کروانے کاشوشہ چهوڑکرانهیں آزادی کاپروانہ بخشاہے.جس کی وجہ سےدیگرکےبهی حوصلے بلندہوئےہیں کہ وہ بهی آرام سےبڑے پیمانےکی بدعنوانی کرینگےاورپلی بارگین کی شق کےمطابق بدعنوانی کا اقرارکرکےچندپیسے لوٹاکر دیگرپیسوں سےپرتعیش زندگی گزارلیں گے.

اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے حالات اس حوالے سے دیگر صوبوں سے اوربهی مختلف ہونگے کیونکہ گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے کی بدعنوانی وفاقی وزیروں،میشروں اوربیوروکریٹس کے بغیرکوئی لوکل سیاستدان اوربیوروکریٹس کربهی نہیں سکتا.کیونکہ وہاں کے وزیراعلی کوبهی اتنے اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ دیگرصوبوں سے آئے ہوئے مہمان چیف سیکرٹری اور ڈی.ایی.جی.کوبهی کسی کام سے روک سکے.اس لیے یہ خدشہ ممکن ہے کہ کل پکڑے جاینگےتو صرف وہ اشخاص پکڑمیں آینگےجن کے نام چند لاکه روپوں میں ٹهیکے الاٹ ہویے تهے یا پهر جو رشوت لینے کےلئے آلے کےطورپراستعمال ہوئےتهے مگر بدعنوانی کےاصل محرک اور بانیان تو وزیر،مشیر، سیکرٹری،اور چیرمین بن کراسلام آبادمیں گهوم رہے ہونگے

لهذانیب اگرگلگت بلتستان میں بدعنوانی کوجڑسےاکهاڑ پهنکنے کےلئے پہلےغریب عوام کوستانے کے بجایےخستہ حال عمارتوں ،پلوں اورسڑکوں کو اوکے کروانے والے بیوروکریٹس اورسیاستدانوں کواپنی گرفت میں لےکر پهران کے آلہ کار بننے والوں کی خبرلیں تو
اس طرح کے صاف اور شفاف تفتیش پرنیب کی کارکردگی پہ کسی کوانگلی اٹهانےکاحق بهی نہیں پہنچے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے