تازہ ترین

تکفیریت کا مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے، آیت اللہ جعفر سبحانی

 قم کے معروف عالم دین اور مرجع تقلید آیت اللہ جعفر سبحانی نے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی تشکیل کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ دین مبین اسلام کی بنیاد رحمت، مغفرت اور امن و امان پر ہے۔

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 923

مسلمان ماں باپ اپنے بچوں کو سب سے پہلے “بسم اللہ الرحمن الرحیم” کی آیہ کریمہ سکھاتے ہیں۔ اس آیہ کریمہ میں ایسے خدا کو پہچنوایا گیا ہے جو رحمان اور رحیم ہے۔ خدا کی رحمانیت میں تمام انسان شامل ہیں جبکہ اس کی رحیمیت مومنین سے مخصوص ہے۔ یہ بات انہوں نے قم میں منعقد ہونے والی انتہاپسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس کے آستانے پر کہی۔
 
آیت اللہ جعفر سبحانی نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کامیابی کا راز ان کی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی میں مضمر تھا۔ انہوں نے کہا: “حتی خداوند متعال نے ایک آیہ کریمہ میں نبی اکرم (ص) کو مخاطب قرار دیتے ہوئے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ چونکہ خدا نے آپ (ص) کو اپنی رحمت عطا کی ہے جس کے سبب آپ (ص) لوگوں کے ساتھ انتہائی شفقت اور محبت سے پیش آتے ہیں، لہذا لوگوں پر آپ (ص) کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اور اگر آپ (ص) لوگوں کے ساتھ بداخلاقی اور غضب سے پیش آیا کرتے تو کوئی بھی آپ (ص) کے پاس نہ آتے اور سب آپ (ص) سے دور ہوجاتے۔” 
 
مرجع عالی قدر نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام جنگوں اور غزوات میں مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ وہ دشمن پر ظلم نہ کریں اور ان کی خواتین اور بچوں سے نرمی سے پیش آئیں۔ جب بھی آنحضور (ص) اپنے اصحاب کو دین کی تبلیغ کیلئے بھیجا کرتے تھے تو ان پر زور دیتے تھے کہ وہ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت سے پیش آئیں۔ آیت اللہ جعفر سبحانی نے اہلسنت علماء دین کی جانب سے نقل کی جانے والی اس حدیث شریف کی جانب اشارہ کیا کہ ہر وہ چیز جس میں مہربانی شامل ہو زینت اور خوبصورتی محسوب ہوتی ہے۔ اگر ایک معاشرے میں دوستی، محبت، نرم خوئی اور مہربانی ختم ہوجائے تو ایسا معاشرہ انتہائی معیوب اور ناپسندیدہ معاشرہ بن جائے گا۔ 

آیت اللہ جعفر سبحانی نے کہا کہ آج جو گروہ تکفیری کے عنوان سے معرض وجود میں آئے ہیں اور ان کا کام قتل و غارت، عزت لوٹنا اور لوٹ مار کرنا ہے، ان کا اسلام اور الٰہی شریعتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کریم، انجیل اور تورات میں ایسے اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین مبین اسلام میں دین کی تبلیغ کا راستہ معین کر دیا گیا ہے جو عقل، قرآن، سنت اور اتمام حجت کے ذریعے ہے۔ اگر بعض افراد اپنے سابقہ دین پر پابند رہنا چاہیں تو تمام آسمانی ادیان انہیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں، لہذا تکفیری ٹولے نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آیت اللہ جعفر سبحانی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام میں تکفیری گروہوں کی پیدائش عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جو ان دہشت گرد گروہوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ تکفیری گروہوں میں شامل بعض افراد ناسمجھی کا شکار ہیں اور نادانی کے عالم میں ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں جبکہ تکفیری عناصر کی بڑی تعداد سوچ سمجھ کے ساتھ جان بوجھ کر غیر انسانی اقدامات انجام دینے میں مشغول ہیں۔
 
مرجع عالی قدر آیت اللہ جعفر سبحانی نے کہا کہ میں کسی حکومت کا نام نہیں لیتا، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے پاس بذات خود اس قدر پیسہ اور اسلحہ نہ تھا اور خطے کی بعض حکومتوں نے انہیں بڑی مقدار میں پیسہ اور اسلحہ فراہم کیا ہے۔ انہوں نے تکفیری دہشت گروہوں کے اہداف و مقاصد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ایک ہدف جنگ کے ذریعے اسلامی ممالک کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ لہذا تکفیری گروہ ایک ملک کے بنیادی ڈھانچے کو جنگ، بم دھماکوں اور قتل و غارت کے ذریعے نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ تکفیری عناصر کا دوسرا بڑا مقصد اسلام کے خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ وہ اسلام کے نام پر معصوم اور بیگناہ لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور اس کی فلم بنا کر انٹرنیٹ پر شائع کرتے ہیں، تاکہ اسلام کو بدنام کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا تھا اور اگر تکفیریت کی جانب سے اسلام کے نام پر غیر انسانی اقدامات انجام دے کر دنیا والوں کو اسلام سے بدبین نہ کیا جاتا تو آج مغربی دنیا میں اسلام چھا چکا ہوتا۔ لہذا تکفیری گروہوں کو چلانے والی قوتوں نے دو بڑے اہداف حاصل کئے ہیں: ایک تو اسلامی ممالک میں تباہی و بربادی پھیلائی ہے، دوسرا اسلام کو دنیا والوں کے سامنے ایک شدت پسندانہ اور غیر انسانی دین کے طور پر پیش کیا ہے۔
 
آیت اللہ جعفر سبحانی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تکفیری گروہوں کی پیدائش کا اصل مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ آج تکفیریت کے نام سے شروع ہونے والی جنگ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے اور وہ مسئلہ فلسطین سے غافل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مسلمانان عالم کو خبردار کیا کہ مسجد اقصٰی کو شدید خطرہ ہے اور وہ اس کی حفاظت کیلئے آمادہ ہوجائیں۔ مرجع عالی قدر نے کہا: “حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کو معرض وجود میں لانے والوں کا مقصد اسلامی ممالک کے اقتصادی اور سیاسی ڈھانچوں کو تباہ کرنا اور اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنا تھا۔ اسی طرح وہ اسرائیل اس ناپاک سازش کے ذریعے اسرائیل کی قومی سلامتی کو بھی یقینی بنانا چاہتے تھے۔ وہ تکفیریت کے ذریعے رائے عامہ کی توجہ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین سے ہٹانا چاہتے تھے۔ البتہ عالمی استعماری قوتیں تکفیریت کے ذریعے اور بھی بہت سے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہوتے جائیں گے۔” 
 
آیت اللہ جعفر سبحانی نے کہا کہ تکفیری گروہ دنیا بھر سے جوانوں کو اکٹھا کرکے ان کی برین واشنگ کرتے ہیں۔ بے چارے جوان یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت علماء دین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جوانوں کو تکفیری عناصر کے انحراف سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کا راستہ اسلام کا راستہ نہیں، اسلام کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ مسلمان مسلمان کو قتل کرے۔ لہذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ وہ مسلمان جوانوں کی سوچ اور ذہن کو اغوا کر رہے ہیں اور ان کے دماغ میں یہ ڈالتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس کا نتیجہ جنت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک تکفیری دہشت گرد کو گرفتار کیا گیا تو اس کے پاس ایک چمچ تھا، اس سے پوچھا گیا کہ یہ کیوں اپنے پاس رکھا ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگر میں چمچ کے ساتھ مارا جاوں گا تو جنت میں نبی اکرم (ص) کا مہمان بنوں گا اور ان کے ساتھ کھانا کھاوں گا۔ سادہ لوح جوان ایسی باتوں میں آکر اپنے ساتھ بم باندھ کر خودکش دھماکے کر رہے ہیں۔ 
 
مرجع عالی قدر آیت اللہ جعفر سبحانی نے تکفیریت سے مقابلہ کرنے کے بارے میں کہا کہ اگر ہم تکفیریت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو صرف فوجی جدوجہد ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور فکری اقدامات بھی انجام پانے چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تکفیری سوچ کو پروان چڑھانے والے دینی مدارس کو بند ہونا چاہئے کہا کہ بعض ممالک میں سکول کی سطح پر ایسی تعلیمات دی جاتی ہیں جس سے دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیا جاتا ہے، جب تک یہ نصاب تبدیل نہیں کیا جاتا تکفیریت کا خاتمہ ممکن نہیں، لہذا مسلمان علماء اور بزرگ شخصیات کو اس بارے میں سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *