تازہ ترین

تکفیری دہشتگرد شیعہ ۔ سنی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں

سیاسی قونصل کے چیرمین اور حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ علامہ سید ابراھیم امین السید نے “علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں پر عالمی کانفرنس سے خطاب کیا۔

شئیر
20 بازدید
مطالب کا کوڈ: 917

انکی تقریر کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:
میں خدا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس کانفرنس میں شرکت کی توفیق دی ۔ساتھ ہی آپ تمام حضرات اور خصوصا آیۃ اللہ مکارم شیرازی اور آیۃ اللہ جعفر سبحانی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی  خاص خلاقیت کی بنا پر اس کانفرنس کا انعقاد کیا۔
یہ کانفرنس ہمیں اس ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتی ہے جو اسلام نے مسلمانوں کے دوش پر رکھی ہے اور وہ ہے اسلام کا دفاع۔آج یہ کانفرنس اس لئے منعقد کی گئی ہے  کہ تکفیری طرز فکر اور شدت پسندی کا مقابلہ کیا جا سکے۔
میں خلاصہ کے طور پر اس تحریک کے خطرات کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں:
داعشی عناصر کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ اسلام کی تصویر کو بدنما کر دیں۔دور حاضر میں ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ انکی تمام تر کوششیں اس لئے ہیں کہ حقیقی اسلام کے چہرے کو چھپا دیا جائے۔آج پھر اسلام کے تاریخ ساز کردار کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تکفیری تحریک اس بات پر کمر بستہ ہے کہ مسلمانوں کے مشترکات کو نیست و نابود کر دیا جائے اور انکے مشترکہ موقف کو پھیکا کر دیا جائے۔شیعہ ۔ سنی اختلافات کو روز بروز ہوا دے کر شدید کیا جائے تاکہ مختلف علاقوں میں ہو رہے مسلمانوں کے قتل عام کو با آسانی جائز ٹہرایا جا سکے۔
اس کانفرنس کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ چاہتی ہے تکفیری ٹولیوں کی صحیح تصویر اور ماہیت کو اجاگر کرکے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعہ شروع ہونے والی تحریک ہدایت کو بیان کیا جائے۔
امت مسلمہ کے بڑے قیمتی اغراض و مقاصد ہیں۔وہ مسلمانوں کی قدرت اور انکے اتحاد کو کمزور بنانا چاہتے ہیں۔وہ دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر مسلمانوں میں پیدا ہونے والی نیک تحریکوں پر خط بطلان کھینچنا چاہتے ہیں اور یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
تکفیری عناصر اسلامی جمہوریہ ایران، فلسطین اوار لبنان کی اسلامی مزاحمت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔وہ باقاعدہ بین الاقوامی دھشتگردی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی اور عربی ممالک کو اپنے مقابلہ  پر لاکر کھڑا کر دیں۔
ان قسم کی تحریکوں سے مقابلہ ایک ٹھوس، بنیادی اور اسلامی نظریہ پر استوار ہونا چاہئے۔وہ تمام مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔تمام علماء، مراجع، دانشور اور اسلامی مراکز کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو آگاہ کریں۔
ہم آیۃ اللہ مکارم شیرازی کے بیان کی حمایت کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر خطوں میں اس قسم کے اجلاس کے انعقاد کا استقبال کرتے ہیں۔
ہم تمام اسلامی گروہوں کے اتحاد پر زور دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس کانفرنس کے ذریعہ اتحاد کا پیغام دوسروں تک پہونچے۔ساتھ ہی ہم تاکید کرتے ہیں کہ اسلامی مقدسات اور مسلمانوں کی ناموس کو محترم جانا جائے اور انکی ہتک حرمت کو حرام اور باطل قرار دے کر اس سے مقابلہ کیا جائے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *