تازہ ترین

تکفیری ٹولہ اور نام نہاد تحفظ اسلام بل/ تحریر: ایس ایم شاہ

پاکستان، بانی پاکستان محمد علی جناح کی وساطت سے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ اس کا مکمل آئینی دستوری ڈھانچہ 1973ء میں مکمل ہوا۔ جس کے تحت اس ملک میں کوئی بھی آئین اسلام کے خلاف نہیں بن سکے گا۔ جس پر آج تک کوئی اعتراض نہ کرسکا۔ اس آئین کی رو سے شیعہ سنی سب کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5480

دونوں مکاتب فکر کے لوگ آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد اہل سنت بریلوی مسلک کے پیروکار ہیں اور پچیس فیصد شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ دس فیصد آبادی اہل حدیث کی ہے اور بقیہ 5 فیصد غیر مسلموں کی ہے۔ تمام مسلمان اہل بیت رسول ؐ سے محبت کو اپنے عقیدے کا ناقابل تفیک جزء سمجھتے ہیں۔ بالخصوص شیعہ اور بریوی مکاتب فکر کے پیروکار اہل بیت اطہار علیہم السلام سے ایک خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ یوں ملکی آبادی کا 85٪ عاشقان اہل بیت کی ہے۔
80 کی دہائی میں ایک ٹولہ وجود میں آیا، جو مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوکر ان کے درمیان انتشار پیدا کرنے کا سبب بنا اور اس ٹولے کا شعار ہی یہی تھا کہ اپنے علاوہ سب مشرک، بدعتی اور کافر ہیں۔ بہت سارے وہ امور جن کو مسلمانان عالم ابتدائے اسلام سے انجام دیتے آئے تھے، یہ ٹولہ آکر ان کو شرک و کفر گراننے لگا۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کا کھل کر تو وہ انکار نہ کرسکے، لیکن شروع سے اس ٹولے کی یہی کوشش رہی اور ہدف یہی رہا کہ ان کے مقام کو گھٹایا جائے اور لوگوں کے دلوں میں موجزن ان کے عشق و محبت کو کم رنگ کیا جائے۔ اس ہدف کے تحت انھوں نے اصحاب کرام کے مقام کو حد سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی اور وہ افراد جن کے بدنما کردار کے باعث مسلمانان عالم ان کو صحابہ کی صفوں میں شامل کرتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں، ان کو یہ ٹولہ اب صحابہ کی صف میں شامل کرنے لگا۔
ان کے کردار پر لگے بدنما داغ کو مندمل کرنے لیے خود عید میلاد النبی اور اولیاء اللہ کے عرس منانے کو کفر و شرک کا مصداق گرداننے کے باوجود بھی ان مشکوک افراد کا عرس منانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور شرابی، کبابی اور کھلم کھلا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والے یزید کو جو امام حسین علیہ السلام اور صحابہ کرام کا قاتل بھی ہے، اس کی صفائی میں اب کتابیں لکھنے لگا ہے؛ تاکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس متفقہ حدیث “من بعدی اثناء عشر خلیفۃ” سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو ہٹا کر اپنے مرضی کے افراد پر مشتمل مصداق معین کر سکیں۔ حالیہ بل بھی اسی ہدف کی ایک کڑی ہے۔ جس بل کو پیش کرنے والا تکفیری ٹولے کا سرغنہ معاویہ اعظم ہے، اس کا باپ بھی دہشتگردوں کا سربراہ تھا اور ہزاروں بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کے خون سے اس کا ہاتھ رنگین تھا اور اب بیٹا بھی باپ کی تقلید میں ہے۔
اس کا ساتھ دینے والا طاہر اشرفی اور عمار یاسر ہے۔ محبین اہل بیت، ائمہ اطہار کے لیے علیہ السلام کی تعبیر استعمال کرتے ہیں اور ان کے رضی اللہ عنہ ہونے کو مفروغ عنہ سمجھتے ہیں۔ یعنی ان ہستیوں کے معصوم عن الخطا ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ پہلے ہی ان سے راضی و خوشنود ہے۔ لہذا جس طرح انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کا ذکر ہونے پر علیہ السلام یعنی ان پر سلام ہو، کی تعبیر استعمال کرتے ہیں، اسی طرح اہل بیت اطہار علیہم السلام کے لیے بھی یہی تعبیر بروئے کار لاتے ہیں اور ان ہستیوں پر درود و سلام بھیجنے کو حالت نماز میں فرض اور عام حالت میں ذکر شمار کرتے ہیں۔ پیر نصیر الدین نصیر کے بقول اصحاب در والے ہیں اور اہل بیت گھر والے ہیں۔ اب یہ ٹولہ گھر والوں کو گھر سے نکال کر در والوں کے زمرے میں داخل کرنے کی اور در والوں کو اٹھا کر گھر والوں کے برابر لے جانے کی سعی لاحاصل انجام دے رہا ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تکفیری سرغنہ معاویہ اعظم کو اچانک اسلام کی وہ کونسی فکر لاحق ہوگئی کہ جس کے لیے اس نے تحفظ اسلام بل پیش کیا؟ درحقیقت پاکستانیوں کی جان، مال، عزت و آبرو اور عقیدے کو اگر خطرہ لاحق ہے تو یہ خطرہ کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ اسی تکفیری ٹولے کی طرف سے ہے، جس نے اب تک ستر ہزار سے زائد پاک فوج اور بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کا خون بہایا ہے اور اب بھی موقع کی تلاش میں ہے۔ یہی ٹولہ اگر سدھر جائے تو پاکستانی مسلمانوں کو کسی اور سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ آخر اہل بیت رسول کو علیہم السلام کہنے سے اسلام کو کونسا خطرہ لاحق ہوتا ہے؟ اچھا ہوا کہ اس بل کے منظر عام پر آنے کے بعد شیعہ سنی سب متحد ہوکر میدان عمل میں داخل ہوگئے اور اس بل کو ایکٹ بننے نہیں دیا گیا۔
لیکن یہ کافی نہیں بلکہ اس تکفیری سرغنے کو ہمیشہ کے لیے لگام دینے کی ضرورت ہے؛ تاکہ آئندہ کبھی مسلمانوں کے جذباب کو مجروح کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دہشتگرد صوبائی اسمبلی انتخابات میں شریک ہی کیسے ہو پایا۔ بعد ازاں ممبر بن کر اسمبلیوں تک اس نے کیسے رسائی حاصل کی؟ یہ ہمارے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ایسے افراد کو اسمبلیوں میں نہیں بلکہ بند کوٹھریوں میں ہونا چاہیئے، تاکہ اس طرح کی حرکات سے باز رہ سکیں۔ اب پاکستان کے تمام مسلمانوں کو بیدار اور متحد رہنا ہوگا اور تکفیری ٹولے کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے پرعزم ہوکر ہر میدان میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *