ثقافت کے نام پر فحاشی کا بازار گرم
اس بات سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ بلتستان جو دینداری اور اسلامی کلچر کے اعتبار سے ایک ایسا علاقہ ہے جو قدیم زمانے سے ابھی تک اپنی مثال آپ ہے، جس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، جس میں رہنے والوں کی رواداری، انصاف پسندی، صلہ رحمی، بلند کردار، خلوص اور پیار و محبت کو دیکھ کر دنیا رشک کرتی ہے۔
یاد رکھئے !
کسی بھی قوم کے رسم و رواج ، تہذیب و تمدن اسے دوسری اقوام سے منفرد بناتے ہیں۔ کسی بھی ملک و قوم کے تشخص کا اصلی سر چشمہ انکی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے لہذا بلتستان کا تشخص اور پہچان اس کی اسلامی اقدار اور ثقافت سے ہے اور انہی اقدار اور ثقافتی ورثے نے اسے اقوام عالم میں ممتاز بنایا ہوا ہے ورنہ دنیا کے زرق و برق اور جدید دنیا کی رنگینیوں سے ہم ابھی بقدرے دور ہیں لیکن دشمن اس اسلامی کلچر کو ختم کرنے کیلئے شب و روز ہاتھ پیر مار رہا ہے اور اپنے شیطانی حربوں کو مختلف طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔ جن میں سر فہرست غیر محسوس طریقے سے ثقافت کے نام پر فحاشی اور عریانی کا بازار گرم کرنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے لبرل طبقے اور مختلف این جی اوز کی مدد سے بلتستان جیسے پاک اور خالص معاشرے میں عریانیت کو عام کیا جارہا ہے، یہ بدنصیب لوگ ناچ گانے اور اپنی خواتین کی نمائش کو ثقافت سمجھتے ہیں۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ اب سوشل میڈیا پر ان کی کڑی نظر ہوتی کہ مبادا کہیں اسلامی اصل ثقافت کو کوئی بیان نہ کردے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ چند ہفتہ پہلے جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کے پیج سے ایک ایسی تقریر وائرل ہوئی تھی جس میں حجة الاسلام جناب آقا فدا حسین حلیمی نے اسلامی ثقافت اور شیطانی ثقافت پر مکمل لیکچر دیا تھا، جسے ہر اہل ایمان نے پسند کیا اور اپنے اپنے مختلف گروپس میں فیس بک، ٹیوٹر، واٹس اپ اور ٹیلیگرام پر شیئر کرنے کی کوشش کی لیکن اسلام اور قرآن دشمن شیطانی ہرکاروں کو پسند نہیں آیا اور سزا کے طور پر جن جن لوگوں نے فیس بک پر شئیر کیا تھا سب کی آئی ڈیز کو فیس بک کے مالکان نے بلاک کردیا۔ یہ آزادی اظہار و خیال کے متوالے اور بقول خود لبرل ذہنیت کی پستی اور جمود کی نشانی ہے جو ایک تقریر کا مردانہ وار مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ بزدلانہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔ ایک معصومانہ سوال ہے فیس بک والوں کو بلتی کب سے سمجھ آنا شروع ہوگئی اور اگر ان لوگوں نے بلتی ماہرین رکھے ہوئے ہیں تو یہ کس ایجنڈا پر چل رہے ہیں؟؟ یا یہ ہمارے لبرل بزدلوں کی حرکت ہے؟؟
لہذا اب ہر صاحب شعور و ایمان جس کے پاس یہ کلپ موجود ہے صدائے حق بلند کرنے کیلئے دیگر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زیادہ سے زیادہ شئیر کرے اور اس طرح شیطانی طاقتوں کے مزموم عزائم کو خاک میں ملانے میں جامعہ روحانیت کا ساتھ دے تاکہ سر زمین بلتستان میں ثقافت کے نام پر فحاشی اور عریانی کے کلچر کی روک تھام میں مدد ملے۔ دشمن اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ایک خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ جشن مے فنگ کے نام سے آج ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں رقص اور ناچ گانے کی طرف دعوت دے رہا ہے جبکہ ہم یہ سوال کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ ناچ گانا اور اپنی خواتین کی نمود و نمائش کب بلتستانی ثقافت کا حصہ رہی ہے کہ جسے تم زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہو؟
گویا ایک منظم سوچ اور منصوبے کے تحت سادہ لوح عوام کو غیر محسوس طریقے سے دین، اسلام اور تعلیمات اہلبیت ع سے دور کر کے ہماری نسلوں کو بے دین، لبرل اور ملحد بنانے میں دشمن کا ہاتھ بٹایا جارہا ہے۔
اب بھی اگر ہم نیند سے بیدار نہ ہوئے، خواب غفلت میں پڑے رہے اور اپنی آواز بلند نہ کریں تو یاد رکھیئے ہماری نسلیں کبھی بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی اور قیامت کے دن ہم سب جواب دہ ہونگے( کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ) لہذا اب بھی موقع ہے ہوش کے ناخن لیں اور دشمن کی چالاکیوں کو اور ان کے شیطانی ناپاک عزائم کو ایمان کی طاقت سے خاک میں ملانے کی کوشش کریں تاکہ ہماری اولاد اور ہماری ماں بہنیں مغربی منحوس کلچر میں غرق ہونے سے بچ سکیں۔
یاد رکھئے!
جب کسی قوم کی ثقافت زوال اور انحطاط کا شکار ہوجائے اور اس طریقے سے وہ اپنے ثقافتی مقام و حیثیت کو کھو بیٹھے تو دشمن سے ملنے والی ظاہری خوشی انہیں ان کا حقیقی مقام نہیں دلا سکتی۔ کیونکہ جب کوئی کسی کی ثقافت اور تہذیب پر حملہ کرتا ہے تو اس معاشرے کے تشخص پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اور یوں اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے آج ہم اپنے آباو اجداد پر فخر اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کسی بھی قیمت پر تہذیب و ثقافت کا سودا نہیں کیا۔
حرف آخر
سرزمین بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایمان سے سر شار اہل بیت اطہار (ع) کی محبت دل میں رکھنے والے تمام مومنین و مومنات سے اپیل کرتے ہیں ہوشیار رہیں دشمن ہمارے گھروں تک آچکا ہے، ہم کہیں امیر المومنین ع کے اس کلام کا مصداق تام نہ بن جائیں کہ جس میں آپ فرماتے ہیں: الناس نیام فاذا ماتوا انتبھوا۔ لوگ خواب غفلت میں سوئے پڑے ہیں جب مریں گے تو چونکیں گے۔ لیکن مرنے کے بعد جاگنے کا کیا فایدہ؟
تحریر: احمد حسین ضمائری بلتستانی۔
دیدگاهتان را بنویسید